معلومات قرآن مجید

 سوال: وہ سورتیں کتنی ہیں جو قیامت کے نام پر یا قیامت کی خوفناکیوں کے نام پر آئی ہیں ؟ـ

جواب : تیرہ سورتیں ـ
1: سورہ الدخان ، 2: سورہ الوقعہ ـ 3:سورہ الحشر، 4:سورہ التغابن ، 5: سورہ حقہ ، 6: سورہ قیامہ ، 7: سورہ بناء 8:سورہ تکویر ـ 9: سورہ النفطار 10: سورہ النشقاق ، 11:سورہ غاشیہ ، 12: سورہ زلزلہ ، 13 : سورہ قارعہ ـ

سورة کہف روابط و خلاصہ مضامین

 روابط سورة کہف

سورة الفاتحہ کی تفسیر میں گزر چکا ہے کہ مضامین کے اعتبار سے قران مجید چار حصوں پر مشتمل ہے اور ہر حصہ “الحمد“ سے شروع ہوتا ہے۔
سورة الکہف کی “الحمد“ سے تیسرا حصہ شروع ہوتا ہے۔ الله سبحانہ و تعالی کی خالقیت اور  ربوبیت کے بعد اس حصے سے اس کی حاکمیت کا بیان ہے۔ یعنی خالق و مالک ہونے کے ساتھ وہ الله ہی حاکم اعلی ہے۔ ہر طرح کے اختیارات اسی کے قبضہ میں ہیں اور اس نے اپنے اختیارات میں سے کوئی اختیار کسی نبی ،ولی ، جن یا پیغمبر کے حوالے نہیں کیا۔
ربط معنوی:
مشرکین نے مسئلہ توحید کا انکار کرنے کے بعد نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دو مطالبے رکھ دئیے۔
مطالبہ اوّل: 

فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ

یعنی جس عذاب سے آپ ہمیں ڈراتے ہیں اگر آپ سچے ہیں تو وہ عذاب ہم پر لے آئیں۔
مطالبہ ثانی: 

وَقَالُوْا لَوْلَا یَاْتِیْنَا بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ ط

یعنی اپنی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے آپ ہمیں کوئی معجزہ دکھائیں۔
جواب مطالبہ اوّل: 
سورة النحل کی ابتدا میں الله تعالی نے فرمایا: 

أَتَى أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ

یعنی الله کا عذاب آکر رہے گا تم اس کی آمد کا مطالبہ نہ کرو۔اس کے ساتھ یہ بھی واضح کر دیا کہ جس مسئلہ توحید کا تم انکار کر رہے ہو وہ اس قدر اہم اور ضروری ہےکہ اس کی خاطر تمام انبیاء علیھم السلام دنیا میں بھیجے گئے۔

يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ ﴿٢

وہی فرشتوں کو اپنی وحی دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اتارتا ہے کہ تم لوگوں کو آگاه کر دو کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں، پس تم مجھ سے ڈرو (2)النحل
مشرکینِ مکہ کے مطالبہ عذاب کو الله تعالی نے ان پر قحط کا عذاب مسلط کرکے پورا کر دیا۔چنانچہ سورة کے پندرھویں رکوع میں ارشاد ہے:

وَضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّـهِ فَأَذَاقَهَا اللَّـهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ﴿١١٢
 
اللہ تعالیٰ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن واطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس بافراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی۔ پھر اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزه چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا (112) النحل
جواب مطالبہ ثانی:
مشرکینِ مکہ کے دوسرے مطالبے کا جواب الله تعالی نے سورۃ بنی اسرائیل میں دیا: 

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴿١

پاک ہے وه اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے واﻻ ہے۔

ربط ثالث
جس مسئلہ  توحید کو سورۃ النحل کی ابتدا میں ذکر کیا گیا اس کا ذکر سورة بنی اسرائیل میں ایک دوسرے انداز میں کیا گیا۔

قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ ۖأَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا ﴿١١٠

کہہ دیجئیے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں۔ نہ تو تو اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھ اور نہ بالکل پوشیده بلکہ اس کے درمیان کا راستہ تلاش کرلے۔

یعنی الله تعالی کی بے شمار اعلی صفات ہیں تم اس کو خواہ کسی صفت سے پکارو تمہیں اختیار ہے مگر صرف اسی کو پکارو، اس کے سوا کسی اور کو مت پکارو۔
اس کے بعد فرمایا: 

وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا ﴿١١١

اور یہ کہہ دیجیئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو نہ اوﻻد رکھتا ہے نہ اپنی بادشاہت میں کسی کو شریک وساجھی رکھتا ہے اور نہ وه کمزور ہے کہ اسے کسی حمایتی کی ضرورت ہو اور تو اس کی پوری پوری بڑائی بیان کرتا ره

یہ ماقبل کے لیے بمنزلہ دلیل ہے، یعنی تمام صفاتِ کارسازی الله تعالی کے لیے مختص ہیں جس کا کوئی نائب اور شریک نہیں اور نہ کوئی اس کا مددگار ہے۔

اب سورة کہف کے شروع میں فرمایا: 

الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا ۜ﴿١

تمام تعریفیں اسی اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن اتارا اور اس میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔

اس میں الحمد لله دعوی ہے یعنی تمام صفاتِ کارسازی صرف الله تعالی کے لیے خاص ہیں۔ اس کے بعد دعوی توحید پر دلائل مذکور ہیں۔ 
خلاصہ مضامین سورة کہف
انبیاء، اولیا، ملائکہ و جنات کے متعلق مشرکین بعض الجھنوں میں مبتلا تھے، جن کی وجہ سے وہ انہیں عالم الغیب، مالک و متصرف اور کارساز سمجھتے تھے۔ اس سورة میں مشرکین کے چار شبھات کا ازالہ کیا گیا ہے۔
پہلا شبہ  : 
اصحاب کہف جو رئیسوں کے بیٹے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ بادشاہ کے غلاموں کے بیٹے تھے تین سو نو سال تک غار میں صحیح سلامت پڑے رہے، اتنے لمبے عرصے میں انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچی، یہاں تک کہ اس دوران وہ دھوپ کی تپش سے بھی محفوظ رہے۔ اس سے مشرکین کو شبہ ہوا کہ وہ مافوق الاسباب قدرت و طاقت کے مالک تھے۔ اس لیے انہوں نے اصحاب کہف کی نذریں ، نیازیں دینا شروع کردیں، چنانچہ وہ سات روٹیاں اصحابِ کہف کے نام کی اور آٹھویں ان کے کتے کے نام کی دینے لگے۔

جواب شبہ : 
شبہ اولی کا مختصر جواب دیا گیا کہ اصحابِ کہف کا واقعہ ہماری قدرت کے نشانات میں سے ہے اس میں اصحاب کہف کے اپنے تصرف و اختیار کا کوئی دخل نہیں۔ مشرک بادشاہ دقیانوس سے بھاگ کر انہوں نے ایک غار میں چھپ کر اپنی جان بچائی اور وہاں انہوں نے الله تعالی سے رحمت اور معاملے کی درستی کی دعا مانگی۔ ہم نے غار میں انہیں مدتِ دراز تک سُلا دیا، پھر انہیں بیدار کیا۔ یہ تمام باتیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ اصحاب کہف متصرف و مختار نہ تھے بلکہ الله تعالی کے مواحد اور عاجز بندے تھے۔

دوسرا شبہ: 
کچھ لوگ بعض حالات میں جنوں سے مدد طلب کرتے اور ان کو پکارتے تھے۔ تمام کام تو الله کے حکم سے ہوتے مگر وہ سمجھتے تھے کہ ان کے کام جنوں نے کیے ہیں۔ 

جوابِ شبہ: 

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ۗأَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا ﴿٥٠﴾ 

اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجده کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجده کیا، یہ جنوں میں سے تھا، اس نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی، کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اوﻻد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنا رہے ہو؟ حاﻻنکہ وه تم سب کا دشمن ہے۔ ایسے ﻇالموں کا کیا ہی برا بدل ہے۔

یعنی جو لوگ جنوں اور اولیاء الله کو متصرف اور کارساز مان کر انہیں حاجات اور مشکلات میں پکارتے ہیں اور ان کے نام کی نذر و نیاز دیتے ہیں۔ ان کی قبروں اور مقبروں سے گھاس نہیں اکھاڑتے اس ڈر سے کہ وہ نقصان پہنچائیں گے در حقیقت یہ لوگ شیطان اور جنوں کو پکارتے ہیں۔ حالانکہ شیطان اور جن کس طرح ان کے دوست، کارساز اور مدد گار ہو سکتے ہیں۔

تیسرا شبہ: 
شبہ یہ تھا کہ موسی علیہ السلام اور خضر کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ موسی علیہ السلام تو غیب دان نہیں تھے لیکن خضر غیب جانتے تھے کیونکہ انہوں نے موسی علیہ السلام سے بہت سے غیبی امور بیان کیے تھے۔

جواب شبہ: 
آیات : ۴۰ تا ۸۲ سے اس شبہ کا جواب دیا کہ حضرت خضر علیہ السلام غیب دان اور متصرف نہ تھے انہوں نے جو کچھ کیا یا جو کچھ موسی علیہ السلام کو بتایا وہ سب الله تعالی کے حکم اور اس کی تعلیم سے بتایا تھا۔ 

چوتھا شبہ: 
یہود میں ذوالقرنین کے متعلق مشہور تھا کہ الله نے انہیں بہت طاقت و قدرت دی تھی۔ وہ بھی کارساز اور متصرف ہیں۔

جواب شبہ 
آیات: ۸۳ سے ۹۷ 
ذوالقرنین کو اگرچہ بقدر ضرورت ظاہری اسباب دئیے گئے تھے مگر مافوق الاسباب امور میں سے کسی ایک پر بھی ان کو قدرت نہیں دی گئی، پھر ظاہری اسباب کے اعتبار سے بھی وہ ہر طرف سے عاجز تھے۔ مشرق میں گرمی کی وجہ سے، مغرب میں دلدل کی وجہ سے، شمال میں یاجوج ماجوج کی وجہ سے۔

چاروں شبھات کا جواب دینے کے بعد آخری آیات کو لف و نشر کے طور پر چاروں جوابات پر متفرع کیا گیا ہے۔ یعنی الله تعالی کے نیک بندے غیب دان اور کارساز نہیں تو جنات میں یہ صفت کیسے ہو سکتی ہے۔

سورۃ بقرہ ، آیت نمبر 275, متعلقہ آیہ ۲۷۵

سود کی برائیاں 


سود کے حرام اور ناجائز ہونے والی آیت سے پہلے الله تعالی نے خیرات اور صدقات کی فضیلت بیان فرمائی ہے ۔ چونکہ خیرات اور صدقات سے غریبوں کے معاملات میں سہولت اور بے مروتی کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے کئی گناہ دور ہوجاتے ہیں ۔ اخلاق، مروت ، خیر اندیشی ، نفع رسانی اور خدمتِ خلق کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔ اس لیے اس کی اہمیت کھول کر بیان کی گئی ۔ 
اب سود کی حرمت کا بیان شروع ہوتا ہے ۔ یہ بالکل خیرات کی ضد ہے ۔ اگر خیرات سے مروت بڑھتی ہے تو سود سے ظلم ترقی کرتا ہے ۔ اسی لیے خیرات کی فضیلت کے بعد سود کی مذمت اور اس کی ممانعت کا ذکر ہوا ہے جو اپنی جگہ پر انتہائی مناسب اور برمحل ہے ۔ 
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن سود خور اپنی قبروں سے اٹھتے وقت سیدھے کھڑے نہ ہو سکیں گے ۔ بلکہ خبطیوں اور دیوانوں کی طرح گرتے پڑتے لڑکھڑاتے ہوئے اٹھیں گے ۔ بالکل یہی منظر دنیا میں بھی نظر آتا ہے ۔ مہاجن اور ساہوکار روپے کے پیچھے باؤلے بنے رہتے ہیں ۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے انہیں کوئی جن یا بھوت چمٹ گیا ہے ۔ ہر دم ان پر سود ہی کا فکر سوار رہتا ہے ۔ 
الله تعالی نے قیامت کے دن ایسے لوگوں کے اس حالت میں مبتلا ہونے کی وجہ بھی بیان کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح تجارت میں مالی نفع مقصود ہوتا ہے اسی طرح سود میں بھی مالی نفع ہی پیشِ نظر ہوتا ہے ۔ جب تجارت حلال ہے تو سود کیوں حرام ہو ۔ حالانکہ انہیں معلوم نہیں کہ تجارت اور سود میں اخلاقی اور معاشی لحاظ سے زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ سود کی مقررہ رقم کسی کھٹکے اور اندیشے کے بغیر ہر حال میں سود خور کو ملتی رہتی ہے ۔ اس کے برخلاف تجارت میں نفع  اور نقصان دونوں کا احتمال رہتا ہے ۔ اور تاجر کو نقصان سے بچنے کے لیے محنت اور دماغ غرض سب کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے ۔ پھر تجارت ختم اور کم و بیش ہوتی رہتی ہے لیکن سود مدّت اور مہلت کے ساتھ ساتھ زیادہ ہوتا رہتا ہے ۔ یہاں تک کہ قرضدار کی حالت اکثر اوقات تباہی و بربادی کو پہنچ جاتی ہے ۔ 
سود کی حقیقت پر تھوڑا سا غور کرلیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ کس چیز کا معاوضہ ہوتا ہے ؟
 سوائے مفت خوری کی بدترین شکل کے آخر یہ اور کیا ہے ؟
 ان تمام خرابیوں کے پیشِ نظر الله تعالی نے انسان کی مصلحت اور بہبود کے لیے سود کو حرام قرار دیا ۔ 
مختصراً اس کی برائیاں یہ ہیں ۔ 
1. سود خور میں سنگدلی پیدا ہو جاتی ہے اس کی حرص بڑھتی ہے ۔
2. بلا مشقت مال ہاتھ آنے سے کاہلی اور سستی پیدا ہوجاتی ہے ۔
3. مفت کا مال خرچ کرنے میں بھی بے اعتدالی آجاتی ہے ۔ اور یہ مال عیاشیوں میں اڑایا جاتا ہے ۔
4. زر پرستی کی عادت پڑھ جاتی ہے ۔ 
5. بخل اور باہمی رقابت جنم لیتی ہے ۔ 
6. قرضدار کی خانہ خرابی اور بے عزتی اس کے سوا ہوتی ہے ۔ 

الله تعالی نے درگزر کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص اس نصیحت اور سود کی حرمت کا حکم سننے کے بعد باز آجائے اس کا پچھلا سود معاف ہوجائے گا ۔ لیکن جو باز نہ آیا وہ ہمیشہ دوزخ میں جلے گا ۔ 
دنیا نے سود کے نام بدل ڈالے ۔ لیکن اس کے نتائج اور خرابیاں کیسے بدل سکتی ہیں۔ ہمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خاص طور پر اس مسئلہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر ہم اس ملک میں سود ختم نہ کر سکے تو ہماری وجہ سے اسلام کے قانون پر حرف آئے گا اور ہم خود بھی اس کی خرابیوں سے نہ بچ سکیں گے ۔
 
( یہ درس قرآن ۱۹۵۵ ء۔  ۱۹۵۶ء میں شروع کی گئی ۔ آج ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی پاکستان میں سودی نظام چل رہا ہے ۔ بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے زندگی کے ہر شعبے میں جاری و ساری ہے ۔ اب تو عام لوگ اسے شک و شبہ سے بھی نہیں دیکھتے اور نہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ سود کے بارے میں الله کریم کے کس قدر سخت احکام ہیں ۔ حالانکہ بہت سے غیر مسلم ممالک اس بات کی حقیقت کو جان چکے ہیں کہ سود ایک لعنت ہے ۔ اور سود کی موجودگی میں غریب لوگوں کی بھلائی  اور فلاح ممکن نہیں ۔ اس لیے وہاں بلا سود بینکاری اور بلا سود قرضوں کے پروگرام شروع کیے جاتے ہیں ۔ ) 
الله کریم اربابِ اختیار کو ھدایت دے ۔ اور ہمیں سود کی لعنت اور اس کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھے ۔ 

سورۃ بقرہ ,آیت 275۔ سود لینا چھوڑ دو ۔

سورۃ بقرہ : 275

سود لینا چھوڑ دو 


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ۔۔۔  اتَّقُوا ۔۔۔  اللَّهَ ۔۔۔ وَذَرُوا ۔۔۔  مَا 
اے ایمان والو ۔۔۔ ڈرو ۔۔ الله ۔۔ اور چھوڑ دو ۔۔ جو 
بَقِيَ ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔ الرِّبَا ۔۔۔ إِن ۔۔۔ كُنتُم ۔۔۔ مُّؤْمِنِينَ
باقی ہے ۔۔۔ سے ۔۔ سود ۔۔ اگر ۔۔ ہو تم ۔۔۔ مؤمن 

فَإِن ۔۔۔  لَّمْ تَفْعَلُوا ۔۔۔ فَأْذَنُوا ۔۔۔ بِحَرْبٍ ۔۔۔ مِّنَ ۔۔۔ اللَّهِ 
پس اگر ۔۔۔ نہ کیا تم نے ۔۔ پس تیار ہوجاؤ ۔۔۔ لڑائی کے لیے ۔۔۔ سے ۔۔ الله 
وَرَسُولِهِ ۔۔۔  وَإِن ۔۔۔ تُبْتُمْ ۔۔۔ فَلَكُمْ ۔۔۔ رُءُوسُ ۔۔۔ أَمْوَالِكُمْ 
اور اس کا رسول ۔۔۔ اور اگر ۔۔ تم توبہ کرو ۔۔ پس تمہارے لیے ۔۔ اصل ۔۔ تمہارا مال 
لَا تَظْلِمُونَ۔ ۔۔۔۔  وَلَا تُظْلَمُونَ
نہ تم ظلم کرو ۔۔۔ اور نہ تم ظلم کیے جاؤ گے 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

اے ایمان والو الله سے ڈرو اور سود چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے اگر تمہیں الله کے فرمانے کا یقین ہے ۔
فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ

پس اگر نہیں چھوڑتے تو تیار ہو جاؤ الله اور اس کے رسول سے لڑنے کو اور اگر توبہ کرتے ہو تو تمہارے واسطے تمہارا اصل مال ہے نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ کوئی تم پر ظلم کرے ۔

مَا بَقِیَ ( جو باقی رہا ) ۔ مطلب یہ کہ اس حکم سے قبل جو سود حاصل کر چکے ہو وہ معاف کیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد سود وصول نہ کرو گے ۔ صرف اصل زر حاصل کر سکو گے ۔ 
حَرْبٌ ( جنگ ) ۔ الله اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے سود خوروں کے خلاف اعلانِ  جنگ کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اسلام کے مخالفین کی فہرست میں شمار کیا جائے ۔ 
رُءُوْسُ اَمْوَالِکُمْ ( تمہارے اصل مال ) ۔ اسے رأس المال اور اصل زر بھی کہا جاتا ہے ۔ 
ان آیات میں مندرجہ ذیل احکام دئیے گئے ہیں ۔ 
1. سود کی ممانعت سے پہلے جو سود لے چکے ہو سو لے چکے لیکن ممانعت کے بعد جو چڑھا وہ چھوڑ دو ۔
2. اگر تم باز نہ آؤ تو تمہارے ساتھ الله و رسول صلی الله علیہ وسلم ویسا ہی سلوک کریں گے جیسا باغیوں اور مرتدوں کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ 
3. اگر ممانعت کے بعد کا چڑھا ہوا سود تم مانگو تو یہ بھی ظلم ہوگا ۔
4. جو سود تم پہلے لے چکے ہو اگر مقروض خواہ اصل دیتے وقت اس سود کی رقم کاٹے تو یہ ظلم ہوگا ۔
5. اگر مقروض مفلس ہو تو اس سے فوری تقاضا نہ کرو بلکہ اسے اتنی دیر تک مہلت دو کہ وہ اصل واپس دینے کے قابل ہو جائے ۔ 
اندازہ کیجیے سود کی ممانعت کس شدت سے کی گئی ہے ۔ اس قدر واضح حکم کے بعد بھی اگر کوئی جواز کی صورتیں نکالے اور سودی لین دین سے باز نہ آئے وہ الله و رسول کا باغی نہیں تو اور کیا ہے ۔

سود اور خیرات کا موازنہ ۔۔۔ بقرہ آیت -276-277

سود اور خیرات کا موازنہ


يَمْحَقُ ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ الرِّبَا ۔۔۔۔۔۔۔  وَيُرْبِي ۔۔۔۔ الصَّدَقَاتِ 

مٹاتا ہے ۔۔۔ الله ۔۔ سود ۔۔۔ اور بڑھاتا ہے ۔۔۔ خیرات 

وَاللَّهُ ۔۔۔ لَا يُحِبُّ ۔۔۔ كُلَّ ۔۔۔ كَفَّارٍ ۔۔۔۔ أَثِيمٍ.  2️⃣7️⃣6️⃣

اور الله ۔۔۔ نہیں پسند کرتا ۔۔۔ ہر ۔۔ ناشکر ۔۔ گنہگار 


إِنَّ ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَعَمِلُوا ۔۔۔ الصَّالِحَاتِ ۔۔۔۔۔۔۔  وَأَقَامُوا 

بے شک ۔۔ جو لوگ ۔۔ ایمان لائے ۔۔ اور عمل کیے ۔۔۔ نیک ۔۔۔ اور قائم رکھی 

الصَّلَاةَ ۔۔۔ وَآتَوُا ۔۔۔ الزَّكَاةَ ۔۔۔ لَهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔  أَجْرُهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔  عِندَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    رَبِّهِمْ 

نماز ۔۔ اور ادا کی ۔۔۔ زکوٰة ۔۔۔ ان کے لیے ۔۔۔ ان کا اجر ۔۔ پاس ۔۔ ان کے رب کے 

وَلَا خَوْفٌ ۔۔۔ عَلَيْهِمْ ۔۔۔ وَلَا ۔۔۔ هُمْ ۔۔۔ يَحْزَنُونَ   2️⃣7️⃣7️⃣

اور نہیں خوف ۔۔۔ ان پر ۔۔۔ اور نہ ۔۔ وہ ۔۔ غمگین ہوں گے 


يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ.    2️⃣7️⃣6️⃣


الله سود کو مٹاتا ہے اور خیرات کو بڑھاتا ہے اور الله کسی ناشکرے گنہگار سے خوش نہیں ۔ 


إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ    2️⃣7️⃣7️⃣


جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل  کیے اور نماز کو قائم رکھا اور زکوٰة دیتے رہے ان کے لیے ان کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور نہ انہیں خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔ 


ان آیات میں الله تعالی نے سود اور خیرات کا موازنہ کرتے ہوئے دونوں کا جدا جدا انجام بتایا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ سود خواہ کتنا ہی بڑھتا چلا جائے اس کا انجام مفلسی اور بربادی ہے ۔ الله تعالی اس میں قطعی طور پر کوئی برکت نہیں ڈالتا ۔ انجام کار ایسی دولت سے خانہ خرابی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ سود خور افراد اور قوموں کا انجام اس کا ثبوت ہے ۔ ان میں باہم خونریزی اور تباہی و بربادی ہی ہوئی ہے ۔ اس کے مقابلے میں الله تعالی صدقات اور خیرات کو بڑھاتا ہے ۔ ان میں برکت ڈالتا ہے ۔ ان کا ثواب کئی گنا زیادہ کر دیتا ہے ۔ خیرات اور صدقات کے نتیجے میں خوشحالی اور فارغ البالی پیدا ہوتی  ہے ۔ 

پھر بیان کیا گیا کہ الله تعالی سود خور کو جو گنہگار بھی ہے اور ناشکرا بھی کبھی پسند نہیں کرتا ۔ وہ گنہگار اس لیے ہے کہ بےبس اور حاجت مند لوگوں پر ظلم کرتا ہے ۔ اور ناشکرا اس لیے ہے کہ الله تعالی نے اسے مال و دولت دیا تھا کہ اسکی راہ میں خرچ کرے ۔ غریبوں مسکینوں میں تقسیم کرے حاجتمنوں کی امداد کرے ۔ لیکن اس کی بجائے وہ بخل سے کام لیتا ہے ۔ روپے کو سمیٹ سمیٹ کر رکھتا ہے بھائیوں کو بھوکوں مرتے ، فاقہ کشی کرتے مفلسی اور بے چارگی میں تڑپتے دیکھتا ہے لیکن اسے ترس نہیں آتا ۔ اس کا دل نہیں پسیجتا ۔ بلکہ وہ ظالم اور سنگدل بن جاتا ہے ۔ لہٰذا اس کے لیے سخت وعید ہے ۔ 

سود خور کے مقابل الله تعالی نے اس ایماندار اور نیک شخص کا اجر بھی بتا دیا ہے جو نماز قائم کرتا ہے  ۔ زکوٰۃ و خیرات دیتا ہے کہ الله تعالی کی طرف سے اسے پورا پورا اجر ملے گا ۔ اسے کبھی ڈر یا خوف کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا نہ وہ کبھی رنجیدہ خاطر ہو گا ۔ الله تعالی ہمیں نیکی کی توفیق دے اور زکوٰة و خیرات کرنے کی طاقت دے ۔ آمین 

درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

محمد رسول الله

مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ  كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ  سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ  الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً  وَ أَجْرًا عَظِيمًا


محمد ﷺ اللہ کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ انکے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلے میں تو سخت ہیں اور آپس میں رحم دل اے دیکھنے والے تو انکو دیکھتا ہے کہ اللہ کے آگے جھکے ہوئے سربسجود ہیں اور اللہ کا فضل اور اسکی خوشنودی طلب کر رہے ہیں۔ کثرت سجود کے اثر سے انکی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں انکے یہی اوصاف تورات میں ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں۔ وہ گویا ایک کھیتی ہیں جس نے پہلے زمین سے اپنی سوئی نکالی پھر اسکو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئ اور لگی کھیتی والوں کو خوش کرنے تاکہ کافروں کا جی جلائے۔ جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے اللہ نے گناہوں کی بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔


الله ۔ا

بینھم ۔ ب

تراھم ۔ ت

مثلھم ۔ث

یعجب ۔ج

الصالحات ۔ح

اخرج ۔خ

السجود ۔ د

الذین ۔ ذ

تراھم ۔ ر

فازرہ ۔ ز

سیماھم ۔ س

اشداء ۔ ش

الصالحات ۔ ص

رضوانا۔ ض 

شطاءہ ۔ ط

فَاستغلظ ۔ ظ 

یعجب ۔ع 

لیغیظ ۔ غ 

الکفار۔ ف 

سوقه۔ ق

کزرع ۔ ک 

علی  ۔ ل 

من ۔ م 

آمنوا  ۔ ن 

رسول ۔ و

معه ۔ ہ

رحماء ۔ ء 

عظیما ۔ ی 


بدعت ۔۔۔ اسم اعظم

میری پیاری دوست آپ جب بھی کوئی ذکر یا دعا پڑھیں تو یہ ضرور معلوم کر لیا کریں کہ آیا وہ نبی کریمﷺ سے ثابت بھی ہے یا کہ نہیں ہے۔ کیونکہ غیر مسنونہ اذکار سے نہ صرف وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ انسان کے اعمال بھی ضائع ہونے کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ یہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے

دین میں نئی نئی بدعتیں ایجاد کرنے کو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ضلالت و گمراہی سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا :

’’ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ ‘‘( سنن أبی داود کتاب السنۃ باب فی لزوم السنۃ ح 4607 )

اور تم نو ایجاد شدہ کاموں سے بچو یقینا ہر نو ایجاد شدہ چیز بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے

آپ نے ان بدعات کو مردود قرار دیتے ہوئے فرمایا :

’’ مَنْ أَحْدَثَ فِى أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَد ٌّ‘‘ ( صحیح مسلم کتاب الأقضیۃ باب نقض الأمور الباطلۃ ورد محدثات الأمور ح 1718 )

جس نے بھی ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے

آپ اپنے ہر خطبہ میں ارشاد فرماتے تھے : 


’’ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ ‘‘ ( صحیح مسلم کتاب الجمعۃ باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ ح 867 )

یقینا بہترین حدیث کتاب اللہ اور بہترین طریقہ محمد صلى اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور بدترین کام اس (دین محمدی صلى اللہ علیہ وسلم ) میں نو ایجاد شدہ کام ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے 

مگر افسوس کہ آج ہمارے اس دور میں بدعات و خرافات کا ایک طوفان امڈا نظر آتا ہے ہر نیا دن نئے فتنے کو جنم دینے والا اور نیا سال نئی بدعت کو فروغ دینے والا ثابت ہوتا ہے ۔ امت مسلمہ خرافات وبدعات میں ایسی کھوئی ہے کہ سنت وسیرت کو بھول چکی ہے ۔ اب بدعت ہی لوگوں کا دین بن چکا ہے , خرافات انکی عبادات بن گئی ہیں , اللہ اور اسکے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولیاں ان کے لیے اطاعات کا درجہ رکھتی ہیں ۔ اور ستم بالائے ستم کہ یہ سب
 کچھ فضیلتوں کے لباس میں ملبوس نظر آتا ہے , اور ناصح اگر کوئی اٹھے اور ان کی چیرہ دستیوں کی نقاب کشائی کرنا چاہے تو رجعت پسند , بنیاد پرست اور دقیانوس کے القاب سے ملقب ہو جاتا ہے

پیارے نبی کے بتائے ہوئے مسنون اعمال اس قدر زیادہ ہیں الحمدللہ  ثم الحمدللہ  کہ  ہمیں غیر مسنون کیطرف جانے کی ضرورت ہی نہیں بہت پیاری سی دعوت ہے ہماری سب اختلافات کو مٹا دینے والی تنقید تو ہے ہی نہیں جو سنت کی طرف بلائے وہ تنقید کیسے کر سکتا ہے مجھے بتائیں اور کھلے دل سے سوچیے گا ضرور

ہماری نبی سے محبت کا زبان سے کہنے کے ساتھ ساتھ عمل سے بھی اس کا اظہار ہونا چاہیے کہ بس وہی چیز اپنائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے

لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ 🌹🌹🌹🌹

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

Sahih Bukhari Hadees # 441

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: ""جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ: أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ؟ قَالَتْ: كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِنْسَانٍ: انْظُرْ أَيْنَ هُوَ، فَجَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ وَأَصَابَهُ تُرَابٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُهُ عَنْهُ، وَيَقُولُ: قُمْ أَبَا تُرَابٍ، قُمْ أَبَا تُرَاب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ گھر میں موجود نہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میرے اور ان کے درمیان کچھ ناگواری پیش آ گئی اور وہ مجھ پر خفا ہو کر کہیں باہر چلے گئے ہیں اور میرے یہاں قیلولہ بھی نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہا کہ علی رضی اللہ عنہ کو تلاش کرو کہ کہاں ہیں؟ وہ آئے اور بتایا کہ مسجد میں سوئے ہوئے ہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ علی رضی اللہ عنہ لیٹے ہوئے تھے، چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو سے گر گئی تھی اور جسم پر مٹی لگ گئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جسم سے دھول جھاڑ رہے تھے اور فرما رہے تھے اٹھو ابوتراب اٹھو

Sahih Hadees





 ان تمام مسائل  کے حل کے لیے میرا خیال اس کو اللہ کا قرب حاصل کرنے کی ضرورت ہے  خود پر توجہ دینے کی ضرورت ہے

فرائض میں…

پانچ وقت کی نماز اول وقت پر خشوع خضوع سے سنت کے مطابق

قران کی کثرت سے تلاوت

  صبح و شام کے اذکار

اٹھتے بیٹھے چلتے پھرتے اللہ کا ذکر۔۔۔

نفلی عبادات…

تہجد

صوم

صدقہ

کثرت سے استغفار

اللہ نے کہا تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کرونگا (سورۃ البقرۃ )

اور ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ اے ابن آدم میری عبادت کے لیے خود کو فارغ کر (سبحان اللہ)

تو کیا دنیا کے جھمیلوں سے ہم کچھ وقت نہیں نکال سکتے جس میں ہم بس اللہ کو ہی یاد کریں  وہ وقت ہمارا اور ہمارے اللہ کا ہو  .....؟؟؟؟

Surat No Talaq : Ayat No 2
وَ  مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ  یَجۡعَلۡ لَّہٗ  مَخۡرَجًا ۙ﴿۲﴾

اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے

Surat No Talaq : Ayat No 3

وَّ یَرۡزُقۡہُ  مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ ؕ وَ مَنۡ  یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ  فَہُوَ حَسۡبُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ  بَالِغُ  اَمۡرِہٖ ؕ قَدۡ جَعَلَ اللّٰہُ  لِکُلِّ شَیۡءٍ  قَدۡرًا ﴿۳﴾

اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا ۔  اللہ تعالٰی اپنا کام پورا کر کے ہی رہے گا  اللہ تعالٰی نے ہرچیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے

Surat No Nooh : Ayat No 10

فَقُلۡتُ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا ﴿ۙ۱۰﴾

اور میں نے کہا کہ اپنے رب سے اپنے گناہ بخشواؤ   ( اور معافی مانگو )  وہ یقیناً بڑا بخشنے والا ہے

Surat No Noon : Ayat No 11

یُّرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَیۡکُمۡ  مِّدۡرَارًا ﴿ۙ۱۱﴾

وہ تم پر آسمان کو خوب برستا ہوا چھوڑ دے گا

Surat No Nooh : Ayat No 12

وَّ یُمۡدِدۡکُمۡ  بِاَمۡوَالٍ وَّ بَنِیۡنَ وَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ  جَنّٰتٍ وَّ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ  اَنۡہٰرًا ﴿ؕ۱۲﴾

اور تمہیں خوب پے درپے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہیں باغات دے گا اور تمہارے لئے نہریں نکال دے گا


#اسم_اعظم_ 

 Jam e Tirmazi Hadees # 3475 

حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِمْرَانَ الثَّعْلَبِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَدْعُو وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ، قَالَ: فَقَالَ:    وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ سَأَلَ اللَّهَ بِاسْمِهِ الْأَعْظَمِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ وَإِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى   ، قَالَ زَيْدٌ: فَذَكَرْتُهُ لِزُهَيْرِ بْنِ مُعَاوِيَةَ بَعْدَ ذَلِكَ بِسِنِينَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاق، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، قَالَ زَيْدٌ: ثُمَّ ذَكَرْتُهُ لِسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، فَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى شَرِيكٌ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، وَإِنَّمَا أَخَذَهُ أَبُو إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ان کلمات کے ساتھ: «اللهم إني أسألك بأني أشهد أنك أنت الله لا إله إلا أنت الأحد الصمد الذي لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحد» ”اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں بایں طور کہ میں تجھے گواہ بناتا ہوں اس بات پر کہ تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، تو اکیلا  ( معبود )  ہے تو بے نیاز ہے،  ( تو کسی کا محتاج نہیں تیرے سب محتاج ہیں ) ،  ( تو ایسا بے نیاز ہے )  جس نے نہ کسی کو جنا ہے اور نہ ہی کسی نے اسے جنا ہے، اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہوا ہے“، دعا کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: ”قسم ہے اس رب کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! اس شخص نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم کے وسیلے سے مانگا ہے کہ جب بھی اس کے ذریعہ دعا کی گئی ہے اس نے وہ دعا قبول کی ہے، اور جب بھی اس کے ذریعہ کوئی چیز مانگی گئی ہے اس نے دی ہے


 Jam e Tirmazi Hadees # 3478 

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ الْقَدَّاحِ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:    اسْمُ اللَّهِ الْأَعْظَمُ فِي هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ: وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ سورة البقرة آية 163 وَفَاتِحَةِ آلِ عِمْرَانَ: الم 1 اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ 2 سورة آل عمران آية 1-2   . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے  ( ایک آیت )  «وإلهكم إله واحد لا إله إلا هو الرحمن الرحيم» ”تم سب کا معبود ایک ہی معبود برحق ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ رحمن، رحیم ہے“  ( البقرہ: ۱۶۳ ) ، اور  ( دوسری آیت )  آل عمران کی شروع کی آیت «الم الله لا إله إلا هو الحي القيوم» ہے ” «الم»، اللہ تعالیٰ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، جو «حی» زندہ اور «قیوم» سب کا نگہبان ہے“  ( آل عمران: ۱-۲ )  ۔ 
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


 Jam e Tirmazi Hadees # 3544 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الثَّلْجِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَغْدَادَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ صَاحِبُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَرْبِيٍّ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، وَثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ، وَرَجُلٌ قَدْ صَلَّى وَهُوَ يَدْعُو وَيَقُولُ فِي دُعَائِهِ: اللَّهُمَّ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:    أَتَدْرُونَ بِمَ دَعَا اللَّهَ ؟ دَعَا اللَّهَ بِاسْمِهِ الْأَعْظَمِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ وَإِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى   . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ثَابِتٍ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، عَنْ أَنَسٍ

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں آئے، ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا اور دعا مانگتے ہوئے وہ اپنی دعا میں کہہ رہا تھا: «اللهم لا إله إلا أنت المنان بديع السموات والأرض ذا الجلال والإكرام» ”اے اللہ! تیرے سوا کوئی اور معبود برحق نہیں ہے، تو ہی احسان کرنے والا ہے تو ہی آسمانوں اور زمین کا بنانے و پیدا کرنے والا ہے، اے بڑائی والے اور کرم کرنے والے  ( میری دعا قبول فرما ) “، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو اس نے کس چیز سے دعا کی ہے؟ اس نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم کے ذریعہ دعا کی ہے کہ جب بھی اس کے ذریعہ دعا کی جائے گی اللہ اسے قبول کر لے گا، اور جب بھی اس کے ذریعہ کوئی چیز مانگی جائے گی اسے عطا فرما دے گا“۔


 Sunnan e Ibn e Maja Hadees # 3856 

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَلَاءِ، عَنْ الْقَاسِمِ، قَالَ:  اسْمُ اللَّهِ الْأَعْظَمُ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ فِي سُوَرٍ ثَلَاثٍ: الْبَقَرَةِ، وَآلِ عِمْرَانَ، وَطه

 اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم جس کے ذریعہ اگر دعا کی جائے تو قبول ہوتی ہے تین سورتوں میں ہے: سورۃ البقرہ، سورۃ آل عمران اور سورۃ طہٰ


❤️ اسما النبی الطاھر المطھر سیدنا و مولانا محمد صلی الله علیہ وسلم ❤️*

💚 محمد صلی الله علیہ وسلم 

💙 احمد صلی الله علیہ وسلم 

💛 حامد صلی الله علیہ وسلم 

💜 محمود صلی الله علیہ وسلم 

❤️ قاسم صلی الله علیہ وسلم 

💛 عاقب صلی الله علیہ وسلم 

💚 فاتح صلی الله علیہ وسلم 

💙 شاھد صلی الله علیہ وسلم 

💜حاشر صلی الله علیہ وسلم 

❤️رشید صلی الله علیہ وسلم 

💛محمود صلی الله علیہ وسلم 

💚بشیر صلی الله علیہ وسلم 

💙نذیر صلی الله علیہ وسلم 

💜داع صلی الله علیہ وسلم 

❤️ شافع صلی الله علیہ وسلم 

💛 ھاد  صلی الله علیہ وسلم 

💚مہد صلی الله علیہ وسلم 

 💙ماح صلی الله علیہ وسلم 

💜 منج صلی الله علیہ وسلم 

❤️ ناد صلی الله علیہ وسلم 

💛 رسول صلی الله علیہ وسلم 

💚 نبی صلی الله علیہ وسلم 

💙 اُمی صلی الله علیہ وسلم 

💜 تہامی صلی الله علیہ وسلم 

❤️ ھاشمی صلی الله علیہ وسلم 

💛 ابطحی صلی الله علیہ وسلم 

💚 عزیزصلی الله علیہ وسلم 

💙 حریص علیکم صلی الله علیہ وسلم 

💜 رؤف صلی الله علیہ وسلم 

❤️ رحیم صلی الله علیہ وسلم 

💛 طٰہٰ صلی الله علیہ وسلم 

💚 مجتبی صلی الله علیہ وسلم 

💙 طٰس  صلی الله علیہ وسلم 

💜 مرتضیٰ صلی الله علیہ وسلم 

❤️ مصطفٰی صلی الله علیہ وسلم 

💛 حٰم صلی الله علیہ وسلم 

💚 یٰس صلی الله علیہ وسلم 

💙 اولٰی صلی الله علیہ وسلم 

💜 مزمّل صلی الله علیہ وسلم 

❤️ ولی صلی الله علیہ وسلم 

💛 مدثر صلی الله علیہ وسلم 

💚 متین صلی الله علیہ وسلم 

💙 مصدق صلی الله علیہ وسلم 

💜 طیب صلی الله علیہ وسلم 

❤️ ناصر صلی الله علیہ وسلم 

💛 منصور صلی الله علیہ وسلم 

💚 مصباح صلی الله علیہ وسلم 

💙 آمر صلی الله علیہ وسلم 

💜 حجازی صلی الله علیہ وسلم 

❤️ ترازی صلی الله علیہ وسلم 

💛 قرشی صلی الله علیہ وسلم 

💚 مضری صلی الله علیہ وسلم 

❤️نبی الثوبہ صلی الله علیہ وسلم 

💙 حافظ صلی الله علیہ وسلم 

💛 کامل صلی الله علیہ وسلم 

💚 صادق صلی الله علیہ وسلم 

💙 امین صلی الله علیہ وسلم 

💜عبد الله صلی الله علیہ وسلم 

❤️ کلیم الله صلی الله علیہ وسلم 

 💛نجی الله صلی الله علیہ وسلم 

💚 صفی الله صلی الله علیہ وسلم 

💙 خاتم النبیاء صلی الله علیہ وسلم 

💜 حسیب صلی الله علیہ وسلم 

❤️ مجیب صلی الله علیہ وسلم 

💛 شکور صلی الله علیہ وسلم 

💚 مقتصد صلی الله علیہ وسلم 

💙 رسول الرحمہ صلی الله علیہ وسلم 

💜 قوی صلی الله علیہ وسلم 

❤️ خفی صلی الله علیہ وسلم 

💛 مأمون صلی الله علیہ وسلم 

💚 معلوم صلی الله علیہ وسلم 

💙 حق صلی الله علیہ وسلم 

💜 مبین صلی الله علیہ وسلم 

❤️ مطیع صلی الله علیہ وسلم 

💛 اوّل صلی الله علیہ وسلم 

💚 آخر صلی الله علیہ وسلم 

💙 ظاہر صلی الله علیہ وسلم 

💜 باطن صلی الله علیہ وسلم 

❤️ یتیم صلی الله علیہ وسلم 

💛 حکیم صلی الله علیہ وسلم 

💚 کریم صلی الله علیہ وسلم 

💙 سید صلی الله علیہ وسلم 

💜 سراج صلی الله علیہ وسلم 

❤️ منیر صلی الله علیہ وسلم 

💛 محرم صلی الله علیہ وسلم 

💙 مکرم صلی الله علیہ وسلم 

💚 مبشر صلی الله علیہ وسلم 

💜 مذکر صلی الله علیہ وسلم 

❤️ مظہر صلی الله علیہ وسلم 

💛 قریب صلی الله علیہ وسلم 

💚 خلیل صلی الله علیہ وسلم 

💙 مدعو صلی الله علیہ وسلم 

💜 جواد صلی الله علیہ وسلم 

❤️ خاتم صلی الله علیہ وسلم 

💚 عادل صلی الله علیہ وسلم 

💛 شہیر صلی الله علیہ وسلم 

💙 شھید صلی الله علیہ وسلم 

💜 رسول الملاحم صلی الله علیہ وسلم


#عم_یتساءلون #سورۃ_النبإ آیة:37





رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمٰنِ لَا يَمْلِكُوْنَ مِنْهُ خِطَابًا (37)


اسی پروردگار کی طرف سے جو سارے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان ہر چیز کا مالک، بہت مہربان ہے۔ کسی کی مجال نہیں ہے کہ اس کے سامنے بول سکے۔

۔۔۔۔۔۔ 

جنت کے تمام انعامات اس کی طرف سے ہیں جو زمین اور آسمان کا رب ہے اور جو کچھ بھی ان دونوں کے درمیان ہے۔ رب جو ہر چیز کی پرورش کرکے اسے ترقی دے کر درجۂ کمال تک پہنچا دیتا ہے اور دوسری صفت رحمان جس کی رحمت کا کوئی حساب اور کوئی شمار نہیں۔ کسی کویہ حق حاصل نہیں کہ وہ کہہ سکے مجھے یہ نعمت کیوں نہیں ملی اور کسی دوسرے کو کوئی نعمت کیوں دی گئی۔ 

الله تعالی جس کو جو درجہ عطا کریں گے اس میں کسی کو بات کرنے یا اعتراض کرنے کا حق حاصل نہ ہوگا اور نہ کسی قسم کی گفتگو کرنے کی مجال ہوگی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ حشر کے دن کسی کو بغیر الله جل جلالہ کی اجازت کے بات کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ البتہ یہ اجازت محشر کے بعض مقامات میں ہوگی اور بعض میں نہیں ہوگی۔ 


اہم بات : حروف منہ کے مختلف حصوں سے ادا ہوتے ہیں۔ 

کچھ حروف گلے یعنی حلق  سے نکلتے ہیں ۔ یہ چھ حروف ہیں۔ 

ء، ھ، ع، ح، غ، خ 

ء، ھ:  حلق کے اوپر والے، یعنی زبان کی طرف والے حصے سے ادا ہوتے ہیں۔ 

ع، ح : حلق کے درمیان والے حصے سے ۔

اور 

غ، خ: حلق   کے نچلے یعنی سینے کی طرف والے حصے سے نکلتے ہیں۔

ان چھ حروف کو حروفِ حلقی  کہتے ہیں۔

حروف کی صحیح جگہ سے ادائیگی کا طریقہ کیسے جانا  جائے؟ 

اس کے لیے حرف کو ساکن کرکے اس سے پہلے ہمزہ متحرک لگا کر پڑھیں ۔ جیسے : 

اَءࣿ، اَھࣿ

اَعࣿ ، اَح 

اَخࣿ ، اَغْ


نوٹ: نام اور حوالے کے  بغیر پوسٹ کاپی و شئیر کرنا منع ہے۔

نزہت وسیم

#عم_یتساءلون #سورۃ_النبإ آیة:36



جَزَاءً مِّن رَّبِّكَ عَطَاءً حِسَابًا ﴿36)


یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے صلہ ہوگا۔ (اللہ کی) ایسی دین ہوگی جو لوگوں کے اعمال کے حساب سے دی جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنت کی یہ نعمتیں مؤمنین ، متقین کے لیے ان کے رب کی طرف سے ان کے اعمال کا بدلہ اور بے بہا انعام ہوگا ۔ جنت میں ان کو جو کچھ ملے گا وہ بظاہر ان کے اعمال کا بدلہ ہوگا لیکن حقیقت میں عطائے الٰہی ہوگی؛ چنانچہ اس کے بعد بندوں کی کوئی تمنا و آرزو باقی نہ رہے گی۔ 


حسابا کے دومعنی ہو سکتے ہیں۔ 


حسابا کافیا:  یعنی ایسے انعامات جو ان کی تمام ضرورتوں اور خواہشوں کے لیے کافی ہو جائیں۔

حساب کا دوسرا معنی مقابلے کا بھی ہے۔ یعنی جیسا ان کا اخلاص تھا بدلے میں اتنا ہی بڑا انعام دیا جائے گا۔ جیسا کہ صحابہ کے اعمال کا بدلہ اور سابقون الاولون کے ایمان کے برابر کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ 


سوال : ان نعمتوں کو پہلے اعمال کی جزاء کہا گیا پھر عطائے ربانی ، بظاہر یہ دونوں باتیں مختلف ہیں کیونکہ جزا کا مطلب بدلہ ہے اور عطاء وہ ہے جو انعام میں دی جائے؟ 


جواب: 

الله تعالی نے ان دونوں لفظوں کو اکٹھا بیان کرکے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بخشش اورجنت کی نعمتیں بظاہر اہل جنت کے اعمال کا بدلہ ہیں لیکن اصل میں  خالص الله سبحانہ تعالی کا انعام  ہیں؛ کیونکہ جو نعمتیں دنیا میں دی گئیں ہیں، انسان کے بہترین اعمال بھی اس کا شکرانہ ادا نہیں کر سکتے۔ جنت کے انعامات تو محض الله کا فضل و انعام اور خاص عطا ہے۔ 

جیسا کہ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ کوئی شخص اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک الله تعالی کا فضل نہ ہو۔


اہم بات: جب الف کے اوپر  کوئی حرکت یعنی زیر، زبر، پیش یا جزم نہ ہو تو اسے الف کہتے ہیں۔ 

لیکن 

جب  الف پر زیر، زبر، پیش  یا جزم  وغیرہ ہو تو وہ ہمزہ کہلاتا ہے۔


نوٹ: نام اور حوالے کے  بغیر پوسٹ کاپی و شئیر کرنا منع ہے۔

نزہت وسیم

#عم_یتساءلون #سورۃ_النبإ آیات:31,32,33,34,35

 


ربط آیات:

پچھلی آیات میں طاغین یعنی سرکش و نافرمان لوگوں کے انجام اور سزا کا ذکر تھا اب اس کے مقابل مؤمنین متقین کے لیے ثواب اور جنت کے انعامات کا ذکر ہے۔ 


 اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ مَفَازًا (31)


 جن لوگوں نے تقوی اختیار کیا تھا، ان کی بیشک بڑی جیت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

متقین کے لیے وہاں جسمانی اور روحانی ہر طرح کی کامیابی ہوگی۔ ان کو عذاب سے نجات ملنے کے ساتھ ساتھ جنت کے بے بہا انعامات ملیں گے۔ 


حَدَاۗئِقَ وَاَعْنَابًا (32)


 باغات اور انگور۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوگوں کی چند پسندیدہ چیزوں کا ذکر خصوصیت سے کیا گیا ہے۔ مثلا حدائق یعنی باغات جو کھانے اور سیر کرنے کے لیے ہر قسم کے پھلوں اور میووں سے لدے ہوں گے۔ اعناب یعنی انگوروں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ غذا کا کام بھی دیتے ہیں اور اس کی بیلوں کا سایہ گھنا اور پر لطف ہوتا ہے، جس سے باغات کی رونق  دوبالا ہو جاتی ہے۔ 


وَّكَوَاعِبَ اَتْرَابًا(33)


اور نو خیز ہم عمر لڑکیاں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر ہم عمر ہم نشینوں کا ساتھ بھی میسر ہوگا اور عمر کی مناسبت سے ان کی لذتیں کمال کو پہنچ رہی ہوں گی۔ 


وَّكَاْسًا دِهَاقًا (34)


 اور چھلکتے ہوئے پیمانے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چھلکتے ہوئے جام ہوں گے جن سے لطف و سرور میں ہر وقت تازگی رہے گی۔


 لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا وَّلَا كِذّٰبًا (35)


وہاں پر وہ نہ کوئی بےہودہ بات سنیں گے، اور نہ کوئی جھوٹی بات۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھرے ہوئے پیالے دنیا کی خرابیوں سے پاک ہوں گے۔ نہ ان سے بے ہوشی طاری ہوگی ، نہ نیند ، نہ سردرد اور نہ مار پیٹ، جنت کا سرور دنیاوی شرور سے پاک ہو گا۔  جنتی جام کے جام چڑھا کر بھی نہ تو بے ہودہ باتیں کریں گے، نہ جھوٹ بولیں گے، نہ ہی ان کی عقل میں کوئی فتور آئے گا۔ 

جنت کی نعمتوں کو دنیا کی چیزوں جیسا سمجھنا اور ناموں کا ملتا جلتا ہونے کی وجہ سے ان کا مذاق بنانا کم عقلی اور بد دماغی ہے۔ یہ مثالیں صرف سمجھانے اور رغبت دلانے کے لیے بیان کی جاتی ہیں ورنہ جنت کی کسی معمولی سی چیز کا دنیا کی اعلی ترین چیز سے بھی کوئی مقابلہ نہیں۔


اہم بات: دو زبر ، دو زیر، دو پیش کو تنوین کہتے ہیں ۔ جس حرف پر تنوین ہو اس کی ادائیگی کرتے ہوئے آخر  میں نون ساکن کی آواز آتی ہے۔  اس لیے دو زبر، دو زیر اور دو پیش کو نون تنوین بھی کہا جاتا ہے۔

جیسے: 

مَفَازًا =    ادائیگی کا طریقہ۔  مَفَازَنْ ۔ 

 اَعْنَابًا= ادائیگی کا طریقہ۔  اَعࣿنَابَنࣿ۔

وغیرہ

نوٹ: نام اور حوالے کے  بغیر پوسٹ کاپی و شئیر کرنا منع ہے۔

نزہت وسیم

#عم_یتساءلون #سورۃ_النبإ آیات:27,28,29,30



اِنَّهُمْ كَانُوْا لَا يَرْجُوْنَ حِسَابًا    (27


وہ (اپنے اعمال کے) حساب کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ان آیات میں جزا اور سزا کے سبب کو بیان کیا گیا ہے۔ انہیں یہ سزا اس لیے دی جائے گی کیونکہ انہیں حساب و کتاب پر یقین ہی نہیں تھا اور نہ انہیں اس بات کا کوئی ڈر تھا کہ ان کے اعمال کا محاسبہ بھی ہوگا۔ یہی وجہ ہے یہ کافر و مشرک دنیا میں بے دھڑک الله کی مقرر کردہ حدوں کو توڑتے رہے۔ نہ تو موت کے بعد زندہ ہونے پر یقین رکھتے تھے، نہ محاسبے اور جزا و سزا پر۔ چنانچہ ان کی زندگیاں الله کی نافرمانیوں اور حکم عدولیوں سے بھر گئیں، اب انہیں اسی کی سزا مل رہی ہے۔ 


وَّكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا كِذَّابًا  (28)


 اور انہوں نے ہماری آیتوں کو بڑھ چڑھ کر جھٹلایا تھا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آیات سے مراد ہر قسم کی نشانیاں ہیں خواہ قرآن مجید کی آیات ہوں یا قدرت کی نشانیاں یا دلائل توحید و رسالت یہ کفار و مشرکین ہر قسم کی نشانیوں کو جھوٹ سمجھ کر جھٹلاتے تھے اور خوب جھٹلاتے رہے۔ فساد میں حد سے بڑھ کر واضح حق کا انکار کیا اور باطل پر اڑے رہے۔ 


وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ كِتٰبًا۔ (29)


اور ہم نے ہر ہر چیز کو لکھ کر محفوظ کر رکھا ہے۔


فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِيْدَكُمْ اِلَّا عَذَابًا  (30)


اب مزہ چکھو ! اس لئے کہ ہم تمہارے لیے سزا کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہیں کریں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله تعالی فرماتے ہیں ہم نے ہر چیز کو لوحِ محفوظ یا اعمالنامے میں لکھ رکھا ہے اس لیے ہمیں ان کے ہر عمل کی خبر ہے۔ لہذا ہم ان کو ان کے اعمال کی پوری پوری سزا دیں گے اور ہم ان سے کہیں گے اپنے برے اعمال کا مزہ چکھو۔ اے سرکشو! ہم تمہارا عذاب بڑھاتے ہی رہیں گے۔ اس میں کمی نہیں کریں گے۔ جہنمیوں کے حق میں یہ آیت قرآن مجید کی تمام آیات سے سخت ہے۔ (مظہری)

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں