نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

#عم_یتساءلون #سورۃ_النبإ آیات:31,32,33,34,35

 


ربط آیات:

پچھلی آیات میں طاغین یعنی سرکش و نافرمان لوگوں کے انجام اور سزا کا ذکر تھا اب اس کے مقابل مؤمنین متقین کے لیے ثواب اور جنت کے انعامات کا ذکر ہے۔ 


 اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ مَفَازًا (31)


 جن لوگوں نے تقوی اختیار کیا تھا، ان کی بیشک بڑی جیت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

متقین کے لیے وہاں جسمانی اور روحانی ہر طرح کی کامیابی ہوگی۔ ان کو عذاب سے نجات ملنے کے ساتھ ساتھ جنت کے بے بہا انعامات ملیں گے۔ 


حَدَاۗئِقَ وَاَعْنَابًا (32)


 باغات اور انگور۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوگوں کی چند پسندیدہ چیزوں کا ذکر خصوصیت سے کیا گیا ہے۔ مثلا حدائق یعنی باغات جو کھانے اور سیر کرنے کے لیے ہر قسم کے پھلوں اور میووں سے لدے ہوں گے۔ اعناب یعنی انگوروں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ غذا کا کام بھی دیتے ہیں اور اس کی بیلوں کا سایہ گھنا اور پر لطف ہوتا ہے، جس سے باغات کی رونق  دوبالا ہو جاتی ہے۔ 


وَّكَوَاعِبَ اَتْرَابًا(33)


اور نو خیز ہم عمر لڑکیاں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر ہم عمر ہم نشینوں کا ساتھ بھی میسر ہوگا اور عمر کی مناسبت سے ان کی لذتیں کمال کو پہنچ رہی ہوں گی۔ 


وَّكَاْسًا دِهَاقًا (34)


 اور چھلکتے ہوئے پیمانے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چھلکتے ہوئے جام ہوں گے جن سے لطف و سرور میں ہر وقت تازگی رہے گی۔


 لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا وَّلَا كِذّٰبًا (35)


وہاں پر وہ نہ کوئی بےہودہ بات سنیں گے، اور نہ کوئی جھوٹی بات۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھرے ہوئے پیالے دنیا کی خرابیوں سے پاک ہوں گے۔ نہ ان سے بے ہوشی طاری ہوگی ، نہ نیند ، نہ سردرد اور نہ مار پیٹ، جنت کا سرور دنیاوی شرور سے پاک ہو گا۔  جنتی جام کے جام چڑھا کر بھی نہ تو بے ہودہ باتیں کریں گے، نہ جھوٹ بولیں گے، نہ ہی ان کی عقل میں کوئی فتور آئے گا۔ 

جنت کی نعمتوں کو دنیا کی چیزوں جیسا سمجھنا اور ناموں کا ملتا جلتا ہونے کی وجہ سے ان کا مذاق بنانا کم عقلی اور بد دماغی ہے۔ یہ مثالیں صرف سمجھانے اور رغبت دلانے کے لیے بیان کی جاتی ہیں ورنہ جنت کی کسی معمولی سی چیز کا دنیا کی اعلی ترین چیز سے بھی کوئی مقابلہ نہیں۔


اہم بات: دو زبر ، دو زیر، دو پیش کو تنوین کہتے ہیں ۔ جس حرف پر تنوین ہو اس کی ادائیگی کرتے ہوئے آخر  میں نون ساکن کی آواز آتی ہے۔  اس لیے دو زبر، دو زیر اور دو پیش کو نون تنوین بھی کہا جاتا ہے۔

جیسے: 

مَفَازًا =    ادائیگی کا طریقہ۔  مَفَازَنْ ۔ 

 اَعْنَابًا= ادائیگی کا طریقہ۔  اَعࣿنَابَنࣿ۔

وغیرہ

نوٹ: نام اور حوالے کے  بغیر پوسٹ کاپی و شئیر کرنا منع ہے۔

نزہت وسیم

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...