عجیب واقعہ
۶۴۰ء کا واقعہ ہے۔ بازنطینی بادشاہ ہرقل (Haraclius) نے خلیفہ راشد دوم، حضرت عمر فاروقؓ کوایک خط روانہ کیا۔ اس میں لکھا ’’میرے سر میں اکثر درد رہتا ہے۔ براہ کرم کوئی علاج بتائیے؟‘‘
حضرت عمر فاروقؓ نے اسے ایک ٹوپی بھیجی اور ہدایت لکھی کہ اسے ہر وقت سر پر پہنے رکھو۔ ان شاء اللہ سر درد جاتا رہے گا۔ چناںچہ قیصر روم (ہرقل) وہ ٹوپی سر پر پہننے لگا۔ کبھی اتارتا تو درد پھر شروع ہو جاتا اور پہننے کے بعد درد غائب! چند بار یہ ماجرا پیش آیا، تو قیصر روم کا تجسس اتنا بڑھا کہ آخر اس نے ٹوپی کو چیر دیا۔ اندر سے ایک رقعہ نکلا۔ دیکھا تو اس پہ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ لکھا ہوا تھا۔
یہ کلمہ اسے ایک درباری کی زبانی معلوم ہوا جو عربی جانتا تھا۔ یہ بات بادشاہ قیصر روم کے دل میں گھر کر گئی۔ کہنے لگا ’’دین اسلام کس قدر مکمل اور مسلمانوں کی کتاب کتنی معزز ہے کہ محض ایک آیت بھی باعثِ شفا ہے۔ پھر پورا دین باعثِ نجات کیوں کر نہ ہو گا؟ مورخین لکھتے ہیں کہ اسی بات سے متاثر ہو کر اس نے اسلام قبول کر لیا تھا، مگر اقتدار کی تمنا بعدازاں اس پر غالب آ گئی۔ (لطائف قرآن)
تلاوت کلام پاک کا جہاں اتنا بڑا اجر ہے، وہیں اس کی ایک ایک آیت، آیت شفا ہے۔ بسم اللہ پڑھنے کا ثواب اور فوائد ان گنت ہیں۔ حضرت عمرؓ کا درج بالا واقعہ آپ نے ملاحظہ فرمایا۔ یہ دردسر دور کرنے کا مقدس نسخہ ہے۔ مسلمانوں پہ جہاں اللہ نے ہزاروں مہربانیاں فرمائی ہیں، وہیں حضور پاکﷺ کی اُمت پر قرآن حکیم جیسی انمٹ کتاب اتار کر قیامت تک انھیں دنیا میں سرخرو فرما دیا۔ قرآن حکیم کا ایک ایک حرف نہ صرف باعث ثواب و بابرکت ہے بلکہ اس کی تلاوت بھی سکونِ دل کا باعث بنتی ہے۔
علما نے فرمایا ہے: ’’اے مسلمانو! قرآن حکیم پر تمھارا یہ حق ہے کہ سال میں کم از کم دو دفعہ پڑھ کر ختم کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کی تلاوت پر بھی آسانیاں بخش دی ہیں اور حکم ہے کہ ’’اسے جتنا آسانی سے روز پڑھ سکتے ہو، پڑھو۔‘‘
سبحان اللہ، کوئی زور اور کوئی سختی نہیں! قیامت کے دن مسلمانوں کے لیے قرآن حکیم کا پڑھنا بخشش کا باعث بنے گا۔ جنت میں جانے کا اس سے آسان نسخہ کیا ہو سکتا ہے؟ تب تلاوت قرآنی مسلمانوں کے گناہوں کے آگے ڈھال بن جائے گی۔ کاش ہم یہ بات ذہن نشین کر لیں۔ بزرگان میں سے کئی نے روایت کیا ہے کہ بے شمار لوگ جب ویران جگہوں پر تلاوت قرآن پاک فرماتے، تو نہ صرف مسلمان بلکہ چرند پرند بھی ہمہ تن گوش ہو جایا کرتے۔
قرآن پاک کی تلاوت کے آداب ہیں۔ مثال کے طور پر باوضو ہو کر انتہائی توجہ و احترام سے قبلہ رخ بیٹھیے۔پڑھنے میں جلدی نہ کریں بلکہ ترتیل و تجوید سے پڑھنے کی پوری کوشش کیجیے۔ آیات رحمت و آیات عذاب پر اسی طرح کا ردعمل ظاہر کیجیے۔ اونچا پڑھنے سے ریا کا احتمال یا دوسرے مسلمان کی تکلیف و حرج کا اندیشہ ہو تو آہستہ پڑھیے۔ جتنا ہو سکے خوش الحانی سے پڑھنے کی سعی کریں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں