نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

عم پارہ۔ 30 ،سورة النباء

#عم_یتساءلون 
سورۃ النبإ
آیت نمبر:1

عَمَّ يَتَسَاۗءَلُوْنَ

اردوترجمہ: یہ (کافر) لوگ کس چیز کے بارے میں سوالات کر رہے ہیں ؟
————- ۔ 
سورة کی ابتدا ایک سوال کی شکل میں ہوئی ہے۔  عموماً کسی چیز کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے سوال کیا جاتا ہے۔ الله سبحانہ تعالی سے کائنات کی کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں ۔ چنانچہ قرآن مجید میں کسی چیز کی عظمت ، اہمیت یا ہولناکی کو بیان کرنا ہو تو الله تعالی کی طرف سے سوالیہ اسلوب اختیار کیا جاتا ہے یہاں بھی نبا عظیم یعنی قیامت کی ہولناکی کا بیان مقصود ہے۔ 
جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے کفار و مشرکینِ مکہ کو قیامت کے متعلق آیات سنائیں تو وہ اپنی مخصوص مجلسوں میں بیٹھ کر چہ میگوئیاں اور رائے زنی کرنے لگے۔ ان کے نزدیک قیامت کا آنا اور مر جانے کے بعد زندہ ہونا ، پھر حساب کتاب اور جزا و سزا کا واقع ہونا ناممکن تھا۔ وہ جگہ جگہ چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے ، ملتے جلتے آپس میں بکثرت یہی گفتگو کرتے ، کوئی اسے سچ کہتا اور کوئی اس کا انکار کرتا ، کوئی مذاق کرتا اور کوئی اپنی محدود سوچ کے مطابق اندازے لگاتا؛ چنانچہ اس سورة کی پہلی آیت میں ان کا یہ حال بیان کیا گیا۔
 اگلی آیات میں قیامت واقع ہونے کا دعوٰی عجیب حاکمانہ انداز میں مذکور ہے۔ الله جل جلالہ نے مشاہدات کے ذریعے ان کے شکوک و شبہات کو دور کیا ۔ 

سوال : سوال کرنے والے کون تھے اور کس سے سوال کرتے تھے؟ 
جواب : اس میں تین قول مشہور ہیں ۔
١۔ اس سے مراد کافر و مشرکین ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے حیرت اور تعجب کے ساتھ سوال کرتے، ایک دوسرے سے ملاقات پر اور اپنی مجالس میں اس بات پر تبصرے اور بحث مباحثہ کرتے اور جب ان کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی تو اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ تو اس کو ماننے سے بالکل انکار کردیتے اور کچھ لوگ شک میں پڑ جاتے کہ ممکن ہے ایسا ہی ہو اور ہمیں دوبارہ زندہ کر دیا جائے۔ 
۲- کفار مکہ اور مشرکین مسلمانوں سے سوال کرتے تھے کہ تمہارے نبی یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟ 
کفار انکار کرتے جبکہ مسلمان اس خبر کی تصدیق کرتے ، اسی سوال و جواب کو الله تعالی بیان فرما کر کفار کی تردید کر رہے ہیں۔ 
۳- سوال کرنے والوں سے کافر اور مسلمان دونوں ہی مراد ہیں ۔ دونوں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے سوال کرتے تھے۔ مسلمان تو اس لیے سوال کرتے کہ ان کا ایمان مضبوط ہو اور کفار انکار کرنے اور مذاق اڑانے کے لیے پوچھتے تھے۔ 
پہلا قول راجح ہے۔ 
اہم بات: واؤ جب خود ساکن ہو اوراس سے پہلے حرف پر پیش ہو تو اسے خوب 
ظاہر کرتے ہیں یعنی لمبا کرکے پڑھتے ہیں ۔ جیسے : لُوون
اور وقف کرتے(یعنی ٹھہرتے یا سانس توڑتے) وقت آخری حرف ساکن کر دیتے ہیں۔
جیسے: یتساءلُونْ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...