سورة آل عمران



سورة آل عمران 
وجہ تسمیہ :-
اس سورة کے آخر میں آل عمران کا ذکر ہے اس لیے اس سورة کا نام آل عمران رکھا گیا ۔ 

شانِ نزول سورة آل عمران 

مفسرین نے لکھا ہے کہ نجران کے نصارٰی کا ایک وفد مدینہ طیبہ میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جو ان کے ساٹھ چیدہ چیدہ آدمیوں پر مشتمل تھا ۔ وفد میں تین آدمی سرکردہ تھے ۔
عاقب جس کا نام عبد المسیح تھا اور وہ امیر القوم تھا ۔
سید جس کا نام ایہم تھا اور وزیر مالیات وتجارت ، خورد ونوش وغیرہ تھا 
ابو حارثہ بن علقمہ علماء کا پیشوا اعظم تھا ۔
یہ لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں جھگڑنے لگے اور کہا کہ عیسٰی علیہ السلام الله کے بیٹے اور نائب ہیں ۔ 
اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا بیٹا باپ سے مشابہ ہوتا ہے ۔
ہمارا رب تو زندہ و جاوید ہے ۔ سارے جہانوں کا رزاق اور نگہبان ہے ۔ زمین اور آسمان کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ۔ وہ ماں کے رحم میں اپنی مرضی کےمطابق بچے کی شکل بناتا ہے اور وہ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے ۔ 
اب تم بتاؤ کیا ان تمام صفات میں سے کوئی ایک صفت بھی عیسٰی علیہ السلام میں پائی جاتی ہے اگرنہیں تو وہ معبود کیسے ہو سکتے ہیں ۔ 
یہ سُن کر وہ ساکت رہ گئے اور ان سے کوئی جواب بن نہ پڑا 
حوالہ ۔ تفسیر خازن ، حاشیہ شاہ عبد القادر جلد 1 ص ۲٦٦۔

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں