عم پارہ۔30 سورة النباء آیات: 19,20

#عم_یتساءلون
#سورۃ_النبإ
آیة:20,19
وَفُتِحَتِ السَّمَآءُ فَكَانَتْ اَبْوَابًا 1️⃣9️⃣

 اور آسمان کھول دیا جائے گا تو اس کے دروازے ہی دروازے بن جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس آیة میں پہلی بار صور پھونکنے کا ذکر ہے۔ جب اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے تو آسمان کھول دیا جائے گا اور اس میں دروازے ہی دروازے بن جائیں گے۔ 

ابوابا کے متعلق دو قول ہیں۔ 

1- صور پھونکنے سے آسمان میں دراڑیں پڑ جائیں گی۔ جس طرح کسی مضبوط چھت کے گرنے سے پڑجاتی ہیں۔ انہیں دراڑوں کو ابواب کہا گیا ہے۔

2- جب صور پھونکا جائے گا تو آسمان میں بہت سے دروازے کھول دئیے جائیں گے۔ ان دروازوں سے فرشتوں کے گروہ نکلیں گے جو زمین کی ہر چیز کو فنا کر دیں گے۔ 

وَسُيِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا. 2️⃣0️⃣

 اور پہاڑوں کو چلایا جائے گا تو وہ ریت کے سراب کی شکل اختیار کرلیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب صور پھونکا جائے گا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر ریت کے ذرات کی طرح اڑتے پھریں گے۔ اور زمین ایک سیدھا صاف میدان بن جائے گی جس پر نہ کوئی درخت ہوگا ، نہ کوئی پہاڑ ۔ 
پہاڑوں کو پہلے ریزہ ریزہ کیا جائے گا، پھر روئی کی طرح نرم کر دیا جائے گا، پھر ان ذرات کو ہوا میں غبار کی طرح اُڑا دیا جائے گا، یعنی پہاڑ بالکل مٹ جائیں گے اور ان کی جگہ سراب جیسی ہو جائے گی۔ جیسے دور سے چمکتی ریت پانی لگتی ہے اسی طرح پہاڑ لگیں گے لیکن حقیقت میں وہ پہاڑ نہیں رہیں گے بلکہ ریت کے تودے بن جائیں گے۔



عم پارہ۔30 سورة النباء آیات: 17.18

#عم_یتساءلون
#سورۃ_النبإ
آیة:18,17
ربط آیات:17تا 20 
گذشتہ آیات میں نو دلائل سے قدرتِ باری تعالی کو ثابت کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ الله تعالی کے لیے مُردوں کو دوبارہ زندہ کرنا اور میدانِ حشر میں حساب کتاب کے لیے جمع کرنا بالکل بھی مشکل نہیں۔ چنانچہ قیامت کے دن تم سب ضرور اس کے سامنے حاضر کیے جاؤ گے۔ 
اب اگلی آیات میں قیامت کا احوال بیان کیا جا رہا ہے۔ 

 اِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِيْقَاتًا۔ 1️⃣7️⃣

 یقین جانو فیصلے کا دن ایک متعین وقت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
کافر سوال کرتے تھے کہ اگر قیامت کا آنا یقینی ہے تو پھر تاخیر کیوں ہورہی ہے، ابھی کیوں نہیں آتی ۔ الله تعالی نے فرمایا قیامت ضرور آئے گی۔ کب آئے گی اس کا علم صرف الله تعالی کو ہے ۔ قیامت کا ایک وقت مقرر ہے جس میں نہ تقدیم ہو سکتی ہے نہ تاخیر اس لیے تمہارے کہنے سے ابھی نہیں آئے گی۔ 

قیامت واقع ہونے کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں ۔

 (۱) روح کا جسموں سے تعلق ختم ہوجائے ۔

 (۲)دنیا کا کارخانہ درہم برہم ہوجائے۔ اس فانی گھر کی چھت ، فرش اور سامان رزق جس سے تمام مخلوق فائدہ اٹھاتی ہے ختم کر دئیے جائیں۔

 (۳) تمام  روحیں اس جہان سے فائدہ اٹھا لیں ۔ جب تک یہ تینوں کام مکمل نہ ہو جائیں قیامت نہیں آئے گی۔

يَّوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا۔ 1️⃣8️⃣

وہ دن جب صور پھونکا جائے گا تو تم سب فوج در فوج چلے آؤ گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آیت میں دوسری بارصور پھونکنے کا حال بیان کیا جا رہا ہے۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام پہلی بار صور پھونکیں گے تو تمام عالم فنا ہوجائے گا، دوسری بار صور پھونکیں گے تو لوگ زندہ ہوجائیں گے۔ اور گروہ بن کر الله تعالی کے دربار میں حاضر ہوں گے۔ 
حضرت ابوذر غفاری رضی الله عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (اردو مفہوم) جب لوگ قبروں سے نکل کر دربارِ خداوندی میں جانے لگیں گے تو ان کے تین گروہ ہوں گے۔ 

1- بعض پیٹ بھرے، اچھے لباس پہنے سواریوں پر سوار ہوکر جائیں گے۔

2-  بعض پیدل چل کر جائیں گے۔ 

3-  بعض منہ کے بل گھسیٹ کر لائے جائیں گے۔ 
(معارف) 

بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن بہت سے گروہ ہوں گے۔ ہر نبی علیہ السلام کی امت کے الگ الگ گروہ ہوں گے۔ پھر مؤمنین کے الگ، کافروں کے الگ، مؤمنین میں سے بھی نیکوں کے الگ، بروں کے الگ، یعنی مؤمنین کے بھی بے شمار گروہ ہوں گے۔ 

اہم بات: جب “الف” کے اوپر زیر ، زبر، پیش یا جزم وغیرہ کوئی اعراب نہ ہو تو وہ “الف” ہے اور اگر “الف” پر کوئی اعراب یعنی زیر، زبر، پیش، ،جزم وغیرہ میں سے کوئی ایک حرکت موجود ہو تو اسے “ہمزہ” کہتے ہیں۔

نوٹ: نام اور حوالے کے  بغیر پوسٹ کاپی و شئیر کرنا منع ہے۔
نزہت وسیم


عم پارہ۔30 سورة النباء آیات: 14,15,16

#عم_یتساءلون
#سورۃ_النبإ
آیة:16,15,14

9۔ وَاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْــصِرٰتِ مَاۗءً ثَجَّاجًا 1️⃣4️⃣

اور ہم نے ہی بھرے ہوئے بادلوں سے موسلا دھار پانی برسایا۔

لِنُخْرِجَ بِهٖ حَبًّا وَّنَبَاتًا  1️⃣5️⃣

تاکہ اس سے غلہ اور دوسری سبزیاں بھی اگائیں۔

وَجَنّٰتٍ اَلْفَافًا. 1️⃣6️⃣

اور گھنے باغات بھی۔

الله تعالی اپنی قدرت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہارے لیے رزق کا انتظام اس طرح کیا کہ بادلوں سے بارش برسائی، اس بارش سے غلہ اگایا جو تمہارے کھانے کے لیے ہے، پھر گھاس اور جڑی بوٹیاں پیدا کیں، جو تمہارے جانوروں کی خوراک ہے اور گھنے باغات پیدا کیے، جن کے پھل تم کھاتے ہو۔ یہ الله تعالی کا تم پر بہت بڑا انعام ہے ۔ دیکھو ! اس کی قدرت کتنی زبردست ہے کہ بارش عجیب وغریب طریقے سے نازل کی ، چھوٹی چھوٹی بوندیں ، پھر بڑے بڑے قطرے، اس ایک ہی پانی سے مختلف رنگ اور ذائقے کی اشیاء پیدا کیں۔ ایسی قدرت والی ذات تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ 

سوال : یہاں الله تعالی نے فرمایا ہم نے بادلوں سے پانی نازل کیا دوسری آیت میں ہے “و انزلنا من السماء ماء”  ہم نے آسمان سے پانی نازل کیا ۔ بظاہر دونوں آیات میں تضاد ہے؟ 

جواب : کوئی تضاد نہیں۔ سماء اوپر والی فضا کو کہتے ہیں۔ بادل کو بھی سماء کہا گیا ہے بارش بادل سے ہی نازل ہوتی ہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں ممکن ہے کبھی آسمان سے بارش نازل ہوتی ہو کبھی بادل سے۔ تضاد کی کوئی وجہ نہیں۔ 

ایک خاص بات ؛ الله تعالی نے پہلے حباً کو بیان کیا پھر نباتاً کو اور اس کے بعد جنات الفافاً کو ۔ اس ترتیب کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ غلہ کی اہمیت سب سے  زیادہ ہے، ہر شخص کو اس کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے اس کو پہلے ذکر کیا۔  دوسرے نمبر پر نباتات یعنی جانوروں کی خوراک ضروری ہے اور پھل کو ذائقے کی وجہ سے کھایا جاتا بطورِ غذا نہیں اگرچہ اس میں بھی غذائیت ہوتی ہے ۔ 

نوٹ: نام اور حوالے کے بغیر پوسٹ کاپی یا شئیر کرنا منع ہے۔
نزہت وسیم


عم پارہ ۔30 سورة النباء آیت: 12,13

#عم_یتساءلون
#سورۃ_النبإ
آیة:13,12

7۔ وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا 1️⃣2️⃣

اور ہم نے ہی تمہارے اوپر سات مضبوط وجود (آسمان) تعمیر کیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس آیت میں بھی الله تعالی اپنی قدرتِ کاملہ کا اظہار کر رہے ہیں کہ ہم نے تمہارے لیے سات مضبوط آسمان بنا دئیے۔ آسمان کی یہ چھت الله تعالی کی عظیم الشان نعمت ہے جو بغیر کسی ستون کے مدت سے قائم ہے۔ لاکھوں کروڑوں سال گزرنے کے باوجود نہ تو پرانی ہوئی ، نہ اس میں کہیں کوئی سوراخ ہوا ۔ 

سوال : آسمان سقف یعنی چھت ہے اس کے لیے بنینا کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا؟ 

جواب : اس سے مراد یہ ہے کہ اگرچہ آسمان چھت ہے لیکن مضبوطی کے اعتبار سے بنیاد کی طرح مضبوط ہے۔ 

8۔ وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًا 1️⃣3️⃣

 اور ہم نے ہی ایک دہکتا ہوا چراغ (سورج) پیدا کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اس آیت میں الله تعالی اپنی نعمت و قدرت کا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہارے لیے جگمگاتا ہوا سورج بنا دیا تاکہ تم اس کی روشنی میں اپنی ضروریات کا انتظام کر سکو۔ اگر سورج نہ ہوتا تو اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ۔ پھر سورج میں روشنی کے ساتھ گرمی بھی موجود ہے۔ سورج کی روشنی اور حرارت زندگی کی علامت ہے۔  یہ الله تعالی کی قدرت کی نشانی ہے کہ تمام انسانوں کو خواہ وہ کافر ہوں یا مسلمان ہزاروں میل کی دوری سے دن کو سورج اور رات کو چاند روشنی مہیا کرتے ہیں۔ 

اہم بات: تلاوت کے دوران جب آیت کے آخری حرف پر تنوین یعنی دو زبر ہوں تو وہاں ٹھہرتے یا وقف کرتے اور سانس توڑتے وقت اس   تنوین کو  “ آ ”میں بدل دیتے ہیں ۔ جیسے 

شِداداً سے  شِدادَا

وَھَّاجاً سے  وَھَّاجَا

نوٹ: نام اور حوالے کے بغیر  پوسٹ کاپی یا شئیر کرنا منع ہے۔
نزہت وسیم


عم پارہ۔30، آیات۔10,11

#عم_یتساءلون
#سورۃ_النبإ
آیة:11,10

الله جل جلالہ کی حکمت و صنعت کے نو مناظر:

5. وَّجَعَلْنَا الَّيْلَ لِبَاسًا

 اور رات کو پردے کا سبب ہم نے بنایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ 
الله سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے۔ ہم نے نیند کو تمہاری راحت و آرام کا سبب بنایا، نیند کے لیے جن چیزوں کی ضرورت تھی یعنی  اندھیرا اور خاموشی اس کا ماحول تیار کر دیا چنانچہ رات کی تاریکی تمہیں لباس کی طرح ہر طرف سے ڈھانپ لیتی ہے اور سب ایک ہی وقت میں تھک کر سو جاتے ہیں۔ 

6. وَّجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا

 اور دن کو روزی حاصل کرنے کا وقت ہم نے قرار دیا۔
۔۔۔۔۔۔ 
اس سے یہ مراد ہے کہ سو کر اٹھنے کے بعد ہم نے تمہاری روزی کے اسباب تیار کر دئیے۔ صبح اٹھتے ہو تو سورج روشن ہوتا ہے تاکہ تم دن  کی روشنی میں چل پھر کر اپنی روزی اور سامان زندگی کا انتظام کر سکو۔

اہم بات: الیل اور النھار کے پڑھنے میں فرق یہ ہے کہ الیل کا  پہلا “لام”  حروفِ قمری میں سے ہے اور النھار کا “نون” حروف شمسی میں سے ہے۔  اس لیے الیل کا “پہلا لام “ پڑھنے میں آ رہا ہے اور النھار کا “لام “ پڑھنے میں نہیں آتا یعنی سائیلنٹ ہے۔

نوٹ: بغیر نام اور حوالے کے پوسٹ کاپی و شئیر کرنا منع ہے۔
نزہت وسیم




عم پارہ۔30،سورة النباء ۔ آیات، 7,8,9

#عم_یتساءلون
#سورۃ_النبإ
آیة:7,8,9

2. وَالْجِبَالَ اَوْتَادًا  7️⃣ 

 اور پہاڑوں کو (زمین میں گڑی ہوئی) میخیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
جب الله سبحانہ وتعالی نے زمین کو پیدا کیا تو وہ ہلنے اور ڈگمگانے لگی۔ الله تعالی نے اس پر بڑے بڑے پہاڑ رکھ دئیے گویا زمین پر پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں جس سے وہ ساکن ہوگئی۔ یہ بھی الله تعالی کی نعمت ہے اور جو ذات اتنے بڑے بڑے پہاڑ پیدا کر سکتی ہے وہ انسان کو بھی دوبارا پیدا کرنے پر قادر ہے ۔ 

3.  وَخَلَقْنٰكُمْ اَزْوَاجًا  8️⃣

 اور تمہیں (مرد و عورت کے) جوڑوں کی شکل میں ہم نے پید ا کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
الله تعالی کا فرمان ہے کہ ہم نے زمین کو پیدا کرکے ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس پر تمہیں  جوڑا جوڑا بنا کر پیدا کیا تاکہ نسل انسانی بڑھ سکے۔ یہ بھی الله تعالی کی قدرت کا بیان ہے کہ ایک انسانی جوڑے سے کروڑوں ، اربوں جوڑے پیدا کیے ہر ایک کی شکل دوسرے سے مختلف ہے ۔ جو ایک بار بنا سکتا ہے اس کے لیے دوبارہ زندہ کرنا بھی مشکل نہیں ۔ 

 4.  وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا  9️⃣

اور تمہاری نیند کو تھکن دور کرنے کا ذریعہ ہم نے بنایا۔
۔۔۔۔۔۔۔ 
الله سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں ہم نے تمہیں پیدا کرنے کے بعد تمہارے لیے نیند کو راحت و آرام کا ذریعہ بنا دیا۔اگر غور کیا جائے تو نیند الله تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے۔ جو بادشاہ ، فقیر ، امیر و غریب سب کو مفت حاصل ہے، بلکہ امیروں کی بجائے غریبوں کو یہ نعمت زیادہ حاصل ہے۔ انسان کے اعضاء کاروبارِ زندگی میں مصروف رہنے سے تھک جاتے ہیں۔ اس تھکاوٹ کو دور کرنے کے لیے الله تعالی نے نیند کی نعمت عطا فرمائی جس سے انسان دوبارہ تروتازہ ہوجاتا ہے۔ مزید غور کرنے سے یہ بھی معلوم  ہوتا ہے کہ یہ نیند زبردستی طاری کی جاتی ہے ۔ اگر کوئی شخص رات کو مسلسل کام کرنا بھی چاہے تو رحمت باری تعالی اس پر زبردستی نیند مسلط کر دیتی ہے اور انسان نیند کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے۔  نیند کی یہ نعمت کافر ہو یا مسلمان سب کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ نیند موت سے مشابہ ہے گویا الله تعالی انسان کو اس عارضی موت سے زندہ کر دیتا ہے تو مرنے کے بعد زندہ کرنے پر بھی قادر  ہے۔
اہم بات: “ق” اور “ک” کو ادا کرنے میں یہ فرق ہے کہ نقطوں والا قاف حلق کے درمیان سے موٹا ہو کر قلقلے کے ساتھ ادا ہوتا ہے۔ اور کاف حلق کے اوپر والے حصے سے باریک  ادا کیا جاتا ہے۔  
قلقلہ کا مطلب ہے حُرُوفِ قلقلہ کو اداکرتے وقت ایک  جنبش سی ہوتی ہے جس کی وجہ سے آواز واپس لوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ حُروفِ قلقلہ پانچ ہیں جن کا مجموعہ'' قُطُبُ جَدٍّ'' ہے۔یہ پانچ حروف جب ساکن ہوں تو ان میں قلقلہ ہوتا ہے۔
نوٹ: نام اور حوالے کے بغیر پوسٹ کاپی و شئیر کرنا منع ہے۔
نزہت وسیم


عم پارہ۔30 ، سورة النباء ۔ آیت:6

#عم_یتساءلون
#سورۃ_النبإ
آیة:6
ربط آیات:6تا16
گذشتہ آیات میں کفار مکہ کے سوال و جواب کا ذکر تھا۔ موت کے بعد زندہ ہونے اور انکارِ قیامت کا بیان تھا۔ انکار کی وجہ یہ تھی کفار مرنے کے بعد زندہ ہونے کو مشکل اور ناممکن سمجھتے تھے گویا کہ الله تعالی کی قدرت کا انکار کرتے تھے۔ اب اگلی آیات میں الله جل شانہ نے اپنی عظیم الشان نشانیوں کا ذکر فرمایا ۔ نو دلائل سے اپنی قدرت کے عجیب و غریب مناظر پیش کیے۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ الله سبحانہ و تعالی کے لیے قطعا مشکل نہیں کہ وہ اس سارے عالم کو فنا کرکے دوبارہ پیدا کر دیں۔ جس الله نے اتنی بڑی زمین بنائی ، اس پر بڑے بڑے پہاڑ رکھ دئیے ، عظیم الشان آسمان بغیر ستون کے کھڑا کر دیا، وہ اس چھوٹے سے انسان کو دوبارہ زندہ کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ لہذا کفار کا اس بات سے انکار کرنا بالکل بے بنیاد ہے۔ اس کے علاوہ الله سبحانہ وتعالی نے اپنے انعامات کا ذکر فرما کر کفار کو توجہ دلائی کہ ان نعمتوں پر اس کا  شکر ادا کرو اور اس کی توحید کا اقرار کرو۔  
الله جل جلالہ کی حکمت و صنعت کے نو مناظر: 

1. اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهٰدًا 6️⃣

اردوترجمہ: کیا ہم نے زمین کو ایک بچھونا نہیں بنایا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
کیا ہم نے زمین کو تمہارے چلنے پھرنے ، بیٹھنے ، لیٹنے کے لیے بستر کی طرح اور بچھونے کی طرح نہیں بنایا۔ جہاں چاہو بیٹھ جاؤ ، لیٹ جاؤ۔ اگر زمین ہوا کی طرح ہلکی ، پانی کی طرح نرم ، آگ کی طرح گرم ہوتی تو تم اس پر کس طرح چل پھر سکتے ۔ یہ الله تعالی کی عظیم نعمت ہے جس میں کافر و مسلمان برابر کے شریک ہیں۔ اس نعمت کا تقاضا ہے کہ تم اس کا شکر ادا کرو اس کی توحید کا اقرار کرو۔ جس ذات نے اتنی بڑی زمین کو بچھونا بنایا کیا اس کے لیے انسان کو دوبارہ زندہ کرنا مشکل ہے؟

اہم بات :حرف  “ح “اور “ھ” کی ادائیگی میں فرق ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت کے دوران اس کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔عربی زبان میں “ح” کی جگہ “ھ” پڑھنا بڑی غلطی ہے؛کیونکہ اس سے معنی بدل جاتا ہے۔
“ح”حلق کے درمیان والے حصے سے ادا ہوتا ہے اور نفیس سی آواز ہے۔ ”ھ” حلق کے آخری حصے یعنی اس کی جڑ سے ادا کرتے ہیں ۔ درد یا تکلیف کی وقت جو “ہائے ” سینے کی گہرائی نکلتی ہے اسے “ھ” کہتے ہیں۔

نوٹ: بغیر نام اور حوالہ پوسٹ کاپی یا شئیر کرنا منع ہے۔

عم پارہ۔ 30 ، سورة النباء ، آیات ۔ 3,4,5

#عم_یتساءلون
#سورۃ_النبإ
آیة:5,4,3

الَّذِيْ هُمْ فِيْهِ مُخْـتَلِفُوْنَ  3️⃣

اردوترجمہ : جس میں خود ان کی باتیں مختلف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونا اور قیامت کے واقع ہونے میں ہر فرقے کی رائے الگ الگ تھی ۔ اکثر اہل عرب قیامت کے منکر تھے۔ تعجب سے کہتے تھے کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو دوبارہ زندہ ہونا بہت مشکل بات ہے ۔ اسی طرح نصارٰی کا خیال تھا کہ جسم مٹ جائیں گے صرف روحیں لوٹائی جائیں گی ۔ اب بھی اکثر کا یہی عقیدہ ہے ۔ یہود کے بعض فرقے بھی قیامت کے شدید منکر تھے ۔ بعض کہتے تھے مر کر انسان کی روح جنوں یا فرشتوں میں مل جاتی ہے۔ دوبارہ اسی جسم کے ساتھ زندہ ہونا ناممکن ہے اور اسی کا نام قیامت ہے۔ غرض اس معاملے میں سب کی رائے ایک دوسرے سے مختلف تھی۔

كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ. 4️⃣

اردوترجمہ: خبردار ! انہیں بہت جلد پتہ لگ جائے گا۔

ثُمَّ كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ. 5️⃣

اردوترجمہ: دوبارہ خبردار ! انہیں بہت جلد پتہ لگ جائے گا۔

کلا کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ 
1- اگر معنی انکار ہو یعنی “ہرگز نہیں “ تو اس سے مراد یہ ہے کہ کفار کا قیامت کے متعلق بحث و مباحثہ کرنا درست نہیں کیونکہ قیامت بحث کرنے سے سمجھ میں آنے والی چیز نہیں ۔ قیامت کا انکار کرنا بھی درست نہیں کیونکہ عنقریب جب قیامت واقع ہوجائے گی، قیامت کی ہولناکیاں اور واقعات ان کے سامنے آئیں گے اس وقت ان کو اس بڑی خبر کی حقیقت سمجھ آئے گی۔ 
2- اگر معنی “حقا” ہو یعنی “ یقینا “ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کا واقع ہونا حق اور یقینی بات ہے۔ عنقریب کفار اس سچ کو جان لیں گے۔ 

سوال : کلا سیعلمون اور ثم کلا سیعلمون ۔ کو مکرر کیوں ذکر کیا ہے؟ 
جواب:  یہ تکرار تاکید کے لیے ہے اور مضمون کی صداقت کو مضبوط کرنے کے لیے ہے۔ 
1- پہلے کلا سیعلمون کا مقصد ہے کفار جب قبروں سے اٹھیں گے اس کی صداقت جان لیں گے یا جب ان پر موت آئے گی اس وقت جان لیں گے یا  جب ان کو سزا ہوگی تو جھٹلانے کا انجام جان لیں گے اور سزا پائیں گے۔ 
2- دوسرے سیعلمون کا مقصد یہ ہے کہ کفار جب الله کے حضور کھڑے ہوں گے اس وقت اپنا انجام جان لیں گے یا جب دوبارہ قبروں سے اٹھائے جائیں گے اس وقت انجام جان لیں گے یا اس سے مراد مؤمن ہیں کہ وہ اپنی تصدیق اور ایمان کا حال جان لیں گے اور جزا پائیں گے ۔

عم پارہ۔ 30 ، سورة النباء ۔ آیة ۔2



#عم_یتساءلون
سورۃ النبإ
آیت نمبر:2

عَنِ النَّبَاِ الْعَظِيْمِ

اردوترجمہ : اس زبردست واقعے کے بارے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی کفار ایک بہت بڑی خبر کے بارے میں سوال کر رہے ہیں ۔ اگر دل کفر کی ظلمت سے مردہ نہ ہو چکے ہوتے تو اس خبر کی عظمت ان کے دلوں پر ایسا اثر کرتی کہ وہ بغیر کسی سوال و جواب کے اسے مان لیتے۔ 

سوال : نبا عظیم سے کیا مراد ہے؟ 
جواب : اس میں تین قول ہیں ۔
1. قیامت مراد ہے ۔ 
قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر العظیم کا لفظ قیامت کے لیے آیا ہے جیسا کہ سورة المطففین کی آیة 4,5  

      أَلَا يَظُنُّ أُولَئِكَ أَنَّهُم مَّبْعُوثُونَ
 اردو: 
کیا یہ لوگ یہ نہیں خیال کرتے کہ اٹھائے بھی جائیں گے۔
لِيَوْمٍ عَظِيمٍ
 اردو: 
یعنی ایک بڑے سخت دن میں۔

اور سورة ص آیة: 67
قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ
 اردو: 
کہدو کہ یہ ایک بڑی ہولناک چیز کی خبر ہے۔

2 .قرآن مجید مراد ہے۔

اس میں ان کا اختلاف یہ تھا کہ جادو ہے یا شعر وشاعری یا پہلوں کی قصہ کہانیاں ہیں ۔ الله سبحانہ تعالی نے تردید کی کہ ان کا اختلاف درست نہیں عنقریب اس کی صداقت کو جان لیں گے ۔ 

3۔ نبوت مراد ہے۔

کیونکہ یہ بھی عظیم الشان چیز ہے جس نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ، پرانے رسم و رواج ختم کر دئیے ، حکومتیں مٹا دیں اور نئے قوانین جاری کردئیے۔ کفار مکہ آپ کی نبوت کا انکار کرتے اور اختلاف کرتے ، الله تعالی نے کفار کی تردید کرکے آپ صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کر دی۔ 
اہم بات: جب “ی” ساکن ہو اور اس سے پہلے حرف کے نیچے زیر ہو تو اسے خوب ظاہر کرکے پڑھتے ہیں ، ایسی یا کو “یائےمدہ “کہتے ہیں ۔وقف کرنے یعنی ٹھہرنے یا سانس  توڑنے کی صورت میں آخری حرف ساکن کر دیتے ہیں۔
جیسے : عظیمْ
نوٹ: بغیر نام اور حوالے کے پوسٹ کہیں شئیر یا کاپی کرنا منع ہے۔
نزہت وسیم

عم پارہ۔ 30 ،سورة النباء

#عم_یتساءلون 
سورۃ النبإ
آیت نمبر:1

عَمَّ يَتَسَاۗءَلُوْنَ

اردوترجمہ: یہ (کافر) لوگ کس چیز کے بارے میں سوالات کر رہے ہیں ؟
————- ۔ 
سورة کی ابتدا ایک سوال کی شکل میں ہوئی ہے۔  عموماً کسی چیز کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے سوال کیا جاتا ہے۔ الله سبحانہ تعالی سے کائنات کی کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں ۔ چنانچہ قرآن مجید میں کسی چیز کی عظمت ، اہمیت یا ہولناکی کو بیان کرنا ہو تو الله تعالی کی طرف سے سوالیہ اسلوب اختیار کیا جاتا ہے یہاں بھی نبا عظیم یعنی قیامت کی ہولناکی کا بیان مقصود ہے۔ 
جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے کفار و مشرکینِ مکہ کو قیامت کے متعلق آیات سنائیں تو وہ اپنی مخصوص مجلسوں میں بیٹھ کر چہ میگوئیاں اور رائے زنی کرنے لگے۔ ان کے نزدیک قیامت کا آنا اور مر جانے کے بعد زندہ ہونا ، پھر حساب کتاب اور جزا و سزا کا واقع ہونا ناممکن تھا۔ وہ جگہ جگہ چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے ، ملتے جلتے آپس میں بکثرت یہی گفتگو کرتے ، کوئی اسے سچ کہتا اور کوئی اس کا انکار کرتا ، کوئی مذاق کرتا اور کوئی اپنی محدود سوچ کے مطابق اندازے لگاتا؛ چنانچہ اس سورة کی پہلی آیت میں ان کا یہ حال بیان کیا گیا۔
 اگلی آیات میں قیامت واقع ہونے کا دعوٰی عجیب حاکمانہ انداز میں مذکور ہے۔ الله جل جلالہ نے مشاہدات کے ذریعے ان کے شکوک و شبہات کو دور کیا ۔ 

سوال : سوال کرنے والے کون تھے اور کس سے سوال کرتے تھے؟ 
جواب : اس میں تین قول مشہور ہیں ۔
١۔ اس سے مراد کافر و مشرکین ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے حیرت اور تعجب کے ساتھ سوال کرتے، ایک دوسرے سے ملاقات پر اور اپنی مجالس میں اس بات پر تبصرے اور بحث مباحثہ کرتے اور جب ان کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی تو اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ تو اس کو ماننے سے بالکل انکار کردیتے اور کچھ لوگ شک میں پڑ جاتے کہ ممکن ہے ایسا ہی ہو اور ہمیں دوبارہ زندہ کر دیا جائے۔ 
۲- کفار مکہ اور مشرکین مسلمانوں سے سوال کرتے تھے کہ تمہارے نبی یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟ 
کفار انکار کرتے جبکہ مسلمان اس خبر کی تصدیق کرتے ، اسی سوال و جواب کو الله تعالی بیان فرما کر کفار کی تردید کر رہے ہیں۔ 
۳- سوال کرنے والوں سے کافر اور مسلمان دونوں ہی مراد ہیں ۔ دونوں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے سوال کرتے تھے۔ مسلمان تو اس لیے سوال کرتے کہ ان کا ایمان مضبوط ہو اور کفار انکار کرنے اور مذاق اڑانے کے لیے پوچھتے تھے۔ 
پہلا قول راجح ہے۔ 
اہم بات: واؤ جب خود ساکن ہو اوراس سے پہلے حرف پر پیش ہو تو اسے خوب 
ظاہر کرتے ہیں یعنی لمبا کرکے پڑھتے ہیں ۔ جیسے : لُوون
اور وقف کرتے(یعنی ٹھہرتے یا سانس توڑتے) وقت آخری حرف ساکن کر دیتے ہیں۔
جیسے: یتساءلُونْ۔

حالیہ اشاعتیں

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ۔۔۔۔ الرحمٰن

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْاؕ-لَا تَنْفُذُوْنَ ...

پسندیدہ تحریریں