سورة مائدہ ، روابط سورة مائدہ


روابط سورة المائدہ 
سورة المائدہ کو اپنی ماقبل سورتوں سے تین طرح کا ربط ہے ۔
ربط اوّل :- اسمی یا نامی 
سورة الفاتحہ سے سورة المائدہ تک سورتوں کا اسمی یا نامی ربط اس طرح سے ہے ۔

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ وَلاَ نَعْبُدُ وَلاَ نَسْتَعِیْنُ البَقَرَةَ کَمَا فَعَلَتِ الْیہُودُ وَالمُشْرِکُونَ وَلَا آلَ عِمرانَ کَمَا فَعَلَتِ النّصٰرٰی وَ نُؤَدّی حُقُوقُ النّساء ۔
اللّٰھمّ اَنْزِلْ عَلَینَا مَآئِدَةَ انعَامِکَ وَ رَحْمَتِکَ 


اے الله ! ہم صرف اور صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور نہ ہم گائے کی عبادت کریں گے اور نہ ہم اسے پکاریں گے جیسا کہ یہود و مشرکین نے کیا اور نہ ہم آل عمران کی عبادت و استعانت کریں گے جیسا کہ نصاری نے کیا
اور ہم عورتوں کے حقوق ادا کریں گے ۔
اے الله ! ہم پر اپنے انعامات اور رحمتوں کا خوان نازل فرما

ربط ثانی :- 
سورة بقرہ میں وہ تمام مضامین بیان کیے گئے ہیں جو سارے قرآن مجید میں تفصیل سے ذکر کیے گئے ۔
توحید ، رسالت ، جہاد فی سبیل الله ، امور انتظامیہ
نیز سورة بقرہ میں نفی شرک فی التصرف ، نفی شرک فعلی اور نفی شفاعت قہری کو عقلی اور نقلی دلائل سے واضح کیا گیا ۔
سورة آل عمران میں شرک فی الدعا کی نفی کی گئی اور توحید اور رسالت پر علمائے اہل کتاب کے شبھات کا رد کیا گیا ۔
اس کے بعد سورة النساء میں امورِ انتظامیہ متعلقہ احکام ( احکام رعیت و احکام سلطانیہ ) کو تفصیل سے بیان کیا گیا اور درمیان میں تفصیل سے شرک کی نفی بھی کی گئی
اب سورة المائدہ اور سورة الانعام میں نفی شرک فعلی کو تفصیل سے ذکر کیا گیا اس کے پہلو بہ پہلو شرک فی التصرف کی نفی بھی مذکور ہے ۔

ربط ثالث :-

سورة النساء کے آخر میں فرمایا
يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا وَاللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

یہ احکام الله تم سے اسلئے بیان فرماتا ہے کہ بھٹکتے نہ پھرو اور الله ہر چیز سے خوب واقف ہے۔

اس لیے کفر و شرک کی گمراہی سے بچانے کے لیے سورة المائدہ میں شرک فعلی اور شرک اعتقادی کا تفصیل سے رد فرمایا ۔























وجہ تسمیہ سورة مائدہ

سورة مائدہ 
وجہ تسمیہ سورة مائدہ
إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَن يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

وہ قصہ بھی یاد کرو جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسٰی ابن مریم! کیا آپ کا پروردگار ایسا کر سکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے کھانے کا خوان نازل کرے؟ فرمایا کہ اگر ایمان رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو۔
المائدہ ۔ 112 

قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ

تب عیسٰی ابن مریم نے دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما کہ ہمارے لئے وہ دن عید قرار پائے یعنی ہمارے اگلوں اور پچھلوں سب کے لئے۔ اور وہ تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق دے اور تو بہترین رزق دینے والا ہے۔
المائدہ ۔ 114 
سورة المائدہ کی آیات ۔ ۱۱۲ اور ۱۱۴ میں مائدہ کا لفظ آیا ہے ۔ اسی پر اس سورة کو سورة المائدہ کہا گیا ۔

الله کی راہ میں اچھی چیز دو ۔ سورة بقرہ ۔ آیة ۔267

الله کی راہ میں اچھی چیز دو

يَا أَيُّهَا ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔   أَنفِقُوا ۔۔۔ مِن ۔۔ طَيِّبَاتِ 
اے ۔۔ وہ لوگ ۔۔ جو ایمان لائے ۔۔ خرچ کرو ۔۔۔ سے ۔۔ پاکیزہ 
مَا كَسَبْتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔   وَمِمَّا ۔۔۔ أَخْرَجْنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔   لَكُم ۔۔۔ مِّنَ ۔۔۔ الْأَرْضِ
جو تم کماؤ ۔۔ اور اس سے جو ۔۔ ہم نے نکالا ۔۔ تمہارے لیے ۔۔ سے ۔۔ زمین 
 وَلَا تَيَمَّمُوا ۔۔۔ الْخَبِيثَ ۔۔۔۔۔۔  مِنْهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔  تُنفِقُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔   وَلَسْتُم 
اور نہ ارادہ کرو ۔۔ گندی چیز ۔۔ اس سے ۔۔ تم خرچ کرتے ہو ۔۔ اور نہیں تم 
  بِآخِذِيهِ ۔۔۔۔ إِلَّا ۔۔۔۔۔۔۔   أَن تُغْمِضُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔   فِيهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔   وَاعْلَمُوا 
 لینے والے اس کو ۔۔۔ مگر ۔۔ یہ کہ تم اعراض کرو ۔۔ اس میں ۔۔ اور جان رکھو 
أَنَّ ۔۔۔  اللَّهَ ۔۔۔ غَنِيٌّ ۔۔۔ حَمِيدٌ۔ 2️⃣6️⃣7️⃣
بے شک ۔۔ الله ۔۔۔ بے نیاز ۔۔ خوبیوں والا 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ. 2️⃣6️⃣7️⃣

اے ایمان والو خرچ کرو ستھری چیزیں اپنی کمائی میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کیا اور اس میں سے گندی چیز کا قصد نہ کرو کہ اسے خرچ کرو حالانکہ تم اسے کبھی نہ لو گے مگر یہ کہ تم چشم پوشی کر جاؤ  اور جان رکھو کہ الله بے پرواہ خوبیوں والا ہے ۔ 
اَلْخَبِیْثُ ( گندی چیز ) ۔ مراد ہے ردی اور ناکارہ چیز 
الله کی راہ میں خرچ کرنے کے بارے میں مختلف احکام دئیے جا چکے ہیں ۔ گذشتہ آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ الله کی راہ میں مال خرچ کرتے وقت ریا کاری اور نمائش سے ہرگز کام نہ لیا جائے ۔ نیز لوگوں کو ستانا اور بڑائی جتانا بھی مقصود نہ ہونا چاہیے ۔ جن کو مال دیا جائے ان پر احسان نہ رکھا جائے انہیں ایذا نہ پہنچائی جائے ۔ اور انہیں حقیر نہ سمجھا جائے بلکہ نیک ارادے اور خلوصِ دل سے صرف الله تعالی کی خوشنودی کے لیے مال خرچ کیا جائے ۔ الله تعالی کی رضا کے سوا کوئی اور مقصد نہ ہو ۔ 
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ الله تعالی کی راہ میں اپنی جائز اور پاک کمائی میں سے اچھی اور اعلی چیزیں دی جائیں ۔ یعنی یہ نہ ہو کہ بچا کھچا ، باسی ، بدبودار اور گلا سڑا مال غریبوں  مسکینوں اور محتاجوں کو دے دیا جائے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر کبھی ایسا ہی گندہ مال تمہیں دیا جائے تو کبھی نہ لو ۔ ناک منہ چڑھانے لگو ۔ نفرت کا اظہار کرو ۔ سوائے اس کے کہ تم کسی خاص وجہ سے خاموش رہو اور چشم پوشی کر جاؤ تو دوسری بات ہے ۔ لہذا الله تعالی کے نام پر خراب مال ہرگز نہ دینا چاہیے ۔ 
لازم ہے کہ اچھے سے اچھا مال اور اچھی سے اچھی شے جو سب سے زیادہ محبوب ہو وہ شوق سے الله تعالی کی راہ میں خرچ کرو ۔ زیادہ ثواب ملے گا ۔ الله سبحانہ وتعالی تو ہمارے صدقہ و خیرات سے کلی طور پر بے نیاز ہے ۔ اسے قطعی طور پر ایسی چیزوں کی ضرورت نہیں بلکہ جتنی خوشی کے ساتھ ہم اس کی راہ میں خرچ کریں ۔ اتنا زیادہ وہ اور دے گا ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

ریا کاری سے خرچ کرنے کی مثال ۔ سورة بقرہ آیة ۔ 266

ریا کاری سے خرچ کرنے کی مثال

أَيَوَدُّ ۔۔۔ أَحَدُكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   أَن تَكُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔   لَهُ ۔۔۔ جَنَّةٌ ۔۔۔۔۔۔۔   مِّن ۔۔۔ نَّخِيلٍ 
کیا چاہتا ہے ۔۔ تم میں سے کوئی ۔۔ یہ کہ ہو ۔۔ اس کے لیے ۔۔ ایک باغ ۔۔ سے ۔۔ کھجور 
وَأَعْنَابٍ ۔۔۔  تَجْرِي ۔۔۔ مِن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   تَحْتِهَا ۔۔۔ الْأَنْهَارُ ۔۔۔ لَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فِيهَا 
اور انگور ۔۔ جاری ہو ۔۔ سے ۔۔ اس کے نیچے ۔۔ نہریں ۔۔ اس کے لیے ۔۔ اس میں 
مِن ۔۔۔ كُلِّ ۔۔۔  الثَّمَرَاتِ۔۔۔۔  وَأَصَابَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   الْكِبَرُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَلَهُ ۔۔۔ ذُرِّيَّةٌ 
سے ۔۔ تمام ۔۔ پھل ۔۔ اور پہنچے اس کو ۔۔ بڑھاپا ۔۔ اور اس کے لیے ۔۔ أولاد 
ضُعَفَاءُ ۔۔۔ فَأَصَابَهَا ۔۔۔ إِعْصَارٌ ۔۔۔۔۔۔۔  فِيهِ ۔۔۔ نَارٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔   فَاحْتَرَقَتْ 
کمزور ۔۔ پس پہنچے اس کو ۔۔ بگولا ۔۔ اس میں ۔۔ آگ ۔۔ پس وہ جل جائے 
كَذَلِكَ ۔۔۔ يُبَيِّنُ ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ لَكُمُ ۔۔۔ الْآيَاتِ ۔۔۔ لَعَلَّكُمْ ۔۔۔ تَتَفَكَّرُونَ۔ 2️⃣6️⃣6️⃣
اسی طرح ۔۔ بیان کرتا ہے ۔۔ الله ۔۔ تمہارے لیے ۔۔ آیات ۔۔ تاکہ تم ۔۔ غور کرو 

أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ. 2️⃣6️⃣6️⃣

کیا تم میں سے کسی کو یہ پسند آتا ہے کہ اس کا ایک باغ ہو کھجور اور انگور کا اس کے نیچے نہریں بہتی ہوںاسے اس باغ میں ہر طرح کے میوے حاصل ہوںاور اس پر بڑھاپا آگیا ہو اور اس کی اولاد کمزور ہو تب اس باغ پر ایک بگولا آپڑے جس میں آگ ہو جو باغ کو جلا ڈالے الله تعالی تم کو اسی طرح اپنی آیات سمجھاتا ہے تاکہ تم غور کرو ۔ 

اس آیت میں ان لوگوں کی مثال بیان کی گئی ہے جو محض لوگوں کو دکھانے کے لیے صدقہ اور خیرات دیتے ہیں یا خیرات کرکے لوگوں پر احسان جتاتے اور انہیں روحانی یا جسمانی تکلیف پہنچاتے ہیں ۔ 
اس طرح مال خرچ کرنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے اس کی عمر بھر کی کمائی ایک باغ ہے ۔ جو سرسبز اور خوب پھلا پھولا ہوا ہے ۔ ہر طرح کے میووں اور پھلوں سےلدا ہوا ہے ۔ باغ کا مالک بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جاتا ہے ۔ خود کام نہیں کرسکتا اور اس کے بچے بھی ابھی چھوٹے چھوٹے ہیں ۔ جو اپنے باپ کا دکھ درد بانٹنے کی بجائے خود اس پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ عین اس شدید بڑھاپے اور بچوں کی حاجتمندی کے وقت یک  بیک معلوم ہوتا ہے کہ باغ میں آگ لگی اور سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا ۔ اس وقت باغ کےمالک کے غم اور حسرت کا اندازہ کیا ہوگا ۔ 
اس سے کہیں بڑھ کر بُری حالت اس بدنصیب کی ہو گی جس کی آنکھیں زندگی بھر غفلت سے بند رہیںاور پہلی بار اس وقت کھلیں جب عمل کی مہلت بالکل ختم ہوگئی ۔ گویا ریاکاری سے نیکیوں کو ایسے ہی آگ لگتی ہے اور ان کا اجر یونہی برباد ہوجاتا ہے جیسے اس باغ کو آگ لگ گئی اور اس کا مالک تباہ ہو گیا ۔ 
الله تعالی یہ تمام مثالیں  اس لیے بیان فرماتا ہے کہ ہم ان پر غور کریں۔ اور عبرت پکڑ کراپنا سارا کیا دھرا آخر میں ضائع نہ کر دیں ۔ 
درس قرآن مرتبہ ۔۔۔ درس قرآن بورڈ 

الله کریم ہمیں خلوص نیت عطا فرمائے اور ہر قسم کی ریا کاری سے محفوظ رکھے ۔ 

الله کی راہ میں خرچ کرنے کی ایک اور مثال ۔ سورة بقرہ ۔ آیة 265

الله کی راہ میں خرچ کرنے کی ایک اور مثال 

وَمَثَلُ ۔۔۔۔۔۔  الَّذِينَ ۔۔۔ يُنفِقُونَ ۔۔۔۔۔۔۔  أَمْوَالَهُمُ ۔۔۔۔۔۔۔  ابْتِغَاءَ ۔۔۔۔۔۔   مَرْضَاتِ ۔۔۔ اللَّهِ 
اور مثال ۔۔ وہ لوگ ۔۔ وہ خرچ کرتے ہیں ۔۔ اپنے مال ۔۔ تلاش کرنے کے لیے ۔۔ خوشی ۔۔ الله 
وَتَثْبِيتًا ۔۔۔ مِّنْ ۔۔۔۔۔۔۔   أَنفُسِهِمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  كَمَثَلِ ۔۔۔ جَنَّةٍ ۔۔۔ بِرَبْوَةٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   أَصَابَهَا 
اور ثابت رکھنے کے لیے ۔۔۔ سے ۔۔ اپنی جانیں ۔۔ جیسی مثال ۔۔ باغ ۔۔ بلند زمین پر ۔۔ پہنچا اس کو 
وَابِلٌ ۔۔ فَآتَتْ ۔۔۔۔۔۔۔۔   أُكُلَهَا ۔۔۔ ضِعْفَيْنِ ۔۔۔ فَإِن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   لَّمْ يُصِبْهَا 
زور کی بارش ۔۔ وہ لائی  ۔۔ پھل اپنا ۔۔ دوگنا ۔۔ پس اگر ۔۔ نہ  پہنچا اس تک 
وَابِلٌ ۔۔۔ فَطَلٌّ ۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔ بِمَا ۔۔۔ تَعْمَلُونَ ۔۔۔۔ بَصِيرٌ 2️⃣6️⃣5️⃣
زور کی بارش ۔۔ تو پھوار ۔۔ اور الله ۔۔ اس کو جو ۔۔ تم کرتے ہو ۔۔ دیکھتا ہے 

وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ. 2️⃣6️⃣5️⃣

اور ان کی مثال جو اپنے مال خرچ کرتے ہیں الله تعالی کی خوشی حاصل کرنے کو اور اپنے دلوں کو ثابت کرکے ایسی ہے جیسے بلند زمین پر ایک باغ ہے ۔ اس پر زوردار بارش ہوئی تو وہ باغ اپنا پھل دوگنا لایا اور اگر اس پر مینہ نہ پڑتا تو پھوار ہی کافی ہے اور الله تعالی تمہارے کاموں کو خوب دیکھتا ہے ۔ 

اس آیت میں الله تعالی نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو الله تعالی کی راہ میں صرف اس لیے مال خرچ کرتے ہیں کہ الله تعالی ان سے خوش ہوجائے وہ اس کی رضامندی حاصل کرلیں اور اپنی اطاعت کا ثبوت دیں ۔ 
ان لوگوں کی مثال الله تعالی نے ایسے باغ سے دی ہے جو کسی اونچی جگہ پر واقع ہو ۔ جہاں کی ہوا قدرتی طور پر لطیف اور بارآور ہو ۔ اس باغ پر اگر زور کا مینہ برسے تو یہ باغ دگنا پھل لائے اور اگر زور کا مینہ نہ برسے اور تھوڑی سی پھوار پڑ جائے تو پھر بھی کچھ نہ کچھ پھل لائے ۔ 
یہاں بارش کی مثال مال خرچ کرنے سے دی گئی ہے اور باغ کے اونچی جگہ ہونے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اسکی نیت بالکل درست ہے  ۔ وہ محض الله تعالی کی رضا کے لیے مال خرچ کرتا ہے اس لیے اگر وہ بہت زیادہ مال خرچ کرے تو اس کا نتیجہ ایسا ہی اچھا ہوگا جیسے باغ پر زور دار بارش برسے اور اچھا پھل لائے ۔ نیت کے صاف ہونے کی صورت میں اگر وہ تھوڑا ہی مال خرچ کرے تو بھی اسے اسکے برابر اجر ملے گا جیسا کہ پھوار پڑنے سے بھی باغ کچھ نہ کچھ پھل ضرور لاتا ہے ۔ 
یہاں ایک اور حقیقت بھی بیان کر دی گئی ہے کہ جس طرح انسان بدی سے برائی کی طرف مائل ہوتا ہے ۔ اسی طرح نیکی سے اس کا رجحان نیکی کی طرف ہوجاتا ہے ۔ اور فطری طور پر وہ نیکی پر ثابت قدم ہوجاتا ہے ۔ 
مبارک ہیں وہ انسان جو نیکیوں کی طرف سبقت کریں اور برائیوں سے پرھیز کریں ۔ 
ہمیں یہ بات بھی ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ بڑی سے بڑی مالی قربانی ریاکاری کے تصور سے ،  احسان دھرنے اور تکلیف پہنچانے سے ضائع ہوجاتی ہے ۔ 
دوسری طرف چھوٹی سے چھوٹی خیرات بڑا پھل لاتی ہے ۔ بشرطیکہ اس سے مقصد محض فرض کی ادائیگی اور الله تبارک وتعالی کی خوشنودی مطلوب ہو ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

خیرات ضائع کرنے کی مثال ۔ سورة بقرہ ۔ آیہ 264 (ب)

خیرات ضائع کرنے کی مثال

كَالَّذِي ۔۔۔۔۔۔۔۔  يُنفِقُ ۔۔۔۔۔۔۔۔  مَالَهُ ۔۔۔ رِئَاءَ ۔۔۔۔ النَّاسِ ۔۔۔۔ وَلَا يُؤْمِنُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  بِاللَّهِ 
اس کی طرح ۔۔۔ وہ خرچ کرتا ہے ۔۔ اپنا مال ۔۔ دکھاوا ۔۔ لوگ ۔۔ اور نہیں ایمان لاتا ۔۔ الله پر 
وَالْيَوْمِ۔۔۔  الْآخِرِ ۔۔۔۔۔۔۔۔  فَمَثَلُهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  كَمَثَلِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صَفْوَانٍ ۔۔۔ عَلَيْهِ ۔۔۔  تُرَابٌ 
اور دن ۔۔ آخرت ۔۔ پس اس کی مثال ۔۔ جیسی مثال ۔۔۔ صاف پتھر ۔۔ اس پر ۔۔ مٹی 
فَأَصَابَهُ۔ ۔۔۔۔  وَابِلٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔ فَتَرَكَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   صَلْدًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  لَّا يَقْدِرُونَ ۔۔۔ عَلَى ۔۔ شَيْءٍ
پس پہنچا اس کو ۔۔ زور دار بارش ۔۔ پس چھوڑ دیا اس نے اس کو ۔۔ صاف ۔۔ نہیں وہ قدرت رکھتے ۔۔ پر ۔۔ چیز 
 مِّمَّا ۔۔۔  كَسَبُوا۔۔۔  وَاللَّهُ  ۔۔۔ لَا يَهْدِي ۔۔۔ الْقَوْمَ ۔۔۔۔ الْكَافِرِينَ۔ 2️⃣6️⃣4️⃣
اس سے جو ۔۔ کمایا انہوں نے ۔۔ ۔ اور الله ۔۔۔ نہیں ھدایت دیتا ۔۔ قوم ۔۔ کافر 

كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لَّا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ.  2️⃣6️⃣4️⃣

اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے اور الله اور آخرت کے دن پر یقین نہیں رکھتا  اس کی مثال ایسے ہے جیسے صاف پتھر اس پر کچھ مٹی پڑی ہے  پھر اس پر زور کا مینہ برسا کہ اسے بالکل صاف کر چھوڑا  ایسے لوگوں کو اس کا ( اجر ) جو انہوں نے کمایا کچھ ہاتھ نہیں لگتا  اور الله کافروں کو سیدھی راہ نہیں دکھاتا ۔ 

اس آیت میں الله تعالی نے فرمایا کہ جو شخص ریا کاری کرتا ہے وہ الله تعالی اور قیامت کے دن پر یقین نہیں رکھتا ۔
 صدقہ صرف ریا سے باطل ہو جاتا ہے خواہ وہ مؤمن ہی کیوں نہ ہو ۔ ایمان کی قید کو اس لیے بڑھایا گیا کہ معلوم ہو جائے کہ ریاکاری مؤمن کی شان سے بعید ہے ۔ دکھاوا صرف منافقوں اور کافروں کے مناسبِ حال ہے ۔ 
گزشتہ آیات میں خیرات کی مثال ایسی بتائی گئی تھی جیسے ایک دانہ بویا  اور اس سے سات سو دانے پیدا ہو گئے ۔ اب یہ فرمایا کہ کئی گنا اجر و ثواب حاصل کرنے کے لیے نیت کا نیک ہونا شرط ہے ۔ اگر کسی نے ریا اور دکھاوے کی نیت سے صدقہ کیا تو اس کی مثال اس دانے کی ہے جو ایک ایسے پتھر پر بویا گیا جس پر تھوڑی سی مٹی نظر آتی تھی لیکن جب بارش ہوئی تو پتھر بالکل صاف رہ گیا اور سات سو دانے پیدا ہونے کی بجائے وہاں سے کچھ بھی پیدا نہ ہوا  بلکہ اصل بیج بھی بہہ گیا ۔ 
پتھر پر بیج بونے کی یہ مثال ریاکاروں کے حال کے بالکل مطابق ہے ۔ کیونکہ جس طرح ظاہری طور پر پتھر دھوکا دیتا ہے کہ شاید اس پر دانہ اُگ سکے ۔ اسی طرح ایک ریا کار بھی ظاہری طور پر دیکھنے والوں کو یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ الله کی راہ میں مال خرچ کرتا ہے لیکن اندرونی طور پر جس طرح پتھر سے دانہ نہیں اُگ سکتا ۔ اس طرح اس شخص کا دل ظاہری حالت سے بالکل مختلف ہوتا ہے ۔ اور اس کے ہاتھوں  کبھی کوئی نیک عمل نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ اس کا دل ایک چٹان کی طرح سخت اور بے رحم ہے ۔ 
ایسے گمراہ لوگوں کو جو اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں ۔ اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں اور دوسروں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ الله تعالی سیدھی راہ نہیں دکھائے گا ۔ کیونکہ وہ اپنے برے ارادوں میں اس قدر پکے ہو چکے ہیں کہ نیک بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

خیرات ضائع نہ کرو ۔ سورة بقرہ آیة ۔ 263- 264 (1)

خیرات ضائع نہ کرو

قَوْلٌ ۔۔ مَّعْرُوفٌ ۔۔ وَمَغْفِرَةٌ ۔۔۔ خَيْرٌ ۔۔ مِّن ۔۔  صَدَقَةٍ 
بات ۔۔۔ نرم ۔۔ اور درگزر ۔۔ بہتر ۔۔ سے ۔۔ صدقہ 
يَتْبَعُهَا ۔۔۔ أَذًى ۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔ غَنِيٌّ ۔۔۔ حَلِيمٌ  2️⃣6️⃣3️⃣
جس کے پیچھے ۔۔ تکلیف ۔۔ اور الله ۔۔ بے نیاز ۔۔ بردباد 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ ۔۔۔ آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔  لَا تُبْطِلُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔   صَدَقَاتِكُم 
اے لوگو ۔۔ جو ایمان لائے ۔۔ نہ ضائع کرو ۔۔ اپنے صدقات کو 
بِالْمَنِّ ۔۔۔۔۔۔۔   وَالْأَذَى 
احسان جتا کر ۔۔ اور تکلیف 

قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّن صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ. 2️⃣6️⃣3️⃣

نرم جواب دینا اور درگزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد ستانا ہو اور الله تعالی بے نیاز برد باد ہے ۔ 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَى 

اے ایمان والو! اپنی خیرات ضائع نہ کرو احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر 

قَوْلٌ مّعْرُوْفٌ ( نرم بات ) ۔ قول کے معنی ہیں ۔ گفتگو اور جواب ۔۔ اور " معروف " کے معنی ہیں دستور کے موافق ۔ مراد ہے نرم اور شیریں کلام 
اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو خیرات ، صدقات سے کچھ نہ دیا جا سکتا ہو تو اسے نرمی اور خوش کلامی سے جواب دے دینا بہتر ہے اس سے کہ اسے تکلیف پہنچائی جائے ۔ 
مَغْفِرَۃٌ ( درگزر کرنا ) ۔ مقصد یہ ہے کہ اگر ضرورت مند سوالی بار بار سوال کرے ۔ سختی یا بدتہذیبی سے مانگے اور اس کا سوال کرنا طبیعت پر گراں گزرے تو تکلیف پہنچانے سے بہتر ہے اس سے درکزر کیا جائے ۔ 
اَذٰی ( آزار) اس لفظ کے معنی میں ہر قسم کی ایذا رسانی اور تکلیف پہنچانا شامل  ہے ۔ 
مَنَّ ( احسان ) ۔ نیکی کرکے اسے جتلانا اور احسان دھرنا  مَنّ کہلاتا ہے 
اسلام نے حسنِ سلوک اور صدقہ و خیرات کو بڑی نیکی قرار دیا ہے اور اس طرح ضرورتمندوں پر دولت خرچ کرنے کو " الله کی راہ " میں خرچ کرنا شمار کیا ہے ۔ 
اس سے پہلی آیت میں بیان ہوچکا ہے کہ الله کی راہ میں ایک پیسہ خرچ کرنے کا اجر و ثواب سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے ۔ یہاں اس مسئلہ کے ایک دوسرے پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ 
ارشاد ہوتا ہے کہ اگر کسی ضرورتمند سوالی کو تم کچھ نہ دے سکو تو کم ازکم اس سے نرم گفتاری اور درگزر سے پیش آؤ ۔ جھڑکنا اور ڈانٹ ڈپٹ کرنا ہرگز جائز نہیں ۔ 
دوسرے یہ کہ اگر الله کی راہ میں کچھ دے کر ضرورتمند پر احسان دھرتے ہو یا اسے تکلیف پہنچاتے ہو تو تمہارا دیا ہوا سب بے کار ہے ۔ اس کا تمہیں کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

الله کی راہ میں خرچ کرنے کی مثال ۔ سورة بقرہ آیة 261-262

الله کی راہ میں خرچ کرنے کی مثال

مَّثَلُ ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ يُنفِقُونَ ۔۔۔ أَمْوَالَهُمْ ۔۔۔ فِي ۔۔۔ سَبِيلِ ۔۔۔ اللَّهِ 
مثال ۔۔ وہ لوگ ۔۔ وہ خرچ کرتے ہیں ۔۔ اپنے مال ۔۔ میں ۔۔ راہ ۔۔ الله 
كَمَثَلِ ۔۔۔ حَبَّةٍ ۔۔۔ أَنبَتَتْ ۔۔ سَبْعَ ۔۔۔ سَنَابِلَ 
جیسی مثال ۔۔ دانہ ۔۔ اگیں ۔۔۔ سات ۔۔ بالیں 
فِي۔۔۔۔  كُلِّ ۔۔۔ سُنبُلَةٍ ۔۔۔ مِّائَةُ ۔۔۔ حَبَّةٍ ۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔ يُضَاعِفُ
میں ۔۔ ہر ۔۔۔ بال ۔۔ سو ۔۔ دانے ۔۔ اور الله ۔۔۔ وہ بڑھاتا ہے 
 لِمَن ۔۔۔  يَشَاءُ ۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔ وَاسِعٌ ۔۔۔ عَلِيمٌ 2️⃣6️⃣1️⃣
کے لیے ۔۔۔ وہ چاہتا ہے ۔۔ اور الله ۔۔ وسعت والا ۔۔ جاننے والا 

الَّذِينَ ۔۔۔ يُنفِقُونَ ۔۔۔ أَمْوَالَهُمْ ۔۔۔ فِي ۔۔۔ سَبِيلِ۔۔۔۔  اللَّهِ 
جو لوگ ۔۔ وہ خرچ کرتے ہیں ۔۔ اپنے مال ۔۔ میں ۔۔ راستہ ۔۔ الله 
ثُمَّ ۔۔۔ لَا يُتْبِعُونَ ۔۔۔  مَا أَنفَقُوا ۔۔۔  مَنًّا 
پھر ۔۔ وہ پیچھے لگاتے ۔۔۔ جو خرچ کیا ۔۔ احسان 
وَلَا أَذًى ۔۔۔  لَّهُمْ ۔۔۔ أَجْرُهُمْ ۔۔۔ عِندَ ۔۔۔ رَبِّهِمْ 
اور نہ تکلیف ۔۔۔ ان کے لیے ۔۔ ان کا اجر ۔۔ پاس ۔۔ ان کا رب 
وَلَا خَوْفٌ ۔۔۔ عَلَيْهِمْ ۔۔۔ وَلَا ۔۔  هُمْ ۔۔۔ يَحْزَنُونَ 2️⃣6️⃣2️⃣
اور نہ کوئی خوف ۔۔ ان پر ۔۔ اور نہ ۔۔ وہ ۔۔ غمگین 

مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ 2️⃣6️⃣1️⃣

ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال الله کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ایسی ہے جیسے ایک دانہ ہو اس سے سات بالیں اگیں ہر بال میں سوسو دانے ہوں اور الله سبحانہ و تعالی جس کے لیے چاہتا ہے بڑھاتا ہے اور الله تعالی وسعت والا جاننے والا ہے 

الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ. 2️⃣6️⃣2️⃣

جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنا مال الله کی راہ میں پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان رکھتے ہیں اور نہ ستاتے ہیں انہی کے لیے ان کا ثواب اپنے رب کے ہیاں ہے نہ ان پر ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔ 

آیت الکرسی میں الله تعالی نے اپنے علم و قدرت کا بیان فرمایا ۔ اس کے بعد تین قصے بیان کیے اور بتایا کہ ھدایت اور گمراہی نیز زندگی اور موت اس کے اختیار میں ہے ۔ 
اب جہاد اور الله تعالی کی راہ میں مال خرچ کرنے کی فضیلت اور اس سے متعلق ضروری شرائط کا بیان ہے ۔ 
الله تعالی نے ایک مثال دے کر فرمایا کہ جو لوگ اس کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں انہیں کئی گنا ثواب ہوگا ۔ جس طرح الله اس کا فضل ہم اس دنیا میں زمین کی پیداوار دیکھتے ہیں ۔ اسی طرح ہمارے نیک اعمال کے اجر میں بھی وہ اپنے فضل سے کام لے گا ۔ ہم اگر ایک دانہ بوئیں تو الله کے فضل و رحمت سے اس دانے سے سات سو دانے پیدا ہوتے ہیں ۔ اسی طرح الله تعالی چاہے تو اس سے بھی  بڑھا کر سات ہزار اور اس سے بھی زیادہ کر دیتا ہے ۔
 وہ خرچ کرنے والے کی نیت کو جانتا ہے ۔ اس کے خرچ کی مقدار سے خوب واقف ہے اور جومال نیک نیتی سے اس کی راہ میں خرچ کیا جائے گا وہ اس کا کئی گنا اجر دے گا ۔ 
اس کے بعد یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ الله کی راہ میں ضرورتمندوں پر مال خرچ کرتے ہیں اور ان پر کوئی احسان نہیں جتاتے ۔ انہیں طعنے دے کر نہیں ستاتے ان سے کسی قسم کی خدمت نہیں لیتے اور ان کی تحقیر نہیں کرتے ۔ انہیں پورا پورا ثواب ملے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ ماضی کا کوئی غم ہوگا اور نہ ہی مستقبل کا کوئی خوف ہو گا ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

مردوں کو زندہ کرنا ۔ سورة بقرہ ۔ آیة 260

مُردوں کو زندہ کرنا

وَإِذْ ۔۔۔ قَالَ ۔۔۔ إِبْرَاهِيمُ ۔۔۔۔۔۔ رَبِّ ۔۔۔  أَرِنِي ۔۔۔۔۔۔۔۔  كَيْفَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   تُحْيِي 
اور جب ۔۔۔ کہا ۔۔ ابراھیم ۔۔ رب ۔۔ دکھا مجھ کو ۔۔ کیسے ۔۔ تو زندہ کرتا ہے 
الْمَوْتَى ۔۔۔ قَالَ ۔۔۔ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۔۔۔  قَالَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بَلَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وَلَكِن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  لِّيَطْمَئِنَّ 
مردے ۔۔۔ کہا ۔۔ کیا نہیں تجھے یقین ۔۔ کہا ۔۔ کیوں نہیں  ۔۔ اور لیکن ۔۔ تاکہ اطمینان پکڑے 
قَلْبِي ۔۔۔ قَالَ ۔۔۔ فَخُذْ ۔۔۔ أَرْبَعَةً ۔۔۔۔ مِّنَ ۔۔۔ الطَّيْرِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فَصُرْهُنَّ 
میرا دل ۔۔ کہا ۔۔ پس پکڑ ۔۔ چار ۔۔ سے ۔۔ پرندے ۔۔۔ پھر مانوس کر ان کو 
إِلَيْكَ ۔۔۔ ثُمَّ ۔۔۔ اجْعَلْ ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ كُلِّ ۔۔۔ جَبَلٍ ۔۔۔ مِّنْهُنَّ ۔۔۔ جُزْءًا 
طرف اپنی ۔۔ پھر ۔۔۔ رکھ ۔۔ پر ۔۔ ہر ۔۔ پہاڑ ۔۔ ان کے ۔۔۔ ٹکڑے 
ثُمَّ ۔۔۔ ادْعُهُنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  يَأْتِينَكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  سَعْيًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَاعْلَمْ 
پھر ۔۔۔ تو بلا ان کو ۔۔ وہ آئیں گے تیرے پاس ۔۔ دوڑتے ۔۔ اور جان رکھ 
أَنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ عَزِيزٌ ۔۔۔ حَكِيمٌ 2️⃣6️⃣0️⃣
بے شک ۔۔۔ الله ۔۔ غالب ۔۔۔ حکمت والا 

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَى وَلَكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ 2️⃣6️⃣0️⃣

اور یاد کر جب ابراھیم نے کہا اے میرے رب مجھے دکھا کہ تو مُردے کیسے زندہ کرے گا  فرمایا کیا تو نے یقین نہیں کیا  کہا کیوں نہیں  لیکن اس واسطے چاہتا ہوں کہ میرے دل کی تسکین ہوجائے فرمایا تو اڑنے والے چار جانور پکڑ لے پھر انہیں اپنے ساتھ ہلا لے پھر پہاڑ پر ان کے بدن کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دے پھر انہیں بلا تیرے پاس دوڑتے آئیں گے اور جان لے الله تعالی زبردست حکمت والا ہے ۔ 

کَیْفَ ( کیونکر) ۔ یہاں یہ بات ظاہر ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے مُردوں کے زندہ ہونے پر کوئی شک ظاہر نہیں کیا بلکہ صرف یہ پوچھا کہ وہ کس خاص کیفیت کے ساتھ زندہ کیے جائیں گے ۔ ان کو دوبارہ زندگی بخشنے کا خاص طریقہ کیا ہو گا ؟ 
مِنْھُنّ جُزْاً ( ان کے بدن کا ایک ایک ٹکڑا ) ۔ یعنی ان چاروں جانوروں کے ملے جلے ہوئے گوشت کا ایک ایک حصہ ۔

آیت الکرسی میں الله تعالی نے اپنی قدرت و عظمت بیان کرکے بتایا تھا کہ ھدایت اور گمراہی کی راہیں صاف صاف واضح ہو چکی ہیں ۔ اس لیے اب ہر عقلِ سلیم والے شخص کو چاہیے کہ وہ نیکی کی راہ اختیار کرے ۔ 
اس کے بعد قرآن مجید میں مختلف واقعات بیان کرکے یہ واضح کیا کہ نیکی اور بدی کی راہوں کے صاف صاف کُھل جانے کے باوجود بعض لوگوں کو ھدایت کی توفیق نہیں ہوتی ۔ اس سلسلے میں حضرت ابراھیم علیہ السلام اور نمرود کا واقعہ بیان کیا گیا ۔ پھر مُردوں کو زندہ کرنے کی قدرت و اختیار کو بیان کرنے کے لیے الله تعالی نے حضرت عزیر علیہ السلام کا قصہ بیان کیا ۔ اور اس کی مزید تاکید کے لیے ان آیات میں حضرت ابراھیم علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ۔ 
جس کی تفصیل یہ ہے ۔ 
توحید اور عقیدہ آخرت دو ایسی حقیقتیں ہیں جن پر مذھب اسلام کی بنیاد قائم کی گئی ہے ۔ الله تعالی کی واحدانیت کو ماننے والا شخص کبھی بے راہ رو نہیں ہو سکتا ۔ اور مرنے کے بعد کی زندگی پر یقین رکھنے والا اپنے اعمال پر ہمیشہ کڑی نظر رکھتا ہے ۔ برائی سے پوری طرح احتیاط اور پرھیز کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ یوں تو قیامت اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ہر مؤمن کو کلی طور پر یقین ہے ۔ اسی طرح حضرت ابراھیم علیہ السلام کو بھی کامل یقین تھا ۔ تاہم آپ نے مشاہدہ کی خاطر الله تعالی سے یہ  سوال کیا کہ تو موت کے بعد کیونکر زندگی بخشتا ہے ۔ 
الله تعالی نے پوچھا ! کیا تجھے اس پر یقین نہیں ؟
حضرت ابراھیم علیہ السلام نے عرض کیا کہ ایمان کے درجے تک تو یقین اب بھی حاصل ہے ۔ البتہ صرف یہ چاہتا ہوں کہ مشاھدہ کے بعد دل کو اور زیادہ اطمینان حاصل ہو جائے ۔ 
الله تعالی نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو فرمایا کہ وہ چار جانور لائیں ۔ اور ان چاروں کو اپنے ساتھ خوب مانوس کر لیں ۔ تاکہ پہچان رہے ۔ پھر انہیں ذبح کرکے ان کا گوشت مِلا جُلا دیں۔ پھر وہ گوشت مختلف پہاڑوں پر تھوڑا تھوڑا کرکے رکھ دیں ۔ اور درمیان میں کھڑے ہو کر ان کا نام لے لے کر بلائیں ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام الله کے حکم کے موافق چار جانور لائے ۔ ایک مور ، ایک مرغ ، ایک کوا اور ایک کبوتر ۔ ان چاروں کو اپنے ساتھ مانوس کیا ۔ پھر چاروں کو ذبح کیا اور ان کا گوشت خوب ملانے جلانے کے بعد الگ الگ پہاڑوں پر تھوڑا تھوڑا رکھ دیا ۔ 
جب انہوں نے ایک جانور کا نام لے کر پکارا تو اس جانور کے جسم کے ٹکڑے تمام پہاڑوں سے اکٹھے ہو کر آپس میں ملے اور زندہ جانور کی شکل بن کر حضرت ابراھیم علیہ السلام کے پاس پہنچے ۔ اسی طرح چاروں جانور زندہ ہو کر ان کے پاس آگئے ۔ 
اس سبق سے بعض بہت پُر حکمت باتیں معلوم ہوتی ہیں ۔ جنہیں ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں ۔ 
1. الله کے مقبول بندوں کو جو مشاھدے ہوتے ہیں ان سے ان کے ایمان اور یقین میں ترقی ہوتی ہے ۔
2. جس قسم کا سوال حضرت ابراھیم علیہ السلام نے کیا ۔ اس قسم کے سوال صرف بے اعتقادی سے ہی پیدا نہیں ہوتے بلکہ ان کی تہہ میں۔ نیکی اور تحقیق کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے ۔ 
3. ایمان کے بڑھنے سے اطمینانِ قلب پیدا ہوتا ہے ۔ 
4. پرندوں کے زندہ ہونے اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کی آواز سے دوڑے چلے آنے کو انہونی بات نہ سمجھنا چاہیے ۔ اس کے لیے ہم  ایک ادنٰی سی مثال دیتے ہیں 
 فرض کریں کہ لوہا ، تانبا ، پیتل اور سونے کے باریک باریک ٹکڑے آپس میں ملا کر ان کی چار ڈھیریاں الگ الگ رکھ دی جائیں ۔ اور پھر درمیان میں ایک مقناطیس لا رکھیں تو لوہے کے ٹکڑے چاروں ڈھیروں سے الگ ہوکر مقناطیس کی طرف کھنچے چلے آئیں گے ۔ 
اسی طرح ابراھیم علیہ السلام کی آواز میں مقناطیسی قوت موجود تھی ۔ انہوں نے جس جانور کو بلایا وہی ان کے پاس چلا آیا ۔ اس مثال سے ہمارا مقصد یہ  ہے  کہ اس قسم کے معجزات الله تعالی کی قدرت سے بعید نہیں ہیں ۔ وہ سب کچھ کر سکتا ہے ۔ اس کے ہر حکم میں اس قدر حکمتیں ہوتی ہیں کہ جن کا ادراک اور احاطہ اگر ہمیں نہ ہو تو یہ ہمارے علم کے ناقص ہونے کا ثبوت ہے ۔ 
 5۔ الله تعالی ہر شے پر قادر ہے ۔ اس کے نزدیک کوئی چیز ناممکن نہیں ۔
 6۔ اس کا ہر کام حکمت پر مبنی ہوتا ہے ۔ اس کے ہر حکم اور  ہر فعل میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور پوشیدہ ہوتی ہے ۔ 

مختصر یہ کہ " آیت الکرسی " سے جو مضمون شروع ہوا تھا ۔ وہ اس آیت پر آکر ختم ہوتا ہے ۔ اس کے بعد دوسرے مسائل کا ذکر شروع ہوگا ۔ اور درمیان میں عقائد کا ذکر بدستور آتا رہے گا ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تفسیر عثمانی

اجڑی بستی کی مثال ۔ سورة بقرہ آیة . 259

اُجڑی بستی کی مثال

أَوْ ۔۔ كَالَّذِي ۔۔۔۔۔۔۔   مَرَّ ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ قَرْيَةٍ۔۔۔۔۔۔۔۔  وَهِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  خَاوِيَةٌ 
یا ۔۔۔ مانند اس شخص کی ۔۔ گزرا ۔۔ پر ۔۔ بستی ۔۔ اور وہ ۔۔ گری ہوئی تھی 
عَلَى ۔۔۔ عُرُوشِهَا ۔۔۔ قَالَ ۔۔۔ أَنَّى ۔۔۔ يُحْيِي ۔۔۔۔۔۔۔۔   هَذِهِ ۔۔۔ اللَّهُ 
پر ۔۔ اس کی چھتیں ۔۔۔کہا ۔۔ کیونکر ۔۔ زندہ کرے گا ۔۔ اس کو ۔۔ الله 
بَعْدَ ۔۔۔ مَوْتِهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فَأَمَاتَهُ ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ مِائَةَ ۔۔۔ عَامٍ ۔۔۔ ثُمَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   بَعَثَهُ 
بعد ۔۔ اس کی موت ۔۔ پھر موت دی اس کو ۔۔ الله ۔۔ سو ۔۔ سال ۔۔ پھر ۔۔ اٹھایا اس کو 
قَالَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   كَمْ لَبِثْتَ ۔۔۔  قَالَ ۔۔۔ لَبِثْتُ ۔۔۔ يَوْمًا ۔۔۔  أَوْ بَعْضَ ۔۔  يَوْمٍ 
فرمایا ۔۔ کتنی دیر تو یہاں رہا ۔۔ کہا ۔۔ رہا میں ۔۔ ایک دن ۔۔ یا بعض ۔۔ دن 
قَالَ ۔۔۔ بَل ۔۔ لَّبِثْتَ ۔۔۔ مِائَةَ ۔۔۔ عَامٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔  فَانظُرْ ۔۔۔ إِلَى ۔۔۔ طَعَامِكَ
کہا ۔۔ بلکہ ۔۔ تو رہا ۔۔ سو ۔۔ سال ۔۔ پس دیکھ ۔۔ طرف ۔۔ کھانا تیرا 
 وَشَرَابِكَ ۔۔۔ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۔۔۔ وَانظُرْ ۔۔۔ إِلَى ۔۔۔۔۔۔  حِمَارِكَ 
اور پینا تیرا ۔۔ نہیں وہ سڑا ۔۔ اور دیکھ ۔۔ طرف ۔۔ گدھا تیرا 
وَلِنَجْعَلَكَ ۔۔۔ آيَةً ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔   لِّلنَّاسِ ۔۔۔ وَانظُرْ ۔۔۔ إِلَى ۔۔۔ الْعِظَامِ 
اور تاکہ ہم بنائیں تجھ کو ۔۔ نشانی ۔۔ لوگوں کے لیے ۔۔ اور دیکھ ۔۔ طرف ۔۔ ہڈیاں 
كَيْفَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   نُنشِزُهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثُمَّ نَكْسُوهَا ۔۔۔  لَحْمًا ۔۔۔ فَلَمَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔  تَبَيَّنَ 
کیسے ۔۔ ابھار کر جوڑ دیتے ہیں ان کو ۔۔ پھر ہم ان پر پہناتے ہیں ۔۔ گوشت ۔۔ پس جب ۔۔ ظاہر ہوا 
لَهُ ۔۔۔ قَالَ ۔۔۔ أَعْلَمُ ۔۔۔ أَنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ كُلِّ ۔۔۔  شَيْءٍ ۔۔۔۔  قَدِيرٌ 2️⃣5️⃣9️⃣
اس پر ۔۔ کہا ۔۔ مجھے معلوم ہے ۔۔ بے شک ۔۔ الله ۔۔ پر ۔۔ ہر ۔۔ چیز ۔۔ قادر 

آوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّى يُحْيِي هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ وَانظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ 2️⃣5️⃣9️⃣

یا تو نے دیکھا اس شخص کو کہ وہ ایک شہر سے گزرا اور وہ شہر اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا  بولا الله اسے کیونکر زندہ کرے گا  اس کے مرنے کے بعد پھر الله نے اسے سو سال تک مردہ رکھا پھر اسے اٹھایا پوچھا تو یہاں کتنی دیر تک رہا  بولا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ  کہا نہیں بلکہ تو سو برس تک رہا  اب دیکھ اپنا کھانا اور پینا سڑ نہیں گیا اور دیکھ اپنے گدھے کو اور ہم نے تجھے نمونہ بنانا چاہا لوگوں کے لیے اور ہڈیوں کی طرف دیکھ کہ ہم انہیں کس طرح ابھار کر جوڑ دیتے ہیں پھر ان پر گوشت چڑھا دیتے ہیں  پھر جب اس پر حال ظاہر ہوا تو وہ کہہ اٹھا کہ مجھے معلوم ہے بے شک الله تعالی ہر چیز پر قادر ہے ۔

اَلّذِی مَرَّ ( جو شخص گزرا ) اس شخص کے بارے میں مختلف قول ہیں ۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ عزیر علیہ السلام تھے جو اسرائیلی سلسلے کے ایک مشہور پیغمبر گزرے ہیں ۔ ان کا زمانہ پانچویں صدی قبل مسیح کا تھا ۔ ۴۵۰ ق م  میں ڈیڑھ ہزار یہودیوں کو ان کی قید اور جلا وطنی سے چھڑا کرفلسطین لائے تھے ۔ بعض کا خیال ہے کہ اس شخص سے مراد یرمیاہ نبی ہیں ۔ یہ بھی اسرائیلی سلسلہ کے پیغمبر تھے ۔ اور ساتویں صدی قبل مسیح میں تھے ۔ 
سورۃ بقرہ کی اس آیت میں جس اجڑی ہوئی بستی کا ذکر ہے اس کے بارے میں مورخین کے مختلف اقوال ہیں ۔ البتہ اکثر علماء کا خیال ہے کہ اس میں بیت المقدس کی طرف اشارہ ہے ۔جسے بخت نصر ( شاہ بابل ) نے بری طرح برباد کر دیا تھا ۔ 
الله تعالی کی قدرت و عظمت کی نشانی دکھانے کے لیے یہ مثال بیان کی گئی ہے ۔ بخت نصر نے بیت المقدس پر چڑھائی کرکے اس کو ویران کیا اور بنی اسرائیل کے بہت سے لوگوں کو قید کرکے لے گیا ۔ 
حضرت عزیر علیہ السلام قید سے چھوٹ کر آئے تو راستے میں آپ نے ویران شہر دیکھا ۔جس کی عمارتیں تہ و بالا ہو چکی تھیں۔ یہ دیکھ کر آپ نے اپنے دل میں کہا کہ یہاں کے رہنے والے سب مر چکے ہیں  اب الله تعالی ان کو کیونکر زندہ کرے گا ۔ الله تعالی کے حکم سے اسی وقت حضرت عزیر علیہ السلام پر موت طاری ہوگئی ۔ اور سواری کا گدھا بھی مر گیا ۔ آپ سو برس تک اسی حال میں رہے ۔ اور کسی نے نہ ان کو وہاں آ کر دیکھا اور نہ اس علاقے کی خبر باہر پھیلی ۔ اس دوران بخت نصر بھی مر گیا اور کسی دوسرے بادشاہ نے بیت المقدس کو آباد کیا ۔ 
سوسال کے بعد الله تعالی کے حکم سے حضرت عزیر زندہ ہوئے ۔ ان کا کھانا اسی طرح پاس رکھا ہوا تھا ۔ ان کا گدھا جو مرچکا تھا اور جس کی ہڈیاں گل چکی تھیں آپ کے سامنے زندہ ہوگیا ۔ اس سوسال کے عرصے میں بنی اسرائیل قید سے آزاد ہوکر شہر میں آباد بھی ہو چکے تھے ۔ 
حضرت عزیر علیہ السلام جب فوت ہوئے اس وقت کچھ دن چڑھا ہوا تھا اور جب زندہ ہوئے تو ابھی شام نہ ہوئی تھی ۔ اس لیے جب الله تعالی نے ان سے پوچھا کہ یہاں کتنی دیر ٹہرے تو سوچ کر کہنے لگے یا تو ایک دن ہوا ہے یا اس سے بھی کم ۔ 
حضرت عزیر علیہ السلام کے سامنے گدھے کی تمام ہڈیاں صحیح ترکیب کے ساتھ اس کے بدن میں جمع ہو گئیں ۔ پھر ان پر گوشت چڑھ گیا اور کھال بھی درست ہوگئی ۔ پھر الله سبحانہ و تعالی کے حکم سے اس میں جان آگئی اور وہ اُٹھ کھڑا ہوا ۔ 
حضرت عزیر علیہ السلام نے اس کیفیت کو دیکھنے کے بعد کہا مجھے یقین ہوگیا کہ الله تعالی ہر چیز پر قادر ہے ۔ اگرچہ میں پہلے بھی جانتا تھا کہ مردے کو زندہ کرنا الله جل جلالہ کے لیے بالکل آسان ہے ۔ اب اپنی آنکھ سے دیکھ لیا ہے ۔ 
یہاں یہ بات یاد رہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت عزیر علیہ السلام کے یقین میں پہلے کچھ کمی تھی ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ انہیں  پہلے مشاہدہ نہیں ہوا تھا ۔ اس کے بعد حضرت عزیر علیہ السلام یہاں سے بیت المقدس پہنچے تو انہیں کسی نے نہ پہچانا ۔ کیونکہ خود تو یہ جوان رہے اور ان کے سامنے کے بچے بوڑھے ہو گئے ۔ 
جب انہوں نے زبانی توریت سنائی تو  لوگوں کو ان کا یقین ہوگیا ۔ اس قصے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ مُردوں کو زندہ کرنا الله تعالی کی قدرت سے بعید نہیں بلکہ یہ کام اس کے لیے بہت ہی آسان ہے ۔ قیامت کا آنا یقینی ہے ۔ جبکہ تمام مردے الله تعالی کے حکم سے دم کے دم میں پھر سے زندہ ہو جائیں گے ۔ 
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہمیں شہر کے نام سے کوئی غرض نہیں جس کام پر کلام الله میں بحث ضروری نہیں سمجھی ہمیں بھی اس پر جگر خراشی کی ضرورت نہیں ۔ نہ قرآن مجید کا مقصد تاریخی واقعات کو بطور تاریخ بیان کرنا ہے نہ ہم الله کی کتاب کو تاریخ کے طور پر پڑھتے ہیں ۔ اصل مقصد نصیحت و وصیت ہے ۔ اسے ہر دم پیشِ نظر رکھنا چاہیے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

سورة النساء کے مضامین کا خلاصہ

سورة النساء کے مضامین کا خلاصہ 


سورة النّساء کا  مضمون امور انتظامیہ ہے ۔ امورِ انتظامیہ کی دو قسمیں ہیں ۔ 
تدبیر منزل :- یعنی حقوق الزوجین ( میاں بیوی کے حقوق ) اصلاح و تربیت برائے اولاد 
تدبیر مدن :- تدبیر مدن کی دو قسمیں ہیں ۔ 

احکام رعیت 
احکام سلطانیہ 

سورة النساء میں جو احکام مذکور ہیں ان کی دوقسمیں ہیں ۔ کچھ احکام کا تعلق عام لوگوں یعنی پبلک سے ہے اور کچھ احکام کا تعلق حکّام سے ہے ۔ اس اعتبار سے سورة دو حصوں میں منقسم ہے ۔ 

حصہ اوّل ۔ 

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ ۔۔۔۔۔ آیة ۱ سے شروع ہوکر آیة ۵۷ ۔ ۔۔۔۔۔ وَنُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِيلًا
تک 

حصہ ثانی 


إِنَّ اللهَ  يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا ۔۔۔۔۔۔ آیة  ۵۸ سے شروع ہوکر آیة ۱۲٦ رکوع ۱۸ 

وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطًا تک 

پہلے حصے میں احکامِ رعیت اور دوسرے حصے میں احکام سلطانیہ کا بیان ہے اور ہر حصے کے بعد اصل مسئلہ یعنی توحید کا بیان کیا گیا ہے  احکام رعیت کے ساتھ توحید کا ذکر اجمالا ہے اور احکام سلطانیہ کے ساتھ توحید کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے ۔ 

مقصد احکام رعیت :- آپس میں ظلم نہ کرو اور ایک دوسرے کی حق تلفی نہ کرو ۔ 
مقصد احکام سلطانیہ :-  دوسروں کی حق تلفی اور ان پر ظلم نہ ہونے دو ۔ 


سورة کی ابتداء میں تخویف اخروی ہے یعنی جو احکام آگے آرہے ہیں ان کو بجا لاؤ ورنہ آخرت میں تمہیں دردناک عذاب دیا جائے گا ۔ اس کے بعد عذاب سے بچنے کے لیے امورِ ثلاثہ کا بیان فرمایا ۔ 
امر اوّل ۔ ظلم نہ کرو 
امر ثانی ۔ شرک نہ کرو 
امر ثالث ۔ احسان کرو 

احکام رعیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ظلم نہ کرو ۔ 

روابط سورة النساء

سورة النّساء 

سورة نساء کو ماقبل سورتوں سے دو طرح کا ربط ہے 

ربط اسمی


إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ وَلاَ نَعْبُدُ وَلاَ نَسْتَعِیْنُ البَقَرَةَ کَمَا فَعَلَتِ الْیہُودُ وَالمُشْرِکُونَ وَلَا آلَ عِمرانَ کَمَا فَعَلَتِ النّصٰرٰی وَ نُؤَدّی حُقُوقُ النّساء ۔

اے الله ! ہم صرف اور صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور نہ ہم گائے کی عبادت کریں گے اور نہ ہم اسے پکاریں گے جیسا کہ یہود و مشرکین نے کیا اور نہ ہم آل عمران کی عبادت و استعانت کریں گے جیسا کہ نصاری نے کیا
اور ہم عورتوں کے حقوق ادا کریں گے ۔ 


ربط معنوی


سورۃ بقرہ میں چار بنیادی مضامین 

توحید
رسالت
جہاد فی سبیل الله
انفاق فی سبیل الله 

بیان کیے گئے ہیں ساتھ ساتھ امورِ انتظامیہ اور امور مصلحہ بھی مذکور ہیں ۔ توحید کا بیان اور شرک کا ہر پہلو سے رد کیا گیا اس کے علاوہ سورة بقرہ میں نفی شرک فعلی ،نفی شرک اعتقادی اور نفی شرک قہری کا ذکر کیا گیا
سورة آل عمران میں توحید ورسالت کے متعلق شبھات کا ازالہ کیا گیا شرک اعتقادی کی نفی کی گئی اور انفاق فی سبیل الله کی ترغیب بھی دی گئی ۔​
اب
سورة النّساء میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر منظم کرنے کے لیے تفصیل سے امورِ انتظامیہ بیان کیے گئے اور ساتھ ہی ایک امر مصلح نماز کا ذکر آگیا کیونکہ نماز امور انتظامیہ پر عملدرآمد کروانے میں ممد ومعاون ہے ۔ گویا کہ سورة بقرہ کے مضامین میں سے ایک مضمون یعنی امور انتظامیہ کا سورة النّساء میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے ۔

سورة آل عمران ، روابط سورة آل عمران



روابط سورة آل عمران 

سورة آل عمران کا سورة بقرہ سے تین طرح کا ربط ہے 
ربط اوّل :-

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ وَلاَ نَعْبُدُ وَلاَ نَسْتَعِیْنُ البَقَرَةَ کَمَا فَعَلَتِ الْیہُودُ وَالمُشْرِکُونَ وَلَا آلَ عِمرانَ کَمَا فَعَلَتِ النّصٰرٰی 

ربط ثانی ۔ معنوی 

سورة بقرہ میں
فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
سے مسلمانوں کو کافروں کے مقابلے میں الله تعالی سے نصرت ومدد طلب کرنے کی تعلیم دی گئی ۔
سورة آل عمران میں بتایا کہ وہ کون سے کفار ہیں جن کے خلاف لڑنا چاہیے ۔ جو الله کے نیک بندوں کو الله تعالی کا شریک بناتے ہیں اور ان کو مالک ومختار سمجھ کر حاجات ومشکلات میں پکارتے ہیں جس طرح نصارٰی حضرت عیسٰی و مریم علیھما السلام کو معبود سمجھتے اور انہیں مافوق الاسباب پکارتے تھے ۔

ربط ثالث :- 
سورة بقرہ میں قرآن مجید کے جن تمام مضامین کو اجمالی طور پر بیان کیا گیا ان میں سے چار اہم مضامین کو سورة آل عمران میں بیان کیا گیا ۔

۱- توحید :-

ابتدائے سورة سے لے کر رکوع ۸ (إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ ) آیة نمبر 80 تک توحید کا بیان ہے ۔
جس کے ساتھ نصاری کے مشرکانہ عقائد کا رد کیا گیا ۔

۲ - رسالت :-

نویں رکوع کی ابتدا آیة 81 سے

وَإِذْ أَخَذَ الله مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ

اور جب الله نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور دانائی عطا کروں پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہو گا اور ضرور اس کی مدد کرنی ہوگی۔ اور عہد لینے کے بعد پوچھا کہ بھلا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا یعنی مجھے ضامن ٹھہرایا انہوں نے کہا ہاں ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا کہ تم اس عہدوپیمان کے گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔

سے لے کر دسویں رکوع کی انتہا ۔۔ آیة ۔ 101 تک

وَكَيْفَ تَكْفُرُونَ وَأَنتُمْ تُتْلَى عَلَيْكُمْ آيَاتُ اللهِ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ وَمَن يَعْتَصِم بِاللهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

اور تم کیوں کر کفر کرو گے جبکہ تم کو الله کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور تم میں اس کے پیغمبر موجود ہیں اور جس نے الله کی رسی کو مضبوط پکڑ لیا وہ سیدھے رستے لگ گیا۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی رسالت و صداقت کا بیان ہے ۔

۳- جہاد فی سبیل الله :-

رکوع ۱۱ آیة ۔ 102 سے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ

مومنو! الله سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا۔

رکوع ۱۹ ۔ آیة 188 تک

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوا وَّيُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُم بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

جو لوگ اپنے کئے ہوئے کاموں سے خوش ہوتے ہیں اور وہ کام جو کرتے نہیں ان کیلئے چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے ان کی نسبت خیال نہ کرنا کہ وہ عذاب سے چھٹکارا پائیں گے۔ اور انہیں درد دینے والا عذاب ہو گا۔

الله کی راہ میں لڑنا یعنی جہاد فی سبیل الله کا بیان ہے ۔

۴ - انفاق فی سبیل الله :-

سورة کے شروع میں ترغیب الی الجہاد اور ساتھ ہی انفاق فی سبیل الله کا ذکر ہے ۔

سورة آل عمران کے بیسویں یعنی آخری رکوع میں چاروں مضامین یعنی توحید ، رسالت ، جہاد فی سبیل الله اور انفاق فی سبیل الله کا بالاجمال اعادہ کیا گیا ہے ۔
سورة کی آخری آیت میں چاروں مضامین کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

اے اہل ایمان کفار کے مقابلے میں ثابت قدم رہو اور استقامت رکھو اور مورچوں پر جمے رہو۔ اور الله سے ڈرو۔ تاکہ مراد حاصل کرو۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ۔۔۔ میں توحید کی طرف صراحتاً اور رسالت کی طرف تبعاً اشارہ ہے ۔

اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا ۔۔۔۔ میں جہاد کی طرف صراحتا اور انفاق کی طرف اجمالاً اشارہ ہے
والله اعلم

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں