گھر میں داخل ہونے اور گھر سے نکلنے کی سنتیں

جوتا پہننے کی سنتیں



ارشاد نبوی ہے : ’’ تم میں سے کوئی شخص جب جوتا پہننے لگے تو سب سے پہلے دایاں پاؤں جوتے میں ڈالے اور جب اتارنے لگے تو سب سے پہلے بایاں پاؤں جوتے سے باہر نکالے۔ نیزوہ یا دونوں جوتوں کو پہنے یا پھر دونوں کو اتار دے۔‘‘ ( مسلم )

مسلمان دن اور رات میں کئی مرتبہ جوتا پہنتا اور اتارتا ہے۔ مثلا مسجد میں جاتے ہوئے اور اس سے باہر نکلتے ہوئے ، حمام میں جاتے ہوئے اور اس سے باہر آتے ہوئے اور کسی کام کیلئے گھر سے باہر جاتے ہوئے اور اس میں واپس آتے ہوئے۔ سو ہر مرتبہ اسے درج بالا حدیث میں جو سنتیں ذکر کی گئی ہیں ان پر عمل کرنا چاہیے تاکہ اسے بہت زیادہ اجر و ثواب حاصل ہو سکے۔


گھر میں داخل ہونے اور گھر سے نکلنے کی سنتیں



امام نوویؒ کا کہنا ہے : –

’’گھر میں داخل ہوتے وقت ’بسم اللہ ‘ کا پڑھنا ، اللہ کا ذکر کرنا اور گھر والوں کو سلام کہنا سنت ہے۔‘‘

٭۔ گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر کرنا:

ارشاد نبویﷺ ہے:

’’ کوئی شخص گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر کرے تو شیطان (اپنے ساتھیوں سے ) کہتا ہے : اب تم اس گھر میں نہ رہ سکتے ہو اور نہ تمھارے لئے یہاں پر کھانا ہے ‘‘ (مسلم )



    ٭۔ گھر میں داخل ہونے کی دعا پڑھنا




’’ اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ خَیْرَ الْمَوْلِجِ وَخَیْرَ الْمَخْرَجِ، بِسْمِ اللّٰہِ وَلَجْنَا، وَبِسْمِ اللّٰہِ خَرَجْنَا،وَعَلَی اللّٰہِ رَبِّنَا تَوَکَّلْنَا‘‘ ( ابو داؤد )

’’ اے اللہ ! میں تجھ سے گھر کے اندر اور گھر سے باہر خیر کا سوال کرتا ہوں ، اللہ کے نام کے ساتھ ہم داخل ہوئے اور اللہ کے نام کے ساتھ ہم نکلے اور ہم نے اللہ پر توکل کیا جو ہمارا رب ہے۔‘‘

یہ دعا پڑھ کر گویا کہ مسلمان گھر میں داخل ہوتے ہوئے اور اس سے نکلتے ہوئے ہمیشہ اللہ پر توکل کا اظہار کرتا ہے اور ہر دم اس سے اپنا تعلق مضبوط بناتا ہے۔


 گھر والوں کو سلام کہنا:




فرمان الٰہی ہے : ’’ فَاِِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً ‘‘ (النور:۶۱)

’’پس جب تم گھروں میں داخل ہونے لگو تو اپنے گھر والوں کو سلام کہا کرو ، ( سلام ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ دعائے خیر ہے جو بابرکت اور پاکیزہ ہے۔‘‘

اگر مسلمان ہر فرض نماز مسجد میں ادا کرتا ہو اور اس کے بعد اپنے گھر میں واپس آتا ہو تو ہر مرتبہ اگر وہ ان مذکورہ سنتوں پر عمل کر لے تو گویا دن اور رات میں صرف گھر میں داخل ہوتے وقت وہ بیس سنتوں پر عمل کرے گا۔



    ٭۔ گھر سے نکلنے کی دعا پڑھنا :




’’ بِسْمِ اللّٰہِ تَوَ کَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ‘‘ ( ابو داؤد ، ترمذی )

’’ اللہ کے نام کے ساتھ میں نے اللہ پر بھروسہ کیا اور اللہ کی مدد کے بغیر نہ کسی چیز سے بچنے کی طاقت ہے نہ کچھ کرنے کی۔‘‘

اس دعا کی فضیلت صحیح حدیث کے مطابق یہ ہے کہ انسان جب یہ دعا پڑھ لیتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے :



1۔تجھے اللہ کافی ہے (یعنی ہر اُس چیز سے جو دنیا و آخرت میں اس کیلئے پریشان کن ہو سکتی ہے )

2۔تجھے شر سے بچا لیا گیا ہے ( یعنی ہر شر اور برائی سے چاہے وہ جنوں کی طرف سے ہو یا انسانوں کی طرف سے )

3۔تیری راہنمائی کر دی گئی ہے۔ ( یعنی دنیاوی و اخروی تمام امور میں ) ( ابو داؤد، ترمذی )



چنانچہ جب بھی انسان گھر سے باہر جانے لگے خواہ نماز پڑھنے کیلئے یا اپنے یا گھر کی کسی کام کیلئے توہر مرتبہ اس دعا کو پڑھ لے تاکہ اسے مندرجہ بالا بہت بڑی خیر اور اجرِ  عظیم نصیب ہو۔



فَقَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ آتِكَ زَائِرًا، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ أَنَا وَأَنْتَ حَدِيثًا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَجَوْتُ أَنْ يَكُونَ عِنْدَكَ مِنْهُ عِلْمٌ؟ قَالَ: وَمَا هُوَ؟ قَالَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَمَا لِي أَرَاكَ شَعِثًا وَأَنْتَ أَمِيرُ الْأَرْضِ؟! قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْهَانَا عَنْ كَثِيرٍ مِنَ الْإِرْفَاهِ، قَالَ: فَمَا لِي لَا أَرَى عَلَيْكَ حِذَاءً؟! قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا أَنْ نَحْتَفِيَ أَحْيَانًا.
حکم : صحیح
4160 . سیدنا عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک آدمی سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے ہاں گیا جبکہ وہ مصر میں ( امیر ) تھے ۔
وہاں پہنچے تو ان سے کہا : میں تمہیں بلاوجہ ملنے نہیں آیا ہوں بلکہ میں نے اور تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی تھی ‘ مجھے امید ہے کہ وہ تمہیں خوب یاد ہو گی ۔ انہوں نے کہا : کون سی حدیث ؟ فرمایا فلاں فلاں !
پھر کہا : اور کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں پراگندہ سر دیکھ رہا ہوں حالانکہ تم اس علاقے کے امیر ہو ؟ سیدنا فضالہ رضی اللہ عنہ نے کہا : تحقیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بہت زیادہ اسباب عیش جمع کرنے اور بہت زیادہ زیب و زینت سے منع فرمایا کرتے تھے ۔
پھر پوچھا کیا وجہ ہے کہ تمہارے جوتے نہیں ہیں ؟
کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم فرمایا کرتے تھے کہ کبھی کبھی ننگے پاؤں بھی رہا کریں ۔


يُذْنِبُ ذَنْبًا فَيُحْسِنُ الطُّهُورَ ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ إِلَّا غَفَرَ اللَّهُ لَهُ ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ إِلَى آخِرِ الْآيَةِ
حکم : صحیح
1521 . سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں ایسا شخص تھا کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا تو اللہ تعالیٰ مجھے اس سے جو چاہتا فائدہ عنایت فرماتا ۔ اور جب کوئی اور صحابی حدیث بیان کرتا ، تو میں اس سے قسم لیتا تھا اور جب وہ قسم اٹھاتا تو میں اس کی تصدیق کرتا تھا ۔ کہا : مجھ سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی اور انہوں نے سچ کہا ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے ” کوئی بندہ ایسا نہیں جو کوئی گناہ کر بیٹھے پھر وضو کرے اچھی طرح ، پھر کھڑا ہو اور دو رکعتیں پڑھے اور اللہ سے استغفار کرے ، مگر اللہ اسے معاف کر دیتا ہے ۔
پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی «والذين إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم ذكروا الله *» ” متقی وہ لوگ ہیں جو اگر کبھی کوئی بے حیائی کا کام کریں یا اپنی جانوں پر کوئی ظلم کر بیٹھیں ، تو اللہ کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں ۔ اور اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ بخش دے ۔ اور یہ لوگ جانتے بوجھتے اپنے کیے پر نہیں اڑتے اور نہ اصرار کرتے ہیں


آداب معاشرت کے سنتیں

مسواک کرنا


صحيح البخاري: كِتَابُ الجُمُعَةِ (بَاب السِّوَاكِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ) صحیح بخاری: کتاب: جمعہ کے بیان میں (باب: جمعہ کے دن مسواک کرنا)
ترجمة الباب: وَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَنُّ ترجمۃ الباب : اور ابو سعیدؓ نے نبیﷺ سے نقل کیا ہے کہ مسواک کرنی چاہیے۔
887 . حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي أَوْ عَلَى النَّاسِ لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ مَعَ كُلِّ صَلاَةٍ
حکم : صحیح 887 . سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اگر مجھے اپنی امت یا لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے لیے ان کو مسواک کا حکم دے دیتا۔

درود ابراھیمی


✳️💚✳️ اللھم صلّ عَلٰی محمد ۔💚و علی آل محمدٍ 💚کَما صَلّیتَ عَلٰی ابراھیمَ 💚وَ عَلٰی آل ابرھیم َ 💚اِنّکَ حَمِیدٌمَجِیدٌ✳️💚✳️
✳️💚✳️اللھم بارِک علٰی محمد 💚وَعَلٰی آل محمد 💚 کمَا باَرَکْتَ عَلٰی ابراھیمَ 💚و علی آل ابراھیم َ 💚اِنّکَ حمیدٌمّجِیدٌ✳️💚✳️


🍂🍁🍂.۔۔۔ اللھُم صل علی محمد🍁 و علی آل محمد 🍂🍁🍂
کما صلیت علی ابراھیم 🍁و علی آل ابراھیم🍂🍁🍂 ۔ 🍂🍁🍂
🍂🍁🍂🍁🍂🍁🍂انّکَ حَمید مجید 🍂🍁🍂🍁🍂🍁🍂
🍂〰〰🍁〰〰🍁〰〰🍁〰〰🍁〰〰🍁〰〰🍂
〰🍁〰〰🍂〰〰🍂〰〰🍂〰〰🍂〰〰🍂〰〰🍁
🍂🍁🍂🍁🍂اللھم بارک علی محمد 🍁 وعلی آل محمد 🍂🍁🍂🍁🍂
🍂🍁🍂🍁🍂کما بارکت علی ابراھیم 🍁وعلی آل ابراھیم 🍂🍁🍂🍁🍂
🍂🍁🍂🍁🍂🍁🍂انّک حمیدٌمجید 🍂🍁🍂🍁🍂🍁🍂



💞🌟اللھم صل علی محمد 🌟💞
۔۔۔💞🌟وعلی آل محمد 🌟💞۔۔۔
۔۔۔۔۔۔💞🌟کما صلیت علی ابراھیم 🌟💞۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔💞🌟وعلی آل ابراھیم 🌟💞۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔💞🌟انک حمید مجید 🌟💞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔💞🌟اللھم بارک علی محمد 🌟💞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔💞۔🌟۔۔۔۔۔۔۔۔ وعلی آل محمد 🌟💞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔💞🌟۔۔۔۔کما بارکت علی ابراھیم🌟💞۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔💞🌟وعلی آل ابراھیم 🌟💞۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔💞🌟انک حمید مجید 🌟💞

دین اسلام میں بیوی کے حقوق

دین اسلام نے خاوند پر بیوی کے کچھ حقوق رکھے ہيں ، اور اسی طرح بیوی پربھی اپنے خاوند کے کچھ حقوق مقرر کیے ہيں ، اورکچھ حقوق توخاوند اوربیوی دونوں پر مشترکہ طور پر واجب ہیں ۔

صرف بیوی کے خاص حقوق : 

بیوی کے اپنے خاوند پر کچھ تومالی حقوق ہیں جن میں مہر ، نفقہ ، اور رہائش شامل ہے ۔ 

اورکچھ حقوق غیر مالی ہیں جن میں بیویوں کے درمیان تقسیم میں عدل انصاف کرنا ، اچھے اوراحسن انداز میں بود باش اورمعاشرت کرنا ، بیوی کوتکلیف نہ دینا ۔

1 - مالی حقوق : 

ا – مھر : 

مہر وہ مال ہے جو بیوی کااپنے خاوند پر حق ہے جوعقد یا پھر دخول کی وجہ سے ثابت ہوتا ہے ، اوریہ بیوی کا خاوند پر اللہ تعالی کی طرف سے واجب کردہ حق ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے : 

          اورعورتوں کوان کے مہر راضی خوشی دے دو۔

النساء ( 4 ) ۔

ب – نان ونفقہ : 

علماء اسلام کا اس پر اجماع ہے کہ بیویوں کا خاوند پر نان ونفقہ واجب ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اگرعورت اپنا آپ خاوند کے سپرد کردے توپھرنفقہ واجب ہوگا ، لیکن اگر بیوی اپنے خاوندکونفع حاصل کرنے سے منع کردیتی ہے یا پھر اس کی نافرمانی کرتی ہے تواسے نان ونفقہ کا حقدار نہیں سمجھا جائے گا ۔

نان ونفقہ کا مقصد : 

بیوی کی ضروریات پوری کرنا مثلا کھانا ، پینا ، رہائش وغیرہ ، یہ سب کچھ خاوند کے ذمہ ہے اگرچہ بیوی کے پاس اپنا مال ہو اوروہ غنی بھی ہوتوپھر بھی خاوند کے ذمہ نان ونفقہ واجب ہے ۔ 

اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے : 

{ اورجن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان عورتوں کا روٹی کپڑا اوررہائش دستور کے مطابق ہے }

البقرۃ ( 233 ) 

اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا : 

{ اورکشادگي والا اپنی کشادگي میں سے خرچ کرے اورجس پر رزق کی تنگی ہو اسے جو کچھ اللہ تعالی نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرنا چاہيے }

الطلاق ( 7 ) ۔ 

سنت نبویہ میں سے دلائل : 

ھند بنت عتبہ رضي اللہ تعالی عنہا جوکہ ابوسفیان رضي اللہ تعالی عنہ کی بیوی تھیں نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ ابوسفیان اس پر خرچہ نہیں کرتا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا تھا : 

( آپ اپنے اوراپنی اولاد کے لیے جوکافی ہو اچھے انداز سے لے لیا کرو ) ۔ 

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ابوسفیان کی بیوی ھندبنت عتبہ رضي اللہ تعالی عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئي اورکہنے لگی : 

اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان بہت حریص اور بخیل آدمی ہے مجھے وہ اتنا کچھ نہيں دیتا جوکہ مجھے اور میری اولاد کے لیے کافی ہو الا یہ کہ میں اس کا مال اس کے علم کے بغیر حاصل کرلوں ، توکیا ایسا کرنا میرے لیے کوئي گناہ تونہیں ؟ 

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : 

تواس کے مال سے اتنا اچھے انداز سے لے لیا کرجوتمہیں اورتمہاری اولاد کوکافی ہو ۔ 

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5049 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1714 ) ۔ 

جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۃ الوداع کے موقع پر فرمایا : 

( تم عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرو ، بلاشبہ تم نے انہيں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے ، اوران کی شرمگاہوں کواللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتےہووہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو، اگر وہ ایسا کریں توتم انہيں مار کی سزا دو جوزخمی نہ کرے اورشدید تکلیف دہ نہ ہو، اوران کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہيں اچھے اور احسن انداز سے نان و نفقہ اوررہائش دو ) 

صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 ) ۔ 

ج – سکنی یعنی رہائش : 

یہ بھی بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ خاوند اس کے لیے اپنی وسعت اورطاقت کے مطابق رہائش تیار کرے ۔ 

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے : 

{ تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہا ں انہيں بھی رہائش پذیر کرو }

الطلاق ( 6 )۔ 

2 – غیرمالی حقوق : 

ا – بیویوں کے درمیان عدل وانصاف : 

بیوی یا اپنے خاوند پر حق ہے کہ اگر اس کی اور بھی بیویاں ہوں تووہ ان کے درمیان رات گزارنے ، نان ونفقہ اورسکن وغیرہ میں عدل و انصاف کرے ۔ 

ب – حسن معاشرت : 

خاوند پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اچھے اخلاق اورنرمی کا برتاؤ کرے ، اوراپنی وسعت کے مطابق اسے وہ اشیاء پیش کرے جواس کےلیے محبت والفت کا باعث ہوں ۔ 

اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : 

{ اوران کے ساتھ حسن معاشرت اوراچھے انداز میں بود باش اختیار کرو }

النساء ( 19 ) ۔ 

اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمايا : 

{ اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے حق ہیں }

البقرۃ ( 228 ) ۔ 

سنت نبویہ میں ہے کہ : 

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 

( عورتوں کے بارہ میں میری نصیحت قبول کرو اوران سے حسن معاشرت کا مظاہرہ کرو ) 

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3153 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1468 ) ۔

دین اسلام میں شوہر کے حقوق

بیوی پر خاوند کے حقوق : 

بیوی پر خاوند کے حقوق بہت ہی عظیم حیثیت رکھتے ہیں بلکہ خاوند کے حقوق توبیوی کے حقوق سے بھی زيادہ عظیم ہیں اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے : 

{ اوران عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہيں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائي کے ساتھ ، ہاں مردوں کوان عورتوں پر درجہ اورفضیلت حاصل ہے }

 البقرۃ ( 228 ) ۔ 

اوران حقوق میں سے کچھ یہ ہیں : 

ا – اطاعت کا وجوب : 

اللہ تعالی نے مرد کوعورت پرحاکم مقررکیا ہے جواس کا خیال رکھے گا اوراس کی راہنمائی اوراسے حکم کرے گا جس طرح کہ حکمران اپنی رعایا پر کرتے ہیں ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے مرد کوکچھ جسمانی اورعقلی خصائص سے نوازا ہے ، اوراس پر کچھ مالی امور بھی واجب کیے ہیں ۔ 

اللہ تعالی کافرمان ہے : 

{مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ایک کودوسرے پر فضيلت دی ہے اوراس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں }

النساء ( 34 ) ۔ 

ب۔ ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 

( جب مرد اپنی بیوی کواپنے بستر پر بلائے اوربیوی انکار کردے توخاوند اس پر رات ناراضگي کی حالت میں بسر کرے توصبح ہونے تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں )

 صحیح بخاری حديث نمبر ( 3065 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1436 ) ۔ 

ج – خاوند جسے ناپسند کرتا ہواسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینا : 

خاوند کا بیوی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اسے داخل نہ ہونے دے جسے اس کا خاوند ناپسند کرتا ہے ۔ 

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 

( کسی بھی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کی موجودگی میں ( نفلی ) روزہ رکھے لیکن اس کی اجازت سے رکھ سکتی ہے ، اورکسی کوبھی اس کے گھرمیں داخل ہونے کی اجازت نہ لیکن اس کی اجازت ہو توپھر داخل کرے )

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4899 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1026 ) ۔

د – خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا : 

خاوند کا بیوی پر یہ حق ہے کہ وہ گھر سے خاوند کی اجازت کے بغیر نہ نکلے ۔ 

شافعیہ اورحنابلہ کا کہنا ہے کہ : عورت کے لیے اپنے بیمار والد کی عیادت کے لیے بھی خاوند کی اجازت کے بغیر نہیں جاسکتی ، اورخاوند کواس سے منع کرنے کا بھی حق ہے ۔۔۔ اس لیے کہ خاوند کی اطاعت واجب ہے توواجب کوترک کرکے غیرواجب کام کرنا جائز نہيں ۔ 

ھـ - تادیب : خاوند کوچاہیے کہ وہ بیوی کی نافرمانی کے وقت اسے اچھے اوراحسن انداز میں ادب سکھائے نہ کہ کسی برائي کے ساتھ ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے عورتوں کواطاعت نہ کرنے کی صورت میں علیحدگي اورہلکی سی مارکی سزا دے کرادب سکھانے کا حکم دیا ہے ۔

علماء احناف نے چارمواقع پر عورت کومار کے ساتھ تادیب جائز قرار دی ہے جو مندرجہ ذيل ہیں : 

1- جب خاوند چاہے کہ بیوی بناؤ سنگار کرے اوربیوی اسے ترک کردے 

2- جب بیوی طہر کی حالت میں ہواورخاوند اسے مباشرت کے لیے بلائے توبیوی انکار کردے ۔ 

3- نماز نہ پڑھے ۔ 

4- خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلے ۔ 


تاریخ قرآن مجید ۔۔۔ ڈاکٹرحمید الله

اب ہم یہ دیکھیں گے کہ قرآن کس طرح محفوظ حالت میں ہم تک پہنچا ہے۔ اولاً میں اس کی زبان کےبارے میں کچھ عرض کروں 
گا۔ یہ عربی زبان میں ہے۔ اس آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب کے لیے عربی زبان کا انتخاب کیوں ہوا؟ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زبانیں رفتہ رفتہ بدل جاتی ہیں۔ خود اردو زبان کولیجئے۔ اب سے پانچ سو سال پہلے کی کتاب مشکل سے ہمیں سمجھ میں آتی ہے۔ دنیا کی ساری زبانوں کا یہی حال ہے انگریزی میں پانچ سو سال پہلے کی مؤلف "چاسیر" (Chaucer) کی کتاب کو آج کل لندن کا کوئ شخص، یونیورسٹی کے فاضل پروفیسروں کے سوا، سمجھ نہیں سکتا۔ یہی حال دوسری قدیم و جدید زبانوں کا ہے۔ یعنی وہ بدل جاتی ہیں اور رفتہ رفتہ ناقابل فہم ہوجاتی ہیں۔ اگر خدا کا آخری پیغام بھی کسی ایسی ہی تبدیل ہونے والی زبان میں آتا تو خدا کی رحمت کا اقتضاء یہ ہوتا کہ ہم بیسویں صدی کے لوگوں کو پھر ایک نئ کتاب دے تاکہ ہم اسے سمجھ سکیں کیونکہ گزشتہ صدیوں کی کتاب اب تک ناقابل فہم ہوچکی ہوتی۔ دنیا کی زبانوں میں سے اگر کسی زبان کو یہ استثناء ہے کہ وہ نہیں بدلتی تو وہ عربی زبان ہے۔ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم عصر عربی یعنی قرآن مجید اور حدیث شریف میں جو زبان استعمال ہوئ ہے اور جو عربی آج ریڈیو پر آپ سنتے ہیں یا جو آج عربی اخباروں میں پڑھتے ہیں، ان دونوں میں بہ لحاظ مفہوم الفاظ، گرامر (صرف و نحو)، ہجے اور تلفظ، کوئ فرق نہیں ہے۔ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں اور میں ایک عرب کی حیثیت سے اپنی موجودہ عربی میں آپ سے گفتگو کروں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ہر لفظ سمجھیں گے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے جواب مرحمت فرمائیں تو آپ کا ہر لفظ میں سمجھ سکوں گا۔ کیونکہ ان دونوں زبانوں میں کوئ فرق نہیں ہے۔ میں اس سے یہ استنباط کرتا ہوں کہ آخری نبی پر بھیجی ہوئ آخری کتاب ایسی زبان میں ہونی چاہیے جو غیر تبدیل پذیر ہو لہٰذا عربی کا انتخاب کیا گیا، عرض کرنا یہ ہے کہ اس عربی زبان میں دیگر خصوصیات مثلاً فصاحت، بلاغت، ترنم وغیرہ کے علاوہ ایک خصوصیت ایسی ہے جس کا ہم سب مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ وہ یہ کہ عربی زبان غیر تبدیل پذیر ہے اور اس کے لیے ہمیں عربوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے مختلف علاقوں کی بولیوں کو اپنی زبان نہیں بنایا۔ بلکہ اپنی علمی اور تحریری زبان وہی رکھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے چلی آرہی تھی۔ 
جہاں تک قرآن کا تعلق ہے آپ سب واقف ہیں کہ وہ بیک وقت نازل نہیں ہوا۔ جیساکہ توریت کے متعلق یہودیوں کا بیان کہ اسے خدا نے تختیوں پر لکھ کر ایک ہی مرتبہ دے دیا تھا۔ اس کے برخلاف قرآن مجید تئیس سال تک جستہ جستہ، (نجماً نجماً) نازل ہوتا رہا اور یہ ان مختلف زمانوں میں نازل شدہ اجزاء کا مجموعہ ہے جو قرآن مجید کی صورت میں ہمارے پاس ہے۔ اس کا آغاز دسمبر سنہ 609ء میں ہوا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں معتکف تھے۔ وہاں حضر جبرئیل علیہ السلام آتے ہیں اور آپ تک خدا کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ وہ پیغام بہت ہی اثر انگیز ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک امی ہیں۔ انہیں لکھنا پڑھنا نہیں آتا۔ اس امی شخص کو جو پہلا حکم دیا گیا وہ ہے "اقراء" یعنی پڑھ اور پھر قلم کی تعریف کی گئی ہے۔ پڑھنے کا حکم دے کر پھر قلم کی تعریف کیوں کی جاتی ہے؟ اس لیے کہ قلم ہی کے ذریعے سے خدا انسا کو وہ چیز بتاتا ہے جو وہ نہیں جانتا دوسرے الفاظ میں قلم ہی وہ چیز ہے جو انسانی تمدن اور انسانی تہذیب کی حفاظت گاہ (Depository) ہے۔ اس کا وجود اس لیے ہے کہ پرانی چیزوں کو محفوظ رکھا جاسکے۔ آنے والے اس میں نئی چیزوں کا اضافہ کرتے ہیں۔ انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقاء کا راز یہی ہے اور اسی وجہ سے انسان کو دیگر حیوانات پر تفوق حاصل ہے ورنہ آپ غور کریں گے کہ کوا آج سے بیس لاکھ سال پہلے جس طرح گھونسلا بناتا تھا آج بھی اسی طرح بناتا ہے۔ اس نے کوئ ترقی نہیں کی۔ لیکن انسان و جانور ہے جو چاند تک پہنچ چکا ہے۔ اس نے اتنی ترقی کی کہ آج وہ ساری کائنات پر حکومت کررہا ہے۔ یہ ساری ترقیاں انسان نے اس لیے کی ہیں کہ اس کو اپنے سے پہلے کے لوگوں کے تجربات کا جو علم حاصل ہوا اس کو محفوظ رکھا اور اس میں اس نے اپنے ذاتی تجربوں سے روز افزاوں اضافہ کیاا اور اس سے استفادہ کرتا رہا۔ اور یہ سب قلم کی بدولت ممکن ہوا۔ آیت (علم بالقلم، علم الانسان مالم یعلم) میں اسی حقیقت کی طرف قرآن مجید نے بہت ہی بلیغ انداز میں اشارہ کیا ہے۔ جب "سورۃ اقراء" (یعنی سورۃ العلق) کی پہلی پانچ آیاتا نازل ہوئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار کو چھوڑ کر گھر واپس آئے اور اپنی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بتایا کہ مجھے آج یہ واقعہ پیش آیا ہے۔ مجھے خوف ہے کہ وہ شاید کسی دن مجھے نقصان نہ پہنچائے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے تسلی دی اور کہا کہ خدا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ضائع نہیں کرے گا۔ ورقہ بن نوفل میرا چچا زاد بھائ ہے جو ان معاملات (یعنی فرشتے، وحی وغیرہ) سے واقف ہے۔ کل صبح جاکر ہم اس سے گفتگو کریں گے، وہ آپ کو بتائے گا۔ میں ان چیزوں سے واقف نہیں ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ شیطان کبھی آپ کو دھوکا نہیں دے سکے گا۔ ایک روایت کے مطابق صبح کو وہ آپ کو اپنے ساتھ ورقہ بن نوفل کے پاس لے جاتی ہیں۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے ان کے عزیز دوست ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو حضرت خدینہ رضی اللہ عنہا نے ان کو یہ قصہ سنایا اور کہا کہ انہیں اپنے ساتھ لے جاکر ورقہ سے ملاؤ۔ ورقہ بن نوفل بہت بوڑھے تھے۔ ان کی بصارت زائل ہوچکی تھی، مذہباً نصرانی تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس پہنچے اور یہ قصہ سنایا تو ورقہ نے بے ساختہ یہ الفاظ کہے: "اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جو چیزیں تم نے ابھی بیان کی ہیں، اگر وہ صحیح ہیں تو یہ ناموس موسیٰ علیہ السلام سے مشابہ ہیں"۔ "ناموس" کا لفظ اردو میں عام طور پر عزت کے لیے مستعمل ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں یہ مفہوم نہیں ہوسکتا۔ بعض مفسرین ناموس کے معنی "قابل اعتماد" لکھتے ہیں، وہ بھی یہاں موزوں نہیں ہے۔ بعض لکھتے ہیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ناموس کا نام دیا جاتا ہے۔ اسلامی ادبیات میں وہ "روح الامین" ہیں مگر یہ معنی بھی یہاں کام نہیں دیتے۔ میرے ذہن میں یہ آتا ہے کہ "ناموس" اصل میں ایک اجنبی لفظ ہے، جو معرب ہوکر عربی زبان میں استعمال ہوا۔ یہ یونانی زبان کا لفظ "ناموس" (Nomos) ہے۔ یونانی زبان میں لفظ توریت کو نوموس یعنی قانون کہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ورقہ بن نوفل کا بیان ہے کہ یہ چیز حضرت موسیٰ علیہ السلام کی توریت سے مشابہ ہے۔ اور یہی معنی زیادہ قرین قیاس نظر آتے ہیں۔

قرآن مجید کی تبلیغ و اشاعت کے متعلق قدیم ترین ذکر ابن اسحٰق کی کتاب المغازی میں ملتا ہے۔ یہ کتاب ضائع ہوگئی تھی لیکن اس کے بعض ٹکڑے حال ہی میں ملے ہیں اور حکومت مراکش نے ان کو شائع بھی کیا ہے۔ اس میں ڈیڑھ سطر کی ایک بہت دلچسپ روایت ہے، جسے ابن ہشام نے اپنی سیرۃ النبی میں معلوم نہیں کس بناء پر یا سہواً چھوڑ دیاہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: "جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کی کوئ عبارت نازل ہوتی تو آپ سب سے پہلے اس مردوں کی جماعت میں تلاوت فرماتے پھر اس کے بعد اسی عبارت کو عورتوں کی خصوصی محفل میں بھی سناتے"۔ اسلامی تاریخ میں یہ ایک ہم واقعہ ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عورتوں کی تعلیم سے بھی اتنی ہی دلچسپی تھی جتنی مردوں کی تعلیم سے۔ یہ قدیم ترین اشارہ ہے جو قرآن مجید کی تبلیغ کے متعلق ملتا ہے۔ اس کے بعد کیا پیش آیا یہ کہنا مشکل ہے لیکن بالکل ابتدائ زمانے ہی سے ہمیں ایک نئ چیز کا پتہ چلتا ہے وہ یہ کہ قرآن مجید کو لکھوا یا جائے اور غالباً حفظ کرانا بھی اسی ابتدائ زمانے سے تعلق رکھتا ہے، جب حضرت جبرئیل علیہ السلام نے پہلی وحی کے موقع پر قرآن مجید کی سورۂ اقراء کی پہلی پانچ آیتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائیں تو ایک حدیث کے مطابق حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دو کام اور کیے۔ ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو استنجاء اور وضو کرنا سکھایا کہ نماز کے لیے کس طرح اپنے آپ کو جسمانی طور پر پاک کریں۔ دوسرے یہ کہ نماز پڑھنے کا طریقہ بھی بتایا۔ خود جبرئیل علیہ السلام امام بنے اور پیغمبر مقتدی کی حیثیت سے پیچھے کھڑے دیکھتے رہے کہ پہلے کھڑے ہوں، پھر رکوع میں جائیں، پھر سجدہ کریں وغیرہ اور ساتھ ساتھ خود بھی وہی کرتے رہے۔ ظاہر ہے کہ نماز میں قرآن مجید کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں، لہٰذا ابتدائ زمانے ہی سے جب لوگ مسلمان ہونے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا ہوگا کہ قرآن مجید کو حفظ بھی کرو اور روزانہ جتنی نمازیں پڑھنی ہوں ان نمازوں میں ان کا اعادہ بھی کرتے رہو۔ گویا اس وقت ہمیں دوباتیں نظر آتی ہیں۔ قرآن مجید حفظ کرنا اور اسی کو لکھنا۔ آدمی کو کسی نئ چیز کو ازبر کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ اس کے سامنے کوئ تحریری عبارت ہوتو اس کو بار بار پڑھتا ہے بالآخر وہ حفظ ہوجاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں قرآن کو حفظ کرنا اور لکھنا دونوں ایک ہی زمانے کی چیزیں ہیں۔ ہمارے مورخ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب کوئ آیت نازل ہوتی تو وہ اپنے صحابہ میں سے کسی ایسے شخص کو جسے لکھنا پڑھنا آتا ہوتا، یاد فرماتے اور اس کو املا کراتے تھے۔ اہم بات یہ بیان ہوئ ہے کہ لکھنے کے بعد اس سے کہتے کہ "جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھ کر سناؤ" تاکہ اگر کاتب نے کوئ غلطی کی ہوتو اس کی اصلاح کرسکیں۔ یہ قرآن مجید کی تدوین کا آغاز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ لکھوانے کے بعد اپنے صحابہ کو حکم دیتے کہ اسے ازبر کرلو اور روزانہ دو وقت کی نمازوں میں پڑھو۔ اس وقت دونمازیں تھی معراج کے بعد پانچ نمازیں ہوئیں تو دو کے بجائے پانچ مرتبہ اس کو لوگ نماز میں دہرانے لگے۔ اس کا ایک عملی فائدہ یہ ہے کہ اگر آدمی کا حافظہ اچھا نہ ہو اور سال بھر میں مثلاً صرف عیدالاضحیٰ اور عید الفطر کے دن قرآن مجید کو حافظے کی مدد سے پڑھے تو ممکن ہے کہ اس کو بھول جائے لیکن اگر کوئ آدمی روزانہ پانچ مرتبہ دہراتا ہے تو ظاہر ہے قرآن مجید اس کے حافظے میں رہے گا اور وہ اسے نہیں بھولے گا۔ 

الغرض قرآن مجید کو لکھنے اور اسے حفظ کرنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔ اس سے پہلے کے انبیاء علیہم السلام کی تاریخ میں ایسی کوئ مثال ہمیں نظر نہیں آتی ہے۔ ا س سے بڑھ کر ایک اور کام بھی ہوا وہ یہ کہ فرض کیجئے میرے پاس ایک تحریری نسخہ موجود جس میں کسی نہ کسی وجہ سے کتابت کی کچھ غلطیاں موجود ہیں اس غلط نسخے کو میں حفظ کرلیتا ہوں۔ اس طرح میرا حفظ بھی غلط ہوگا۔ اس کی اصلاح کس طرح کی جائے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف بھی توجہ فرمائ اور حکم فرمایا کہ ہر مسلمان کو کسی مستند استاد ہی سے قرآن مجید پڑھنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے بڑھ کر قرآن مجید سے کون واقف ہوسکتا ہے؟ اس لیے ہر مسلمان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سیکھنا اور پڑھنا چاہیے۔ اگر اس کے پاس تحریری نسخہ موجود ہے تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تلاوت کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر فرمائیں کہ ہاں یہ نسخہ ٹھیک ہے تب اسے حفظ کیا جائے۔ جب مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی تو ظاہر ہے کہ ایک آدمی سارے لوگوں کو تعلیم و تربیت نہیں دے سکتا تھا۔ اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسے صحابہ کو جن کی قرآن دانی کے متعلق آپ کو پورا اعتماد تھا یہ حکم دیا کہ اب تم بھی پڑھایا کرو۔ یہ وہ مستند استاد تھے جن کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سند دیتے تھے کہ تم پڑھانے کے قابل ہو اور اس کا سلسلہ آج بھی دنیا میں قائم ہے۔ اگر کوئ شخص کسی استاد سے قرآن مجید پڑھتا ہے تو قرات کی تکمیل کے بعد استاد کی طرف سے اسے جو سند ملتی ہے اس میں وہ استاد لکھتا ہے کہ "میں نے اپنے شاگرد فلاں کو قرآن مجید کے الفاظ، قرآن مجید کی قرات کے اصولوں کو ملحوظ رکھ کر یہ تعلیم دی ہے۔ یہ بالکل وہی ہے جو میرے استاد نے مجھ تک پہنچائ تھی اور اس نے مجھے اطمینان دلایا تھا کہ اس کو اس کے اپنے استاد نے اسی طرح پڑھایا تھا۔ اس کا سلسہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی محفوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔

اسلامی روایات (Tradition) کے سوا دنیا کی کسی قوم نے اپنی مذہبی کتاب کو محفوظ کرنے کے لیے یہ اصول کبھی اختیار نہیں کیے تھے۔ یہ چیزیں قرآن مجید کی تدوین کے سلسلے میں عہد نبوی میں ہی پیش آئیں مگر اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا۔ ایک اور چیز کی بھی شروع ہی سے ضرورت تھی۔ قبل اس کے کہ میں اس کا ذکر کرو، قرآن مجید کے تحریری نسخوں کے متعلق بھی کچھ آپ کو بتاتا چلوں کہ ان کا کب سے پتہ چلتا ہے۔ غالباً نبوت کے پانچویں سال کا واقعہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبول کیا۔ ان کے واقعہ سے آپ واقف ہوں گے۔ وہ اس زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت جانی دشمن تھے۔ ایک دن یہ طے کرکے گھر سے نکلے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذ باللہ) قتل کرڈالوں۔ راستے میں ان کا ایک رشتہ دار ملا جس نے اسلام تو قول کرلیا تھا لیکن اسے چھپا کر رکھا تھا۔ اس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ ہتھیار سے لیس ہوکر کہاں جارہے ہو؟ چونکہ وہ رشتہ دار تھا اس لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے بتادیا کہ میں محمد کو (نعوذباللہ) قتل کرنے جارہا ہوں کہ اس نے ہنگامہ مچارکھا ہے۔ اس رشتے دار نے کہا اے عمر، اپنے قبیلے کو بنو ہاشم کے قبیلے سے جنگ میں الجھانے سے پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔ تہماری بہن فاطمہ بھی مسلمان ہوچکی ہے اس کا شوہر بھی مسلمان ہوچکا ہے۔ پہلے اپنے گھر کی خبر لو بعد میں دنیا کی اصلاح کرنا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حیران ہوئے اور سیدھے بہن کے گھر پہنچے۔ دروازے کے پاس انہوں نے اندر سے کچھ آواز سنی جیسے کوئ شخص گارہا ہے یا خوش الحانی سے کچھ پڑھ رہا ہے۔ انہوں نے بہت زور سے دروازہ کھٹکھٹایا، گھر سے ایک شخص نکلا اور یہ اندر پہنچے۔ وہاں بہن اور بہنوئ سے جو سخت کلامی ہوئ اس سے آپ لوگ واقف ہیں۔ میں مختصراً ذکر کررہا ہوں کہ بالآخر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بہن کواس بات پر آمادہ کرلیا کہ جو چیزیں پڑھ رہی تھیں وہ ان کو دکھائیں۔ انہوں نے غسل کرانے کے بعد آپ کو وہ چیز پیش کی۔ یہ قرآن مجید کی چند سورتیں تھیں۔ ان کو پڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ متاثر ہوئے اور مسلمان ہوگئے۔ اس واقعے سے میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن مجید کی کم از کم چند سورتوں کے تحریری صورت میں پائے جانے کا ذکر سنہ ٥ نبوی ہی سے یعنی قبل ہجرت سے ملتا ہے۔ اس کے بعد جس تحریری نسخے کا پتہ چلتا ہے اس کا ذکر بھی دلچسپ ہے۔ یہ غالباً بیعت عقبہ ثانیہ کا واقعہ ہے۔ مدینے سے کچھ لوگ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے ان میں سے بنی زریق کے ایک شخص کے بارے میں مؤرخین نے صراحت سے لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی اس وقت تک نازل شدہ سورتوں کا مکمل مجموعہ ان کے سپرد کیا۔ یہ صحابی مدینہ منورہ پہنچ کر اپنے قبیلے میں اپنے محلے کی مسجد میں اسے روزانہ باآواز بلند پڑھا کرتے تھے۔ گویا قرآن مجید مدون ہونے یا تحریری صورت میں پائے جانے کا یہ دوسرا واقعہ ہے جس کا مورخوں نے صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ 

میں یہ بیان کررہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قرآن کو کسی مستند استاد سے پڑھنا پہلی خصوصیت تھی۔ دوسری خصوصیت تحریری صورت میں محفوظ رکھنا، تاکہ اگر کہیں بھول جائے تو تحریر دیکھ کر اپنے حافظے کو تازہ کرلیا جائے اور تیسری خصوصیت اسے حفظ کرنا تھا۔ ان تین باتوں کا حکم دیا گیا تھا۔ لیکن اس میں ایک پیچیدگی اس طرح پیدا ہوگئی تھی کہ قرآن مجید کامل حالت میں بہ یک وقت نازل نہیں ہوا تھا۔ بلکہ جستہ جستہ 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو میکانیکی طور پر مدون نہیں کیا کہ پہلی آیت شروع میں ہو اور بعد میں نازل شدہ دوسرے نمبر پر رہے بلکہ اس کی تدوین الہام اور حکمت نبوی کے تحت ایک اور طرح سے کی گئی۔ قرآن مجید کی اولین نازل شدہ آیتیں جیسا کہ میں نے ابھی آپ سے عرض کیا سورۂ اقراء کی ابتدائی پانچ آیتیں ہیں۔ یہ آیتیں سورہ نمبر 96 میں ہیں۔ جب کہ قرآن مجید کی کل سورتیں 114 ہیں۔ ان میں 96 نمبر پر ابتدائ سورۃ ہے۔ قرآن مجید میں اب جو بالکل ابتدای سورتیں ملتی ہیں، مثلاً سورہ بقرہ وغیرہ وہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں۔ دوسرے الفاظ میں قرآن مجید ترتیب کے لحاظ سے مدون نہیں ہوا بلکہ ایک دوسری صورت میں مرتب ہوا۔ اس کی وجہ سے لوگوں کو دشواریاں پیش آسکتی تھیں۔ یعنی آج ایک سورۃ نازل ہوئ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت دیتے ہیں کہ اس کو فلاں مقام پر لکھو۔ پھر کل ایک آیت نازل ہوئ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ اس کو فلاں آیت سے قبل لکھو یا فلاں آیت کے بعد لکھو یا فلاں سورۃ میں لکھو۔ اس لیے ضرورت تھی کہ وقتاً فوقتاً نظر ثانی ہوتی رہے۔ لوگوں کے ذاتی نسخوں کی اصلاح اور نظر ثانی کا ذکر بھی ہجرت کے بعد سے ملتا ہے۔ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف کے مہینے میں دن کے وقت قرآن مجید کو جتنا اس سال تک نازل ہوا تھا باآواز بلند دہرایا کرتے تھے اور ایسے صحابہ جن کو لکھنا پڑھنا آتا تھا وہ اپنا ذاتی نسخہ ساتھ لاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت پر اس کا مقابلہ کرتے جاتے تاکہ اگر ان سے کسی لفظ کے لکھنے میں یا سورتوں کو صحیح مقام پر درج کرنے میں کوئ غلطی ہوئ ہےتو وہ اس کی اصلاح کرلیں۔ یہ چیز "عرضہ" یا پیشکش کہلاتی تھی۔ مؤرخین مثلاً امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ نے صراحت کی ہے کہ آخری سال وفات سے چند ماہ پہلے جب رمضان کا مہینہ آیا تو آپ نے پورے کا پورا قرآن مجید لوگوں کو دومرتبہ سنایا اور یہ بھی کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ میری وفات قریب آگئی ہے کیونکہ قرآن حکیم کے متعلق جبرئیل علیہ السلام نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں دو مرتبہ پڑھ کر سناؤں تاکہ اگر کسی سے غلطیاں ہوئ ہوں تو باقی نہ رہیں۔ یہ تھی تدبیر جو آخری نبی نے آخری پیغام ربانی کی حفاظت کے لیے اختیار فرمائ۔ اس طرح قرآن مجید کے ہم تک قابل اعتماد حالت میں پہنچنے کا اہتمام ہوا۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئ تو شروع میں قرآن مجید کی طرف کسی کی توجہ مبذول نہ ہوئ۔ لوگوں کے پاس جو کچھ موجود تھا اس کو نماز میں پڑھا کرتے تھے اور اس کا احترام کرتے تھے لیکن پھر ایسا واقعہ پیش آیا جس نے نہ صرف اسلامی حکومت بلکہ تمام مسلمانوں کو مجبور کردیا کہ وہ قرآن مجید کی طرف فوری توجہ دیں۔ اس زمانے میں قرآن مجید کا کوئ سرکاری نسخہ موجود نہیں تھا اور غالباً کسی ایک شخص کے پاس بھی کامل قرآن مجید لکھا ہوا موجود نہیں تھا۔ یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ملک میں چند لوگ مرتد ہوگئے اور مسلیمہ کذاب نے نہ صرف ارتداد کیا بلکہ نئے نبی ہونے کا اعلان بھی کردیا۔ وہ چونکہ ایک طاقتور قبیلے کا سردار تھا اس لیے بہت سے لوگ اس کے حامی بھی ہوگئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے جنگ کی۔ یہ جنگ بہت شدید تھی اور اس میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی جب کہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی اور جنگ بھی دشمن کے علاقے میں یمامہ کے مقام پر ہوئ۔ میں جب وہاں گیا تھا تو وہاں کے لوگوں نے بتایا کہ یہ جنگ موجود شہر ریاض کے مضافات میں ہوئ تھی۔ اس جنگ میں بہت سے مسلمان شہید ہوئے۔ ان شہید ہونے والوں میں چند لوگ ایسے بھی تھے جو قرآن مجید کے بہترین حافظ تھے۔ مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئ۔ مدینے کے مسلمانوں کو فتح پر خوشی ہوئی لیکن یہ اطلاع پاکر کہ بہت سے برگزیدہ اور بہترین حافظ قرآن مسلمان اس جنگ میں شہید ہوئے ہیں رنج بھی ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر قرآن مجید کے تحفظ پر حکومت نے توجہ نہ کی اور حافظ قرآن رفتہ رفتہ آئندہ جنگوں میں شہید ہوتے رہے یا طبعی موت سے اس دنیا سے رخصت ہوتے رہے تو پھر قرآن مجید کے لیے بھی وہی دشواری پیش آئے گی جو پرانے انبیاء علیہ السلام کی کتابوں کے سلسلے میں پیش آئ تھی۔ اس لیے وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ اے امیر المومنین قرآن کے تحفظ پر توجہ فرمائیے۔ یمامہ کی جنگ میں چھ ہزار مسلمان شہید ہوچکے ہیں جن میں بہت سے حافظ قرآن بھی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس تجویز پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جواب، ان کی سیرت کے ایک خاص پہلو کا مظہر ہے۔ وہ فدائے رسول تھے اور فدائے رسول کا جواب ایسا ہی ہونا چاہیے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اے عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ میں کیسے کروں؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحث کرتے ہیں۔ بالآخر دونوں اس بات پر رضا مند ہوئے کہ کسی تیسرے شخص کو حاکم بنائیں اور وہ جو فیصلہ کردے اس پر عمل کریں۔ چنانچہ انہوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا حاکم بنایا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک کاتب وحی تھے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فوری جواب بھی وہی تھا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تھا کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ ہم کیسے کریں؟ دوبارہ بحث ہوئ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا اے زید! اگر لکھیں تو اس میں حرج کیا ہے؟ روایت میں حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ یہ ہیں کہ واقعی حرج تو مجھے بھی نظر نہیں آتا۔ یہ ایک جذباتی رویہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تو ہم کیسے کریں؟ لیکن اگر کریں تو اس سے کوئ امر مانع نظر نہیں آتا۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا کہ یہ کام میں سر انجام دوں تو مجھے یہ اتنا مشکل معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی تدوین کے مقابلے میں اگر مجھے جبلِ احد کے سرپر اٹھانے کا حکم دیا جاتا تو وہ میرے لیے آسان ہوتا۔ 

قرآن مجید کی تدوین کے سلسلے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے احکام قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے شہر مدینہ میں ڈھنڈورا پٹوادیا کہ جس شخص کے پاس قرآن مجید کا کوئ حصہ تحریری صورت میں موجود ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس "عرضہ" کے موقع پر جو تلاوت ہوتی تھی اس سے مقابلہ کرکے تصیح شدہ ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھا ہوا نسخہ موجود ہے تو وہ لاکر اس کمیشن کے سامنے پیش کرے۔ کمیشن کے صدر حضرت زید بن ثابت تھے لیکن کئ اور مددگار بھی تھے جن میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے۔ اس کمیشن کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ قرآن مجید کے جو نسخے پیش کیے جائیں قابل اعتماد ہوں، عرضہ میں پیش کیے ہوئے نسخے ہوں۔ اگر کوئ آیت کم سے کم دوتحریری نسخوں میں موجود ہو تو اسے لکھا جائے ورنہ رد کردی جائے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں اس طرح قرآن مجید کی تدوین ہوئ اور اس کو ایک کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نگرانی میں انجام دیا گیا۔ یہ بات بھی نہ بھلائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت کم از کم پچیس حافظ موجود تھے جن میں سے کچھ انصار تھے اور کچھ مہاجرین، جنہیں سارا قرآن مجید زبانی یاد تھا۔ ان میں ایک خاتون حافظہ حضرت ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں۔ خود اس کمیشن کے صدر، زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حافظ تھے۔ اس لیے انہوں نے جو کچھ لکھا اس میں یقین کے ساتھ لکھا کہ ان کے ذہن میں بھی اسی طرح موجود ہے یہاں ایک اور چھوٹی سی بات کا ذکر کرتا ہوں کہ جب لوگ نسخہ لاکر پیش کرتے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہیں حکم دیتے تھے کہ قسم کھاکر بتاؤ کہ یہ نسخہ جو تم پیش کررہے ہو وہی ہے جس کی تصیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوئ ہے۔ وہ قسم کھا کر یقین دلاتے تو پھر اس سے استفادہ کیا جاتا۔ جب پورا قرآن مجید لکھا جا چکا تو حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اسے شروع سے آخر تک پڑھا۔ اس میں مجھے ایک آیت کم نظر آئی یہ آیت میرے حافظے میں تو موجود تھی مگر کسی تحریری نسخے میں موجود نہیں تھی۔ چنانچہ میں نے شہر کے چکر لگائے۔ ہر گھر می داخل ہوا اولاً مہاجرین کے گھروں میں، کسی کے پاس یہ آیت تحریری صورت میں موجود نہیں تھی۔ پھر انصار کے گھروں کو گیا۔ بالآخر ایک شخص کے پاس ایک تحریری نسخہ ملا۔ وہ نسخہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھا ہوا تھا لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہدایت تھی کہ جب تک دو تحریری نسخے نہ ملیں اس وقت تک اس کو قرآن کے طور پر قبول نہ کیا جائے۔ جبکہ یہ آیت صرف ایک تحریری نسخے میں ملی تھی۔ لیکن یہاں مشیت خداوندی اپنا اثر دکھاتی ہے۔ اتفاق سے یہ وہ شخص تھا جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اس کے کسی کام سے خوش ہوکر کہا تھا کہ آج سے تمہاری شہادت دوشہادتوں کے مساوی سمجھی جائے گی، ان کا نام خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا۔ غرض یہ قدرت کی طرف سے پیشگی انتظام تھا۔ اس طرح اس آیت کو انہوں نے صرف ایک شخص سے لے کر نقل کیا۔ ان کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں نے قرآن کو دوبارہ پڑھا تو ایک اور آیت کی بھی کمی نظر آئی۔ ممکن ہے کہ وہ ایک ہی واقعہ ہو اور آیت کے متعلق راویوں میں اختلاف ہو۔ بہر حال وہاں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اس نام والے ایک شخص نے وہ چیز بیان کی۔ یہ آیتیں جن کا ہمارے پاس صراحت سے ذکر موجود ہے، کہ کون سی آیتیں تھی، فرض کیجئے کہ اگر آج ہم ان کو قرآن مجید سے خارج بھی کردیں تو کوئ اہم چیز خارج نہیں ہوتی۔ قرآن مجید کی جن آیتوں کی طرف یہ اشارہ ہے ان کا مفہوم دوسری آیتوں میں بھی موجود ہے۔ لیکن بہر حال جس احتیاط سے قرآن مجید کی تدوین عمل میں آئ اس کا مقابلہ تاریخ عالم کی دینی کتابوں می سے کوئ کتاب بھی نہیں کرسکتی۔

ایک اور نکتہ یہاں بیان کرنا خالی از فائدہ نہ ہوگا اور اسی پر یہ تقریر ختم کرتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے کا ذکر ہے، جرمنی کے عیسائ پادریوں نے یہ سوچا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں آرامی زبان میں جو انجیل تھی وہ تو اب دنیا میں موجود نہیں۔ اس وقت قدیم ترین انجیل یونانی زبان میں ہے اور یونانی سے ہی ساری زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے ہیں۔ لہٰذا یونانی مخطوطوں کو جمع کیا جائے اور ان کا آپس میں مقابلہ کیا جائے۔ چنانچہ یونی زبان میں انجیل کے نسخے جتنے دنیا میں پائے جاتے تھے کامل ہوں کہ جزئ، ان سب کو جمع کیا گیا اور ان کے ایک ایک لفظ کا باہم مقابلہ (Collation) کیا گیا۔ اس کی جو رپورٹ شائع ہوئ اس کے لفظ یہ ہیں: "کوئ دولاکھ اختلافی روایات ملتی ہیں" یہ ہے انجیل کا قصہ۔ غالباً اس رپورٹ کی اشاعت سے کچھ لوگوں کو قرآن کے متعلق حسد پیدا ہوا۔ جرمنی ہی میں میونک یونیورسٹی میں ایک ادارہ قائم کیا گیا "قرآن مجید کی تحقیقات کا ادارہ" اس کا مقصد یہ تھا کہ ساری دنیا سے قرآن مجید کے قدیم ترین دستیاب نسخے خرید کر، فوٹو لے کر، جس طرح بھی ممکن ہو جمع کیے جائیں۔ جمع کرنے کا یہ سلسلہ تین نسلوں تک جاری رہا۔ جب میں 1933ء میں پیرس یونیورسٹی میں تھا تو اس کا تیسرا ڈائریکٹر پریتسل Pretzl، پیرس آیا تھا تاکہ پیرس کی پبلک لائبریری میں قرآن مجید کے جو قدیم نسخے پائے جاتے ہیں ان کے فوٹو حاصل کرے۔ اس پروفیسر نے مجھ سے شخصاً بیان کیا کہ اس وقت (یہ 1933ء کی بات ہے) ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں قرآن مجید کے بیالیس ہزار نسخوں کے فوٹو موجود ہیں اور مقابلے (Collation) کا کام جاری ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں اس ادارے کی عمارت پر ایک امریکی بم گرا اور عمارت اس کا کتب خانہ اور عملہ سب کچھ برباد ہوگیا لیکن جنگ کے شروع ہونے سے کچھ ہی پہلے ایک عارضی رپورٹ شائع ہوئ تھی۔ اس رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں کہ قرآن مجید کے نسخوں میں مقابلے کا جو کام ہم نے شروع کیا تھا وہ ابھی مکمل تو نہیں ہوا لیکن اب تک جو نتیجہ نکلا ہے وہ یہ ہے کہ ان نسخوں میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں تو ملتی ہیں لیکن اختلافاتِ روایت ایک بھی نہیں۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ کتابت کی جو غلطی ایک نسخے میں ہوگی وہ کسی دوسرے نسخوں میں نہیں ہوگی۔ مثلا فرض کیجئے "بسم اللہ الرحیم" میں "الرحمٰن" کا لفظ نہیں لیکن یہ صرف ایک نسخے میں ہے۔ باقی کسی نسخے میں ایسا نہیں ہے۔ سب میں "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" ہے۔ اس کو ہم کاتب کی غلطی قرار دیں گے۔ یا کہیں کوئ لفظ بڑھ گیا ہے مثلاً ایک نسخے میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہے باقی نسخوں میں نہیں تو اسے کاتب کی غلطی قرار دیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی چیزں کہیں کہیں سہو قلم یعنی کاتب کی غلطی سے ملتی ہیں لیکن اختلاف روایت یعنی ایک ہی فرق کئ نسخوں میں ملے ایسا کہیں نہیں ہے۔ یہ قرآن مجید کی تاریخ کا خلاصہ، جس سے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں خدا کا جو فرمان ہے (انا نحن نزلنا الذکر ونا لہ لحافظون) "ہم ہی اسے نازل کرتے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے" یہ تمام واقعات جو میں نے آپ سے بیان کیے اس آیت کی حرف بحرف تصدیق کرتے ہیں۔
 
 
سوالات و جوابات
برادران کرام: خواہران محترم السلام علیکم

سوالات کی ایک خاصی تعداد جمع ہوئ ہے۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ میری تقریر کو توجہ کے ساتھ سنا گیا ہے۔ اسی وجہ سے کئ سوالات ذہنوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ اپنی بساط کے مطابق ذہن میں جو جواب آئے وہ آپ سے عرض کروں۔ ظاہر ہے کہ ایک گھنٹے کی مختصر تقریر میں ساری باتوں کو بیان کرنا ممکن نہیں تھا۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ کسی تحریری چیز کو میں نے نہیں پڑھا بلکہ آپ سے معلومات برجستہ بیان کرتا چلا گیا۔ چنانچہ اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر کچھ باتیں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کی تدوین قرآن کے بارے میں، آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ دو سوال اس بارے میں بھی آئے ہیں۔
[فاضل مقرر نے یہ دو نوں سوال نہیں سنائے۔ لیکن جواب کی نوعیت سے ظاہر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ سوال کیا گیا تھا کہ تدوین قرآن کے سلسلے میں ان کی خدمات کیا ہیں اور انہیں جامع القرآن کیوں کہا جاتا ہے]۔

جواب:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جب قرآن مجید کی تحریراً تدوین ہوئ تو مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ نسخہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور ان کی وفات تک ان کے پاس رہا۔ جب ان کی وفات ہوئ تو وہ نسخہ ان کے جانشین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلا گیا۔ اور پھر مؤرخین لکھتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کی شہادت واقع ہوئ تو وہ نسخہ ان کی بیٹی ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس چلاگیا۔ امہات المومنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازوجات مطہرات میں سب پڑھی لکھی نہیں تھی۔ بعض کو صرف پڑھنا آتا اور بعض کو پڑھنا لکھنا دونوں آتے تھے۔ جب کہ بعض امی تھیں۔ اس میں کوئ اعتراض کا پہلو نہیں صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی بیٹی ان معدودے چند عورتوں میں تھیں جن کو پڑھنا لکھنا دونوں آتے تھے۔ بہر حال حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے تیار شدہ نسخہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس چلا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جانشین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غالباً ان کی شخصیت اور وجاہت کی بناء پر، یہ مناسب نہیں سمجھا کہ وہ نسخہ ان سے لے لیں۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود حافظ قرآن تھے۔ ان کے پاس ان کا اپنا نسخہ موجود تھا۔ انہیں ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئ کہ وہ اس نسخے کو حاصل کریں۔ لیکن ایک واقعہ ایسا پیش آیا جس کی بنا پر ضررت پیش آئ کہ وہ نسخہ دوبارہ خلیفہ وقت کے پاس لایا جائے اور اس سے استفادہ کیا جائے۔

واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں غیر معمولی تیز رفتاری سے چہار دانگ عالم میں فتوحات ہوئیں تو بہت سے ایسے لوگ جو دنیا طلب تھے انہیں موقع پرستی کے تحت خیال آیا کہ وہ بھی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کریں۔ لیکن حقیقت میں وہ مسلمان نہیں تھے بلکہ منافق تھے اور ان کی کوشش تھی کہ اسلام کو اندر سے ٹھیس پہنچائ جائے۔ اس سلسلے میں وہ قرآن مجید پر بھی حملے کرتے رہے۔ ممکن ہے اس کی کوئ اہمیت نہ رہی ہو لیکن ایک واقعے سے سنگین صورتحال پیدا ہوگئی۔ وہ یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں آرمینیا سے جنگ کرنے کے لیے ایک فوج بھیجی گئ۔ آرمینیا کا تصور غالباً آپ کے ذہنوں میں نہیں ہوگا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ شمالی ترکی جہاں آج کل ارض روم شہر ہے اور ایرانی سرحد کا علاقہ ہے۔ اس علاقے میں ارمنی رہتے تھے۔ یہ علاقہ آرمینیا کہلاتا تھا۔ قسطلانی جو بخاری کے شارح ہیں وہ لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک فوج جب ارزن روم کے قریب موجود تھی (یہ ارزن روم اب ارض روم بن گیا ہے) تو اس وقت فوج میں ایک حادثہ پیش آیا۔ وہ یہ تھا کہ امام اور مقتدیوں میں بعض آیتوں کی قرات کے بارے میں جھگڑا ہوگیا۔ امام نے ایک طرح سے عبارت پڑھی اور حاضرین نے کہا یوں نہیں یوں ہے۔ ایک نے کہا ہمیں فلاں استاد فلاں صحابی نے پڑھایا ہے۔ دونوں اپنی اپنی باتوں پر اڑے رہے۔ قریب تھا کہ تلواریں چلیں اور خوں ریزی ہو کہ فوج کے کمانڈر انچیف نے حسن تدبیر سے اس فتنے کی آگ کو ٹھنڈا کیا۔ جب وہ فوج مدینہ منورہ واپس آئ تو کمانڈر انچیف حذیمہ بن یمان اپنے گھر میں بچوں کی خیریت پوچھنے سے پہلے سیدھے خلیفہ کے پاس پہنچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یا امیر المومنین امت محمد کی خبر لیجئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ کیا واقعہ پیش آیا؟ تو انہوں نے یہ قصہ سنایا۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوراً فیصلہ کیا۔ ان میں ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ کوئ کام ان کے ذہن میں آتا اور فیصلہ کرلیتے تو فوراً اس کی تعمیل بھی کراتے۔ جیسے ہی یہ صورت حال سامنے لائ گئ تو انہوں نے فرمایا کہ اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ایک آدمی بھیجا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے تیار شدہ جو نسخہ آپ کے پاس ہے وہ مجھے مستعار دیجئے۔ استفادہ کرنے کے بعد میں آپ کو واپس کردوں گا۔ وہ نسخہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے دوبارہ پرانے کاتب وحی زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے سپرد کیا کہ اس کی نقلیں تیار کرو، اور ان نقلوں کا مقابلہ کرکے اگر ان میں کتابت کی غلطیاں رہ گئی ہوں تو ان کی اصلاح کرو۔ قرآن مجید چونکہ عربی زبان کی پہلی کتاب ہے اس لیے ابتدائ زمانے میں عربی خط میں کچھ خامیاں ہوسکتی ہیں۔ لہٰذا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی ہدایت کہ کہ اگر تلفظ کی ضرورت کے لحاظ سے املا میں کچھ ترمیم کی ضرورت محسوس ہوتو ضرور کرو۔ یہ نکتہ بھی سمجھایا کہ عربی زبان مختلف علاقوں میں کچھ فرق بھی رکھتی ہے۔ قبیلہ نجد کے لوگ ایک لفظ کو ایک طریقے ادا کرتے ہیں مدینے کے لوگ دوسرے طریقے سے، فلاں جگہ کے لوگ تیسرے طریقے سے۔ اس لیے اگر کسی لفظ کے تلفظ میں اختلاف پایا جاتا ہے تو قرآن مجید کو مکہ معظمہ کے تلفظ کے مطابق لکھو۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے چند مددگاروں کے تعاون سے دوبارہ اس پرانے نسخے کو سامنے رکھ کر نقل کرنا شروع کرتے ہیں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر کسی مسئلے میں اختلاف ہوتو مسئلہ میرے پاس بھیجو، میں خود اس کا فیصلہ کروں گا۔ بدقسمتی سے یہ واقعہ جو ارض روم میں پیش آیا تھا کہ فلاں آیت کے متعلق یا فلاں لفظ کے متعلق فوج میں جھگڑا ہوا، اس کی کوئ تفصیل نہیں ملتی، شاید اس جھگڑے کی بنیاد قبائلی بولیوں اور لہجوں کا اختلاف ہو۔ اس قسم کی ایک مثال مجھے یاد آتی ہے۔ قرآن مجید میں "تابوت" کا لفظ آیا ہے، جس کے معنی صندوق کے ہوتے ہیں۔ اس کا تلفظ مدینہ منورہ کی بولی (Dialect) میں "تابوہ" ہوتا تھا۔ آخر میں "ۃ" کے ساتھ جب کہ مکے کے لوگ "تابوت" کے ساتھ پڑھتے تھے۔ اس پر کمیشن کے ارکان متفق نہیں ہوسکے۔ یہ اختلافی مسئلہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے پیش ہوا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تابوت بڑی ت کے ساتھ لکھو، یہ کوئ بڑی اہمیت کی بات نہیں، لیکن میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں قرآن مجید کی تدوین ہوئ اس کی حقیقت کیا ہے؟ حقیقت صرف اس قدر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں قرآن مجید کی نقلیں تیار کی گئیں۔ املا میں کہیں کہیں ترمیم کی گئ۔ لفظ کی آواز کو نہیں بدلا گیا۔ لیکن اس آواز کی املا میں کچھ فرق کیا گیا۔ اس کے بعد اس کے چار نسخے یا ایک روایت کے مطابق سات نسخے تیار کیے گئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں علمی دیانت داری کا جو معیار تھا اس کے تحت انہوں نے حکم دیا کہ ان ساتوں نسخوں کو ایک ایک کرکے، مسجد نبوی میں ایک شخص باآواز بلند شروع سے لے کر آخرت تک پڑھے تاکہ کسی شخص کو بھی یہ شبہ نہ رہے کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن میں کہیں کوئ تبدیلی کی ہے۔ جب یہ سارے نسخے اس طرح پڑھے گئے اور سب کو اطمینان ہوگیا کہ یہ نسخے صحیح ہیں تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی وسیع سلطنت کے مختلف صوبوں کے صدر مقاموں پر وہ نسخے بھیجے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کی اسلامی سلطنت کی وسعت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ 27 ہجری یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے صرف پندرہ سال بعد، اسلامی فوج ایک طرف اسپین میں اور دوسری طرف دریائے جیجوں کو عبور کرکے ماوراء النہر (چین) میں داخل ہوگئ تھی۔ یورپ، ایشیا اور افریقہ، اسلامی سلطنت ان سب براعظموں میں پھیل گئ تھی اس کے بڑے بڑے صوبوں میں قرآن مجید کے یہ نسخے بھیجے گئے اور یہ حکم دیا گیا کہ آئندہ صرف انہیں سرکاری مستند نسخوں سے مزید نقلیں لی جایا کریں۔ اس بات کی تاکید بھی کی گئ کہ اگر کسی کے پاس کوئ نسخہ اس کے خلاف پایا جائے تو اسے تلف کردیا جائے۔ اس حکم کی تعمیل کس حد تک ہوئ، اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلتا۔ عملاً یہ ناممکن بھی تھا کہ تین براعظموں کے ہر ہر مسلمان کے گھر میں پولیس جائے اور اور قرآن مجید کا شروع سے لے کر آخر تک سرکاری نسخے سے مقابلہ کرے۔ اور پھر اس میں کوئ اختلاف نظر آئے تو اسے تلف کردے۔ تاریخی طور پر ایسے کسی واقعے کا ذکر بھی نہیں ملتا لیکن بہر حال حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے سے آج تک قرآن مجید کے جو نسخے ہمارے پاس نسلاً بعد نسلاً چلے آرہے ہیں، وہ پہلی صدی ہجری سے لے کر آج تک وہی ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو چار یا سات قلمی نسخے مختلف مقامات پر بھیجے ان میں سے کچھ اب تک محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔ ثبوت کوئ نہیں، لیکن یہ روایت ہے کہ یہ انہی نسخوں میں سے ہیں۔ ایک نسخہ آج کل روس کے شہر تاشقند میں ہے وہاں کیسے پہنچا اس کا قصہ یہ ہے کہ یہ نسخہ پہلے دمشق میں پایا جاتا تھا جو بنی امیہ کا صدر مقام تھا۔ جب دمشق کو تیمور لنگ نے فتح کیا تو وہاں کے مال غنیمت میں سب سے زیادہ قیمتی چیز کے طور پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قرآن مجید پایا۔ اسے لیا اور اپنے ساتھ پایہ تخت سمر قند لایا اور وہاں اسے محفوظ رکھا۔ یہ نسخہ سمر قند میں رہا تاآنکہ گزشتہ صدی میں روسیوں نے سمر قند کو فتح کرلیا۔ فتح کرنے کے بعد اس نسخے کو جس کی بڑی شہرت تھی روسی کمانڈر انچیف نے وہاں سے لے کر سینٹ پیٹرس برگ منتقل کردیا جو آج کل لینن گراڈ کہلاتا ہے۔ روسی مؤرخ بیان کرتے ہیں کہ اس نسخے کو سمر قند کے حاکم نے روسی کمانڈر انچیف کے ہاتھ 25 یا 50 روپے میں فروخت کردیا تھا، ہم نے اسے چرایا نہیں بلکہ خرید کر لائے ہیں۔ بہر حال پہلی جنگ عظیم کے اختتام تک وہ نسخہ لینن گراڈ میں رہا اس کے بعد جیسا کہ آپ کو معلوم ہے زار کی حکومت ختم ہوگئ اور کمیونسٹوں نے حکومت پر قبضہ کرلیا۔ اس وقت بہت سے روسی باشندے جو کمیونسٹ حکموت کے ماتحت رہنا نہیں چاہتے تھے روس چھوڑ کر دنیا میں تتر بتر ہوگئے۔ ان میں سے ایک صاحب پیرس بھی آئے جو جنرل علی اکبر توپچی باشی کے نام سے مشہور تھے۔ میں خود ان سے مل چکا ہوں، انہوں نے اس کا قصہ مجھے سنایا۔ کہنے لگے کہ جب زار کو قتل کیا گیا اس وقت میں فوج میں ایک بڑے افسر کی حیثیت سے سینٹ پیٹرس برگ ہی میں موجود تھا۔ میں نے ایک کمانڈر (فوجی دستہ) بھیجا کہ جاکر شاہی محل پر قبضہ کرو اور شاہی کتب خانے میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو قرآن مجید کا نسخہ ہے اسے تلاش کرکے لے آؤ۔ کمانڈر گیا اور وہ قرآن مجید لے آیا۔ انہوں نے ایک فوجی جنرل کی حیثیت سے ریلوے اسٹیشن جاکر وہاں کے اسٹیشن ماسٹر سے کہا کہ مجھے ایک ریل کا انجن درکار ہے۔ اس انجن میں اس قرآن کو رکھا اور اپنے آدمیوں کی نگرانی میں انجن ڈرائیور کو حکم دیا کہ جس قدر تیزی سے جاسکتے ہو اس انجن کو ترکستان لے جاؤ۔ اس کی اطلاع کمیونسٹ فوجی کمانڈروں کو چند گھنٹے بعد ملی۔ چنانچہ اس کے تعاقب میں دوسرا انجن اور کچھ افسر روانہ کیے گئے لیکن وہ انجن ان کے ہاتھ سے باہر چکل چکا تھا اور اس طرح یہ نسخہ تاشقند پہنچ گیا۔ جب کمیونسٹ دور میں تاشقند پر روسیوں نے دوبارہ قبضہ کرلیا تو اس نسخے کو وہاں سے لینن گراڈ منتقل کرنے کی کوئ کوشش نہیں کی گئ۔ چنانچہ وہ نسخہ اب تک تاشقند میں محفوظ ہے۔ زار کے زمانے میں اس قرآن مجید کا فوٹو لے کر ایک گز لمبی تقطیع پر کل پچاس نسخے چاپے گئے تھے۔ ان میں سے چند نسخے میرے علم میں ہیں اور وہ دنیا میں محفوظ ہیں۔ ایک امریکہ میں ہے۔ ایک انگلستان میں ہے۔ ایک نسخہ میں نے کابل میں دیکھا تھا۔ ایک مصر کے کتب خانے میں پایا جاتا ہے۔ میرے پاس اس کا مائیکرو فلم بھی ہے۔ یہ ایک نسخہ ہے۔ دوسرا نسخہ استنبول میں توپ قاپی سرائے میوزیم میں موجود ہے جس کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ اس میں سورۂ بقرہ کی آیت (فسیکفیکھم اللہ) پر سرخ دھبے پائے جاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خون ہے۔ کیونکہ وہ جس وقت تلاوت کررہے تھے اس وقت انہیں شہید کردیا گیا تھا۔ تیسرا نسخہ انڈیا آفس لائبریری لندن میں ہے۔ اس کا فوٹو میرے پاس ہے۔ اس پر سرکاری مہریں ہیں اور لکھا ہے کہ یہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نسخہ قرآن ہے۔ ان نسخوں کے خط اور تقطیع میں کوئ فرق نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخے ایک دوسرے کے ہم عصر ہیں۔ یہ نسخے جھلی پر لکھے گئے ہیں، کاغذ پر نہیں ہیں۔ ممکن ہے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسخے ہوں یا اس زمانے میں یا اس کے کچھ ہی عرصہ بعد کے لکھوائے ہوئے نسخے ہوں۔ بہر حال یہ بات ہمارے لیے قابل فخر اور باعث اطمینان ہے کہ ان نسخوں میں اور موجودہ مستعملہ نسخوں میں، باہم کہیں بھی، کوئ فرق نہیں پایا جاتا۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جامع القرآن کہا جاتا ہے اس کے معنی یہ نہیں کہ انہوں نے قرآن کو جمع کیا۔ اس کی تاویل ہمارے مورخوں نے یہ کی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو ایک ہی قرآن پر جمع کیا۔ جو اختلاف بولیوں میں پایا جاتا تھا اس سے ان کو بچانے کے لیے مکہ معظمہ کے تلفظ والے قرآن کو انہوں نے نافذ کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر یہ اجازت دی تھی کہ مختلف قبائل کے لوگ مختلف الفاظ کو مختلف انداز میں پڑھ سکتے ہیں تو اب اس کی کوئ ضرورت باقی نہیں رہی کیونکہ مکہ معظمہ کی عربی اب ساری دنیائے اسلام میں نافذ اور رائج ہوچکی ہے۔ اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کو ایک قرآن مجید پر جمع کیا۔ خدا ان کی روح پر اپنی برکات نازل فرمائے۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پسندیدہ غذائیں اور ان کے فوائد

روغن زیتون

حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے روغن زیتون کو بہت پسند فرمایا ہے، نبی کریم  روٹی کو روغن زیتون سے چوپڑ کر تناول فرمایا۔

قرآن میں زیتون کا ذکرآیا ہے ،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ زیتون کا تیل کھاﺅ اور مالش میں استعمال کرو۔ اس لئے کہ وہ مبارک درخت سے پیدا ہوتا ہے۔

فوائد

زیتون کا تیل دنیا کاواحد تیل ہے، جو چربی میں تبدیل نہیں ہوتا یہ امراض قلب اور موٹاپے سے بچنے کیلئےانتہائی مفید ہے، روغن زیتوں استعمال کرنے والے افراد دل کی بیماریوں سے محفوظ رہتےہیں۔

زیتون جوڑوں اورپٹھوں کے درد، سانس کی بیماریوں، کولیسٹرول کےمسائل، بلڈ پریشر، گردوں کےامراض، موٹاپے اورفالج سمیت مختلف امراض سے انسان کو محفوظ رکھنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے۔

دودھ

دودھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ غذا رہی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ بہت پسند تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر گائے اور بکری کا دودھ استعمال فرماتے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کوئی چیز ایسی نہیں جو طعام اور مشروب دونوں کا کام دیتی ہو، سوائے دودھ کے۔

حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم لوگ گائے کے دودھ کو اپنے لئے لازم قرار دے دو، کیونکہ یہ شفا بخش ہے اور اس کا گھی دوا ہے۔

فوائد 

حضرت انسان کے لیے ایک مکمل غذا ہے اور اس سے بہتر غذا شاید ہی ہو۔ دودھ میں جسم کی ضرورت کے مطابق تمام اجزا موجود ہیں جن سے جسم صحت مند رہ سکتا ہے اور اس کی نشونما صحیح ہو سکتی ہے۔ جن علاقوں کے لوگ دودھ استعمال کرتے ہیں ان کی عمریں زیادہ ہوتی ہیں۔


شہد

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد بہت پسند تھا۔ اور اس کا بہت استعمال فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہد پسند فرماتےتھے۔ شہد کی شفا بخشی کا ذکر قرآن میںبھی آیا ہے اور اسے موت کے علاوہ ہر مرض کا علاج قرار دیا گیا ہے۔

فوائد

شہد کے بارے میں یہ بات طے شدہ ہے کہ یہ بہت سے امراض میں مفید ہے۔ اور اس کا استعمال جسم کو امراض سے محفوظ رکھتا ہے۔ تمام تر کاوشوں کے باوجود اب تک شہد کا متبادل تلاش نہیں کیا جا سکا۔ شہد کی ایک خوبی اس کے رس کا جلد اثر کرنا اور قدرتی انٹی بایوٹک ہونا ہے۔ یہ حلق سے نیچے اترتے ہی خون میں شامل ہو جاتا ہے۔ نوزائیدہ بچے سے لے کر جاں بلب مریض تک سب کے لئے غذا اور دوا ہے۔

کدو 

حضور اکرم کو سبزیوں میں کدو بہت پسند تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ آپ ﷺ کو ایک دعوت میں جو کی روٹی اور کدو گوشت کا شوربہ پیش کیا گیا، میں نے حضور نبی کریم کو دیکھا کہ پیالے کے کناروں سے کدو تلاش فرما کر تناول فرما رہے تھے۔ میں اس روز کے بعد ہمیشہ کدو کو پسند کرنے لگا۔

فوائد

کدو ایک سبزی ہے، جو ذائقہ میں لذیذ اور تاثیر میں زود ہضم ، صحت بخش اور دماغی صلاحیتوں کو بڑھانے والا ہے، کدو مفرح قلب، جگر اور اعصاب کے لیے مفید سبزی ہے۔

جو کی روٹی

نبی کریمؐ کی مرغوب غذاؤں میں جو بھی شامل ہے، حضرت محمد ﷺ جو کی روٹی کو بہت پسند فرماتے تھے۔ حضور ﷺ نے اپنی ساری زندگی میں کبھی بھی میدہ کی روٹی تناول نہیں فرمائی۔

ابو داﺅد میں حدیث ہے کہ آپ ﷺ نے جو کی روٹی کا ٹکڑا لیا اور اس پر کھجور رکھی اور فرمایا کہ یہ اس کا سالن ہے اور تناول فرما لیا۔

فوائد 

قدرت نے جو میں جسمانی قوت کا بیش بہا خزانہ چھپا کر ہمیں بخشا ہے، قدیم زمانے سے جو کا استعمال بطور علاج اور قوت بخش غذا میں ہوتا چلا آرہا ہے۔جو میں جسم کو توانائی بخشنے والے اجزاءکی خاصی مقدار پائی جاتی ہے، اس میں 80فیصد نشاستہ‘ لحمیات اور فاسفورس کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے۔

جو بلڈ پریشر کو فائدہ پہنچاتا ہے حدت کوکم کرتا ہے‘ پیاس بجھاتا ہے‘ جوڑوں کے درد کو فائدہ پہنچاتا ہے چونکہ زہریلے مادوں کو اخراج کرتا ہے اس لیے مہاسے‘ چہرے کے دانوں اور اس سلسلے میں دوسری جلدی بیماریوں کو دور کرتا ہے۔

یہ ہماری جسمانی صحت کے لیے ٹانک کا درجہ رکھتے ہیں۔ انہیں اپنی روزمرہ کی غذا میں شامل رکھیں اور صحت مند رہیں۔

سرکہ

ہمارے پیارے نبی ﷺ کو سرکہ بھی بہت پسند تھا۔ آپ ﷺ نے نہ صرف سرکہ کو تناول فرمایا بلکہ اس کی تعریف بھی فرمائی۔

حدیث میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ سرکہ بھی کیسا بہترین سالن ہے۔

حضرت اُ مّ ہانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم  میرے گھر تشریف لائے اور فرمایا : کیا تیرے پاس کھانے کے لئے کوئی شے ہے ؟ میں نے عرض کیا سوکھی ہوئی روٹی اور سرکہ کے سوا کچھ بھی نہیں ، حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ، وہی لے آﺅ وہ گھر سالن سے خالی نہیں جس گھر میں سرکہ ہو۔

فوائد

سرکہ کا استعمال ذیابیطس اور خون میں گلوکوز کی مقدار کو درست کرنے کیلئے فائدہ مند ہوتا ہے، سرکہ کا کھانے میں استعمال اس احساس کو بڑھا دیتا ہے کہ اب بھوک نہیں یعنی انسان کم کھاتا ہے اور اس طرح نظام انہضام بہتر رہتا ہے۔


گوشت

گوشت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرغوب غذا تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا و جنت دونوں جگہ سب کھانوں کا سردار گوشت ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے شوربے والا اور بُھنا ہوا گوشت شوق سے تناول فرمایا۔ حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں کہیں سے بکری کا گوشت آیا۔ اس میں سے دست کا گوشت خدمت اقدس میں پیش کیا گیا۔ آپ ﷺ نے اس کو دانتوں سے کاٹ کر تناول فرمایا۔

فوائد

گوشت جسم انسانی کی صحت و توانائی کے لئے بہت مفید قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں جسم کی طاقت و توانائی کے لئے اہم اجزا ہوتے ہیں۔

انجیر

انجیر بھی حضرت محمد کی پسندیدہ غذاؤں میں سے ایک ہے، حضرت محمد نے فرمایا انجیر جنت کا پھل ہے۔

فوائد 

انجیر کا پھل بڑھاپے کو روکتا ہے، یعنی اس پھل کے کھانے سے بڑھاپا جلدی نہیں آتا ، یہ کمزور اور دبلے پتلے لوگوں کے لئے نعمت بیش بہا ہے، ماہرین طب کا کہنا ہے کہ روزانہ انجیر کھانے سے موٹاپے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

انجیر کے اندر پروٹین، معدنی اجزاء، شکر، کیلشیم، فاسفورس پائے جاتے ہیں، دونوں انجیر یعنی خشک اور تر میں وٹامن اے اور سی کافی مقدار میں ہوتے ہیں۔ وٹامن بی اور ڈی قلیل مقدار میں ہوتے ہیں، ان اجزاء کے پیش نظر انجیر ایک مفید غذائی دوا کی حیثیت رکھتا ہے۔

اسکا استعمال ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے۔ اس میں فولاد‘ کیلشیم اور فاسفورس جیسے اجزاء شامل ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک انجیر انسانی جسم کو درکار فولاد کی دو فیصد ضرورت کو پوری کرتا ہے۔

 انگور

حضرت سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو انگور کے خوشے اس طرح تناول فرماتے ہوئے دیکھا کہ (چھوٹا سا ) خوشہ منہ میں لے کر دانے توڑے اور تنکول کو باہر کھینچ لیتے۔

فوائد 

اللہ کی نعمتوں میں ایک نعمت انگور ہے، جو انتہائی لذیذ اور بے مثال قوت بخش پھل ہ،ے اسے صحت و توانائی اور فرحت و انبساط فراہم کرنے کے لحاظ سے ایک اچھوتا اور پر کشش پھل تصور کیا جاتا ہے۔

انگور میں کاربوہائیڈریٹس‘ پروٹین‘ وٹامن اے‘ وٹامن سی‘کیلشیم اور آئرن پائے جاتے ہیں جو انسانی صحت کیلئے بہت مفید ہوتے ہیں، یہ ہر عمر کی خواتین کی توانائی کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ یہ جسم میں تازہ اور مصفی خون پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اس کے اندر بے پناہ غذائیت ہوتی ہے۔ اس کا رس نہ صرف معدے کی رطوبت کو مزید ہاضم بناتا ہے، بلکہ نظام انہضام کے بعد خون میں شامل ہو کر خون کو صحت مند بھی بناتا ہے۔

انگور کا رس آدھے سر کے درد اور معدے کی بیماریوں، تپ دق یا قبض، کھانسی، جسم کی کمزوری، خون کی کمی اور دیگر امراض کے لیے بہت مفید ہے۔

الله کے لیے لفظ خدا یا گاڈ کا استعمال کیسا ہے؟

سیدنا ابن مسعود سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا:


  مَا أَصَابَ أَحَدًا قَطُّ هَمٌّ وَلَا حَزَنٌ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ نَاصِيَتِي بِيَدِكَ مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي 


كِتَابِكَ أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي وَنُورَ صَدْرِي وَجِلَاءَ حُزْنِي وَذَهَابَ هَمِّي إِلَّا أَذْهَبَ اللهُ هَمَّهُ وَحُزْنَهُ وَأَبْدَلَهُ مَكَانَهُ فَرَجًا » 


’’کسی شخص کو اگر کوئی پریشانی یا تکلیف پہنچے تو وہ یوں دُعا کرے ’کہ اے اللہ میں آپ کا بندہ، آپ کے بندے کا بیٹا، آپ کی بندی کا بیٹا، میری پیشانی آپ کے ہاتھ میں ہے، میرے بارے میں آپ کا


 حکم لاگو ہوتا ہے، میرے بارے میں آپ کا ہر فیصلہ عدل پر مبنی ہے، میں آپ کو آپ کے ہر اس نام کا - جو آپ نے خود اپنا نام رکھا یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا یا اپنی کتاب میں نازل کیا 


یا اسے اپنے علم غیب میں رکھا (یعنی کسی دوسرے کو نہ بتایا) - واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ قرآن پاک کو میرے دل کی بہار، میرے سینے کا نور ، میرے غم کو کھولنے اور میری پریشانی کو لے 


جانے کا ذریعہ بنادیں‘ تو اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف اور پریشانی کو دور فرمادیں گے۔‘‘


صحابہ کرام رضوان الله علیھم اجمعین  نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم اسے سیکھ نہ لیں؟ 


آپ صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا ۔۔۔۔ بَلَىٰ يَنْبَغِي لِمَنْ سَمِعَهَا أَنْ يَتَعَلَّمَهَا ۔۔۔۔۔ کیوں نہیں جو بھی اس دُعا کو سنے اس کو چاہئے کہ اسے یاد کر لے۔‘‘

 [مسند احمد: 3704]


اس حدیث مبارکہ سے واضح طور پر علم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنےاچھے اچھے نام بذاتِ خود رکھے، اپنی کتاب میں نازل کیے، اپنے رسولوں کو خود سکھائے یا اپنے علم غیب میں محفوظ رکھے۔ ہمیں مخلوق کو کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں کہ اپنے رب، خالق اور مالک کے نام ہم رکھیں۔


کسی بھی جگہ،چیزیاشخصیت کے نام کو اسم کہتے ہیں۔اس کی دو قسمیں ہیں۔معرفہ اور نکرہ۔معرفہ خاص نام کواورنکرہ عام نام کو کہتے ہیں۔معرفہ کی چھ اقسام ہیں جن میں ایک اسم علم ہے اسم علم کسی کے ذاتی نام کو کہتے ہیں جیسے ابو بکر،عمر،زید وغیرہ۔مالک کائنات اور سارے جہانوں کے رب کا اسم ذات اللہ ہے۔باقی سارے نام صفاتی ہیں۔اسم ذات کا ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ایک زبان کے اسمائے علم ہر زبان میں اسی حالت میں رہتے ہیں اور انہیں کسی حال میں بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔جیسے کسی کا نام اصغر ہے تو کسی بھی زبان میں کہیں یہ اصغر ہی رہے گا۔ایسا نہیں ہو گا کہ یورپ والے اسے" اسمال یا لٹل" کہنے لگیں اور وہ ایران جاے تو لوگ اسے "کوتاہ یا کو چک" کے نام سے پکاریں۔بالکل اسی طرح لفظ اللہ کا ترجمہ خدا ،گاڈ ،بھگوان وغیرہ نہیں ہو گا۔

مارماڈیوک پکھتال نے عیسائی مذہب چھوڑکر اسلام قبول کرنے کے بعد قرآن پاک کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔پہلی ہی آیت میں لفظ اللہ کو گاڈ نہیں لکھا بلکہ اللہ ہی لکھا اور نیچے حاشیہ میں اس کی وضاحت بھی ان الفاظ میں کی:

میں نے شروع سے آخر تک لفظ اللہ استعمال کیا ہے کیونکہ انگریزی میں اس کے جوڑ کا کوئی لفظ نہیں ۔لفظ اللہ کانہ کوئی مونث ہے نہ ہی جمع اور نہ قابل تصور ہستی اللہ کے سوا اس کا اطلاق کسی پر نہیں ہوا ہے میں لفظ گاڈ کو صرف اسی جگہ استعمال کرتا ہوں جہاں عربی میں اس کا متبادل لفظ الہٰ مل جاتا ہے۔(قرآن پاک:انگریزی مترجم مارماڈیوک پکھتال :تاج کمپنی کراچی ص ن 1۔


اللہ تعالیٰ کے ننانوے 99معلوم اسماء حسنیٰ میں لفظ خدا شامل نہیں ۔لفظ خدا آتش پرست لوگ اپنے خود ساختہ خیر و شر کے خداؤں یعنی یزداں اور اہر من کے لیے استعمال کرتے ہیں۔یہ لفظ ایرانی آتش پرستوں کا باطل تصورات کا مظہر ہے۔مزید یہ کہ عیسائی اس لفظ کوبطورضداللہ کی جگہ استعمال کرتے ہیں بائبل کے تراجم پڑھ لیں کہیں بھی لفظ اللہ لکھا نہیں ملے گا بلکہ خدا ہی ملے گا۔اردوزبان میں عیسائی لٹریچر میں خدا اور خداوند ہی لکھا جاتا ہے اورستم یہ ہے کہ یہ لوگ لفظ خدا عیسیٰ علیہ السلام کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ایمان کا تقاضایہ ہے مسلم اس لفظ خدا سے بالکل پر ہیز کریں۔

اللّٰہ کا قرآن پاک میں ارشاد ہے۔

اللہ کے لیے ہیں سب اسماء حسنیٰ سو اس کو انہی ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کوچھوڑ دو جو اس کے ناموں میں الحاد (کج روی)اختیار کرتے ہیں۔ان کو اس کی سزامل کر رہے گی۔الاعراف 18

( میں نے بہت سی پوسٹ میں لفظ خدا کو ہو بہو لکھا اور شئیر کیا تھا جس کی میں اللہ پاک سے معافی چاہتا ھوں کہ انجانے میں فارورڈ میسیج میں ایسا کرتا رھا ۔۔ آئندہ بہت احتیاط کروں گا ۔۔ محمد احمد )


انگریزی لفظ (GOD) گاڈ کے تعلق سے کہا گیا کہ قدیم یورپ کی معدوم زبانوں کا یہ

لفظ ہے جس کا مفہوم یہ تھا ۔ ” ایسی ہستی ، قربانیوں کے ذریعے جس کی پرستش کی

جائے ۔” اور تاریخ بتلاتی ہے کہ جانوروں بلکہ انسانوں کی قربانی بھی پرستش کا 

ذریعہ رہی ۔اگر آپ تحریف شدہ انجیل  کا مطالعہ کریں تو اس میں حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعات میں قربانی کا ذکر ملے گا 


 سامی

زبانوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف و اصوات کی ایک خاص ترکیب ہے جو

معبودیت کے معنی میں مستعمل رہی ہے اور عبرانی ، سریانی ، آرامی ، کلدانی ، حمیری ،

عربی وغیرہ تمام زبانوں میں اس کا یہ لغوی خاصہ پایا جاتا ہے ۔  الف ، لام اور ھ کا مادہ ہے اور مختلف شکلوں

میں مشتق ہوا ہے۔ کلدانی اور سریانی کا لفظ ” الاھیا ” عبرانی کا  ” الوہ ” اور عربی کا  ” الہٰ ” اسی سے ہے اور بلاشبہ یہی ” الہٰ ”

ہے جو  حرف تعریف کے اضافے کے بعد ” اللہ ”

ہو  گیا ہے اور تعریف نے اسے صرف خالق کائنات کے لیے

مختص کر  دیا ہے۔


لیکن اگر ” اللہ

” الہٰ سے ہے تو الہٰ کے معنی کیا ہیں؟ علماء

لغت و اشتقاق کے مختلف اقوال ہیں مگر سب سے زیادہ قوی قول یہ معلوم ہوتا ہے

کہ اس کی اصل ” الہٰ ” ہے ۔ ” الہٰ ” کے معنی تحیر اور  درماندگی کے ہیں۔ بعضوں نے اسے ” ولہٰ ” سے

ماخوذ بتایا ہے اور اس کے معنی بھی یہی ہیں ۔ پس خالق کائنات کے لیے یہ لفظ اس لیے

اسم قرار پایا کہ اس بارے میں انسان جو کچھ جانتا

اور جان سکتا ہے وہ عقل کے تحیر اور ادراک کی درماندگی کے سوا اورکچھ  نہیں ہے۔ وہ جس قدر بھی اس ذات مطلق کی ہستی

میں غور و خوض کرے گا اس کی عقل کی حیرانی اور درماندگی بڑھتی ہی جائے گی۔ یہاں تک

کہ وہ معلوم کرلے گا کہ اس کی راہ کی ابتداء بھی عجز و حیرت سے ہوتی ہے اور انتہا

بھی عجز وحیرت ہی ہے۔

اسم "اللہ جل جلالہ" کا ترجمہ نہیں ہو سکتا 

واللہ تعالیٰ اعلم  


حالیہ اشاعتیں

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ۔۔۔۔ الرحمٰن

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْاؕ-لَا تَنْفُذُوْنَ ...

پسندیدہ تحریریں