الله کے لیے لفظ خدا یا گاڈ کا استعمال کیسا ہے؟

سیدنا ابن مسعود سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا:


  مَا أَصَابَ أَحَدًا قَطُّ هَمٌّ وَلَا حَزَنٌ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ نَاصِيَتِي بِيَدِكَ مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي 


كِتَابِكَ أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي وَنُورَ صَدْرِي وَجِلَاءَ حُزْنِي وَذَهَابَ هَمِّي إِلَّا أَذْهَبَ اللهُ هَمَّهُ وَحُزْنَهُ وَأَبْدَلَهُ مَكَانَهُ فَرَجًا » 


’’کسی شخص کو اگر کوئی پریشانی یا تکلیف پہنچے تو وہ یوں دُعا کرے ’کہ اے اللہ میں آپ کا بندہ، آپ کے بندے کا بیٹا، آپ کی بندی کا بیٹا، میری پیشانی آپ کے ہاتھ میں ہے، میرے بارے میں آپ کا


 حکم لاگو ہوتا ہے، میرے بارے میں آپ کا ہر فیصلہ عدل پر مبنی ہے، میں آپ کو آپ کے ہر اس نام کا - جو آپ نے خود اپنا نام رکھا یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا یا اپنی کتاب میں نازل کیا 


یا اسے اپنے علم غیب میں رکھا (یعنی کسی دوسرے کو نہ بتایا) - واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ قرآن پاک کو میرے دل کی بہار، میرے سینے کا نور ، میرے غم کو کھولنے اور میری پریشانی کو لے 


جانے کا ذریعہ بنادیں‘ تو اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف اور پریشانی کو دور فرمادیں گے۔‘‘


صحابہ کرام رضوان الله علیھم اجمعین  نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم اسے سیکھ نہ لیں؟ 


آپ صلی الله علیہ وسلم  نے فرمایا ۔۔۔۔ بَلَىٰ يَنْبَغِي لِمَنْ سَمِعَهَا أَنْ يَتَعَلَّمَهَا ۔۔۔۔۔ کیوں نہیں جو بھی اس دُعا کو سنے اس کو چاہئے کہ اسے یاد کر لے۔‘‘

 [مسند احمد: 3704]


اس حدیث مبارکہ سے واضح طور پر علم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنےاچھے اچھے نام بذاتِ خود رکھے، اپنی کتاب میں نازل کیے، اپنے رسولوں کو خود سکھائے یا اپنے علم غیب میں محفوظ رکھے۔ ہمیں مخلوق کو کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں کہ اپنے رب، خالق اور مالک کے نام ہم رکھیں۔


کسی بھی جگہ،چیزیاشخصیت کے نام کو اسم کہتے ہیں۔اس کی دو قسمیں ہیں۔معرفہ اور نکرہ۔معرفہ خاص نام کواورنکرہ عام نام کو کہتے ہیں۔معرفہ کی چھ اقسام ہیں جن میں ایک اسم علم ہے اسم علم کسی کے ذاتی نام کو کہتے ہیں جیسے ابو بکر،عمر،زید وغیرہ۔مالک کائنات اور سارے جہانوں کے رب کا اسم ذات اللہ ہے۔باقی سارے نام صفاتی ہیں۔اسم ذات کا ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ایک زبان کے اسمائے علم ہر زبان میں اسی حالت میں رہتے ہیں اور انہیں کسی حال میں بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔جیسے کسی کا نام اصغر ہے تو کسی بھی زبان میں کہیں یہ اصغر ہی رہے گا۔ایسا نہیں ہو گا کہ یورپ والے اسے" اسمال یا لٹل" کہنے لگیں اور وہ ایران جاے تو لوگ اسے "کوتاہ یا کو چک" کے نام سے پکاریں۔بالکل اسی طرح لفظ اللہ کا ترجمہ خدا ،گاڈ ،بھگوان وغیرہ نہیں ہو گا۔

مارماڈیوک پکھتال نے عیسائی مذہب چھوڑکر اسلام قبول کرنے کے بعد قرآن پاک کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔پہلی ہی آیت میں لفظ اللہ کو گاڈ نہیں لکھا بلکہ اللہ ہی لکھا اور نیچے حاشیہ میں اس کی وضاحت بھی ان الفاظ میں کی:

میں نے شروع سے آخر تک لفظ اللہ استعمال کیا ہے کیونکہ انگریزی میں اس کے جوڑ کا کوئی لفظ نہیں ۔لفظ اللہ کانہ کوئی مونث ہے نہ ہی جمع اور نہ قابل تصور ہستی اللہ کے سوا اس کا اطلاق کسی پر نہیں ہوا ہے میں لفظ گاڈ کو صرف اسی جگہ استعمال کرتا ہوں جہاں عربی میں اس کا متبادل لفظ الہٰ مل جاتا ہے۔(قرآن پاک:انگریزی مترجم مارماڈیوک پکھتال :تاج کمپنی کراچی ص ن 1۔


اللہ تعالیٰ کے ننانوے 99معلوم اسماء حسنیٰ میں لفظ خدا شامل نہیں ۔لفظ خدا آتش پرست لوگ اپنے خود ساختہ خیر و شر کے خداؤں یعنی یزداں اور اہر من کے لیے استعمال کرتے ہیں۔یہ لفظ ایرانی آتش پرستوں کا باطل تصورات کا مظہر ہے۔مزید یہ کہ عیسائی اس لفظ کوبطورضداللہ کی جگہ استعمال کرتے ہیں بائبل کے تراجم پڑھ لیں کہیں بھی لفظ اللہ لکھا نہیں ملے گا بلکہ خدا ہی ملے گا۔اردوزبان میں عیسائی لٹریچر میں خدا اور خداوند ہی لکھا جاتا ہے اورستم یہ ہے کہ یہ لوگ لفظ خدا عیسیٰ علیہ السلام کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ایمان کا تقاضایہ ہے مسلم اس لفظ خدا سے بالکل پر ہیز کریں۔

اللّٰہ کا قرآن پاک میں ارشاد ہے۔

اللہ کے لیے ہیں سب اسماء حسنیٰ سو اس کو انہی ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کوچھوڑ دو جو اس کے ناموں میں الحاد (کج روی)اختیار کرتے ہیں۔ان کو اس کی سزامل کر رہے گی۔الاعراف 18

( میں نے بہت سی پوسٹ میں لفظ خدا کو ہو بہو لکھا اور شئیر کیا تھا جس کی میں اللہ پاک سے معافی چاہتا ھوں کہ انجانے میں فارورڈ میسیج میں ایسا کرتا رھا ۔۔ آئندہ بہت احتیاط کروں گا ۔۔ محمد احمد )


انگریزی لفظ (GOD) گاڈ کے تعلق سے کہا گیا کہ قدیم یورپ کی معدوم زبانوں کا یہ

لفظ ہے جس کا مفہوم یہ تھا ۔ ” ایسی ہستی ، قربانیوں کے ذریعے جس کی پرستش کی

جائے ۔” اور تاریخ بتلاتی ہے کہ جانوروں بلکہ انسانوں کی قربانی بھی پرستش کا 

ذریعہ رہی ۔اگر آپ تحریف شدہ انجیل  کا مطالعہ کریں تو اس میں حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعات میں قربانی کا ذکر ملے گا 


 سامی

زبانوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف و اصوات کی ایک خاص ترکیب ہے جو

معبودیت کے معنی میں مستعمل رہی ہے اور عبرانی ، سریانی ، آرامی ، کلدانی ، حمیری ،

عربی وغیرہ تمام زبانوں میں اس کا یہ لغوی خاصہ پایا جاتا ہے ۔  الف ، لام اور ھ کا مادہ ہے اور مختلف شکلوں

میں مشتق ہوا ہے۔ کلدانی اور سریانی کا لفظ ” الاھیا ” عبرانی کا  ” الوہ ” اور عربی کا  ” الہٰ ” اسی سے ہے اور بلاشبہ یہی ” الہٰ ”

ہے جو  حرف تعریف کے اضافے کے بعد ” اللہ ”

ہو  گیا ہے اور تعریف نے اسے صرف خالق کائنات کے لیے

مختص کر  دیا ہے۔


لیکن اگر ” اللہ

” الہٰ سے ہے تو الہٰ کے معنی کیا ہیں؟ علماء

لغت و اشتقاق کے مختلف اقوال ہیں مگر سب سے زیادہ قوی قول یہ معلوم ہوتا ہے

کہ اس کی اصل ” الہٰ ” ہے ۔ ” الہٰ ” کے معنی تحیر اور  درماندگی کے ہیں۔ بعضوں نے اسے ” ولہٰ ” سے

ماخوذ بتایا ہے اور اس کے معنی بھی یہی ہیں ۔ پس خالق کائنات کے لیے یہ لفظ اس لیے

اسم قرار پایا کہ اس بارے میں انسان جو کچھ جانتا

اور جان سکتا ہے وہ عقل کے تحیر اور ادراک کی درماندگی کے سوا اورکچھ  نہیں ہے۔ وہ جس قدر بھی اس ذات مطلق کی ہستی

میں غور و خوض کرے گا اس کی عقل کی حیرانی اور درماندگی بڑھتی ہی جائے گی۔ یہاں تک

کہ وہ معلوم کرلے گا کہ اس کی راہ کی ابتداء بھی عجز و حیرت سے ہوتی ہے اور انتہا

بھی عجز وحیرت ہی ہے۔

اسم "اللہ جل جلالہ" کا ترجمہ نہیں ہو سکتا 

واللہ تعالیٰ اعلم  


کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں