نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

گھر میں داخل ہونے اور گھر سے نکلنے کی سنتیں

جوتا پہننے کی سنتیں



ارشاد نبوی ہے : ’’ تم میں سے کوئی شخص جب جوتا پہننے لگے تو سب سے پہلے دایاں پاؤں جوتے میں ڈالے اور جب اتارنے لگے تو سب سے پہلے بایاں پاؤں جوتے سے باہر نکالے۔ نیزوہ یا دونوں جوتوں کو پہنے یا پھر دونوں کو اتار دے۔‘‘ ( مسلم )

مسلمان دن اور رات میں کئی مرتبہ جوتا پہنتا اور اتارتا ہے۔ مثلا مسجد میں جاتے ہوئے اور اس سے باہر نکلتے ہوئے ، حمام میں جاتے ہوئے اور اس سے باہر آتے ہوئے اور کسی کام کیلئے گھر سے باہر جاتے ہوئے اور اس میں واپس آتے ہوئے۔ سو ہر مرتبہ اسے درج بالا حدیث میں جو سنتیں ذکر کی گئی ہیں ان پر عمل کرنا چاہیے تاکہ اسے بہت زیادہ اجر و ثواب حاصل ہو سکے۔


گھر میں داخل ہونے اور گھر سے نکلنے کی سنتیں



امام نوویؒ کا کہنا ہے : –

’’گھر میں داخل ہوتے وقت ’بسم اللہ ‘ کا پڑھنا ، اللہ کا ذکر کرنا اور گھر والوں کو سلام کہنا سنت ہے۔‘‘

٭۔ گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر کرنا:

ارشاد نبویﷺ ہے:

’’ کوئی شخص گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر کرے تو شیطان (اپنے ساتھیوں سے ) کہتا ہے : اب تم اس گھر میں نہ رہ سکتے ہو اور نہ تمھارے لئے یہاں پر کھانا ہے ‘‘ (مسلم )



    ٭۔ گھر میں داخل ہونے کی دعا پڑھنا




’’ اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ خَیْرَ الْمَوْلِجِ وَخَیْرَ الْمَخْرَجِ، بِسْمِ اللّٰہِ وَلَجْنَا، وَبِسْمِ اللّٰہِ خَرَجْنَا،وَعَلَی اللّٰہِ رَبِّنَا تَوَکَّلْنَا‘‘ ( ابو داؤد )

’’ اے اللہ ! میں تجھ سے گھر کے اندر اور گھر سے باہر خیر کا سوال کرتا ہوں ، اللہ کے نام کے ساتھ ہم داخل ہوئے اور اللہ کے نام کے ساتھ ہم نکلے اور ہم نے اللہ پر توکل کیا جو ہمارا رب ہے۔‘‘

یہ دعا پڑھ کر گویا کہ مسلمان گھر میں داخل ہوتے ہوئے اور اس سے نکلتے ہوئے ہمیشہ اللہ پر توکل کا اظہار کرتا ہے اور ہر دم اس سے اپنا تعلق مضبوط بناتا ہے۔


 گھر والوں کو سلام کہنا:




فرمان الٰہی ہے : ’’ فَاِِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً ‘‘ (النور:۶۱)

’’پس جب تم گھروں میں داخل ہونے لگو تو اپنے گھر والوں کو سلام کہا کرو ، ( سلام ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ دعائے خیر ہے جو بابرکت اور پاکیزہ ہے۔‘‘

اگر مسلمان ہر فرض نماز مسجد میں ادا کرتا ہو اور اس کے بعد اپنے گھر میں واپس آتا ہو تو ہر مرتبہ اگر وہ ان مذکورہ سنتوں پر عمل کر لے تو گویا دن اور رات میں صرف گھر میں داخل ہوتے وقت وہ بیس سنتوں پر عمل کرے گا۔



    ٭۔ گھر سے نکلنے کی دعا پڑھنا :




’’ بِسْمِ اللّٰہِ تَوَ کَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ‘‘ ( ابو داؤد ، ترمذی )

’’ اللہ کے نام کے ساتھ میں نے اللہ پر بھروسہ کیا اور اللہ کی مدد کے بغیر نہ کسی چیز سے بچنے کی طاقت ہے نہ کچھ کرنے کی۔‘‘

اس دعا کی فضیلت صحیح حدیث کے مطابق یہ ہے کہ انسان جب یہ دعا پڑھ لیتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے :



1۔تجھے اللہ کافی ہے (یعنی ہر اُس چیز سے جو دنیا و آخرت میں اس کیلئے پریشان کن ہو سکتی ہے )

2۔تجھے شر سے بچا لیا گیا ہے ( یعنی ہر شر اور برائی سے چاہے وہ جنوں کی طرف سے ہو یا انسانوں کی طرف سے )

3۔تیری راہنمائی کر دی گئی ہے۔ ( یعنی دنیاوی و اخروی تمام امور میں ) ( ابو داؤد، ترمذی )



چنانچہ جب بھی انسان گھر سے باہر جانے لگے خواہ نماز پڑھنے کیلئے یا اپنے یا گھر کی کسی کام کیلئے توہر مرتبہ اس دعا کو پڑھ لے تاکہ اسے مندرجہ بالا بہت بڑی خیر اور اجرِ  عظیم نصیب ہو۔



فَقَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ آتِكَ زَائِرًا، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ أَنَا وَأَنْتَ حَدِيثًا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَجَوْتُ أَنْ يَكُونَ عِنْدَكَ مِنْهُ عِلْمٌ؟ قَالَ: وَمَا هُوَ؟ قَالَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَمَا لِي أَرَاكَ شَعِثًا وَأَنْتَ أَمِيرُ الْأَرْضِ؟! قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْهَانَا عَنْ كَثِيرٍ مِنَ الْإِرْفَاهِ، قَالَ: فَمَا لِي لَا أَرَى عَلَيْكَ حِذَاءً؟! قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا أَنْ نَحْتَفِيَ أَحْيَانًا.
حکم : صحیح
4160 . سیدنا عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک آدمی سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے ہاں گیا جبکہ وہ مصر میں ( امیر ) تھے ۔
وہاں پہنچے تو ان سے کہا : میں تمہیں بلاوجہ ملنے نہیں آیا ہوں بلکہ میں نے اور تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی تھی ‘ مجھے امید ہے کہ وہ تمہیں خوب یاد ہو گی ۔ انہوں نے کہا : کون سی حدیث ؟ فرمایا فلاں فلاں !
پھر کہا : اور کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں پراگندہ سر دیکھ رہا ہوں حالانکہ تم اس علاقے کے امیر ہو ؟ سیدنا فضالہ رضی اللہ عنہ نے کہا : تحقیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بہت زیادہ اسباب عیش جمع کرنے اور بہت زیادہ زیب و زینت سے منع فرمایا کرتے تھے ۔
پھر پوچھا کیا وجہ ہے کہ تمہارے جوتے نہیں ہیں ؟
کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم فرمایا کرتے تھے کہ کبھی کبھی ننگے پاؤں بھی رہا کریں ۔


يُذْنِبُ ذَنْبًا فَيُحْسِنُ الطُّهُورَ ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ إِلَّا غَفَرَ اللَّهُ لَهُ ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ إِلَى آخِرِ الْآيَةِ
حکم : صحیح
1521 . سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں ایسا شخص تھا کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا تو اللہ تعالیٰ مجھے اس سے جو چاہتا فائدہ عنایت فرماتا ۔ اور جب کوئی اور صحابی حدیث بیان کرتا ، تو میں اس سے قسم لیتا تھا اور جب وہ قسم اٹھاتا تو میں اس کی تصدیق کرتا تھا ۔ کہا : مجھ سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی اور انہوں نے سچ کہا ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے ” کوئی بندہ ایسا نہیں جو کوئی گناہ کر بیٹھے پھر وضو کرے اچھی طرح ، پھر کھڑا ہو اور دو رکعتیں پڑھے اور اللہ سے استغفار کرے ، مگر اللہ اسے معاف کر دیتا ہے ۔
پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی «والذين إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم ذكروا الله *» ” متقی وہ لوگ ہیں جو اگر کبھی کوئی بے حیائی کا کام کریں یا اپنی جانوں پر کوئی ظلم کر بیٹھیں ، تو اللہ کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں ۔ اور اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ بخش دے ۔ اور یہ لوگ جانتے بوجھتے اپنے کیے پر نہیں اڑتے اور نہ اصرار کرتے ہیں


آداب معاشرت کے سنتیں

مسواک کرنا


صحيح البخاري: كِتَابُ الجُمُعَةِ (بَاب السِّوَاكِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ) صحیح بخاری: کتاب: جمعہ کے بیان میں (باب: جمعہ کے دن مسواک کرنا)
ترجمة الباب: وَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَنُّ ترجمۃ الباب : اور ابو سعیدؓ نے نبیﷺ سے نقل کیا ہے کہ مسواک کرنی چاہیے۔
887 . حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي أَوْ عَلَى النَّاسِ لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ مَعَ كُلِّ صَلاَةٍ
حکم : صحیح 887 . سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اگر مجھے اپنی امت یا لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے لیے ان کو مسواک کا حکم دے دیتا۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...