*دُعا*

وَإِذَا ۔۔ سَأَلَكَ ۔۔۔ عِبَادِي ۔۔ عَنِّي ۔۔۔ فَإِنِّي۔۔  قَرِيبٌ 
اور جب ۔۔ آپ سے پوچھیں ۔۔۔ میرے بندے ۔۔ میرےمتعلق ۔۔پس میں ۔۔ قریب 
أُجِيبُ ۔۔۔ دَعْوَةَ ۔۔۔ الدَّاعِ ۔۔۔ إِذَا ۔۔۔ دَعَانِ 
میں جواب دیتا ہوں ۔۔ پکار ۔۔ پکارنے والا ۔۔۔ جب ۔۔ وہ مجھے پکارے 

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ 
اور جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میںپوچھیں پس میں تو قریب ہوں  مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے مانگے ۔

عَنّی ۔ ( میرےبارے میں ) ۔ یعنی میری قریبی اوردوری کے بارے میں پوچھیں ۔بعض مذاہب نےالله تعالی کی ذات کو انسان کیرسائی سےاس قدردور اور بلند خیال کیا ہے کہ گویا وہاں تک پہنچنا بالکل ناممکن ہے۔اسلام نے اسغلط عقیدے کو رد کیا  اوربتایا کہ الله تعالی انسان کے نہایت قریب ہے ۔
اِنّی قَرِیْبٌ ۔ مراد یہ ہے کہ الله تعالی علم اور واقفیت کے لحاظ سے بھی انسان کے قریب ہے ۔ اور اسکی دعا سننے اور قبول کرنے کے لحاظ سے بھی اسکے قریب ہے ۔
قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ ارشاد ہے ۔۔ کہ میں انسان کی شاہ رگ سے بی زیادہ قریب ہوں ۔ 
 مذہب کی روح یہ ہے کہ انسان سب سے کٹ کر صرف ایک الله کا ہو کر رہے ۔ اسی سے اپنی ہر مراد مانگے ۔ اسی کے سامنے سوال کے لئے ہاتھ اُٹھائے ۔ اس کی زندگی اور موت اس کی عبادت اور قربانی صرف الله سبحانہ تعالی کے لئے ہو ۔ اس روح کو پیدا کرنے کے لئے الله تعالی نے دُعا کی تعلیم دی ۔اورفرمایا کہ میں انسانوں سے دور نہیں ہوں ۔
 بلکہ جب بھی کوئی شخص تمام جانب سے ہٹ کرپورے اخلاص کے ساتھ مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا ہوں ۔اسے جواب دیتا ہوں۔اس کی دُعا قبول کرتا ہوں ۔ اسکی تمنّا پوری کرتا ہوں۔
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ۔۔۔ رات کے آخری پہر تیسرے حصے میں الله تعالی قریب ترین آسمان پر آ کر اعلان کرتا ہے کہ ۔۔۔ ہے کوئی مانگنے والا جس کی دُعا قبول کروں ۔۔۔ ہے کوئی سوال کرنے والا جس پر نوازش کروں ۔۔ ہے کوئی بخشش مانگنے والا جسے معاف کروں ؟؟؟
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا ۔۔۔ کہ دعاعبادت ہے ۔ 
ایک اور حدیث مبارکہ ہے ۔۔۔الله تعالی اس قدر باحیا اور کریم ہے کہ وہ کسی دعا کرنے والے ہوتھ کو واپس نہیں کرنا چاہتا ۔
لیکن دعا کے قبول ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ ۔۔۔ دل غافل اوربے پرواہ نہ ہو ۔ 
رات کے اس آخری حصے ہی پر کیا موقوف ۔الله جل جلالہ ہر وقت اور ہر جگہ پکارنے والے کی پکارسنتا ہے ۔ بشرطیکہ وہ خلوص اور ایمانداری کے ساتھ اسے پکارے ۔
اس آیت میں الله تعالی نے انسانوں کے لئے کتنا بھروسہ ، ٹوٹے ہوئے دلوں کے لئے کیسی اُمید ، گنہگار روحوں کے لئے کیسی توقع ، تھکے ماندوں کے لئے کیسا سہارا، بے بسوں کے لئے کیسا آسراء اور کیسی قوت بھر دی ہے ۔ 
انسان اس سے نہ مانگے تو اور کس سے مانگے ؟؟؟ 
مگر کس قدر غافل اورظالم ہے انسان کہ اس سے مانگتے ہوئے شرماتا ہے ۔ اوراسکے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے ججھکتا ہے ۔۔۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں