تاریخ قرآن مجید ۔۔۔ ڈاکٹرحمید الله

اب ہم یہ دیکھیں گے کہ قرآن کس طرح محفوظ حالت میں ہم تک پہنچا ہے۔ اولاً میں اس کی زبان کےبارے میں کچھ عرض کروں 
گا۔ یہ عربی زبان میں ہے۔ اس آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب کے لیے عربی زبان کا انتخاب کیوں ہوا؟ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زبانیں رفتہ رفتہ بدل جاتی ہیں۔ خود اردو زبان کولیجئے۔ اب سے پانچ سو سال پہلے کی کتاب مشکل سے ہمیں سمجھ میں آتی ہے۔ دنیا کی ساری زبانوں کا یہی حال ہے انگریزی میں پانچ سو سال پہلے کی مؤلف "چاسیر" (Chaucer) کی کتاب کو آج کل لندن کا کوئ شخص، یونیورسٹی کے فاضل پروفیسروں کے سوا، سمجھ نہیں سکتا۔ یہی حال دوسری قدیم و جدید زبانوں کا ہے۔ یعنی وہ بدل جاتی ہیں اور رفتہ رفتہ ناقابل فہم ہوجاتی ہیں۔ اگر خدا کا آخری پیغام بھی کسی ایسی ہی تبدیل ہونے والی زبان میں آتا تو خدا کی رحمت کا اقتضاء یہ ہوتا کہ ہم بیسویں صدی کے لوگوں کو پھر ایک نئ کتاب دے تاکہ ہم اسے سمجھ سکیں کیونکہ گزشتہ صدیوں کی کتاب اب تک ناقابل فہم ہوچکی ہوتی۔ دنیا کی زبانوں میں سے اگر کسی زبان کو یہ استثناء ہے کہ وہ نہیں بدلتی تو وہ عربی زبان ہے۔ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم عصر عربی یعنی قرآن مجید اور حدیث شریف میں جو زبان استعمال ہوئ ہے اور جو عربی آج ریڈیو پر آپ سنتے ہیں یا جو آج عربی اخباروں میں پڑھتے ہیں، ان دونوں میں بہ لحاظ مفہوم الفاظ، گرامر (صرف و نحو)، ہجے اور تلفظ، کوئ فرق نہیں ہے۔ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں اور میں ایک عرب کی حیثیت سے اپنی موجودہ عربی میں آپ سے گفتگو کروں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ہر لفظ سمجھیں گے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے جواب مرحمت فرمائیں تو آپ کا ہر لفظ میں سمجھ سکوں گا۔ کیونکہ ان دونوں زبانوں میں کوئ فرق نہیں ہے۔ میں اس سے یہ استنباط کرتا ہوں کہ آخری نبی پر بھیجی ہوئ آخری کتاب ایسی زبان میں ہونی چاہیے جو غیر تبدیل پذیر ہو لہٰذا عربی کا انتخاب کیا گیا، عرض کرنا یہ ہے کہ اس عربی زبان میں دیگر خصوصیات مثلاً فصاحت، بلاغت، ترنم وغیرہ کے علاوہ ایک خصوصیت ایسی ہے جس کا ہم سب مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ وہ یہ کہ عربی زبان غیر تبدیل پذیر ہے اور اس کے لیے ہمیں عربوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے مختلف علاقوں کی بولیوں کو اپنی زبان نہیں بنایا۔ بلکہ اپنی علمی اور تحریری زبان وہی رکھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے چلی آرہی تھی۔ 
جہاں تک قرآن کا تعلق ہے آپ سب واقف ہیں کہ وہ بیک وقت نازل نہیں ہوا۔ جیساکہ توریت کے متعلق یہودیوں کا بیان کہ اسے خدا نے تختیوں پر لکھ کر ایک ہی مرتبہ دے دیا تھا۔ اس کے برخلاف قرآن مجید تئیس سال تک جستہ جستہ، (نجماً نجماً) نازل ہوتا رہا اور یہ ان مختلف زمانوں میں نازل شدہ اجزاء کا مجموعہ ہے جو قرآن مجید کی صورت میں ہمارے پاس ہے۔ اس کا آغاز دسمبر سنہ 609ء میں ہوا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں معتکف تھے۔ وہاں حضر جبرئیل علیہ السلام آتے ہیں اور آپ تک خدا کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ وہ پیغام بہت ہی اثر انگیز ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک امی ہیں۔ انہیں لکھنا پڑھنا نہیں آتا۔ اس امی شخص کو جو پہلا حکم دیا گیا وہ ہے "اقراء" یعنی پڑھ اور پھر قلم کی تعریف کی گئی ہے۔ پڑھنے کا حکم دے کر پھر قلم کی تعریف کیوں کی جاتی ہے؟ اس لیے کہ قلم ہی کے ذریعے سے خدا انسا کو وہ چیز بتاتا ہے جو وہ نہیں جانتا دوسرے الفاظ میں قلم ہی وہ چیز ہے جو انسانی تمدن اور انسانی تہذیب کی حفاظت گاہ (Depository) ہے۔ اس کا وجود اس لیے ہے کہ پرانی چیزوں کو محفوظ رکھا جاسکے۔ آنے والے اس میں نئی چیزوں کا اضافہ کرتے ہیں۔ انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقاء کا راز یہی ہے اور اسی وجہ سے انسان کو دیگر حیوانات پر تفوق حاصل ہے ورنہ آپ غور کریں گے کہ کوا آج سے بیس لاکھ سال پہلے جس طرح گھونسلا بناتا تھا آج بھی اسی طرح بناتا ہے۔ اس نے کوئ ترقی نہیں کی۔ لیکن انسان و جانور ہے جو چاند تک پہنچ چکا ہے۔ اس نے اتنی ترقی کی کہ آج وہ ساری کائنات پر حکومت کررہا ہے۔ یہ ساری ترقیاں انسان نے اس لیے کی ہیں کہ اس کو اپنے سے پہلے کے لوگوں کے تجربات کا جو علم حاصل ہوا اس کو محفوظ رکھا اور اس میں اس نے اپنے ذاتی تجربوں سے روز افزاوں اضافہ کیاا اور اس سے استفادہ کرتا رہا۔ اور یہ سب قلم کی بدولت ممکن ہوا۔ آیت (علم بالقلم، علم الانسان مالم یعلم) میں اسی حقیقت کی طرف قرآن مجید نے بہت ہی بلیغ انداز میں اشارہ کیا ہے۔ جب "سورۃ اقراء" (یعنی سورۃ العلق) کی پہلی پانچ آیاتا نازل ہوئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار کو چھوڑ کر گھر واپس آئے اور اپنی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بتایا کہ مجھے آج یہ واقعہ پیش آیا ہے۔ مجھے خوف ہے کہ وہ شاید کسی دن مجھے نقصان نہ پہنچائے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے تسلی دی اور کہا کہ خدا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ضائع نہیں کرے گا۔ ورقہ بن نوفل میرا چچا زاد بھائ ہے جو ان معاملات (یعنی فرشتے، وحی وغیرہ) سے واقف ہے۔ کل صبح جاکر ہم اس سے گفتگو کریں گے، وہ آپ کو بتائے گا۔ میں ان چیزوں سے واقف نہیں ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ شیطان کبھی آپ کو دھوکا نہیں دے سکے گا۔ ایک روایت کے مطابق صبح کو وہ آپ کو اپنے ساتھ ورقہ بن نوفل کے پاس لے جاتی ہیں۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے ان کے عزیز دوست ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو حضرت خدینہ رضی اللہ عنہا نے ان کو یہ قصہ سنایا اور کہا کہ انہیں اپنے ساتھ لے جاکر ورقہ سے ملاؤ۔ ورقہ بن نوفل بہت بوڑھے تھے۔ ان کی بصارت زائل ہوچکی تھی، مذہباً نصرانی تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس پہنچے اور یہ قصہ سنایا تو ورقہ نے بے ساختہ یہ الفاظ کہے: "اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جو چیزیں تم نے ابھی بیان کی ہیں، اگر وہ صحیح ہیں تو یہ ناموس موسیٰ علیہ السلام سے مشابہ ہیں"۔ "ناموس" کا لفظ اردو میں عام طور پر عزت کے لیے مستعمل ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں یہ مفہوم نہیں ہوسکتا۔ بعض مفسرین ناموس کے معنی "قابل اعتماد" لکھتے ہیں، وہ بھی یہاں موزوں نہیں ہے۔ بعض لکھتے ہیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ناموس کا نام دیا جاتا ہے۔ اسلامی ادبیات میں وہ "روح الامین" ہیں مگر یہ معنی بھی یہاں کام نہیں دیتے۔ میرے ذہن میں یہ آتا ہے کہ "ناموس" اصل میں ایک اجنبی لفظ ہے، جو معرب ہوکر عربی زبان میں استعمال ہوا۔ یہ یونانی زبان کا لفظ "ناموس" (Nomos) ہے۔ یونانی زبان میں لفظ توریت کو نوموس یعنی قانون کہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ورقہ بن نوفل کا بیان ہے کہ یہ چیز حضرت موسیٰ علیہ السلام کی توریت سے مشابہ ہے۔ اور یہی معنی زیادہ قرین قیاس نظر آتے ہیں۔

قرآن مجید کی تبلیغ و اشاعت کے متعلق قدیم ترین ذکر ابن اسحٰق کی کتاب المغازی میں ملتا ہے۔ یہ کتاب ضائع ہوگئی تھی لیکن اس کے بعض ٹکڑے حال ہی میں ملے ہیں اور حکومت مراکش نے ان کو شائع بھی کیا ہے۔ اس میں ڈیڑھ سطر کی ایک بہت دلچسپ روایت ہے، جسے ابن ہشام نے اپنی سیرۃ النبی میں معلوم نہیں کس بناء پر یا سہواً چھوڑ دیاہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: "جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کی کوئ عبارت نازل ہوتی تو آپ سب سے پہلے اس مردوں کی جماعت میں تلاوت فرماتے پھر اس کے بعد اسی عبارت کو عورتوں کی خصوصی محفل میں بھی سناتے"۔ اسلامی تاریخ میں یہ ایک ہم واقعہ ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عورتوں کی تعلیم سے بھی اتنی ہی دلچسپی تھی جتنی مردوں کی تعلیم سے۔ یہ قدیم ترین اشارہ ہے جو قرآن مجید کی تبلیغ کے متعلق ملتا ہے۔ اس کے بعد کیا پیش آیا یہ کہنا مشکل ہے لیکن بالکل ابتدائ زمانے ہی سے ہمیں ایک نئ چیز کا پتہ چلتا ہے وہ یہ کہ قرآن مجید کو لکھوا یا جائے اور غالباً حفظ کرانا بھی اسی ابتدائ زمانے سے تعلق رکھتا ہے، جب حضرت جبرئیل علیہ السلام نے پہلی وحی کے موقع پر قرآن مجید کی سورۂ اقراء کی پہلی پانچ آیتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائیں تو ایک حدیث کے مطابق حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دو کام اور کیے۔ ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو استنجاء اور وضو کرنا سکھایا کہ نماز کے لیے کس طرح اپنے آپ کو جسمانی طور پر پاک کریں۔ دوسرے یہ کہ نماز پڑھنے کا طریقہ بھی بتایا۔ خود جبرئیل علیہ السلام امام بنے اور پیغمبر مقتدی کی حیثیت سے پیچھے کھڑے دیکھتے رہے کہ پہلے کھڑے ہوں، پھر رکوع میں جائیں، پھر سجدہ کریں وغیرہ اور ساتھ ساتھ خود بھی وہی کرتے رہے۔ ظاہر ہے کہ نماز میں قرآن مجید کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں، لہٰذا ابتدائ زمانے ہی سے جب لوگ مسلمان ہونے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا ہوگا کہ قرآن مجید کو حفظ بھی کرو اور روزانہ جتنی نمازیں پڑھنی ہوں ان نمازوں میں ان کا اعادہ بھی کرتے رہو۔ گویا اس وقت ہمیں دوباتیں نظر آتی ہیں۔ قرآن مجید حفظ کرنا اور اسی کو لکھنا۔ آدمی کو کسی نئ چیز کو ازبر کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ اس کے سامنے کوئ تحریری عبارت ہوتو اس کو بار بار پڑھتا ہے بالآخر وہ حفظ ہوجاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں قرآن کو حفظ کرنا اور لکھنا دونوں ایک ہی زمانے کی چیزیں ہیں۔ ہمارے مورخ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب کوئ آیت نازل ہوتی تو وہ اپنے صحابہ میں سے کسی ایسے شخص کو جسے لکھنا پڑھنا آتا ہوتا، یاد فرماتے اور اس کو املا کراتے تھے۔ اہم بات یہ بیان ہوئ ہے کہ لکھنے کے بعد اس سے کہتے کہ "جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھ کر سناؤ" تاکہ اگر کاتب نے کوئ غلطی کی ہوتو اس کی اصلاح کرسکیں۔ یہ قرآن مجید کی تدوین کا آغاز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ لکھوانے کے بعد اپنے صحابہ کو حکم دیتے کہ اسے ازبر کرلو اور روزانہ دو وقت کی نمازوں میں پڑھو۔ اس وقت دونمازیں تھی معراج کے بعد پانچ نمازیں ہوئیں تو دو کے بجائے پانچ مرتبہ اس کو لوگ نماز میں دہرانے لگے۔ اس کا ایک عملی فائدہ یہ ہے کہ اگر آدمی کا حافظہ اچھا نہ ہو اور سال بھر میں مثلاً صرف عیدالاضحیٰ اور عید الفطر کے دن قرآن مجید کو حافظے کی مدد سے پڑھے تو ممکن ہے کہ اس کو بھول جائے لیکن اگر کوئ آدمی روزانہ پانچ مرتبہ دہراتا ہے تو ظاہر ہے قرآن مجید اس کے حافظے میں رہے گا اور وہ اسے نہیں بھولے گا۔ 

الغرض قرآن مجید کو لکھنے اور اسے حفظ کرنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔ اس سے پہلے کے انبیاء علیہم السلام کی تاریخ میں ایسی کوئ مثال ہمیں نظر نہیں آتی ہے۔ ا س سے بڑھ کر ایک اور کام بھی ہوا وہ یہ کہ فرض کیجئے میرے پاس ایک تحریری نسخہ موجود جس میں کسی نہ کسی وجہ سے کتابت کی کچھ غلطیاں موجود ہیں اس غلط نسخے کو میں حفظ کرلیتا ہوں۔ اس طرح میرا حفظ بھی غلط ہوگا۔ اس کی اصلاح کس طرح کی جائے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف بھی توجہ فرمائ اور حکم فرمایا کہ ہر مسلمان کو کسی مستند استاد ہی سے قرآن مجید پڑھنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے بڑھ کر قرآن مجید سے کون واقف ہوسکتا ہے؟ اس لیے ہر مسلمان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سیکھنا اور پڑھنا چاہیے۔ اگر اس کے پاس تحریری نسخہ موجود ہے تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تلاوت کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر فرمائیں کہ ہاں یہ نسخہ ٹھیک ہے تب اسے حفظ کیا جائے۔ جب مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی تو ظاہر ہے کہ ایک آدمی سارے لوگوں کو تعلیم و تربیت نہیں دے سکتا تھا۔ اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسے صحابہ کو جن کی قرآن دانی کے متعلق آپ کو پورا اعتماد تھا یہ حکم دیا کہ اب تم بھی پڑھایا کرو۔ یہ وہ مستند استاد تھے جن کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سند دیتے تھے کہ تم پڑھانے کے قابل ہو اور اس کا سلسلہ آج بھی دنیا میں قائم ہے۔ اگر کوئ شخص کسی استاد سے قرآن مجید پڑھتا ہے تو قرات کی تکمیل کے بعد استاد کی طرف سے اسے جو سند ملتی ہے اس میں وہ استاد لکھتا ہے کہ "میں نے اپنے شاگرد فلاں کو قرآن مجید کے الفاظ، قرآن مجید کی قرات کے اصولوں کو ملحوظ رکھ کر یہ تعلیم دی ہے۔ یہ بالکل وہی ہے جو میرے استاد نے مجھ تک پہنچائ تھی اور اس نے مجھے اطمینان دلایا تھا کہ اس کو اس کے اپنے استاد نے اسی طرح پڑھایا تھا۔ اس کا سلسہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی محفوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔

اسلامی روایات (Tradition) کے سوا دنیا کی کسی قوم نے اپنی مذہبی کتاب کو محفوظ کرنے کے لیے یہ اصول کبھی اختیار نہیں کیے تھے۔ یہ چیزیں قرآن مجید کی تدوین کے سلسلے میں عہد نبوی میں ہی پیش آئیں مگر اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا۔ ایک اور چیز کی بھی شروع ہی سے ضرورت تھی۔ قبل اس کے کہ میں اس کا ذکر کرو، قرآن مجید کے تحریری نسخوں کے متعلق بھی کچھ آپ کو بتاتا چلوں کہ ان کا کب سے پتہ چلتا ہے۔ غالباً نبوت کے پانچویں سال کا واقعہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبول کیا۔ ان کے واقعہ سے آپ واقف ہوں گے۔ وہ اس زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت جانی دشمن تھے۔ ایک دن یہ طے کرکے گھر سے نکلے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذ باللہ) قتل کرڈالوں۔ راستے میں ان کا ایک رشتہ دار ملا جس نے اسلام تو قول کرلیا تھا لیکن اسے چھپا کر رکھا تھا۔ اس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ ہتھیار سے لیس ہوکر کہاں جارہے ہو؟ چونکہ وہ رشتہ دار تھا اس لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے بتادیا کہ میں محمد کو (نعوذباللہ) قتل کرنے جارہا ہوں کہ اس نے ہنگامہ مچارکھا ہے۔ اس رشتے دار نے کہا اے عمر، اپنے قبیلے کو بنو ہاشم کے قبیلے سے جنگ میں الجھانے سے پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔ تہماری بہن فاطمہ بھی مسلمان ہوچکی ہے اس کا شوہر بھی مسلمان ہوچکا ہے۔ پہلے اپنے گھر کی خبر لو بعد میں دنیا کی اصلاح کرنا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حیران ہوئے اور سیدھے بہن کے گھر پہنچے۔ دروازے کے پاس انہوں نے اندر سے کچھ آواز سنی جیسے کوئ شخص گارہا ہے یا خوش الحانی سے کچھ پڑھ رہا ہے۔ انہوں نے بہت زور سے دروازہ کھٹکھٹایا، گھر سے ایک شخص نکلا اور یہ اندر پہنچے۔ وہاں بہن اور بہنوئ سے جو سخت کلامی ہوئ اس سے آپ لوگ واقف ہیں۔ میں مختصراً ذکر کررہا ہوں کہ بالآخر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بہن کواس بات پر آمادہ کرلیا کہ جو چیزیں پڑھ رہی تھیں وہ ان کو دکھائیں۔ انہوں نے غسل کرانے کے بعد آپ کو وہ چیز پیش کی۔ یہ قرآن مجید کی چند سورتیں تھیں۔ ان کو پڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ متاثر ہوئے اور مسلمان ہوگئے۔ اس واقعے سے میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن مجید کی کم از کم چند سورتوں کے تحریری صورت میں پائے جانے کا ذکر سنہ ٥ نبوی ہی سے یعنی قبل ہجرت سے ملتا ہے۔ اس کے بعد جس تحریری نسخے کا پتہ چلتا ہے اس کا ذکر بھی دلچسپ ہے۔ یہ غالباً بیعت عقبہ ثانیہ کا واقعہ ہے۔ مدینے سے کچھ لوگ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے ان میں سے بنی زریق کے ایک شخص کے بارے میں مؤرخین نے صراحت سے لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی اس وقت تک نازل شدہ سورتوں کا مکمل مجموعہ ان کے سپرد کیا۔ یہ صحابی مدینہ منورہ پہنچ کر اپنے قبیلے میں اپنے محلے کی مسجد میں اسے روزانہ باآواز بلند پڑھا کرتے تھے۔ گویا قرآن مجید مدون ہونے یا تحریری صورت میں پائے جانے کا یہ دوسرا واقعہ ہے جس کا مورخوں نے صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ 

میں یہ بیان کررہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قرآن کو کسی مستند استاد سے پڑھنا پہلی خصوصیت تھی۔ دوسری خصوصیت تحریری صورت میں محفوظ رکھنا، تاکہ اگر کہیں بھول جائے تو تحریر دیکھ کر اپنے حافظے کو تازہ کرلیا جائے اور تیسری خصوصیت اسے حفظ کرنا تھا۔ ان تین باتوں کا حکم دیا گیا تھا۔ لیکن اس میں ایک پیچیدگی اس طرح پیدا ہوگئی تھی کہ قرآن مجید کامل حالت میں بہ یک وقت نازل نہیں ہوا تھا۔ بلکہ جستہ جستہ 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو میکانیکی طور پر مدون نہیں کیا کہ پہلی آیت شروع میں ہو اور بعد میں نازل شدہ دوسرے نمبر پر رہے بلکہ اس کی تدوین الہام اور حکمت نبوی کے تحت ایک اور طرح سے کی گئی۔ قرآن مجید کی اولین نازل شدہ آیتیں جیسا کہ میں نے ابھی آپ سے عرض کیا سورۂ اقراء کی ابتدائی پانچ آیتیں ہیں۔ یہ آیتیں سورہ نمبر 96 میں ہیں۔ جب کہ قرآن مجید کی کل سورتیں 114 ہیں۔ ان میں 96 نمبر پر ابتدائ سورۃ ہے۔ قرآن مجید میں اب جو بالکل ابتدای سورتیں ملتی ہیں، مثلاً سورہ بقرہ وغیرہ وہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں۔ دوسرے الفاظ میں قرآن مجید ترتیب کے لحاظ سے مدون نہیں ہوا بلکہ ایک دوسری صورت میں مرتب ہوا۔ اس کی وجہ سے لوگوں کو دشواریاں پیش آسکتی تھیں۔ یعنی آج ایک سورۃ نازل ہوئ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت دیتے ہیں کہ اس کو فلاں مقام پر لکھو۔ پھر کل ایک آیت نازل ہوئ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ اس کو فلاں آیت سے قبل لکھو یا فلاں آیت کے بعد لکھو یا فلاں سورۃ میں لکھو۔ اس لیے ضرورت تھی کہ وقتاً فوقتاً نظر ثانی ہوتی رہے۔ لوگوں کے ذاتی نسخوں کی اصلاح اور نظر ثانی کا ذکر بھی ہجرت کے بعد سے ملتا ہے۔ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف کے مہینے میں دن کے وقت قرآن مجید کو جتنا اس سال تک نازل ہوا تھا باآواز بلند دہرایا کرتے تھے اور ایسے صحابہ جن کو لکھنا پڑھنا آتا تھا وہ اپنا ذاتی نسخہ ساتھ لاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت پر اس کا مقابلہ کرتے جاتے تاکہ اگر ان سے کسی لفظ کے لکھنے میں یا سورتوں کو صحیح مقام پر درج کرنے میں کوئ غلطی ہوئ ہےتو وہ اس کی اصلاح کرلیں۔ یہ چیز "عرضہ" یا پیشکش کہلاتی تھی۔ مؤرخین مثلاً امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ نے صراحت کی ہے کہ آخری سال وفات سے چند ماہ پہلے جب رمضان کا مہینہ آیا تو آپ نے پورے کا پورا قرآن مجید لوگوں کو دومرتبہ سنایا اور یہ بھی کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ میری وفات قریب آگئی ہے کیونکہ قرآن حکیم کے متعلق جبرئیل علیہ السلام نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں دو مرتبہ پڑھ کر سناؤں تاکہ اگر کسی سے غلطیاں ہوئ ہوں تو باقی نہ رہیں۔ یہ تھی تدبیر جو آخری نبی نے آخری پیغام ربانی کی حفاظت کے لیے اختیار فرمائ۔ اس طرح قرآن مجید کے ہم تک قابل اعتماد حالت میں پہنچنے کا اہتمام ہوا۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئ تو شروع میں قرآن مجید کی طرف کسی کی توجہ مبذول نہ ہوئ۔ لوگوں کے پاس جو کچھ موجود تھا اس کو نماز میں پڑھا کرتے تھے اور اس کا احترام کرتے تھے لیکن پھر ایسا واقعہ پیش آیا جس نے نہ صرف اسلامی حکومت بلکہ تمام مسلمانوں کو مجبور کردیا کہ وہ قرآن مجید کی طرف فوری توجہ دیں۔ اس زمانے میں قرآن مجید کا کوئ سرکاری نسخہ موجود نہیں تھا اور غالباً کسی ایک شخص کے پاس بھی کامل قرآن مجید لکھا ہوا موجود نہیں تھا۔ یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ملک میں چند لوگ مرتد ہوگئے اور مسلیمہ کذاب نے نہ صرف ارتداد کیا بلکہ نئے نبی ہونے کا اعلان بھی کردیا۔ وہ چونکہ ایک طاقتور قبیلے کا سردار تھا اس لیے بہت سے لوگ اس کے حامی بھی ہوگئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے جنگ کی۔ یہ جنگ بہت شدید تھی اور اس میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی جب کہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی اور جنگ بھی دشمن کے علاقے میں یمامہ کے مقام پر ہوئ۔ میں جب وہاں گیا تھا تو وہاں کے لوگوں نے بتایا کہ یہ جنگ موجود شہر ریاض کے مضافات میں ہوئ تھی۔ اس جنگ میں بہت سے مسلمان شہید ہوئے۔ ان شہید ہونے والوں میں چند لوگ ایسے بھی تھے جو قرآن مجید کے بہترین حافظ تھے۔ مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئ۔ مدینے کے مسلمانوں کو فتح پر خوشی ہوئی لیکن یہ اطلاع پاکر کہ بہت سے برگزیدہ اور بہترین حافظ قرآن مسلمان اس جنگ میں شہید ہوئے ہیں رنج بھی ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر قرآن مجید کے تحفظ پر حکومت نے توجہ نہ کی اور حافظ قرآن رفتہ رفتہ آئندہ جنگوں میں شہید ہوتے رہے یا طبعی موت سے اس دنیا سے رخصت ہوتے رہے تو پھر قرآن مجید کے لیے بھی وہی دشواری پیش آئے گی جو پرانے انبیاء علیہ السلام کی کتابوں کے سلسلے میں پیش آئ تھی۔ اس لیے وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ اے امیر المومنین قرآن کے تحفظ پر توجہ فرمائیے۔ یمامہ کی جنگ میں چھ ہزار مسلمان شہید ہوچکے ہیں جن میں بہت سے حافظ قرآن بھی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس تجویز پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جواب، ان کی سیرت کے ایک خاص پہلو کا مظہر ہے۔ وہ فدائے رسول تھے اور فدائے رسول کا جواب ایسا ہی ہونا چاہیے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اے عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ میں کیسے کروں؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحث کرتے ہیں۔ بالآخر دونوں اس بات پر رضا مند ہوئے کہ کسی تیسرے شخص کو حاکم بنائیں اور وہ جو فیصلہ کردے اس پر عمل کریں۔ چنانچہ انہوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا حاکم بنایا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک کاتب وحی تھے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فوری جواب بھی وہی تھا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تھا کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ ہم کیسے کریں؟ دوبارہ بحث ہوئ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا اے زید! اگر لکھیں تو اس میں حرج کیا ہے؟ روایت میں حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ یہ ہیں کہ واقعی حرج تو مجھے بھی نظر نہیں آتا۔ یہ ایک جذباتی رویہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تو ہم کیسے کریں؟ لیکن اگر کریں تو اس سے کوئ امر مانع نظر نہیں آتا۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا کہ یہ کام میں سر انجام دوں تو مجھے یہ اتنا مشکل معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی تدوین کے مقابلے میں اگر مجھے جبلِ احد کے سرپر اٹھانے کا حکم دیا جاتا تو وہ میرے لیے آسان ہوتا۔ 

قرآن مجید کی تدوین کے سلسلے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے احکام قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے شہر مدینہ میں ڈھنڈورا پٹوادیا کہ جس شخص کے پاس قرآن مجید کا کوئ حصہ تحریری صورت میں موجود ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس "عرضہ" کے موقع پر جو تلاوت ہوتی تھی اس سے مقابلہ کرکے تصیح شدہ ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھا ہوا نسخہ موجود ہے تو وہ لاکر اس کمیشن کے سامنے پیش کرے۔ کمیشن کے صدر حضرت زید بن ثابت تھے لیکن کئ اور مددگار بھی تھے جن میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے۔ اس کمیشن کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ قرآن مجید کے جو نسخے پیش کیے جائیں قابل اعتماد ہوں، عرضہ میں پیش کیے ہوئے نسخے ہوں۔ اگر کوئ آیت کم سے کم دوتحریری نسخوں میں موجود ہو تو اسے لکھا جائے ورنہ رد کردی جائے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں اس طرح قرآن مجید کی تدوین ہوئ اور اس کو ایک کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نگرانی میں انجام دیا گیا۔ یہ بات بھی نہ بھلائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت کم از کم پچیس حافظ موجود تھے جن میں سے کچھ انصار تھے اور کچھ مہاجرین، جنہیں سارا قرآن مجید زبانی یاد تھا۔ ان میں ایک خاتون حافظہ حضرت ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں۔ خود اس کمیشن کے صدر، زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حافظ تھے۔ اس لیے انہوں نے جو کچھ لکھا اس میں یقین کے ساتھ لکھا کہ ان کے ذہن میں بھی اسی طرح موجود ہے یہاں ایک اور چھوٹی سی بات کا ذکر کرتا ہوں کہ جب لوگ نسخہ لاکر پیش کرتے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہیں حکم دیتے تھے کہ قسم کھاکر بتاؤ کہ یہ نسخہ جو تم پیش کررہے ہو وہی ہے جس کی تصیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوئ ہے۔ وہ قسم کھا کر یقین دلاتے تو پھر اس سے استفادہ کیا جاتا۔ جب پورا قرآن مجید لکھا جا چکا تو حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اسے شروع سے آخر تک پڑھا۔ اس میں مجھے ایک آیت کم نظر آئی یہ آیت میرے حافظے میں تو موجود تھی مگر کسی تحریری نسخے میں موجود نہیں تھی۔ چنانچہ میں نے شہر کے چکر لگائے۔ ہر گھر می داخل ہوا اولاً مہاجرین کے گھروں میں، کسی کے پاس یہ آیت تحریری صورت میں موجود نہیں تھی۔ پھر انصار کے گھروں کو گیا۔ بالآخر ایک شخص کے پاس ایک تحریری نسخہ ملا۔ وہ نسخہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھا ہوا تھا لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہدایت تھی کہ جب تک دو تحریری نسخے نہ ملیں اس وقت تک اس کو قرآن کے طور پر قبول نہ کیا جائے۔ جبکہ یہ آیت صرف ایک تحریری نسخے میں ملی تھی۔ لیکن یہاں مشیت خداوندی اپنا اثر دکھاتی ہے۔ اتفاق سے یہ وہ شخص تھا جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اس کے کسی کام سے خوش ہوکر کہا تھا کہ آج سے تمہاری شہادت دوشہادتوں کے مساوی سمجھی جائے گی، ان کا نام خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا۔ غرض یہ قدرت کی طرف سے پیشگی انتظام تھا۔ اس طرح اس آیت کو انہوں نے صرف ایک شخص سے لے کر نقل کیا۔ ان کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں نے قرآن کو دوبارہ پڑھا تو ایک اور آیت کی بھی کمی نظر آئی۔ ممکن ہے کہ وہ ایک ہی واقعہ ہو اور آیت کے متعلق راویوں میں اختلاف ہو۔ بہر حال وہاں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اس نام والے ایک شخص نے وہ چیز بیان کی۔ یہ آیتیں جن کا ہمارے پاس صراحت سے ذکر موجود ہے، کہ کون سی آیتیں تھی، فرض کیجئے کہ اگر آج ہم ان کو قرآن مجید سے خارج بھی کردیں تو کوئ اہم چیز خارج نہیں ہوتی۔ قرآن مجید کی جن آیتوں کی طرف یہ اشارہ ہے ان کا مفہوم دوسری آیتوں میں بھی موجود ہے۔ لیکن بہر حال جس احتیاط سے قرآن مجید کی تدوین عمل میں آئ اس کا مقابلہ تاریخ عالم کی دینی کتابوں می سے کوئ کتاب بھی نہیں کرسکتی۔

ایک اور نکتہ یہاں بیان کرنا خالی از فائدہ نہ ہوگا اور اسی پر یہ تقریر ختم کرتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے کا ذکر ہے، جرمنی کے عیسائ پادریوں نے یہ سوچا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں آرامی زبان میں جو انجیل تھی وہ تو اب دنیا میں موجود نہیں۔ اس وقت قدیم ترین انجیل یونانی زبان میں ہے اور یونانی سے ہی ساری زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے ہیں۔ لہٰذا یونانی مخطوطوں کو جمع کیا جائے اور ان کا آپس میں مقابلہ کیا جائے۔ چنانچہ یونی زبان میں انجیل کے نسخے جتنے دنیا میں پائے جاتے تھے کامل ہوں کہ جزئ، ان سب کو جمع کیا گیا اور ان کے ایک ایک لفظ کا باہم مقابلہ (Collation) کیا گیا۔ اس کی جو رپورٹ شائع ہوئ اس کے لفظ یہ ہیں: "کوئ دولاکھ اختلافی روایات ملتی ہیں" یہ ہے انجیل کا قصہ۔ غالباً اس رپورٹ کی اشاعت سے کچھ لوگوں کو قرآن کے متعلق حسد پیدا ہوا۔ جرمنی ہی میں میونک یونیورسٹی میں ایک ادارہ قائم کیا گیا "قرآن مجید کی تحقیقات کا ادارہ" اس کا مقصد یہ تھا کہ ساری دنیا سے قرآن مجید کے قدیم ترین دستیاب نسخے خرید کر، فوٹو لے کر، جس طرح بھی ممکن ہو جمع کیے جائیں۔ جمع کرنے کا یہ سلسلہ تین نسلوں تک جاری رہا۔ جب میں 1933ء میں پیرس یونیورسٹی میں تھا تو اس کا تیسرا ڈائریکٹر پریتسل Pretzl، پیرس آیا تھا تاکہ پیرس کی پبلک لائبریری میں قرآن مجید کے جو قدیم نسخے پائے جاتے ہیں ان کے فوٹو حاصل کرے۔ اس پروفیسر نے مجھ سے شخصاً بیان کیا کہ اس وقت (یہ 1933ء کی بات ہے) ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں قرآن مجید کے بیالیس ہزار نسخوں کے فوٹو موجود ہیں اور مقابلے (Collation) کا کام جاری ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں اس ادارے کی عمارت پر ایک امریکی بم گرا اور عمارت اس کا کتب خانہ اور عملہ سب کچھ برباد ہوگیا لیکن جنگ کے شروع ہونے سے کچھ ہی پہلے ایک عارضی رپورٹ شائع ہوئ تھی۔ اس رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں کہ قرآن مجید کے نسخوں میں مقابلے کا جو کام ہم نے شروع کیا تھا وہ ابھی مکمل تو نہیں ہوا لیکن اب تک جو نتیجہ نکلا ہے وہ یہ ہے کہ ان نسخوں میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں تو ملتی ہیں لیکن اختلافاتِ روایت ایک بھی نہیں۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ کتابت کی جو غلطی ایک نسخے میں ہوگی وہ کسی دوسرے نسخوں میں نہیں ہوگی۔ مثلا فرض کیجئے "بسم اللہ الرحیم" میں "الرحمٰن" کا لفظ نہیں لیکن یہ صرف ایک نسخے میں ہے۔ باقی کسی نسخے میں ایسا نہیں ہے۔ سب میں "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" ہے۔ اس کو ہم کاتب کی غلطی قرار دیں گے۔ یا کہیں کوئ لفظ بڑھ گیا ہے مثلاً ایک نسخے میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہے باقی نسخوں میں نہیں تو اسے کاتب کی غلطی قرار دیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی چیزں کہیں کہیں سہو قلم یعنی کاتب کی غلطی سے ملتی ہیں لیکن اختلاف روایت یعنی ایک ہی فرق کئ نسخوں میں ملے ایسا کہیں نہیں ہے۔ یہ قرآن مجید کی تاریخ کا خلاصہ، جس سے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں خدا کا جو فرمان ہے (انا نحن نزلنا الذکر ونا لہ لحافظون) "ہم ہی اسے نازل کرتے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے" یہ تمام واقعات جو میں نے آپ سے بیان کیے اس آیت کی حرف بحرف تصدیق کرتے ہیں۔
 
 
سوالات و جوابات
برادران کرام: خواہران محترم السلام علیکم

سوالات کی ایک خاصی تعداد جمع ہوئ ہے۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ میری تقریر کو توجہ کے ساتھ سنا گیا ہے۔ اسی وجہ سے کئ سوالات ذہنوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ اپنی بساط کے مطابق ذہن میں جو جواب آئے وہ آپ سے عرض کروں۔ ظاہر ہے کہ ایک گھنٹے کی مختصر تقریر میں ساری باتوں کو بیان کرنا ممکن نہیں تھا۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ کسی تحریری چیز کو میں نے نہیں پڑھا بلکہ آپ سے معلومات برجستہ بیان کرتا چلا گیا۔ چنانچہ اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر کچھ باتیں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کی تدوین قرآن کے بارے میں، آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ دو سوال اس بارے میں بھی آئے ہیں۔
[فاضل مقرر نے یہ دو نوں سوال نہیں سنائے۔ لیکن جواب کی نوعیت سے ظاہر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ سوال کیا گیا تھا کہ تدوین قرآن کے سلسلے میں ان کی خدمات کیا ہیں اور انہیں جامع القرآن کیوں کہا جاتا ہے]۔

جواب:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جب قرآن مجید کی تحریراً تدوین ہوئ تو مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ نسخہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور ان کی وفات تک ان کے پاس رہا۔ جب ان کی وفات ہوئ تو وہ نسخہ ان کے جانشین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلا گیا۔ اور پھر مؤرخین لکھتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کی شہادت واقع ہوئ تو وہ نسخہ ان کی بیٹی ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس چلاگیا۔ امہات المومنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازوجات مطہرات میں سب پڑھی لکھی نہیں تھی۔ بعض کو صرف پڑھنا آتا اور بعض کو پڑھنا لکھنا دونوں آتے تھے۔ جب کہ بعض امی تھیں۔ اس میں کوئ اعتراض کا پہلو نہیں صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی بیٹی ان معدودے چند عورتوں میں تھیں جن کو پڑھنا لکھنا دونوں آتے تھے۔ بہر حال حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے تیار شدہ نسخہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس چلا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جانشین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غالباً ان کی شخصیت اور وجاہت کی بناء پر، یہ مناسب نہیں سمجھا کہ وہ نسخہ ان سے لے لیں۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود حافظ قرآن تھے۔ ان کے پاس ان کا اپنا نسخہ موجود تھا۔ انہیں ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئ کہ وہ اس نسخے کو حاصل کریں۔ لیکن ایک واقعہ ایسا پیش آیا جس کی بنا پر ضررت پیش آئ کہ وہ نسخہ دوبارہ خلیفہ وقت کے پاس لایا جائے اور اس سے استفادہ کیا جائے۔

واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں غیر معمولی تیز رفتاری سے چہار دانگ عالم میں فتوحات ہوئیں تو بہت سے ایسے لوگ جو دنیا طلب تھے انہیں موقع پرستی کے تحت خیال آیا کہ وہ بھی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کریں۔ لیکن حقیقت میں وہ مسلمان نہیں تھے بلکہ منافق تھے اور ان کی کوشش تھی کہ اسلام کو اندر سے ٹھیس پہنچائ جائے۔ اس سلسلے میں وہ قرآن مجید پر بھی حملے کرتے رہے۔ ممکن ہے اس کی کوئ اہمیت نہ رہی ہو لیکن ایک واقعے سے سنگین صورتحال پیدا ہوگئی۔ وہ یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں آرمینیا سے جنگ کرنے کے لیے ایک فوج بھیجی گئ۔ آرمینیا کا تصور غالباً آپ کے ذہنوں میں نہیں ہوگا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ شمالی ترکی جہاں آج کل ارض روم شہر ہے اور ایرانی سرحد کا علاقہ ہے۔ اس علاقے میں ارمنی رہتے تھے۔ یہ علاقہ آرمینیا کہلاتا تھا۔ قسطلانی جو بخاری کے شارح ہیں وہ لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک فوج جب ارزن روم کے قریب موجود تھی (یہ ارزن روم اب ارض روم بن گیا ہے) تو اس وقت فوج میں ایک حادثہ پیش آیا۔ وہ یہ تھا کہ امام اور مقتدیوں میں بعض آیتوں کی قرات کے بارے میں جھگڑا ہوگیا۔ امام نے ایک طرح سے عبارت پڑھی اور حاضرین نے کہا یوں نہیں یوں ہے۔ ایک نے کہا ہمیں فلاں استاد فلاں صحابی نے پڑھایا ہے۔ دونوں اپنی اپنی باتوں پر اڑے رہے۔ قریب تھا کہ تلواریں چلیں اور خوں ریزی ہو کہ فوج کے کمانڈر انچیف نے حسن تدبیر سے اس فتنے کی آگ کو ٹھنڈا کیا۔ جب وہ فوج مدینہ منورہ واپس آئ تو کمانڈر انچیف حذیمہ بن یمان اپنے گھر میں بچوں کی خیریت پوچھنے سے پہلے سیدھے خلیفہ کے پاس پہنچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یا امیر المومنین امت محمد کی خبر لیجئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ کیا واقعہ پیش آیا؟ تو انہوں نے یہ قصہ سنایا۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوراً فیصلہ کیا۔ ان میں ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ کوئ کام ان کے ذہن میں آتا اور فیصلہ کرلیتے تو فوراً اس کی تعمیل بھی کراتے۔ جیسے ہی یہ صورت حال سامنے لائ گئ تو انہوں نے فرمایا کہ اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ایک آدمی بھیجا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے تیار شدہ جو نسخہ آپ کے پاس ہے وہ مجھے مستعار دیجئے۔ استفادہ کرنے کے بعد میں آپ کو واپس کردوں گا۔ وہ نسخہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے دوبارہ پرانے کاتب وحی زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے سپرد کیا کہ اس کی نقلیں تیار کرو، اور ان نقلوں کا مقابلہ کرکے اگر ان میں کتابت کی غلطیاں رہ گئی ہوں تو ان کی اصلاح کرو۔ قرآن مجید چونکہ عربی زبان کی پہلی کتاب ہے اس لیے ابتدائ زمانے میں عربی خط میں کچھ خامیاں ہوسکتی ہیں۔ لہٰذا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی ہدایت کہ کہ اگر تلفظ کی ضرورت کے لحاظ سے املا میں کچھ ترمیم کی ضرورت محسوس ہوتو ضرور کرو۔ یہ نکتہ بھی سمجھایا کہ عربی زبان مختلف علاقوں میں کچھ فرق بھی رکھتی ہے۔ قبیلہ نجد کے لوگ ایک لفظ کو ایک طریقے ادا کرتے ہیں مدینے کے لوگ دوسرے طریقے سے، فلاں جگہ کے لوگ تیسرے طریقے سے۔ اس لیے اگر کسی لفظ کے تلفظ میں اختلاف پایا جاتا ہے تو قرآن مجید کو مکہ معظمہ کے تلفظ کے مطابق لکھو۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے چند مددگاروں کے تعاون سے دوبارہ اس پرانے نسخے کو سامنے رکھ کر نقل کرنا شروع کرتے ہیں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر کسی مسئلے میں اختلاف ہوتو مسئلہ میرے پاس بھیجو، میں خود اس کا فیصلہ کروں گا۔ بدقسمتی سے یہ واقعہ جو ارض روم میں پیش آیا تھا کہ فلاں آیت کے متعلق یا فلاں لفظ کے متعلق فوج میں جھگڑا ہوا، اس کی کوئ تفصیل نہیں ملتی، شاید اس جھگڑے کی بنیاد قبائلی بولیوں اور لہجوں کا اختلاف ہو۔ اس قسم کی ایک مثال مجھے یاد آتی ہے۔ قرآن مجید میں "تابوت" کا لفظ آیا ہے، جس کے معنی صندوق کے ہوتے ہیں۔ اس کا تلفظ مدینہ منورہ کی بولی (Dialect) میں "تابوہ" ہوتا تھا۔ آخر میں "ۃ" کے ساتھ جب کہ مکے کے لوگ "تابوت" کے ساتھ پڑھتے تھے۔ اس پر کمیشن کے ارکان متفق نہیں ہوسکے۔ یہ اختلافی مسئلہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے پیش ہوا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تابوت بڑی ت کے ساتھ لکھو، یہ کوئ بڑی اہمیت کی بات نہیں، لیکن میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں قرآن مجید کی تدوین ہوئ اس کی حقیقت کیا ہے؟ حقیقت صرف اس قدر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں قرآن مجید کی نقلیں تیار کی گئیں۔ املا میں کہیں کہیں ترمیم کی گئ۔ لفظ کی آواز کو نہیں بدلا گیا۔ لیکن اس آواز کی املا میں کچھ فرق کیا گیا۔ اس کے بعد اس کے چار نسخے یا ایک روایت کے مطابق سات نسخے تیار کیے گئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں علمی دیانت داری کا جو معیار تھا اس کے تحت انہوں نے حکم دیا کہ ان ساتوں نسخوں کو ایک ایک کرکے، مسجد نبوی میں ایک شخص باآواز بلند شروع سے لے کر آخرت تک پڑھے تاکہ کسی شخص کو بھی یہ شبہ نہ رہے کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن میں کہیں کوئ تبدیلی کی ہے۔ جب یہ سارے نسخے اس طرح پڑھے گئے اور سب کو اطمینان ہوگیا کہ یہ نسخے صحیح ہیں تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی وسیع سلطنت کے مختلف صوبوں کے صدر مقاموں پر وہ نسخے بھیجے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کی اسلامی سلطنت کی وسعت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ 27 ہجری یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے صرف پندرہ سال بعد، اسلامی فوج ایک طرف اسپین میں اور دوسری طرف دریائے جیجوں کو عبور کرکے ماوراء النہر (چین) میں داخل ہوگئ تھی۔ یورپ، ایشیا اور افریقہ، اسلامی سلطنت ان سب براعظموں میں پھیل گئ تھی اس کے بڑے بڑے صوبوں میں قرآن مجید کے یہ نسخے بھیجے گئے اور یہ حکم دیا گیا کہ آئندہ صرف انہیں سرکاری مستند نسخوں سے مزید نقلیں لی جایا کریں۔ اس بات کی تاکید بھی کی گئ کہ اگر کسی کے پاس کوئ نسخہ اس کے خلاف پایا جائے تو اسے تلف کردیا جائے۔ اس حکم کی تعمیل کس حد تک ہوئ، اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلتا۔ عملاً یہ ناممکن بھی تھا کہ تین براعظموں کے ہر ہر مسلمان کے گھر میں پولیس جائے اور اور قرآن مجید کا شروع سے لے کر آخر تک سرکاری نسخے سے مقابلہ کرے۔ اور پھر اس میں کوئ اختلاف نظر آئے تو اسے تلف کردے۔ تاریخی طور پر ایسے کسی واقعے کا ذکر بھی نہیں ملتا لیکن بہر حال حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے سے آج تک قرآن مجید کے جو نسخے ہمارے پاس نسلاً بعد نسلاً چلے آرہے ہیں، وہ پہلی صدی ہجری سے لے کر آج تک وہی ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو چار یا سات قلمی نسخے مختلف مقامات پر بھیجے ان میں سے کچھ اب تک محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔ ثبوت کوئ نہیں، لیکن یہ روایت ہے کہ یہ انہی نسخوں میں سے ہیں۔ ایک نسخہ آج کل روس کے شہر تاشقند میں ہے وہاں کیسے پہنچا اس کا قصہ یہ ہے کہ یہ نسخہ پہلے دمشق میں پایا جاتا تھا جو بنی امیہ کا صدر مقام تھا۔ جب دمشق کو تیمور لنگ نے فتح کیا تو وہاں کے مال غنیمت میں سب سے زیادہ قیمتی چیز کے طور پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قرآن مجید پایا۔ اسے لیا اور اپنے ساتھ پایہ تخت سمر قند لایا اور وہاں اسے محفوظ رکھا۔ یہ نسخہ سمر قند میں رہا تاآنکہ گزشتہ صدی میں روسیوں نے سمر قند کو فتح کرلیا۔ فتح کرنے کے بعد اس نسخے کو جس کی بڑی شہرت تھی روسی کمانڈر انچیف نے وہاں سے لے کر سینٹ پیٹرس برگ منتقل کردیا جو آج کل لینن گراڈ کہلاتا ہے۔ روسی مؤرخ بیان کرتے ہیں کہ اس نسخے کو سمر قند کے حاکم نے روسی کمانڈر انچیف کے ہاتھ 25 یا 50 روپے میں فروخت کردیا تھا، ہم نے اسے چرایا نہیں بلکہ خرید کر لائے ہیں۔ بہر حال پہلی جنگ عظیم کے اختتام تک وہ نسخہ لینن گراڈ میں رہا اس کے بعد جیسا کہ آپ کو معلوم ہے زار کی حکومت ختم ہوگئ اور کمیونسٹوں نے حکومت پر قبضہ کرلیا۔ اس وقت بہت سے روسی باشندے جو کمیونسٹ حکموت کے ماتحت رہنا نہیں چاہتے تھے روس چھوڑ کر دنیا میں تتر بتر ہوگئے۔ ان میں سے ایک صاحب پیرس بھی آئے جو جنرل علی اکبر توپچی باشی کے نام سے مشہور تھے۔ میں خود ان سے مل چکا ہوں، انہوں نے اس کا قصہ مجھے سنایا۔ کہنے لگے کہ جب زار کو قتل کیا گیا اس وقت میں فوج میں ایک بڑے افسر کی حیثیت سے سینٹ پیٹرس برگ ہی میں موجود تھا۔ میں نے ایک کمانڈر (فوجی دستہ) بھیجا کہ جاکر شاہی محل پر قبضہ کرو اور شاہی کتب خانے میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو قرآن مجید کا نسخہ ہے اسے تلاش کرکے لے آؤ۔ کمانڈر گیا اور وہ قرآن مجید لے آیا۔ انہوں نے ایک فوجی جنرل کی حیثیت سے ریلوے اسٹیشن جاکر وہاں کے اسٹیشن ماسٹر سے کہا کہ مجھے ایک ریل کا انجن درکار ہے۔ اس انجن میں اس قرآن کو رکھا اور اپنے آدمیوں کی نگرانی میں انجن ڈرائیور کو حکم دیا کہ جس قدر تیزی سے جاسکتے ہو اس انجن کو ترکستان لے جاؤ۔ اس کی اطلاع کمیونسٹ فوجی کمانڈروں کو چند گھنٹے بعد ملی۔ چنانچہ اس کے تعاقب میں دوسرا انجن اور کچھ افسر روانہ کیے گئے لیکن وہ انجن ان کے ہاتھ سے باہر چکل چکا تھا اور اس طرح یہ نسخہ تاشقند پہنچ گیا۔ جب کمیونسٹ دور میں تاشقند پر روسیوں نے دوبارہ قبضہ کرلیا تو اس نسخے کو وہاں سے لینن گراڈ منتقل کرنے کی کوئ کوشش نہیں کی گئ۔ چنانچہ وہ نسخہ اب تک تاشقند میں محفوظ ہے۔ زار کے زمانے میں اس قرآن مجید کا فوٹو لے کر ایک گز لمبی تقطیع پر کل پچاس نسخے چاپے گئے تھے۔ ان میں سے چند نسخے میرے علم میں ہیں اور وہ دنیا میں محفوظ ہیں۔ ایک امریکہ میں ہے۔ ایک انگلستان میں ہے۔ ایک نسخہ میں نے کابل میں دیکھا تھا۔ ایک مصر کے کتب خانے میں پایا جاتا ہے۔ میرے پاس اس کا مائیکرو فلم بھی ہے۔ یہ ایک نسخہ ہے۔ دوسرا نسخہ استنبول میں توپ قاپی سرائے میوزیم میں موجود ہے جس کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ اس میں سورۂ بقرہ کی آیت (فسیکفیکھم اللہ) پر سرخ دھبے پائے جاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خون ہے۔ کیونکہ وہ جس وقت تلاوت کررہے تھے اس وقت انہیں شہید کردیا گیا تھا۔ تیسرا نسخہ انڈیا آفس لائبریری لندن میں ہے۔ اس کا فوٹو میرے پاس ہے۔ اس پر سرکاری مہریں ہیں اور لکھا ہے کہ یہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نسخہ قرآن ہے۔ ان نسخوں کے خط اور تقطیع میں کوئ فرق نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخے ایک دوسرے کے ہم عصر ہیں۔ یہ نسخے جھلی پر لکھے گئے ہیں، کاغذ پر نہیں ہیں۔ ممکن ہے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسخے ہوں یا اس زمانے میں یا اس کے کچھ ہی عرصہ بعد کے لکھوائے ہوئے نسخے ہوں۔ بہر حال یہ بات ہمارے لیے قابل فخر اور باعث اطمینان ہے کہ ان نسخوں میں اور موجودہ مستعملہ نسخوں میں، باہم کہیں بھی، کوئ فرق نہیں پایا جاتا۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جامع القرآن کہا جاتا ہے اس کے معنی یہ نہیں کہ انہوں نے قرآن کو جمع کیا۔ اس کی تاویل ہمارے مورخوں نے یہ کی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو ایک ہی قرآن پر جمع کیا۔ جو اختلاف بولیوں میں پایا جاتا تھا اس سے ان کو بچانے کے لیے مکہ معظمہ کے تلفظ والے قرآن کو انہوں نے نافذ کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر یہ اجازت دی تھی کہ مختلف قبائل کے لوگ مختلف الفاظ کو مختلف انداز میں پڑھ سکتے ہیں تو اب اس کی کوئ ضرورت باقی نہیں رہی کیونکہ مکہ معظمہ کی عربی اب ساری دنیائے اسلام میں نافذ اور رائج ہوچکی ہے۔ اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کو ایک قرآن مجید پر جمع کیا۔ خدا ان کی روح پر اپنی برکات نازل فرمائے۔

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں