نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

عم پارہ۔30 ، سورة النباء ۔ آیت:6

#عم_یتساءلون
#سورۃ_النبإ
آیة:6
ربط آیات:6تا16
گذشتہ آیات میں کفار مکہ کے سوال و جواب کا ذکر تھا۔ موت کے بعد زندہ ہونے اور انکارِ قیامت کا بیان تھا۔ انکار کی وجہ یہ تھی کفار مرنے کے بعد زندہ ہونے کو مشکل اور ناممکن سمجھتے تھے گویا کہ الله تعالی کی قدرت کا انکار کرتے تھے۔ اب اگلی آیات میں الله جل شانہ نے اپنی عظیم الشان نشانیوں کا ذکر فرمایا ۔ نو دلائل سے اپنی قدرت کے عجیب و غریب مناظر پیش کیے۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ الله سبحانہ و تعالی کے لیے قطعا مشکل نہیں کہ وہ اس سارے عالم کو فنا کرکے دوبارہ پیدا کر دیں۔ جس الله نے اتنی بڑی زمین بنائی ، اس پر بڑے بڑے پہاڑ رکھ دئیے ، عظیم الشان آسمان بغیر ستون کے کھڑا کر دیا، وہ اس چھوٹے سے انسان کو دوبارہ زندہ کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ لہذا کفار کا اس بات سے انکار کرنا بالکل بے بنیاد ہے۔ اس کے علاوہ الله سبحانہ وتعالی نے اپنے انعامات کا ذکر فرما کر کفار کو توجہ دلائی کہ ان نعمتوں پر اس کا  شکر ادا کرو اور اس کی توحید کا اقرار کرو۔  
الله جل جلالہ کی حکمت و صنعت کے نو مناظر: 

1. اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهٰدًا 6️⃣

اردوترجمہ: کیا ہم نے زمین کو ایک بچھونا نہیں بنایا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
کیا ہم نے زمین کو تمہارے چلنے پھرنے ، بیٹھنے ، لیٹنے کے لیے بستر کی طرح اور بچھونے کی طرح نہیں بنایا۔ جہاں چاہو بیٹھ جاؤ ، لیٹ جاؤ۔ اگر زمین ہوا کی طرح ہلکی ، پانی کی طرح نرم ، آگ کی طرح گرم ہوتی تو تم اس پر کس طرح چل پھر سکتے ۔ یہ الله تعالی کی عظیم نعمت ہے جس میں کافر و مسلمان برابر کے شریک ہیں۔ اس نعمت کا تقاضا ہے کہ تم اس کا شکر ادا کرو اس کی توحید کا اقرار کرو۔ جس ذات نے اتنی بڑی زمین کو بچھونا بنایا کیا اس کے لیے انسان کو دوبارہ زندہ کرنا مشکل ہے؟

اہم بات :حرف  “ح “اور “ھ” کی ادائیگی میں فرق ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت کے دوران اس کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔عربی زبان میں “ح” کی جگہ “ھ” پڑھنا بڑی غلطی ہے؛کیونکہ اس سے معنی بدل جاتا ہے۔
“ح”حلق کے درمیان والے حصے سے ادا ہوتا ہے اور نفیس سی آواز ہے۔ ”ھ” حلق کے آخری حصے یعنی اس کی جڑ سے ادا کرتے ہیں ۔ درد یا تکلیف کی وقت جو “ہائے ” سینے کی گہرائی نکلتی ہے اسے “ھ” کہتے ہیں۔

نوٹ: بغیر نام اور حوالہ پوسٹ کاپی یا شئیر کرنا منع ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...