#عم_یتساءلون #سورۃ_النبإ آیات:23,22,21




اِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا 2️⃣1️⃣


یقین جانو جہنم گھات لگائے بیٹھی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں دوسری بار صور پھونکے جانے کے حالات کا بیان ہے، جو الله سبحانہ وتعالی کے دربار میں پیش ہونے کے بعد ظاہر ہوں گے۔ 

مرصاداً کا مطلب ہے وہ جگہ جہاں بیٹھ کر کسی کی نگرانی یا انتظار کیا جائے۔ یہاں جہنم سے مراد پُل صراط ہے۔ جہاں ثواب اور عذاب دینے والے فرشتے انتظار کرتے ہوں گے۔ جہنم والوں کو جہنم کے فرشتے پکڑ لیں گے اور جنت والوں کو جنت والے فرشتے ان کے مقام پر لے جائیں گے۔ 


لِّلطَّاغِيْنَ مَاٰ بًا  2️⃣2️⃣


وہ سرکشوں کا ٹھکانا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ پچھلی آیت میں موجود کانت کی خبر ثانی ہے۔ دونوں جملوں کے معنی یہ ہوئے کہ پل صراط ہر نیک اور بد کے لیے انتظار گاہ ہے سب لوگ اس کے اوپر سے گزریں گے۔ اور جہنم طاغین یعنی سرکشوں کا ٹھکانہ ہے۔ طاغی کا معنی ہے سرکش یعنی حد سے بڑھ جانے والا؛ چنانچہ اس سے مراد کفار بھی ہو سکتے ہیں اورمسلمانوں کے بدعقیدہ اور گمراہ فرقے بھی ہو سکتے ہیں جو قرآن و سنت کی مقرر کردہ حد سے باہر نکل جاتے ہیں۔ جیسے روافض ، خوارج اور معتزلہ وغیرہ


لّٰبِثِيْنَ فِيْهَآ اَحْقَابًا  2️⃣3️⃣


جس میں وہ مدتوں اس طرح رہیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


یعنی کافر لوگ جہنم میں بہت  لمبے زمانے تک رہیں گے۔ 

حقب کا مطلب ہے بہت لمبی مدت۔ اس لمبی مدت کی مقدار کیا ہوگی اس میں مفسرین کے چند اقوال ہیں۔ 

ابن جریر نے حضرت علی رضی الله عنہ سے حقب کی مقدار اسی سال نقل کی ہے جس کا ہر سال بارہ مہینے کا ہر مہینہ تیس دن کا اور ہر دن ایک ہزار سال کا ہوگا۔ اس طرح ایک حقب کی مدت  تقریبا دو کروڑ اٹھاسی سال بنتی ہے۔ 

اسی حساب کے مطابق حضرت ابوہریرہ، ابن عمر اور ابن عباس رضوان الله علیھم نے حقب کی مقدار اسی کے بجائے ستر سال قرار دی ہے۔ دونوں قسم کی روایتوں میں یہ بات مشترک ہے کہ حقب حقبہ بہت طویل زمانے کا نام ہے اسی لیے صاحبِ بیضاوی نے احقابا کی تفسیر دُھُورٌ متتابعةٌ  سے کی ہے یعنی پے در پے بہت سے زمانے(معارف)


سوال: کیا کفار جہنم میں حقبہ حقب مقدار گزارنے کے بعد نکل جائیں گے؟ 


جواب: اس آیت میں لفظ احقابا ً سے یہ سمجھنا کہ چند احقاب کے بعد جہنمی کفار جہنم سے نکال دئیے جائیں گے تمام نصوص کے خلاف ہے؛کیونکہ یہاں صرف اس بات کا ذکر ہےکہ مدت احقاب ان کو جہنم میں رہنا ہوگا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ احقاب کے بعد کیا ہوگا۔ چنانچہ کہا گیا کہ الله تعالی نے جہنمیوں کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں کی جس کے بعد وہ وہاں سے نکل آئیں اور سعید بن جبیر نے قتادہ رحمہ الله سے بھی یہی تفسیر روایت کی ہے کہ احقاب سے مراد وہ زمانہ ہے جس کا خاتمہ نہیں ہوگا بلکہ ایک ختم ہونے پر دوسرا حقب شروع ہو جائے گا ، دوسرا ختم ہونے پر تیسرا شروع ہوگا یہی سلسلہ ابد تک رہے گا۔

 (معارف)  

قرآن مجید کی دیگر آیات ھم فیھا خالدون (وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے)  اور خلدین فیھا ابدا(ہمیشہ اس میں رہنے والے)  سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں