#عم_یتساءلون #سورۃ_النبإ آیة:36



جَزَاءً مِّن رَّبِّكَ عَطَاءً حِسَابًا ﴿36)


یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے صلہ ہوگا۔ (اللہ کی) ایسی دین ہوگی جو لوگوں کے اعمال کے حساب سے دی جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنت کی یہ نعمتیں مؤمنین ، متقین کے لیے ان کے رب کی طرف سے ان کے اعمال کا بدلہ اور بے بہا انعام ہوگا ۔ جنت میں ان کو جو کچھ ملے گا وہ بظاہر ان کے اعمال کا بدلہ ہوگا لیکن حقیقت میں عطائے الٰہی ہوگی؛ چنانچہ اس کے بعد بندوں کی کوئی تمنا و آرزو باقی نہ رہے گی۔ 


حسابا کے دومعنی ہو سکتے ہیں۔ 


حسابا کافیا:  یعنی ایسے انعامات جو ان کی تمام ضرورتوں اور خواہشوں کے لیے کافی ہو جائیں۔

حساب کا دوسرا معنی مقابلے کا بھی ہے۔ یعنی جیسا ان کا اخلاص تھا بدلے میں اتنا ہی بڑا انعام دیا جائے گا۔ جیسا کہ صحابہ کے اعمال کا بدلہ اور سابقون الاولون کے ایمان کے برابر کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ 


سوال : ان نعمتوں کو پہلے اعمال کی جزاء کہا گیا پھر عطائے ربانی ، بظاہر یہ دونوں باتیں مختلف ہیں کیونکہ جزا کا مطلب بدلہ ہے اور عطاء وہ ہے جو انعام میں دی جائے؟ 


جواب: 

الله تعالی نے ان دونوں لفظوں کو اکٹھا بیان کرکے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بخشش اورجنت کی نعمتیں بظاہر اہل جنت کے اعمال کا بدلہ ہیں لیکن اصل میں  خالص الله سبحانہ تعالی کا انعام  ہیں؛ کیونکہ جو نعمتیں دنیا میں دی گئیں ہیں، انسان کے بہترین اعمال بھی اس کا شکرانہ ادا نہیں کر سکتے۔ جنت کے انعامات تو محض الله کا فضل و انعام اور خاص عطا ہے۔ 

جیسا کہ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ کوئی شخص اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک الله تعالی کا فضل نہ ہو۔


اہم بات: جب الف کے اوپر  کوئی حرکت یعنی زیر، زبر، پیش یا جزم نہ ہو تو اسے الف کہتے ہیں۔ 

لیکن 

جب  الف پر زیر، زبر، پیش  یا جزم  وغیرہ ہو تو وہ ہمزہ کہلاتا ہے۔


نوٹ: نام اور حوالے کے  بغیر پوسٹ کاپی و شئیر کرنا منع ہے۔

نزہت وسیم

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں