نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

عم پارہ۔ 30 ، سورة النباء ، آیات ۔ 3,4,5

#عم_یتساءلون
#سورۃ_النبإ
آیة:5,4,3

الَّذِيْ هُمْ فِيْهِ مُخْـتَلِفُوْنَ  3️⃣

اردوترجمہ : جس میں خود ان کی باتیں مختلف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونا اور قیامت کے واقع ہونے میں ہر فرقے کی رائے الگ الگ تھی ۔ اکثر اہل عرب قیامت کے منکر تھے۔ تعجب سے کہتے تھے کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو دوبارہ زندہ ہونا بہت مشکل بات ہے ۔ اسی طرح نصارٰی کا خیال تھا کہ جسم مٹ جائیں گے صرف روحیں لوٹائی جائیں گی ۔ اب بھی اکثر کا یہی عقیدہ ہے ۔ یہود کے بعض فرقے بھی قیامت کے شدید منکر تھے ۔ بعض کہتے تھے مر کر انسان کی روح جنوں یا فرشتوں میں مل جاتی ہے۔ دوبارہ اسی جسم کے ساتھ زندہ ہونا ناممکن ہے اور اسی کا نام قیامت ہے۔ غرض اس معاملے میں سب کی رائے ایک دوسرے سے مختلف تھی۔

كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ. 4️⃣

اردوترجمہ: خبردار ! انہیں بہت جلد پتہ لگ جائے گا۔

ثُمَّ كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ. 5️⃣

اردوترجمہ: دوبارہ خبردار ! انہیں بہت جلد پتہ لگ جائے گا۔

کلا کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ 
1- اگر معنی انکار ہو یعنی “ہرگز نہیں “ تو اس سے مراد یہ ہے کہ کفار کا قیامت کے متعلق بحث و مباحثہ کرنا درست نہیں کیونکہ قیامت بحث کرنے سے سمجھ میں آنے والی چیز نہیں ۔ قیامت کا انکار کرنا بھی درست نہیں کیونکہ عنقریب جب قیامت واقع ہوجائے گی، قیامت کی ہولناکیاں اور واقعات ان کے سامنے آئیں گے اس وقت ان کو اس بڑی خبر کی حقیقت سمجھ آئے گی۔ 
2- اگر معنی “حقا” ہو یعنی “ یقینا “ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کا واقع ہونا حق اور یقینی بات ہے۔ عنقریب کفار اس سچ کو جان لیں گے۔ 

سوال : کلا سیعلمون اور ثم کلا سیعلمون ۔ کو مکرر کیوں ذکر کیا ہے؟ 
جواب:  یہ تکرار تاکید کے لیے ہے اور مضمون کی صداقت کو مضبوط کرنے کے لیے ہے۔ 
1- پہلے کلا سیعلمون کا مقصد ہے کفار جب قبروں سے اٹھیں گے اس کی صداقت جان لیں گے یا جب ان پر موت آئے گی اس وقت جان لیں گے یا  جب ان کو سزا ہوگی تو جھٹلانے کا انجام جان لیں گے اور سزا پائیں گے۔ 
2- دوسرے سیعلمون کا مقصد یہ ہے کہ کفار جب الله کے حضور کھڑے ہوں گے اس وقت اپنا انجام جان لیں گے یا جب دوبارہ قبروں سے اٹھائے جائیں گے اس وقت انجام جان لیں گے یا اس سے مراد مؤمن ہیں کہ وہ اپنی تصدیق اور ایمان کا حال جان لیں گے اور جزا پائیں گے ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...