نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ریا کاری سے خرچ کرنے کی مثال ۔ سورة بقرہ آیة ۔ 266

ریا کاری سے خرچ کرنے کی مثال

أَيَوَدُّ ۔۔۔ أَحَدُكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   أَن تَكُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔   لَهُ ۔۔۔ جَنَّةٌ ۔۔۔۔۔۔۔   مِّن ۔۔۔ نَّخِيلٍ 
کیا چاہتا ہے ۔۔ تم میں سے کوئی ۔۔ یہ کہ ہو ۔۔ اس کے لیے ۔۔ ایک باغ ۔۔ سے ۔۔ کھجور 
وَأَعْنَابٍ ۔۔۔  تَجْرِي ۔۔۔ مِن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   تَحْتِهَا ۔۔۔ الْأَنْهَارُ ۔۔۔ لَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فِيهَا 
اور انگور ۔۔ جاری ہو ۔۔ سے ۔۔ اس کے نیچے ۔۔ نہریں ۔۔ اس کے لیے ۔۔ اس میں 
مِن ۔۔۔ كُلِّ ۔۔۔  الثَّمَرَاتِ۔۔۔۔  وَأَصَابَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   الْكِبَرُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَلَهُ ۔۔۔ ذُرِّيَّةٌ 
سے ۔۔ تمام ۔۔ پھل ۔۔ اور پہنچے اس کو ۔۔ بڑھاپا ۔۔ اور اس کے لیے ۔۔ أولاد 
ضُعَفَاءُ ۔۔۔ فَأَصَابَهَا ۔۔۔ إِعْصَارٌ ۔۔۔۔۔۔۔  فِيهِ ۔۔۔ نَارٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔   فَاحْتَرَقَتْ 
کمزور ۔۔ پس پہنچے اس کو ۔۔ بگولا ۔۔ اس میں ۔۔ آگ ۔۔ پس وہ جل جائے 
كَذَلِكَ ۔۔۔ يُبَيِّنُ ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ لَكُمُ ۔۔۔ الْآيَاتِ ۔۔۔ لَعَلَّكُمْ ۔۔۔ تَتَفَكَّرُونَ۔ 2️⃣6️⃣6️⃣
اسی طرح ۔۔ بیان کرتا ہے ۔۔ الله ۔۔ تمہارے لیے ۔۔ آیات ۔۔ تاکہ تم ۔۔ غور کرو 

أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ. 2️⃣6️⃣6️⃣

کیا تم میں سے کسی کو یہ پسند آتا ہے کہ اس کا ایک باغ ہو کھجور اور انگور کا اس کے نیچے نہریں بہتی ہوںاسے اس باغ میں ہر طرح کے میوے حاصل ہوںاور اس پر بڑھاپا آگیا ہو اور اس کی اولاد کمزور ہو تب اس باغ پر ایک بگولا آپڑے جس میں آگ ہو جو باغ کو جلا ڈالے الله تعالی تم کو اسی طرح اپنی آیات سمجھاتا ہے تاکہ تم غور کرو ۔ 

اس آیت میں ان لوگوں کی مثال بیان کی گئی ہے جو محض لوگوں کو دکھانے کے لیے صدقہ اور خیرات دیتے ہیں یا خیرات کرکے لوگوں پر احسان جتاتے اور انہیں روحانی یا جسمانی تکلیف پہنچاتے ہیں ۔ 
اس طرح مال خرچ کرنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے اس کی عمر بھر کی کمائی ایک باغ ہے ۔ جو سرسبز اور خوب پھلا پھولا ہوا ہے ۔ ہر طرح کے میووں اور پھلوں سےلدا ہوا ہے ۔ باغ کا مالک بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جاتا ہے ۔ خود کام نہیں کرسکتا اور اس کے بچے بھی ابھی چھوٹے چھوٹے ہیں ۔ جو اپنے باپ کا دکھ درد بانٹنے کی بجائے خود اس پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ عین اس شدید بڑھاپے اور بچوں کی حاجتمندی کے وقت یک  بیک معلوم ہوتا ہے کہ باغ میں آگ لگی اور سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا ۔ اس وقت باغ کےمالک کے غم اور حسرت کا اندازہ کیا ہوگا ۔ 
اس سے کہیں بڑھ کر بُری حالت اس بدنصیب کی ہو گی جس کی آنکھیں زندگی بھر غفلت سے بند رہیںاور پہلی بار اس وقت کھلیں جب عمل کی مہلت بالکل ختم ہوگئی ۔ گویا ریاکاری سے نیکیوں کو ایسے ہی آگ لگتی ہے اور ان کا اجر یونہی برباد ہوجاتا ہے جیسے اس باغ کو آگ لگ گئی اور اس کا مالک تباہ ہو گیا ۔ 
الله تعالی یہ تمام مثالیں  اس لیے بیان فرماتا ہے کہ ہم ان پر غور کریں۔ اور عبرت پکڑ کراپنا سارا کیا دھرا آخر میں ضائع نہ کر دیں ۔ 
درس قرآن مرتبہ ۔۔۔ درس قرآن بورڈ 

الله کریم ہمیں خلوص نیت عطا فرمائے اور ہر قسم کی ریا کاری سے محفوظ رکھے ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...