عم پارہ 30، سورۃ عبس:آیات: 31 تا 42

 عم پارہ 30، سورۃ عبس:آیات: 31 تا 42 

وَّفَاكِهَةً وَّاَبًّا (31)

اور میوے اور چارہ۔

۔۔۔۔۔۔

بعض نے کہا ہے کہ فاکھۃ کا لفظ ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ انگور اور انار کے علاوہ باقی میوہ جات کو فاکھۃ کہا جاتا ہے اور “ابّاً” اس گھاس کے کہتے ہیں جو کٹنے اور جانوروں کے چرنے کے لئے بالکل تیار ہو۔

مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِاَنْعَامِكُمْ (32)

سب کچھ تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے فائدے کی خاطر۔

۔۔۔۔۔

الله سبحانہ و تعالی انسان سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں یہ سب چیزیں تمہارے فائدے کے لیے اور تمہارے جانوروں کے لیے ہیں۔ جانور تمہارے نفع کے لیے بنائے تاکہ تم ان کا دودھ پیو، گوشت کھاؤ اور ان کے چمڑے سے جوتے، لباس  اور استعمال کی چیزیں بناؤ، ان کے بالوں سے عمدہ گرم شالیں تیار کرو۔ یہ سب الله سبحانہ وتعالی کی عظیم الشان قدرت کے نمونے ہیں۔ 

جس ذات نے پہلی بار پانی کی ایک بوند سے ہزاروں چیزوں کو پیدا کیا وہ دوبارہ  پھر زندہ کر سکتا ہے۔ ان سب انعامات کا تقاضا ہے کہ عطا کرنے والے کا شکر ادا کیا جائے اور شکر یہی ہے کہ اسی کو وحدہ لا شریک مانا جائے اور اس کے تمام احکام پر عمل کیا جائے۔ 

ربط آیات: 33 تا 42۔  

الله تعالی کی قدرت کے دلائل بیان کرنے کے بعد اصل مضمون یعنی قیامت کے احوال اور اس کی ہولناکی کا بیان ہے۔ حق کی دعوت قبول کرنے والوں کے لیے خوشخبری اور انعامات کا وعدہ اور نہ ماننے والوں کے لیے شدید عذاب کا ڈراوا  ہے۔ 

فَاِذَا جَاۗءَتِ الصَّاۗخَّةُ (33)

آخر جب وہ کان پھاڑنے والی آواز آ ہی جائے گی۔  (اس وقت اس ناشکری کی حقیقت پتہ چل جائے گی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مطلب یہ ہے کہ ابھی تم ہماری نعمتوں کی ناشکری کر رہے ہو جب کانوں کو بہرا کر دینے والی سخت آواز آئے گی، اس دن تمہیں اپنی ناشکری کا مزہ معلوم ہو جائے گا۔ 

اس سے نفخہ ثانیہ ( دوسری بار صور کا پھونکا جانا) اور قیامت کا شور مراد ہے۔ 

يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْهِ (34)

 یہ اس دن ہوگا جب انسان اپنے بھائی سے بھی بھاگے گا۔

وَاُمِّهٖ وَاَبِيْهِ (35)

اور اپنے ماں باپ سے بھی۔

وَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِيْهِ (36)

اور اپنے بیوی بچوں سے بھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قیامت کے دن کی ہولناکی کا بیان ہے۔ محشرکا دن ایسا سخت اور وحشت ناک ہوگا کہ ہر شخص کو اپنی اپنی پڑی ہوگی۔ نفسا نفسی کا عالم ہوگا، کسی کو دوسرے کی خبر نہ ہوگی۔ بھائی بھائی سے ، بچے اپنے ماں باپ سے اور شوہر اپنی بیوی اور اولاد سے بھاگتا پھرے گا۔ 

سوال: میدانِ حشر میں آدمی اپنے عزیز و اقارب سے کیوں بھاگے گا؟ 

جواب: علماء نے اس کی کئی وجوھات بیان کی ہیں۔ 

۱- ان حقوق کے مطالبے کا ڈر ہوگا  جو دنیا میں ادا نہ کیے تھے۔ جیسے مفلس قرض خواہ سے چھپتا پھرتا ہے۔

۲- مدد مانگنے کے ڈر سے۔ ایسا نہ ہو کہ عزیز رشتہ داروں کو عذابِ خداوندی سے بچانے کے لیے کچھ نیکیاں دینی پڑ جائیں۔ جیسے قحط سالی میں لوگ ایک دوسرے سے ملنا چھوڑ دیتے ہیں یا جیسے امیر لوگ فقیروں اور سوالیوں  سے بھاگتے ہیں۔

۳-عزیزوں کی مصیبتیں دیکھی نہ جائیں گی۔ اس لیے ایک دوسرے سے منہ چھپائیں گے۔

۴-اپنی رسوائی کو چھپانے کے لیے بھاگیں گے۔ 

۵-دنیا میں خدا سے بے خوف اور آخرت سے غافل ہو کر جس طرح یہ سب ایک دوسرے کی خاطر گناہ کرتے اور ایک دوسرے کو گمراہ کرتے رہے ، اس کے برے نتائج سامنے آتے دیکھ کر ان میں سے ہر ایک دوسرے سے بھاگے گا کہ کہیں وہ اپنی گمراہیوں اور گناہ  کی ذمہ داری اس پر نہ ڈالنے لگیں اور اس کے  خلاف مقدمے کے گواہ نہ بن جائیں۔ 


بعض ان سب اسباب کی وجہ سے بھاگیں گے اور بعض ان میں سے کچھ اسباب کی وجہ سے۔

فائدہ:  ان آیات میں ترتیب رشتوں کے تعلق کے اعتبار سے ادنی سے اعلی کی طرف بیان کی گئی ہے۔ 

 لِكُلِّ امْرِۍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَاْنٌ يُّغْنِيْهِ (37)

(کیونکہ) ان میں سے ہر ایک کو اس دن اپنی ایسی فکر پڑی ہوگی کہ اسے دوسروں کا ہوش نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ جملہ پہلے جملوں کی وجہ بیان کر رہا ہے۔ مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن ایسا کیا ہوگا جس کی وجہ سے سب ایک دوسرے سے دور بھاگیں گے۔ وجہ یہی ہے کہ اس دن ہر شخص ایسی حالت میں ہوگا کہ اس کو اپنے علاوہ کسی دوسرے کی خبر نہ ہوگی۔ یہ حساب کتاب سے پہلے کا حال ہے۔ بعد میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی سفارش سے حساب کتاب شروع ہوگا۔ 

احادیث میں مختلف طریقوں اور سندوں سے یہ روایت آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے روز سب لوگ ننگے پاؤں، ننگے جسم، بغیر ختنہ اٹھائے جائیں گے۔ آپ کی ازواج مطہرات میں سے کسی نے ( بروایت بعض حضرت عائشہ نے ، اور برویتِ بعض حضرت سودہ نے اور بروایتِ بعض ایک خاتون نے ) گھبرا کر پوچھا ، یا رسول اللہ ! کیا ہمارے ستر اس روز سب کے سامنے کھلے ہوں گے؟ حضور نے یہی آیت تلاوت فرما کر بتایا کہ اس روز کسی کو کسی کی طرف دیکھنے کا ہوش نہ ہو گا۔

 ( نسائی ، ترمذی ، ابن ابی حاتم ، ابن جریر ، طبرانی ، ابن مردویہ ، بہیقی ، حاکم ) ۔

وُجُوْهٌ يَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌ (38)

 اس روز کتنے چہرے تو چمکتے دمکتے ہوں گے۔

ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ (39)

ہنستے، خوشی مناتے ہوئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

بہت سے چہرے روشن ہوں گے جنت کی خوشخبری سُن کر خوش ہوں گے اور ہنستے ہوں گے۔  چہروں کی یہ روشنی اور خوشی اعمال نامے دائیں ہاتھ میں دیئے جانے کے بعد ہوگی۔ 

وَوُجُوْهٌ يَّوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ (40)

اور کتنے چہرے اس دن ایسے ہوں گے کہ ان پر خاک پڑی ہوگی۔

تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ (41)

 سیاہی نے انہیں ڈھانپ رکھا ہوگا۔

اُولٰۗئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ (42)

 یہ وہی لوگ ہوں گے جو کافر تھے، بدکار تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور بہت سے چہروں پر غبار ہوگا، اپنی بداعمالیوں کو دیکھ کر چہروں پر مایوسی کی سیاہی چھا جائے گی۔ یہ وہ کافر و فاجر لوگ ہوں گے جو دنیا میں اپنے نفس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدوں  پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔

میدان محشر میں لوگ دو گروہوں میں تقسیم  ہوں گے۔ ان کی علامات ان کے چہروں سے نمایاں ہوں گی۔ اللہ کے فرمانبرداروں کے چہرے ہشاش بشاش کھلکھلاتے اور مسکراتے ہوئے ہوں گے، دلوں  میں بھی خوشی بھری ہوگی اور کچھ لوگوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہوں گی، رنگ فق اور چہرے بگڑے ہوئے اور بےرونق ہوں گے اور یہ اللہ کے نافرمان اور بدکردار لوگ ہوں گے۔ 

گویا لوگ گروہوں میں بٹنے کی وجہ سے اپنے چہروں سے  پہچان لیے جائیں گے کہ کون شخص شقی ہے اور کون سعید ہے۔ 

(الله کریم روز محشر میں ہمیں روشن چہرے والا بنائے۔ )

مختصر تفسیر سورہ عبس

سرداران قریش کے مطالبہ پر نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  ان سے علیحدگی میں دعوت اسلام کے موضوع پر گفتگو کر رہے تھے۔ تاکہ ان کے اسلام قبول کر لینے کی صورت میں ان کے ماتحت افراد بھی مشرف بہ اسلام ہو جائیں۔ اتنے میں ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوب کسی قرآنی آیت کے بارے میں معلومات کے لئے حاضر خدمت ہوئے، وہ نابینا ہونے کی بنا پر صورتحال سے ناواقف تھے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو ان کا یہ انداز ناگوار گزرا، جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی کہ ایک نابینا کے آنے پر منہ بسور کر رخ موڑ لیا اور جو بے نیازی کے ساتھ اپنی اصلاح کا خواہاں نہیں اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ جو اللہ کی خشیت سے متأثر ہو کر اپنی اصلاح کی خاطر آپ کے پاس آتا ہے اس سے آپ اعراض کرتے ہیں۔  یہ قرآن کریم نصیحت کا پیغام ہے، کسی بڑے چھوٹے کی تفریق نہیں کرتا۔ اس سے جو بھی نصیحت حاصل کرنا چاہے اس کی جھولی علم و معرفت سے بھردیتا ہے۔ 

غریب علاقوں کو نظرانداز کر کے فائیو اسٹار ہوٹلوں اور پوش علاقوں کے ساتھ تفسیر قرآن کی مجالس کو مخصوص کرنے والوں کی واضح الفاظ میں اس سورت میں مذمت کی گئی ہے۔

 انسان اگر پہلی مرتبہ اپنی تخلیق پر غور کرے تو دوبارہ پیدا ہونے پر اسے تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ ماخلقکم ولا بعثکم الا کنفس واحدۃ۔ تمہارا پیدا ہونا اور مرنے کے بعد زندہ ہونا ایک ہی جیسا ہے۔ زمین، فضاء اور پانی میں منتشر اجزاء کو پھلوں سبزیوں کی شکل دے کر تمہاری خوراک کے ذریعہ تمہارے جسم کا حصہ بنایا۔ مرنے کے بعد تمہارے منتشر اجزاء کو دوبارہ جمع کر کے انسان بنا کر پھر قبروں سے باہر نکال لیا جائے گا۔ پھر قیامت کے دن کی شدت اور دہشت کو بیان کر کے نیک وبد کا ان کے اعمال کے مطابق انجام ذکر فرما کر سورت کو اختتام پذیر کیا ہے۔

عم پارہ 30، سورۃ عبس : آیات: 21 تا 30

عم پارہ 30، سورۃ عبس : آیات: 21 تا 30

 ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗ (21)

پھر اسے موت دی، اور قبر میں پہنچا دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان کی ابتدا اور پیدائش بیان کرنے کے بعد اس کی انتہا یعنی موت اور قبر کا بیان ہے۔ انسان کا اختتام مصیبت نہیں ہے بلکہ  درحقیقت الله سبحانہ وتعالی کا خاص انعام ہے۔ موت میں  بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم  ہے کہ مؤمن کے لیے موت  ایک تحفہ ہے۔

مرنے کے بعد زمین میں دفن کرنا بھی ایک نعمت ہے۔ انسان کو دوسری مخلوق یعنی جانوروں کی طرح نہیں چھوڑ دیا  کہ مر گیا تو وہیں گل سڑ گیا بلکہ انتہائی احترام سے غسل دے کر کفن پہنا کر قبر میں رکھ دیا جاتا ہے۔ 

مسئلہ: اس آیت سے معلوم ہوا کہ مردہ انسان کو دفن کرنا واجب ہے۔

 ثُمَّ اِذَا شَاۗءَ اَنْشَرَهٗ (22)

پھر جب چاہے گا اسے دوبارہ اٹھا کر کھڑا کردے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله سبحانہ وتعالی جب چاہے گا انسان کو دوبارہ زندہ کر دے گا اور اس سے حساب کتاب لے گا ۔ یعنی جس طرح انسان اپنے پہلی بار پیدا ہونے اور مرنے کے معاملہ میں بےبس تھا اسی طرح دوبارہ زندہ کیے جانے کے معاملے میں بھی بے بس ہے، اللہ تعالی جب چاہے گا اسے زندہ کرکے کھڑا کر دے گا۔  اگر انسان اپنی تخلیق کے پورے عمل پرخود ہی غور کرلے تو اس کے پاس موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے سے انکار کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔

كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَآ اَمَرَهٗ (23)

ہرگز نہیں ! جس بات کا اللہ نے اسے حکم دیا تھا، ابھی تک اس نے وہ پوری نہیں کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کا فرمانبردار بن کر رہے۔ یہ حکم اس کی فطرت میں رکھا گیا، پھر پیغمبروں اور کتابوں کے ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی۔ اگر وہ اپنی پیدائش کے حالات پر غور کرتا تو اس کے لیے اللہ کا فرمانبردار بن کر رہنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ مگر اس نے ان تقاضوں کو پورا نہیں کیا۔  نہ تو توحید کا اقرار کیا، نہ رسالت کا اور نہ ہی قیامت کا ۔

بعض مفسرین نے اس آیت کو ایک الگ آیت سمجھنے کی بجائے سابقہ آیت سے منسلک کیا ہے اور اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اللہ جب چاہے گا زندہ کرکے اٹھائے گا ابھی ایسا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس دنیا کی آبادی اور کائنات کی تکمیل سے متعلق اس کا جو طے شدہ حکم ہے وہ ابھی  پورا نہیں ہوا۔

ربط آیات:24 تا 32 

پچھلی آیات میں تخلیقِ انسانی کی ابتدا اور انتہا کا ذکر تھا۔ مقصد الله تعالی کی قدرت کاملہ اور  ان انعامات  کا بیان تھا جن کا تعلق خود انسان کی ذات اور پیدائش و موت  کے ساتھ ہے، ان دلائل کا انکار کرنے والے انسان کو تنبیہ کی گئی کہ نعمتوں کا تقاضا تو یہ تھا کہ انسان ان میں غور کرکے الله پر ایمان لاتا اور اس کے احکام کی تعمیل کرتا لیکن انسان نے ناشکری کرتے ہوئے ایسا نہیں کیا۔ اب الله کے  ان انعامات کا ذکر ہے جو پیدائش اور موت کے درمیانی زمانے میں انسان کو عطا کیے گئے ہیں۔ 

فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖٓ (24)

پھر ذرا انسان اپنے کھانے ہی کو دیکھ لے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان اپنے کھانے پر غور کرے جو لقمہ وہ منہ میں ڈالتا ہے اس کی تیاری میں کون کون سی قوتیں استعمال ہوتی ہیں، جس خوراک کو وہ ایک معمولی چیز سمجھتا ہے ، اس پر ذرا غور کرے کہ یہ آخر پیدا کیسے ہوتی ہے ۔ اگر خدا نے اس کے اسباب فراہم نہ کیے ہوتے تو کیا انسان کے بس میں یہ تھا کہ زمین پر یہ غذا وہ خود پیدا کر لیتا ؟

“النظر” کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کی حقیقت جاننے کے لئے نظر یا خیال  کو متحرک کرنے کے ہیں۔ کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے۔(المفردات)

اَنَّا صَبَبْنَا الْمَاۗءَ صَبًّا (25)

 کہ ہم نے اوپر سے خوب پانی برسایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سے مراد بارش ہے۔ الله سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں سب سے پہلے ہم نے بادلوں کو پانی سے بھرا، پھر اپنی قدرت سے اس پانی کو عجیب طریقے سے زمین ہر برسایا اور محفوظ کیا۔

سورج کی حرارت سے سمندروں سے پانی  کی بہت بڑی مقدار کو بھاپ بن کر اوپر اٹھایا جاتا ہے۔ پھر الله کے حکم سے اس بھاپ سے بھاری بادل بنتے ہیں، ہوائیں ان کو لے کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلاتی ہیں۔ عالم بالا کی ٹھنڈک سے وہ بھاپ دوبارہ پانی کی شکل اختیار کرتی ہے۔ یہ پانی  ہر علاقے میں ایک خاص حساب سے برستا ہے۔  پانی براہ راست بھی زمین پر برستا ہے اور زمین کے نیچے کنوؤں اور چشموں کی شکل بھی اختیار کرتا ہے ، دریاؤں اور ندی نالوں کی شکل میں بھی بہتا ہے ، اور پہاڑوں پر برف کی شکل میں جم کر پھر پگھلتا ہے اور بارش کے موسم کے علاوہ  دوسرے موسموں میں بھی دریاؤں کے اندر بہتا رہتا ہے ۔ کیا یہ سارے انتظامات انسان نے خود کیے ہیں؟ اس کا خالق اس کو رزق دینے کے لیے یہ انتظام نہ کرتا تو کیا انسان زمین پر زندہ رہ  سکتا تھا ؟ بھلا الله تعالی کے سوا کوئی  ہے جو اس بات کی قدرت رکھتا ہے۔ 

 ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا (26)

پھر ہم نے زمین کو عجیب طرح پھاڑا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله تعالی نے زمین کو نرم  بنایا اور اس میں یہ صلاحیت رکھی کہ وہ پانی کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔  انسان صرف یہ کرتا ہے کہ  زمین کو کھودتا ہے یا اس میں ہل چلاتا ہے اور جو بیج الله تعالی نے پیدا کر دیے انہیں زمین میں دبا دیتا ہے۔  اللہ کے حکم  سے اس مردہ اور بےجان بیج میں زندگی  پیدا ہوجاتی ہے اور اس کی نرم و نازک کونپل زمین  پھاڑکرباہر نکل آتی ہے۔  آہستہ آہستہ یہی کونپل ایک مکمل پودا یا تناور درخت بن جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ زمین میں نشو ونما کی استعداد نہ رکھتا یا بیج میں وہ تمام خصوصیات پیدا نہ کرتا،  جو اس کے پودے یا درخت میں تھیں، یا بارش ہی نہ برساتا تو کیا انسان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ ہے جس سے وہ اپنی خوراک حاصل کرسکتا ؟

فَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا حَبًّا (27)

پھر ہم نے اس میں غلے اگائے۔

وَّعِنَبًا وَّقَضْبًا (28)

 اور انگور اور ترکاریاں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنا دار ہو جیسے درخت  یا بغیر تنے کے جیسے جڑی بوٹیاں۔ عام طور پر نبات اسے کہتے ہیں جس کا تنا نہ ہو اور جانوروں کے چارے کے لیے ہو؛  لیکن یہ اپنے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر بڑھنے والی چیز یعنی نباتات، حیوانات اور انسان سب کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ (المفردات)

حبہ:  سے مراد  گندم، جو، خوشبو دار پودوں اور پھولوں کے بیج وغیرہ جو دانوں یا دالوں  کی شکل میں ہوتے ہیں۔ 

عنب: انگور کو کہتے ہیں جس کی جمع اعناب ہے، جو غذائیت سے بھرپور بھی ہے اور مزے داربھی۔    قضب:  کھانے کے لیے مختلف سبزیاں جو پکا کر اور بغیر پکائے کاٹ کر کھائی جاتی ہیں۔ جیسے مولی، گاجر، شلجم پیاز، کھیرا وغیرہ ۔ قضب تازہ گھاس، سبزی، تر کاری اور در خت کی ترو تازہ شاخوں کو بھی کہتے ہیں اور انہیں کاٹنے کے لیے بھی لفظ قضب استعمال کیا جاتا ہے۔ 

وَّزَيْتُوْنًا وَّنَخْلًا (29)

اور زیتون اور کھجور۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله سبحانہ وتعالی نے زیتون جیسی زبردست چیز کو پیدا کیا، جوکچا پکا  کھایا جاتا ہے، اس کا تیل بھی انتہائی مفید ہے جو کھانے اور مالش کے کام آتا ہے نیز اس کی لکڑی بھی کارآمد ہے۔ 

نخلاً: کھجور بھی  زبردست چیز ہے، جو غذائیت سے بھر پور ہے۔ اس  کو تازہ یا خشک کرکے سارا سال کھایا جاتا ہے اور اس سے سرکہ اور مختلف شربت بنائے جاتے ہیں۔ 

وَّحَدَاۗئِقَ غُلْبًا (30)

اور گھنے گھنے باغات۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھنے اور گنجان باغات بنائے جن میں مختلف اقسام کی لکڑی، پھل ، پھول، جڑی بوٹیاں ہوتی ہیں اور ان  کا گھنا سایہ عمدہ ہوتا ہے۔ مختلف ذائقوں والے انتہائی  لذیذ پھل ہوتے ہیں مثلا سیب، انار، خوبانی، بادام  وغیرہ اس کے علاوہ دیگر میوہ جات اخروٹ، جنگلی پیلو اور مختلف اقسام کی بیریاں وغیرہ اور جانوروں کے کھانے کے لیے گھاس اور چارا پیدا فرمایا۔ 


عم پارہ 30، سورۃ عبس: آیات: 10 تا 20

 عم پارہ 30، سورۃ عبس: آیات: 10 تا 20 


كَلَّآ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ (11)

ہرگز ایسا نہیں چاہیے۔ یہ قرآن تو ایک نصیحت ہے۔

فَمَنْ شَاۗءَ ذَكَرَهٗ (12)

اب جو چاہے، اس سے نصیحت قبول کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آیت مبارکہ میں الله سبحانہ وتعالی نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو منع فرما رہے ہیں کہ آپ آئندہ کبھی ایسا نہ کیجیے۔ اپنے ساتھیوں سے بے رُخی نہ برتیے، مخلص مؤمنوں  کو چھوڑ کر منافقوں  اور مشرکوں  کی طرف متوجہ نہ ہوں بلکہ مؤمنوں کو ترجیح دیں۔  قرآن مجید ایک نصیحت ہے اور آپ کے ذمہ صرف اس کی تبلیغ ہے۔ آپ کا کام پہنچا دینا ہے اب جس کا دل چاہے وہ قبول کرے جس کا دل چاہے نہ قبول کرے۔ اگر کوئی قبول نہیں کرے گا تو آپ پرگرفت نہیں، آپ اس سلسلے میں ،مشقت و تکلیف میں نہ پڑیں۔ 

ذَکَرَہ، کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے اور یہ بھی کہ جو شخص چاہے قرآن کی نصیحت کی باتوں کا بار بار تذکرہ کرتا رہے اور یہ بھی کہ قرآن کو زبانی یاد کرلے۔ غرض قرآن کو پڑھنا، اس کی نصیحت پر عمل کرنا اور اسے زبانی یاد کرنا سب بڑے اجر وثواب کے کام ہیں۔

فِيْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ (13)

وہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو بڑے مقدس ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان آیات میں قرآن مجید کی صفات ، شان اور عظمت کا بیان ہے۔  قرآن مجید ایسے صحیفوں میں محفوظ ہے جو مکرم یعنی مقبول اور پسندیدہ ہیں، یا اس سے قرآن مجید کے وہ اوراق مراد ہیں جن میں سے فرشتوں نے لوح محفوظ سے نقل کر کے لکھا، وہ بھی جن میں کاتبینِ وحی  صحابہ کرام رضوان الله علیھم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن کر لکھا اور وہ بھی جن میں ان سے نقل کر کے لکھا گیا اور قیامت تک لکھا جائے گا۔ 

مَّرْفُوْعَةٍ مُّطَهَّرَةٍۢ (14)

اونچے رتبے والے ہیں، پاکیزہ ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرفوعہ سے مراد ان صحیفوں کا الله کے نزدیک عالی شان ہونا اور بلند مرتبہ ہونا ہے یا یہ کہ وہ لوح محفوظ پر ہیں جو انتہائی بلند مقام یعنی الله کے عرش کے نیچے ہے۔ مطہرہ سے مراد یہ ہے کہ  صاف ستھرے صحیفوں میں درج ہے اور زمین پر مخلص اور ایمان والے  اس کے اوراق کو نہایت عزت و احترام  کے ساتھ اونچی جگہ پر رکھتے ہیں۔

فائدہ: قرآن مجید کی اسی عظمت اور پاکیزگی کی وجہ سے جنبی، حیض و نفاس والی عورت اور بے وضو شخص کا اسے  چھونا جائز نہیں۔

بِاَيْدِيْ سَفَرَةٍ (15)

ان لکھنے والوں کے ہاتھ میں رہتے ہیں۔

كِرَامٍۢ بَرَرَةٍ (16)

جو خود بڑی عزت والے، بہت نیک ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ صحیفے یعنی قرآن مجید ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں جو نیک اور عزت والے یعنی مکرم ہیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید لکھنے والوں کی تعریف بیان کی ہے، خواہ وہ فرشتے ہوں یا کاتبین وحی، صحابہ کرام ہوں یا دوسرے، فرمایا یہ لوگ اللہ کے ہاں بہت عزت والے اور نہایت نیک ہیں۔ 

اگر سفرة (سفارت) بمعنی سفیر یعنی قاصد ہو تو پھر اس میں علماء کرام بھی شامل ہیں۔ کیونکہ علماء نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور امت کے درمیان قاصد اور سفیر ہیں اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات امت تک پہنچانے پر مامور ہیں۔ 

قرآن مجید کی یہ تمام صفات اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ الله تعالی کی نازل کردہ کتاب  ہے۔ 

قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَكْفَرَهٗ (17)

خدا کی مار ہو ایسے انسان پر، وہ کتنا ناشکرا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

پچھلی آیت میں قرآن مجید کی عظمت و شان کا اظہار کیا گیا۔ کیونکہ کافر الله کی کتاب قرآن مجید کا انکار کرتے ہیں اس لیے اس آیت میں ان پر لعنت کی گئی ہے اگرچہ  مخاطب انسان کو کیا گیا ہے لیکن اس سے  مراد منکرِ قرآن ہی ہیں۔ 

مِنْ اَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ (18)

(وہ ذرا سوچے کہ) اللہ نے اسے کس چیز سے پیدا کیا ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انکار کی وجہ عموما انسان کا غرور اور تکبر ہے۔ الله سبحانہ وتعالی انسان کو اس کی اصل بتا کر اس کی حقیقت جتا رہے ہیں کہ انسان دیکھے الله نے اسے کس قدر حقیرشے سے پیدا کیا۔

مِنْ نُّطْفَةٍ ۭ خَلَقَهٗ فَقَدَّرَهٗ (19)

نطفے کی ایک بوند سے، اسے پیدا بھی کیا، پھر اس کو ایک خاص انداز بھی دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله جل جلالہ ہی انسان کا خالق ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ انسان کو کس چیز سے پیدا کیا ہے اس لیے انسان کو اس کی اوقات جتاتے ہوئے بتایا  کہ تجھے پانی کے ایک  قطرے سے بنایا،  پھر مختلف حالتوں سے گزارنے کے بعد انسان  کی تخلیق خاص اندازے اور بڑی حکمت سے  کی۔ جسامت ، اعضا، قد و قامت، شکل و صورت ، جوڑ و بند ، آنکھ ، ناک ، کان ایک خاص اندازے سے پیدا کیے، ذرا اس کے خلاف ہو جائے تو انسان کی صورت بگڑ جائے۔ 

“قدّرہ” کی ایک تفسیر یہ بھی بیان کی گئی الله تعالی نے انسان کو پیدا کیا اور اس کا اندازہ مقرر کیا کہ کتنی عمر ہوگی، مال کتنا ہوگا۔ رزق کتنا ملے گا اور کیا کیا عمل کرے گا۔ سعید ہوگا یا شقی۔ 

 ثُمَّ السَّبِيْلَ يَسَّرَهٗ (20)

 پھر اس کے لیے راستہ بھی آسان بنادیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آیت سے کئی صورتیں مراد ہیں۔ 

۱- یہ کہ الله تعالی نے خاص انداز سے انسان کی تخلیق کی۔ اپنی حکمت سے اسے ماں کے پیٹ میں تین اندھیروں کے اندر اس طرح محفوظ رکھا کہ جس کے پیٹ میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے اس کو بھی تفصیل سے اس کا علم نہیں۔ جہاں اس کی تخلیق ہوئی اور جہاں وہ بن کر تیار ہوا وہاں سے دنیا میں آنے کا راستہ باوجود تنگ ہونے کے الله تعالی نے اپنی رحمتِ کاملہ سے ایسا آسان کر دیا کہ دو تین کلو وزنی جسم صحیح سالم برآمد ہوتا ہے۔ عام طور پر ماں کو خاص نقصان نہیں پہنچتا۔ 

فتبارک الله احسن الخالقین۔ 

۲- یہ  کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو  ایسی  قوت اور صلاحیت دی  کہ وہ دنیا میں موجود وسائل و اسباب سے کام لے کر اپنی زندگی آسانی سے گزار سکے۔

 ۳- یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے خیر و شر کے دونوں راستے سمجھا دیے۔ اس کی فطرت میں ان کی تمیز رکھ دی۔ پھر انبیاء علیھم السلام  اور کتابوں کے ذریعے بھی سب کچھ سمجھا دیا، اور اسے اختیار دے دیا کہ جو راہ وہ چاہے اختیار کرلے۔ پھر جو راہ بھی اختیار کرے اللہ تعالیٰ اسی راستے کو اس کے لئے آسان بنا دیتا ہے۔


عم پارہ 30, سورۃ عبس : آیات 1 تا 10

 عم پارہ 30, سورۃ عبس : آیات 1 تا 10


عَبَسَ وَتَوَلّىٰٓ (1)

(پیغمبر نے) منہ بنایا، اور رخ پھیرلیا۔



 اَنْ جَاۗءَهُ الْاَعْمٰى(2)

 اس لیئے کہ ان کے پاس وہ نابینا آگیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ آپ نے ناگواری محسوس کی اور ایک نابینا  جو سیکھنے کی خواہش لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے اس سے رُخ پھیر لیا۔ 

نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی اس ناگواری اور رُخ موڑنے کی کچھ وجوھات بیان کی گئی ہیں۔ 

۱- آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے سوچا ام ابن مکتوم اسلام قبول کر چکے ہیں۔ جس وقت چاہیں میرے پاس آ سکتے ہیں اگر ان کے سوال کا فورا جواب نہ  دیا جائے تو کوئی نقصان نہیں ہوگا لیکن اگر کافروں کی طرف توجہ نہ دی گئی تو وہ اُٹھ کر چلے جائیں گے اور ایمان سے محروم رہ جائیں گے۔ 

۲-آپ صلی الله علیہ وسلم نے خیال فرمایا کہ کفر و شرک بظاہر بڑے گناہ ہیں اسے زیادہ توجہ دینی چاہیے بنسبت ایک دینی مسئلے کے، جو عبد الله ابن ام مکتوم پوچھنا چاہتے تھے۔

۳-عبد الله ابن ام مکتوم کا بار بار سوال کرنا آدابِ مجلس کے خلاف تھا۔ آپ نے ادب سکھانے کے لیے اعراض کیا۔

لیکن الله تعالی کو نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی یہ بات پسند نہ آئی اس لیے الله نے آپ کو تنبیہ فرمائی۔ 

اس تنبیہ کی بھی کچھ وجوھات بیان کی گئی ہیں۔

  1. نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کفر و شرک کے خاتمے کی کوشش کر رہے تھے جو کہ بہت اہم تھا لیکن کافر سرداروں میں ہدایت کی سچی طلب نہیں تھی جب کہ نابینا صحابی ہدایت کے سچے طلب گار  تھے ۔
  2. عبد الله بن ام مکتوم کو جواب دینے میں  یقینی فائدہ تھا وہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی بات سن کر اس پر ضرور عمل کرتے۔ جب کہ کفار سے بات چیت کا فائدہ غیر یقینی تھا،  شاید وہ آپ کی گفتگو سن کر ایمان لے آتے  یا شاید وہ ایمان نہ لاتے۔ 


وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّهٗ يَزَّكّىٰٓ (3)

اور (اے پیغمبر) تمہیں کیا خبر ؟ شاید وہ سدھر جاتا۔

 اَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرٰى (4)

یا وہ نصیحت قبول کرتا، اور نصیحت کرنا اسے فائدہ پہنچاتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نہیں جانتے کہ یہ صحابی جو بات پوچھ رہے ہیں اگر آپ انہیں سکھا دیتے یا بتا دیتے تو اس کا ضرور فائدہ ہوتا۔ آپ سے سیکھ کر وہ اپنے نفس کا تزکیہ کر لیتے اور نفس کو ظاہری و باطنی گندگی سے پاک کرکے اس کی صفائی کر لیتے۔ نفس کے تزکیہ سے ان کا ایمان مضبوط ہوتا یا وہ ایمان میں کمال حاصل کر لیتے اور اگر کمال حاصل نہ بھی ہوتا تو کچھ نہ کچھ نصیحت تو ضرور حاصل کر لیتے۔  یعنی نابینا صحابی کے سوال کا جواب دینے کی صورت میں ہر لحاظ سے یقینی فائدہ تھا۔ 

سوال : 

یزّکّٰی  اور یذَّکَّرُ  میں کیا فرق ہے؟ 

جواب:

 یزّکّی کا معنی پاک صاف ہو جانا ہے۔ یعنی نفس کو ظاہری اور باطنی ہر طرح کی گندگی سے پاک کر لینا اور یہ متقین کا مقام ہے۔ ” یزکی “ میں مبالغہ ہے۔

یذّکّر:  کا معنی نصیحت حاصل کرنا اور نصیحت کا اثر قبول کرنا ہے۔ یہ ھدایت کے راستے پر چلنے کا ابتدائی حال ہے۔ یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد مبتدی کوالله کی یاد دلائی جاتی ہے اور نصیحت کی جاتی ہے جس سے دل میں الله کا خوف اور محبت جگہ بناتی ہے اور دین پر عمل کرنے کی خواہش بڑھتی ہے۔ 

یُدریک:   سے خاص طور پر نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کیا گیا ہے۔ یہ آپ کی دلجوئی اور عزت و تکریم ہے، اگر مسلسل غائب کا صیغہ استعمال کیا جاتا تو یوں محسوس ہوتا کہ آپ کے طرزعمل کی ناپسندیدگی کی وجہ سے آپ کو مخاطب نہیں کیا جا رہا اور یہ بات نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے لیے صدمے کی وجہ بن جاتی ۔ پہلے غائب صیغہ اور پھرحاضر صیغہ لانا، دونوں میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا اکرام ہے۔

تبلیغ و تعلیم  کے لیے ایک اہم قرآنی اصول: 

اس موقع پر نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دو کام آ گئے تھے۔

  1. مسلمان کو تعلیم، تعلیم کی تکمیل اور دل جوئی
  2. غیر مسلم کی ھدایت کے لیے ان کی طرف توجہ

الله تعالی کے حکم  سے یہ واضح ہو گیا کہ پہلا کام اہم  ہے اور دوسرے کام کی وجہ سے پہلے میں تاخیر یا کمی کوتاہی کرنا درست نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ  مسلمانوں کی تعلیم و اصلاح کی فکر کرنا غیر مسلم کو اسلام میں داخل کرنے کی فکر سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ 

فائدہ : اس آیت میں علماء کے لیے ایک اہم ہدایت ہے۔ غیر مسلموں کو اسلام کی طرف متوجہ کرنے اور ان کے شبہات دور کرنے کے لیے ایسے کام کرنا جن سے مسلمانوں میں شبہات یا شکایات پیدا ہوں درست نہیں۔  اصلاح علم اور حفاظتِ علم کو ترجیح دینی چاہیے اور اس کام کو پہلے کرنا چاہیے۔ 

اگلی آیات میں الله تعالی نے اس بات کو پوری وضاحت سے بیان کیا ہے۔


بے وفا سمجھیں تمہیں اہلِ حرم اس سے بچو!

دیر والے کج ادا کہہ دیں یہ بدنامی بھلی 

(اکبر)


اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰى(5)

وہ شخص جو بے پروائی دکھا رہا تھا۔

فَاَنْتَ لَهٗ تَصَدّٰى (6)

اس کے تو تم پیچھے پڑتے ہو۔

وَمَا عَلَيْكَ اَلَّا يَزَّكّٰى (7)

حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر کوئی ذمہ داری نہیں آتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی آپ یقینی فائدے کو چھوڑ کر امکان کے پیچھے جا رہے ہیں اور ایسے شخص کی ھدایت کی کوشش کر رہے ہیں جو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے دین کا طالب نہیں ہے۔ وہ آپ اور آپ کے دین سے بے رُخی اور بے نیازی اختیار کر رہا ہے، اگر اسلام قبول نہیں کرتا اور اپنا تزکیہ نہیں کرتا تو آپ مکلف نہیں؛ کیونکہ آپ نے تبلیغ کر کے اپنا فرض  پورا کر دیا ہے۔ 

 وَاَمَّا مَنْ جَاۗءَكَ يَسْعٰى(8)

اور وہ جو محنت کر کے تمہارے پاس آیا ہے۔

 وَهُوَ يَخْشٰى (9)

 اور وہ دل میں اللہ کا خوف رکھتا ہے۔

فَاَنْتَ عَنْهُ تَلَهّٰى (10)

اس کی طرف سے تم بےپروائی برتتے ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے شوق سے دوڑتا ہوا آیا ہے۔ یعنی اندھا ہونے کے باوجود کوشش کرکے محض اسلام کی باتیں سمجھنے کے لیے آپ تک پہنچا اور اس کے دل میں الله کا ڈر اور محبت بھی ہے آپ اس کی طرف توجہ نہیں فرماتے، حالاں کہ یہی شخص توجہ کے قابل ہے۔ 

خشی، الخشیۃ  ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے۔

ان آیات میں واضح طور پرنبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو یہ ہدایت دی گئی کہ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کرکے ان کو پکا مسلمان اور قوی مؤمن بنانا، غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے اور اسلام میں داخل کرنے کی فکر سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ 

والله اعلم

یہ بھی معلوم ہوا کہ دعوت و تبلیغ میں کسی کو خاص نہیں کرنا چاہیے بلکہ صاحب حیثیت اور بےحیثیت، امیر اور غریب، آقا اور غلام مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے سب کو یکساں حیثیت دی جائے اور سب کو مشترکہ خطاب کیا جائے۔ یعنی تعداد سے زیادہ معیار کی اہمیت ہے اور معیار پر سمجھوتا ممکن نہیں۔ 


عم پارہ 30, سورۃ عبس

عم پارہ 30,  سورۃ عبس 


 اسماء سورة

چھیالیس آیات پر مشتمل اس سورة کا مشہور نام عبس ہے۔ اس کے علاوہ اسے  سورة الصاخہ اور سورة السفرہ بھی کہتے ہیں۔ 

روابط

  1. سورة النازعات میں قیامت کے واقع ہونے کا بیان  ہے اب سورة عبس کے آخر میں  بھی قیامت  کا ذکر ہے۔
  2. سورة النازعات کے آخر میں بتایا گیا کہ  آپ کا یہ کام نہیں کہ آپ منکروں  کو قیامت کا وقت بتائیں؛ بلکہ آپ قیامت کی سختی  سے ڈرنے والوں کو، ڈرانے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔  سورة عبس کے شروع میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم   کو آپ کی اسی ذمہ داری کی طرف پوری طرح متوجہ کیا گیا ہے۔ 
  3. سورة النازعات میں فرعون جیسے بادشاہ کی سرکشی اور بے زاری  کا ذکر  ہے اب سورة عبس میں ھدایت کے طلب گارایک نابینا صحابی کے شوق کا بیان ہے۔ 
  4. وہاں الله تعالی کے انعاماتِ  کا ذکر ہے۔ اس سورة میں بھی نعمتوں کا بیان  ہے۔ 
  5. پچھلی سورۃ میں زمین و آسمان کی تخلیق کا بیان  ہے۔ اس سورة میں تخلیقِ انسانی کا ذکر ہے۔ 

لفظی روابط: 

اسی طرح دونوں سورتوں میں لفظی ربط بھی موجود ہے۔ 

  1. دونوں سورتوں میں تزکیہ  لفظ آیا ہے۔
  2. دونوں سورتوں میں خشیت لفظ موجود ہے۔
  3. دونوں سورتوں میں قیامت کو ایک ایک نام دیا گیا ہے۔ الطامة الکبری (النازعات)  اور الصاخہ (عبس)

شانِ نزول 

ایک مرتبہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  قریش کے کچھ سرداروں کو  اسلام کی دعوت دے رہے تھے۔ بعض روایات میں ان کے نام عتبہ، شیبہ، ابو جہل، امیہ بن خلف اور ابی بن خلف ملتے ہیں۔ اسی  دوران عبداللہ بن ام مکتوم آپ کے پاس تشریف لائے جو سیدہ خدیجہ رضی الله عنھا  کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور ابتداء میں اسلام قبول کرنے والوں سے تھے۔  نابینا تھے اس لیے انہیں پتا نہیں چلا کہ وہاں قریش کے سرکردہ لوگ موجود ہیں۔  انہوں نے آتے ہی زور زور سے آوازیں دینی شروع کر دیں۔ یا رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم! مجھے پڑھائیے اور اس علم میں سے مجھے بھی سکھائیے  جو آپ کو الله نے سکھایا ہے۔  آپ نے ان  کی طرف  توجہ نہ دی، وجہ یہ تھی کہ آپ عبداللہ ابن مکتوم کی طرف سے مطمئن تھے کہ وہ اسلام قبول کر چکے ہیں انہیں بعد میں بتایا جا سکتا ہے، اگر ان سرداروں میں سے کسی نے اسلام قبول کر لیا  تو  اسلام کوقوت مل جائے گی۔ اس پر وحی نازل ہوئی جس میں آپ کو تنبیہ کی گئی۔ 

اس تنبیہ  میں  تبلیغ کا ایک اہم  اصول واضح  کیا گیا یعنی دعوت کے لیے توجہ کا اصل مستحق وہ ہے جو  ہدایت کی چاہت اور خواہش رکھتا ہو۔ 

 اس واقعہ کے بعد نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم عبداللہ ابن ام مکتوم رضی الله عنہ کا بڑا اکرام فرماتے تھے۔  مدنی دور میں کئی بار آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے باہر جانے کی صورت میں  ان کو  اپنا نائب مقرر کیا۔ عبد الله ابن ام مکتوم رضی الله عنہ نابینا ہونے کے باوجود جہاد میں بھی حصہ لیا کرتے تھے اور بعض روایات کے مطابق حضرت عمر رضی الله عنہ کے دور میں جنگ قادسیہ میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔


ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی الله عنھا

ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی الله عنھا 


نسب شریف 

سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنتِ خویلد بن اسدبن عبدالعزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی۔ آپ کا نسب حضور پر نور شافعِ یوم النشور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے نسب شریف سے قصی میں مل جاتا ہے۔ 
سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کنیت ام ہند ہے۔ آپ کی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن العصم قبیلہ بنی عامر بن لوی سے تھیں۔

(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی، ج۲،ص۴۶۴)
اللہ تعالیٰ کا سلام

صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ 
بارگاہِ رسالت میں جبرائیل علیہ السلام نے حاضرہوکرعرض کیا:
 اے اللہ عزوجل کے رسول! صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم آپ کے پاس حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دستر خوان لارہی ہیں جس میں کھانا پانی ہے جب وہ لائیں ان سے ان کے رب کا سلام فرمانا۔

 (صحیح مسلم )

افضل ترین جنتی عورتیں


مسند امام احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: 
جنتی عورتوں میں سب سے افضل سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا 
،سیدہ فاطمہ بنت محمدرضی اللہ تعالیٰ عنہاو صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم 
حضرت مریم بنت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہا 
اور آسیہ بنت مزاحم رضی اللہ تعالیٰ عنہا امراه فرعون ہیں۔

(المسندللامام احمدبن حنبل،مسند عبداللہ بن عباس،الحدیث۲۹۰۳،ج۱،ص ۶۷۸)

سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح


سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مالدار ہونے کے علاوہ فراخ دل اور قریش کی عورتوں میں اشرف وانسب تھیں۔ بکثرت قریشی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے نکاح کے خواہشمند تھے لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے کسی کے پیغام کو قبول نہ فرمایا 
بلکہ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے رسول الله  صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی بارگاہ میں نکاح کا پیغام بھیجا اور اپنے چچا عمرو بن اسد کو بلایا۔ 
سردار دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم بھی اپنے چچا ابوطالب، حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر رؤساء کے ساتھ سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان پر تشریف لائے۔ جناب ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا۔ ایک روایت کے مطابق سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ سونا تھا۔

(مدارج النبوت،قسم دوم،باب دوم درکفالت عبدالمطلب ...الخ،ج۲،ص۲۷)

بوقتِ نکاح سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر چالیس برس اور آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی عمر شریف پچیس برس کی تھی۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد،تسمیۃ النساء...الخ،ذکرخدیجہ بنت خولید،ج۸،ص ۱۳)

جب تک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاحیات رہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی موجودگی میں پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے کسی عورت سے نکاح نہ فرمایا۔

(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنھا،الحدیث ۲۴۳۵،ص۱۳۲۴)


اولادِ کرام


حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی تمام اولاد سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے ہوئی ۔
سوائے حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جو سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پیدا ہوئے۔
 فرزندوں میں حضرت قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسمائے گرامی مروی ہیں جب کہ دختران میں سیدہ زینب، سیدہ رقیہ ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہن ہیں۔

(السیرۃالنبویۃلابن ہشام،حدیث تزویج رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم خدیجۃ، اولادہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم من خدیجۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا،ص۷۷۔اسدالغابۃ،کتاب النساء،خدیجۃ بنت خولید،ج۷،ص۹۱)

وصال


آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تقریباً پچیس سال حضور پرنور شافع یو م النشور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی شریک حیات رہیں۔
 آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا وصال بعثت کے دسویں سال ماہ ِ رمضان میں ہوا۔ اور مقبرہ حجون میں مدفون ہیں۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی قبر میں داخل ہوئے اور دعائے خیر فرمائی ۔ نماز جنازہ اس وقت تک مشروع نہ ہوئی تھی۔ اس سانحہ پر رحمت عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم بہت زیادہ ملول و محزون ہوئے۔

(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۶۵)
ذکر خير
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اکثر ذکر فرماتے رہتے تھے۔ بعض اوقات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم بکری ذبح فرماتے اور پھر اس کے گوشت کے ٹکڑے کرکے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سہیلیوں کے گھر بھیجتے صرف اس لئے کہ یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سہیلیاں تھیں۔

(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہا،الحدیث ۲۴۳۵،ص۱۳۲۳)

لطائف قرآن

عجیب واقعہ 

۶۴۰ء کا واقعہ ہے۔ بازنطینی بادشاہ ہرقل (Haraclius) نے خلیفہ راشد دوم، حضرت عمر فاروقؓ کوایک خط روانہ کیا۔ اس میں لکھا ’’میرے سر میں اکثر درد رہتا ہے۔ براہ کرم کوئی علاج بتائیے؟‘‘

حضرت عمر فاروقؓ نے اسے ایک ٹوپی بھیجی اور ہدایت لکھی کہ اسے ہر وقت سر پر پہنے رکھو۔ ان شاء اللہ سر درد جاتا رہے گا۔ چناںچہ قیصر روم (ہرقل) وہ ٹوپی سر پر پہننے لگا۔ کبھی اتارتا تو درد پھر شروع ہو جاتا اور پہننے کے بعد درد غائب! چند بار یہ ماجرا پیش آیا، تو قیصر روم کا تجسس اتنا بڑھا کہ آخر اس نے ٹوپی کو چیر دیا۔ اندر سے ایک رقعہ نکلا۔ دیکھا تو اس پہ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ لکھا ہوا تھا۔

یہ کلمہ اسے ایک درباری کی زبانی معلوم ہوا جو عربی جانتا تھا۔ یہ بات بادشاہ قیصر روم کے دل میں گھر کر گئی۔ کہنے لگا ’’دین اسلام کس قدر مکمل اور مسلمانوں کی کتاب کتنی معزز ہے کہ محض ایک آیت بھی باعثِ شفا ہے۔ پھر پورا دین باعثِ نجات کیوں کر نہ ہو گا؟ مورخین لکھتے ہیں کہ اسی بات سے متاثر ہو کر اس نے اسلام قبول کر لیا تھا، مگر اقتدار کی تمنا بعدازاں اس پر غالب آ گئی۔ (لطائف قرآن)

تلاوت کلام پاک کا جہاں اتنا بڑا اجر ہے، وہیں اس کی ایک ایک آیت، آیت شفا ہے۔ بسم اللہ پڑھنے کا ثواب اور فوائد ان گنت ہیں۔ حضرت عمرؓ کا درج بالا واقعہ آپ نے ملاحظہ فرمایا۔ یہ دردسر دور کرنے کا مقدس نسخہ ہے۔ مسلمانوں پہ جہاں اللہ نے ہزاروں مہربانیاں فرمائی ہیں، وہیں حضور پاکﷺ کی اُمت پر قرآن حکیم جیسی انمٹ کتاب اتار کر قیامت تک انھیں دنیا میں سرخرو فرما دیا۔ قرآن حکیم کا ایک ایک حرف نہ صرف باعث ثواب و بابرکت ہے بلکہ اس کی تلاوت بھی سکونِ دل کا باعث بنتی ہے۔

 علما نے فرمایا ہے: ’’اے مسلمانو! قرآن حکیم پر تمھارا یہ حق ہے کہ سال میں کم از کم دو دفعہ پڑھ کر ختم کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کی تلاوت پر بھی آسانیاں بخش دی ہیں اور حکم ہے کہ ’’اسے جتنا آسانی سے روز پڑھ سکتے ہو، پڑھو۔‘‘

سبحان اللہ، کوئی زور اور کوئی سختی نہیں! قیامت کے دن مسلمانوں کے لیے قرآن حکیم کا پڑھنا بخشش کا باعث بنے گا۔ جنت میں جانے کا اس سے آسان نسخہ کیا ہو سکتا ہے؟ تب تلاوت قرآنی مسلمانوں کے گناہوں کے آگے ڈھال بن جائے گی۔ کاش ہم یہ بات ذہن نشین کر لیں۔ بزرگان میں سے کئی نے روایت کیا ہے کہ بے شمار لوگ جب ویران جگہوں پر تلاوت قرآن پاک فرماتے، تو نہ صرف مسلمان بلکہ چرند پرند بھی ہمہ تن گوش ہو جایا کرتے۔

قرآن حکیم کی سورتیں اور آیات خاص طریقہ پر پڑھنے سے مسئلے حل ہوتے ہیں۔ سورۂ یٰسین کی اپنی افادیت ہے۔ سورۂ واقعہ کا اپنا اثر ہے۔ سورۂ رحمن بھی شفا یابی کے مختلف مرحلوں میں پڑھی جاتی ہے۔ کسی نے ایک صحابیؓ سے پوچھا کہ آپ کا آخری وقت ہے، آپ پیچھے گزارے کے لیے گھر میں کچھ جمع کر کے چھوڑے جا رہے ہیں؟
انھوں نے فرمایا ’’بھئی حضور پاکﷺ کا فرمان ہے کہ ہر روز سورۂ واقعہ پڑھ لیا کرو کبھی تنگی رزق نہ ہو گی۔ میرے گھر والے سورۂ واقعہ پر ایمان رکھتے ہیں اور وہی پروردگار دینے والا ہے۔ میری کیا مجال کہ اولاد کو کھلا سکوں یا ان کے لیے وفات تک کا رزق جمع کرکے چھوڑ جائوں؟‘‘ سبحان اللہ
قرآن پاک کی تعلیمات آشکار کرتی ہیں کہ اسلام نہ صرف مکمل دین ہے بلکہ یہ زندگی کے ہر پہلو اور معاشرتی مسائل کا احاطہ کر کے سیدھے راستے پر چلنے کی دعوت دیتا ہے۔ ہماری زندگی کا ہر شعبہ اپنی صحیح نشوونما اور کمال و ارتقا میں سنت نبویہؐ کے آب حیات کا محتاج ہے اور حضورﷺ کی حیات طیبہ کا محور بھی یہی قرآن حکیم رہا۔ اسی لیے ہم جب اپنے شب و روز اور زندگی کے اعمال کو سیرت کے مرکز حیات سے وابستہ کر دیں جو لامحالہ قرآن حکیم کی تربیت ہے، تو ہماری زندگی میں محبوبیت و رضا خداوندی کی لہریں دوڑنے لگی ہیں۔
باطنی آداب یہ ہیں… کلام پاک کی عظمت دل میں رکھیے کہ کیسا عالی مرتبہ کلام ہے۔ اللہ حق سبحانہ و تقدس کی عالی شان اور رفعت و کبریائی کو دل میں جگہ دیجیے۔دل کو وساوِس اور خطرات سے پاک رکھیں۔ معانی پہ تدبر رکھیں اور لذت و شوق سے قرآن پڑھیں۔
یہ یاد رہے کہ قبلہ کی طرف منہ کر کے تلاوت کیجیے۔ حضرت ابن عباسؓ نے نبی کریمﷺ سے روایت کیا ہے، آپؐ کا ارشاد عالی ہے ’’شریف ترین مجلس وہ ہے جس میں قبلہ کی طرف منہ کر کے تلاوت قرآن کی جائے۔‘‘ (طبرانی و ابن عدی)

قرآن پاک کی تلاوت کے آداب ہیں۔ مثال کے طور پر باوضو ہو کر انتہائی توجہ و احترام سے قبلہ رخ بیٹھیے۔پڑھنے میں جلدی نہ کریں بلکہ ترتیل و تجوید سے پڑھنے کی پوری کوشش کیجیے۔ آیات رحمت و آیات عذاب پر اسی طرح کا ردعمل ظاہر کیجیے۔ اونچا پڑھنے سے ریا کا احتمال یا دوسرے مسلمان کی تکلیف و حرج کا اندیشہ ہو تو آہستہ پڑھیے۔ جتنا ہو سکے خوش الحانی سے پڑھنے کی سعی کریں۔


انبیاء علیھم السلام کی دعائیں

انبیاء علیھم السلام کی دعائیں

قرآن حکیم کا آغاز دعا سے ہوتا ہے اور اس میں بہت سی دعائیں ہیں جو انسان کو انداز بدل بدل کر ربِ کائنات کے آگے نہایت عاجزی کے ساتھ اپنی حاجتیں بیان کرنے اور اسی کے سامنے اپنی استدعائیں پیش کرنے کے طریقے سکھلاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔
 مختلف مقامات پر رب العزت نے اپنے انبیا کی زبانی پوری دنیا کے انسانوں کے لیے دعاؤں کے جو تحفے عطا کیے ہیں ان میں سے ہر ایک قبولیت کے حوالے سے ایک نسخۂ کیمیا ہے۔ یہ دعائیں گواہی دیتی ہیں کہ پیغمبروں جیسی برگزیدہ ہستیوں نے بھی اپنی حاجت براری کے لیے صرف اسی کی طرف رجوع کیا اور اسی کے آگے اپنی جھولی پھیلائی۔

ذیل میں اس آس پر مختلف انبیا علیہم السلام کی چند قرآنی دعائیں مع ترجمہ و مختصر تشریح پیش کی جاتی ہیں کہ ربِ دوجہاں یقیناً ایک دن اپنی ان عظیم اور بزرگ ترین ہستیوں کی دعاؤں کے صدقے اُمتِ مسلمہ کو موجودہ مشکلات کے گرداب سے نکال لے گا، اور اس وطنِ عزیز کے حالات پر کہ جو صرف اسی کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، کرم فرمائے گا اور اس میں سچے دین کو سربلندی اور اپنے نام لیواؤں کو سرخروئی عطا کرے گا۔

حضرت ابراھیم کی دعا: 

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا اس وقت مانگی جب دونوں باپ بیٹا، یعنی حضرت ابراہیم  اور حضرت اسماعیل خانہ کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے۔ اس دعا کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ حضرت ابراہیم  خدا کے گھر کی تعمیر کے مبارک کام کے دوران آنے والے زمانوں کے اندر تک اپنی دعاؤں کو پھیلا کر خدا سے اس گھر کی پاسبانی اور اس کی عظمت کو تسلیم کرنے والی ایک قوم کی استدعا کر رہے تھے، اور پھر خدا نے ان کی اِس دعا کو یوں قبول کیا کہ ان کی نسل کو سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں اس عظیم ترین ہستی سے نوازا جو ساری دنیا کے لیے رحمت بن کر مبعوث ہوئی:

رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُo

 (البقرہ2 : 128) 
اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے تو سب کی سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے، اے رب! ہم دونوں کو مسلم (مطیع فرماں ) بنا۔ ہماری نسل سے ایسی قوم اُٹھا جو تیری فرماں بردار ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

نبی کریم کی دعا: 

نبی کریم نے خدا کے حضور اپنی امت کی طرف سے ایک ایسی درخواست جمع کرا دی ہے جو ہرمشکل میں قیامت تک اس کے کام آتی رہے گی اور ہر تاریکی میں اس کے لیے ایک شمع کی صورت جگمگاتی رہے گی:

رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِo

 (البقرہ2: 201) 
اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔

حضرت داؤد کی دعا: 

حضرت داؤد علیہ السلام نے یہ دعا اس وقت مانگی جب ان کے ایما پر طالوت اپنے ساتھی مسلمانوں کو لے کر جالوت کے مقابلے پر نکلا اور پھر اسے ایک بڑے لشکر کا سامنا کرنا پڑا۔ تب اللہ نے ان کی یہ دعا یوں قبول کی، کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے جو اس وقت تک ابھی ایک کم سِن نوجوان تھے، جالوت کو سرِمیدان قتل کردیا اور اللہ نے انھیں یعنی حضرت داؤد علیہ السلام کو ان کا سردار بنا دیا:

رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَo

 (البقرہ2 : 250) 
اے ہمارے رب! ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر۔

 حضرت زکریا کی دعا: 

یہ دعا حضرت زکریا علیہ السلام نے اس وقت مانگی جب انھوں نے حضرت مریم کو ایک حجرے میں گوشہ نشین دیکھا اور یہ دیکھا کہ اس پاک باز لڑکی کو اللہ اس حال میں بھی رزق پہنچا رہا ہے تو ان کے منہ سے بے ساختہ یہ دعا نکلی اور پھر اللہ نے ان کی دعا اس طرح قبول کی کہ اس بڑھاپے میں انھیں حضرت یحییٰ جیسا بیٹا عطا کیا:

رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِo

 (اٰل عمرٰن3 : 38) 
پروردگار! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر، تو ہی دعا سننے والا ہے۔

حضرت آدم کی دعا: 

یہ دعا حضرت آدم علیہ السلام نے اس وقت مانگی جب اللہ نے ان دونوں، یعنی آدم و حوا کی لغزش پر ان کے ستر ایک دوسرے پر کھول دیے، انھیں حیا کے فطری جذبے نے بالکل مغلوب کرکے رکھ دیا اور انھیں اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا تو انھوں نے رو رو کر اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ! ہم پر رحم کیجیے، ہمیں معاف کر دیجیے اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو ہم بالکل تباہ ہوکر رہ جائیں گے:

رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o 

(الاعراف 7 : 23)
اے ہمارے رب! ہم نے اپنے اُوپر ظلم کیا، اب اگر تونے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناًہم تباہ ہوجائیں گے۔

  حضرت شعیب کی دعا: 

جب حضرت شعیب علیہ السلام اہلِ مدین کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے اور انھوں نے اہلِ مدین کو اللہ کے احسانات یاد دلا دلا کر راہِ راست پر آنے کی دعوت دی لیکن وہ اپنی چودھراہٹ کے گھمنڈ میں اللہ کا حکم ماننے اور ان کی پیروی سے مسلسل انکار کرتے رہے تو حضرت شعیب نے اللہ سے یہ دعا مانگی جس پر اللہ نے اہلِ مدین کو ان کے جرم کی پاداش میں اس طرح مٹا دیا جیسے وہ کبھی دنیا میں تھے ہی نہیں:

رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَo

 (الاعراف 7: 89) 
اے ہمارے رب! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

 حضرت موسٰی کی دعا:

حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہِ سینا سے واپس آئے اور انھوں نے دیکھا کہ ان کے بھائی ہارون کے منع کرنے کے باوجود ان کی قوم نے ایک بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا ہے تو وہ سخت برہم ہوئے اور اس پریشانی کے عالم میں اپنے رب سے یہ دعا کی اور پھر اس میں یوں اضافہ کیا۔ ہمارے سرپرست تو آپ ہی ہیں، پس ہمیں معاف کردیجیے اور ہم پر رحم فرمایئے، آپ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والے ہیں:

رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَ لِاَخِیْ وَ اَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَo

 (الاعراف 7 :151) 
اے رب! مجھے اور میرے بھائی کو معاف کردے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما تو سب سے بڑھ کر رحیم ہے۔

حضرت نوح کی دعا:

 حضرت نوح علیہ السلام نے جب اپنے نافرمان بیٹے کے حق میں دعا کی اور اللہ نے ان کی دعا رد کرتے ہوئے ان سے کہا کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنالے تو حضرت نوح نے اس دعا کی صورت میں اپنے رب سے معافی طلب کی اور پھر جواب میں رب العزت نے فرمایا کہ اب دیکھتے رہنا کہ کس طرح تجھ پر اور تیرے پیروکاروں پر ہماری برکتیں اور سلامتی نازل ہوتی ہے:

رَبِّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْءَلَکَ مَا لَیْسَ لِیْ بِہ عِلْمٌ وَ اِلَّا تَغْفِرْلِیْ وَ تَرْحَمْنِیْٓ اَکُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ o

 (ھود 11 : 47) 
اے میرے رب! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں، اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہوجاؤں گا۔

حضرت یوسف کی دعا: 

جب حضرت یوسف علیہ السلام کو بادشاہت عطا ہوئی اور ان کی اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام سے اور اپنے بھائیوں سے ملاقات ہوگئی تو انھوں نے اپنے پروردگار سے ان الفاظ میں اپنی شکرگزاری کا اظہار کیا اوربادشاہت کے باوجود صالحین کے ساتھ اپنے انجام کی درخواست کی:

رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ وَ عَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَo

 (یوسف 12 : 101) 
اے میرے رب! تو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھ کو باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھایا، زمین و آسمان کے بنانے والے، تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے۔ میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا۔

ایک جامع دعا: 

جب بڑھاپے میں رب کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل جیسے فرزند عطا کیے تو انھوں نے یہ دعا کی اور پھر ان کی دعا یوں قبول ہوئی کہ ان کی یہ دعا قیامت تک ہر مومن کی نماز کا مستقل حصہ بنا دی گئی:

رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآءِ o رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُo

 (ابراھیم 14: 41-40) 
اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی ایسے لوگ اُٹھا جو یہ کام کریں۔ پروردگار! میری دعا قبول کر، پروردگار میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اس دن معاف کردیجیو جب کہ حساب قائم ہوگا۔

حضرت سلیمان کی دعا:

 اللہ تعالیٰ نے جب حضرت سلیمان علیہ السلام کو ایک عظیم بادشاہت اور چرند پرند سب پر حکومت عطا کی اور ایسے میں جب وہ ایک روز اپنے لشکر کے ہمراہ کہیں جارہے تھے تو ان کے راستے میں آنے والی چیونٹیوں نے آپس میں کہا کہ سب اپنے اپنے بلوں میں گھس جائیں ورنہ کچلے جائیں گے تو حضرت سلیمان نے یہ سن کر اللہ کا شکر ادا کیا اور دعا کی کہ اے اللہ! اس سب کے باوجود میری آرزو ہے کہ میرا انجام صالحین میں ہو:

رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہ وَاَدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَ o

 (النمل 27 :19)
 اے میرے رب! مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کرتا ہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عملِ صالح کروں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر۔

شرح صدر کے لیے دعائیں: 

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معجزے دے کر فرعون کے پاس جانے کو کہا تو حضرت موسٰی نے کہ جن کی زبان میں بچپن ہی سے لکنت تھی اس دعا کے الفاظ میں اللہ سے اپنی استعانت کی درخواست کی لیکن جب فرعون نے ان کے معجزوں کو جادو کا محض ایک کھیل قرار دیا اور ان کی مسلسل دعوت کے جواب میں مسلسل انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عبرت کا نشان بنا کر رکھ دیا:

رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ o وَ یَسِّرْ لِیْٓ اَمْرِیْ o وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ o یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ o 

(طٰہٰ 20 : 26 تا 28)
 پروردگار! میرا سینہ کھول دے اور میرے کام کو میرے لیے آسان کردے اور میری زبان کی گرہ سلجھا دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے اُترتے وقت حضرت جبریل کے ہمراہ وحی کے الفاظ دہرانے کی کوشش کرتے۔ اس پر اللہ نے فرمایا کہ آپ کو وحی کا یاد کرا دینا ہمارا کام ہے۔ اس سلسلے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ یوں کہا کریں کہ میرے رب! مجھے مزید علم عطا کر۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے بعد آپؐ پر کبھی پریشانی کی کیفیت طاری نہ ہوئی اور پھر پوری اُمت نے ان الفاظ کو اپنا وظیفہ بنا لیا:

رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًاo

 (طٰہٰ 20 : 114) 
اے پروردگار! مجھے مزید علم عطا کر۔

مصیبت اور پریشانی کے وقت کی دعائیں:

 یہ حضرت یونس علیہ السلام کی دعا ہے۔ جب وہ اللہ کے اذن کے بغیر اپنی قوم سے مایوس ہوکر اور اس خوف سے کہ اس قوم پر اب اللہ کا عذاب آیا چاہتا ہے گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور ایک مچھلی نے انھیں نگل لیا اور اللہ نے اپنی قدرت سے انھیں وہاں زندہ سلامت رکھا۔ اس حال میں مچھلی کے پیٹ کے اندر تاریکی میں ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلے اور اللہ نے انھیں اس دعا کی بدولت اس تاریکی اور مصیبت سے نجات بخشی:

لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَo

 (الانبیا 21 : 87) 
نہیں ہے کوئی خدا مگر تو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا (اے خدا! مجھے معاف کردے)

حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا 

وہ خود بہت ضعیف اور ان کی بیوی بانجھ ہوچکی تھی۔ انھوں نے اپنے رب سے ان الفاظ میں اپنے لیے ایک وارث کی التجا کی اور ان کے رب نے ایک معجزانہ شان کے ساتھ ان کی دعا قبول کی اور انھیں حضرت یحییٰ علیہ السلام جیسا بیٹا عطا کیا:

رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَ o

 (الانبیا 21: 89)
 اے پروردگار! مجھے اکیلا نہ چھوڑ، اور بہترین وارث تو تو ہی ہے۔

۞ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو جب قریش کبھی مجنوں، کبھی شاعر، اور کبھی جادوگر ہونے کا الزام دیتے اور کسی صورت حضور کی دعوت کو مان کر نہ دیتے تو حضور نے آخر ان الفاظ میں فیصلہ طلب کیا اور پھر اللہ نے ان کی یہ دعا یوں قبول کی کہ ان الزام دینے والوں کے دیکھتے ہی دیکھتے حق غالب آگیا اور باطل پرست سب منہ دیکھتے رہ گئے:

رَبِّ احْکُمْ بِالْحَقِّ وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ o

 (الانبیا 21: 112)
 اے میرے رب! حق کے ساتھ فیصلہ کردے اور لوگو، تم جو باتیں بناتے ہو ان کے مقابلے میں ہمارا رب رحمن ہی ہمارے لیے مدد کا سہارا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اپنے باپ کے ظلم سے تنگ آکر گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور پھر برس ہا برس تک اپنی قوم کو بت پرستی چھوڑ کر اللہ کی حاکمیت میں آنے کی دعوت دیتے رہے اور وہ قوم کہ جس میں ان کا باپ بدستور شامل رہا،مسلسل انکار کرتی رہی تو حضرت ابراہیم نے یہ دعا کی اور اپنے لیے اللہ سے صالحین میں شمولیت کی التجا کی۔ اس پر اللہ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ دیکھ لینا قیامت کے روز جنت صرف ایمان لانے والوں کے لیے اور دوزخ منکرین کے سامنے ہمیشہ کے لیے کھول دی جائے گی:

رَبِّ ھَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ o وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ o وَاجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیْمِ o وَاغْفِرْ لِاَبِیْٓ اِِنَّہ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَ o وَلاَ تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَo

 (الشعرا 26 : 83)
 اے میرے رب! مجھے حکم عطا کر اور مجھے صالح لوگوں کے ساتھ ملا اور بعد میں آنے والوں میں مجھ کو سچی ناموری عطا کر، اور مجھے جنت کے وارثوں میں شامل فرما اور میرے باپ کو معاف کردے کہ وہ بے شک گمراہ لوگوں میں سے ہے اور مجھے اس دن رسوا نہ کر، جب کہ سب لوگ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔

مفسدین سے مقابلے کے لیے دعا: 

حضرت لوط علیہ السلام کی قوم جب مسلسل ان کی نافرمانی کرتی رہی اور علانیہ فحش کاری میں مبتلا رہی اور یہاں تک کہ حضرت لوط سے اللہ کا عذاب لے آنے کاچیلنج کرنے لگی تو حضرت لوط نے یہ دعا مانگی جس پر اللہ نے ان نافرمانوں کو ہمیشہ کے لیے مٹا کر رکھ دیا:

رَبِّ انْصُرْنِیْ عَلَی الْقَوْمِ الْمُفْسِدِیْنَ o

 (العنکبوت 29 : 30)
 اے میرے رب! ان مفسد لوگوں کے مقابلے میں میری مدد فرما۔

آیئے! اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور رو رو کر اس سے ملتجی ہوں:

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہ وَاعْفُ عَنَّا وَ اغْفِرْلَنَا وَ ارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلٰنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ

 (البقرہ 2 : 286) 
(ایمان لانے والو، تم یوں دعا کیا کرو) 
اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں، ان پر گرفت نہ کر۔ مالک، ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔ پروردگار، جس بار کو اُٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ۔ ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔
آمین ۔۔ یا رب العلمین آمین 

حالیہ اشاعتیں

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ۔۔۔۔ الرحمٰن

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْاؕ-لَا تَنْفُذُوْنَ ...

پسندیدہ تحریریں