سورة کہف روابط و خلاصہ مضامین

 روابط سورة کہف

سورة الفاتحہ کی تفسیر میں گزر چکا ہے کہ مضامین کے اعتبار سے قران مجید چار حصوں پر مشتمل ہے اور ہر حصہ “الحمد“ سے شروع ہوتا ہے۔
سورة الکہف کی “الحمد“ سے تیسرا حصہ شروع ہوتا ہے۔ الله سبحانہ و تعالی کی خالقیت اور  ربوبیت کے بعد اس حصے سے اس کی حاکمیت کا بیان ہے۔ یعنی خالق و مالک ہونے کے ساتھ وہ الله ہی حاکم اعلی ہے۔ ہر طرح کے اختیارات اسی کے قبضہ میں ہیں اور اس نے اپنے اختیارات میں سے کوئی اختیار کسی نبی ،ولی ، جن یا پیغمبر کے حوالے نہیں کیا۔
ربط معنوی:
مشرکین نے مسئلہ توحید کا انکار کرنے کے بعد نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دو مطالبے رکھ دئیے۔
مطالبہ اوّل: 

فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ

یعنی جس عذاب سے آپ ہمیں ڈراتے ہیں اگر آپ سچے ہیں تو وہ عذاب ہم پر لے آئیں۔
مطالبہ ثانی: 

وَقَالُوْا لَوْلَا یَاْتِیْنَا بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ ط

یعنی اپنی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے آپ ہمیں کوئی معجزہ دکھائیں۔
جواب مطالبہ اوّل: 
سورة النحل کی ابتدا میں الله تعالی نے فرمایا: 

أَتَى أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ

یعنی الله کا عذاب آکر رہے گا تم اس کی آمد کا مطالبہ نہ کرو۔اس کے ساتھ یہ بھی واضح کر دیا کہ جس مسئلہ توحید کا تم انکار کر رہے ہو وہ اس قدر اہم اور ضروری ہےکہ اس کی خاطر تمام انبیاء علیھم السلام دنیا میں بھیجے گئے۔

يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ ﴿٢

وہی فرشتوں کو اپنی وحی دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اتارتا ہے کہ تم لوگوں کو آگاه کر دو کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں، پس تم مجھ سے ڈرو (2)النحل
مشرکینِ مکہ کے مطالبہ عذاب کو الله تعالی نے ان پر قحط کا عذاب مسلط کرکے پورا کر دیا۔چنانچہ سورة کے پندرھویں رکوع میں ارشاد ہے:

وَضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّـهِ فَأَذَاقَهَا اللَّـهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ﴿١١٢
 
اللہ تعالیٰ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن واطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس بافراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی۔ پھر اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزه چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا (112) النحل
جواب مطالبہ ثانی:
مشرکینِ مکہ کے دوسرے مطالبے کا جواب الله تعالی نے سورۃ بنی اسرائیل میں دیا: 

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴿١

پاک ہے وه اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے واﻻ ہے۔

ربط ثالث
جس مسئلہ  توحید کو سورۃ النحل کی ابتدا میں ذکر کیا گیا اس کا ذکر سورة بنی اسرائیل میں ایک دوسرے انداز میں کیا گیا۔

قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ ۖأَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا ﴿١١٠

کہہ دیجئیے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں۔ نہ تو تو اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھ اور نہ بالکل پوشیده بلکہ اس کے درمیان کا راستہ تلاش کرلے۔

یعنی الله تعالی کی بے شمار اعلی صفات ہیں تم اس کو خواہ کسی صفت سے پکارو تمہیں اختیار ہے مگر صرف اسی کو پکارو، اس کے سوا کسی اور کو مت پکارو۔
اس کے بعد فرمایا: 

وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا ﴿١١١

اور یہ کہہ دیجیئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو نہ اوﻻد رکھتا ہے نہ اپنی بادشاہت میں کسی کو شریک وساجھی رکھتا ہے اور نہ وه کمزور ہے کہ اسے کسی حمایتی کی ضرورت ہو اور تو اس کی پوری پوری بڑائی بیان کرتا ره

یہ ماقبل کے لیے بمنزلہ دلیل ہے، یعنی تمام صفاتِ کارسازی الله تعالی کے لیے مختص ہیں جس کا کوئی نائب اور شریک نہیں اور نہ کوئی اس کا مددگار ہے۔

اب سورة کہف کے شروع میں فرمایا: 

الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا ۜ﴿١

تمام تعریفیں اسی اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن اتارا اور اس میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔

اس میں الحمد لله دعوی ہے یعنی تمام صفاتِ کارسازی صرف الله تعالی کے لیے خاص ہیں۔ اس کے بعد دعوی توحید پر دلائل مذکور ہیں۔ 
خلاصہ مضامین سورة کہف
انبیاء، اولیا، ملائکہ و جنات کے متعلق مشرکین بعض الجھنوں میں مبتلا تھے، جن کی وجہ سے وہ انہیں عالم الغیب، مالک و متصرف اور کارساز سمجھتے تھے۔ اس سورة میں مشرکین کے چار شبھات کا ازالہ کیا گیا ہے۔
پہلا شبہ  : 
اصحاب کہف جو رئیسوں کے بیٹے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ بادشاہ کے غلاموں کے بیٹے تھے تین سو نو سال تک غار میں صحیح سلامت پڑے رہے، اتنے لمبے عرصے میں انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچی، یہاں تک کہ اس دوران وہ دھوپ کی تپش سے بھی محفوظ رہے۔ اس سے مشرکین کو شبہ ہوا کہ وہ مافوق الاسباب قدرت و طاقت کے مالک تھے۔ اس لیے انہوں نے اصحاب کہف کی نذریں ، نیازیں دینا شروع کردیں، چنانچہ وہ سات روٹیاں اصحابِ کہف کے نام کی اور آٹھویں ان کے کتے کے نام کی دینے لگے۔

جواب شبہ : 
شبہ اولی کا مختصر جواب دیا گیا کہ اصحابِ کہف کا واقعہ ہماری قدرت کے نشانات میں سے ہے اس میں اصحاب کہف کے اپنے تصرف و اختیار کا کوئی دخل نہیں۔ مشرک بادشاہ دقیانوس سے بھاگ کر انہوں نے ایک غار میں چھپ کر اپنی جان بچائی اور وہاں انہوں نے الله تعالی سے رحمت اور معاملے کی درستی کی دعا مانگی۔ ہم نے غار میں انہیں مدتِ دراز تک سُلا دیا، پھر انہیں بیدار کیا۔ یہ تمام باتیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ اصحاب کہف متصرف و مختار نہ تھے بلکہ الله تعالی کے مواحد اور عاجز بندے تھے۔

دوسرا شبہ: 
کچھ لوگ بعض حالات میں جنوں سے مدد طلب کرتے اور ان کو پکارتے تھے۔ تمام کام تو الله کے حکم سے ہوتے مگر وہ سمجھتے تھے کہ ان کے کام جنوں نے کیے ہیں۔ 

جوابِ شبہ: 

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ۗأَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا ﴿٥٠﴾ 

اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجده کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجده کیا، یہ جنوں میں سے تھا، اس نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی، کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اوﻻد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنا رہے ہو؟ حاﻻنکہ وه تم سب کا دشمن ہے۔ ایسے ﻇالموں کا کیا ہی برا بدل ہے۔

یعنی جو لوگ جنوں اور اولیاء الله کو متصرف اور کارساز مان کر انہیں حاجات اور مشکلات میں پکارتے ہیں اور ان کے نام کی نذر و نیاز دیتے ہیں۔ ان کی قبروں اور مقبروں سے گھاس نہیں اکھاڑتے اس ڈر سے کہ وہ نقصان پہنچائیں گے در حقیقت یہ لوگ شیطان اور جنوں کو پکارتے ہیں۔ حالانکہ شیطان اور جن کس طرح ان کے دوست، کارساز اور مدد گار ہو سکتے ہیں۔

تیسرا شبہ: 
شبہ یہ تھا کہ موسی علیہ السلام اور خضر کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ موسی علیہ السلام تو غیب دان نہیں تھے لیکن خضر غیب جانتے تھے کیونکہ انہوں نے موسی علیہ السلام سے بہت سے غیبی امور بیان کیے تھے۔

جواب شبہ: 
آیات : ۴۰ تا ۸۲ سے اس شبہ کا جواب دیا کہ حضرت خضر علیہ السلام غیب دان اور متصرف نہ تھے انہوں نے جو کچھ کیا یا جو کچھ موسی علیہ السلام کو بتایا وہ سب الله تعالی کے حکم اور اس کی تعلیم سے بتایا تھا۔ 

چوتھا شبہ: 
یہود میں ذوالقرنین کے متعلق مشہور تھا کہ الله نے انہیں بہت طاقت و قدرت دی تھی۔ وہ بھی کارساز اور متصرف ہیں۔

جواب شبہ 
آیات: ۸۳ سے ۹۷ 
ذوالقرنین کو اگرچہ بقدر ضرورت ظاہری اسباب دئیے گئے تھے مگر مافوق الاسباب امور میں سے کسی ایک پر بھی ان کو قدرت نہیں دی گئی، پھر ظاہری اسباب کے اعتبار سے بھی وہ ہر طرف سے عاجز تھے۔ مشرق میں گرمی کی وجہ سے، مغرب میں دلدل کی وجہ سے، شمال میں یاجوج ماجوج کی وجہ سے۔

چاروں شبھات کا جواب دینے کے بعد آخری آیات کو لف و نشر کے طور پر چاروں جوابات پر متفرع کیا گیا ہے۔ یعنی الله تعالی کے نیک بندے غیب دان اور کارساز نہیں تو جنات میں یہ صفت کیسے ہو سکتی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں