نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سورة بقرہ کا سورة فاتحہ سے ربط ۔ روابط سورة البقرہ


روابط سورة البقرہ 
سورة البقرہ کا سورة الفاتحہ سے چار طرح کا ربط ہے 
  1. ربط اوّل ۔ اسمی یا نامی

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ وَلاَ نَعْبُدُ وَلاَ نَسْتَعِیْنُ البَقَرَةَ کَمَا فَعَلَتِ الْیہُودُ وَالمُشْرِکُونَ 
(اے الله ) ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سےمدد مانگتے ہیں اور ہم گائے کی نہ تو عبادت کرتے ہیں نہ اس سے مدد مانگتے ہیں جیسا کہ یہود و مشرکین نے کیا 

ربط ثانی

سورة الفاتحہ میں

اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ

‎ہم کو سیدھے رستے چلا۔

سے ہدایت کی درخواست کی گئی تھی ۔ اب سورة البقرہ کے آغاز

ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ

یہ کتاب یعنی قرآن مجید اس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ کا کلام ہے پرہیزگاروں کیلئے راہنما ہے۔

سے اس کی منظوری آگئی کہ یہ کتاب سرچشمہ حیات ہے اور سیدھی راہ دکھاتی ہے ۔ 
پھر اس سورة میں ہدایت کے مکمل پروگرام کا بیان فرمایا ۔

ربط ثالث

سورة الفاتحہ میں تین جماعتوں کا ذکر ہوا ہے 

  1. مُنعَم علیھم ۔ جن پر انعام کیا گیا مرادمؤمنین ہیں ۔
  2. مَغْضُوبٌ عَلَیھم ۔ اس سےمراد وہ لوگ ہیں جو فساد باطن کے ساتھ ساتھ فسادِ عمل میں بھی مبتلا ہیں ۔ یعنی نہ تو ان کے عقائد درست ہیں اور نہ ہی ان کے اعمال درست ہیں یہ کافروں کا گروہ ہے ۔
اَلضّآلّین ۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو صرف فسادِ باطن کا شکار ہیں یعنی ان کے عقائد میں تو کفر وشرک کی گندگی بھری ہوئی ہے البتہ ان کے کچھ ظاہری اعمال مسلمانوں کے سے ہیں یہ منافقوں کا گروہ ہے ۔ 
سورة الفاتحہ میں ان تینوں جماعتوں کا ذکر اجمالی طور پر تھا ۔ سورة البقرہ میں لف ونشر مرتب کے طور پر قدرے تفصیل سے ان کا ذکر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ان کے کچھ اوصاف اور جزاء وسزا کا بیان بھی آگیا ہے ۔

ربط رابع

سورة فاتحہ میں بندوں سے

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ

کے ذریعے الله سبحانہ وتعالی کی توحید کا اقرار لیا گیا اور عبادت و استعانت کا الله تعالی ہی کے ساتھ خاص ہونے کا اعلان کیا گیا ۔
سورة البقرہ میں دعوٰی توحید کو مختلف مقاصد کے پیشِ نظر تین جگہ ذکر کرکے ہر جگہ عقلی دلیل سے واضح اور ثابت کیا گیا۔
سب سے پہلے آیہ ۲۱

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ

اے لوگو ! اپنے رب کی عبادت کرو

اور ساتھ ہی

الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ 2️⃣1️⃣
الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ

جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تا کہ تم اسکے عذاب سے بچو۔
جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے مینہ برسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کئے۔

سے عقلی دلیل پیش کی گئی ۔

دوسری جگہ آیہ ۔ ١٦٣

وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لَّا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ

اور لوگو تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ اس بڑے مہربان اور رحم والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔

سے دعوٰی توحید کا اعادہ کیا گیا اور ساتھ ہی آیہ ۱٦٤میں

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

بیشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں اور کشتیوں اور جہازوں میں جو سمندر میں لوگوں کے فائدے کے لئے رواں ہیں اور مینہ میں جس کو اللہ آسمان سے برساتا اور اس سے زمین کو اسکے مردہ ہو جانے کے بعد زندہ یعنی خشک ہو جانے کے بعد سرسبز کر دیتا ہے اور زمین پر ہر قسم کے جانور پھیلانے میں اور ہواؤں کے چلانے میں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان گھرے رہتے ہیں عقلمندوں کے لئے اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔

عقلی دلیل پیش کی گئی ۔

تیسری مرتبہ آیت ٢٥٥ یعنی آیت الکرسی میں دوبارہ دعوٰی توحید کو دہرایا گیا اور ساتھ ہی عقلی دلیل پیش کردی ۔

اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ

الله وہ معبود برحق ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں

دلیل عقلی

الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ

وہ زندہ ہے سب کو تھامنے والا اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔ کون ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس سے کسی کی سفارش کر سکے۔ جو کچھ لوگوں کے روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہو چکا ہے اسے سب معلوم ہے اور لوگ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے اسی قدر معلوم کرا دیتا ہے اس کی بادشاہی اور علم آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے۔ اور اسے انکی حفاظت کچھ بھی دشوار نہیں وہ بڑا عالی رتبہ ہے جلیل القدر ہے۔

سورة بقرہ میں تین بار دعوٰی توحید کو ذکر کرنے کا مقصد جداگانہ ہے ۔ پہلے موقع پر “شرک فی الدعاء “ کی نفی مقصود ہے ۔ دوسرے موقع پر “نذرومنت “ کی نفی کی گئی ہے اور تیسرے موقع پر شفاعت قہری کی نفی مقصود ہے ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...