زندگی کا سفر اور اس کا انجام
نماز ۔۔ خلاصہ عبادت انبیاء
*وضو کا اہتمام*
ارشاد باری تعالٰی ہے۔
- اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز سے پہلے وضو کرنا لازمی ہے۔
- حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ الصلوٰۃ مفاتیح الجنۃ و مفاتیح الصلوٰۃ الطھور۔ جنت کی کنجیاں نماز ہیں اور نماز کی کنجی وضو ہے۔
- ایک حدیث پاک میں ہے کہ وضو کے اعضاء قیامت کے دن روشن ہوں گے جسکی وجہ سےنبی علیہ السلام اپنے امتی کو پہچان لیں گے۔
- وضو کرنے والے کے سر پر اللہ تعالٰی کی رحمت کی چادر ہوتی ہے۔ جب وہ دنیا کی باتیں کرتا ہے تو چادر ہٹ جاتی ہے۔
- ایک روایت میں ہے کہ جو شخص وضو شروع کرتے وقت بِسْمِ اللہِ الْعَظِیْمِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ عَلٰی دِیْنِ الْاِسْلَامِ پڑھے اور وضو کے اختتام پر کلمہ شہادت پڑھے اسکے پچھلے سب گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔
فضائل وضو
ایک حدیث مبارکہ میں آیا ہے اَلْوُ ضُوْءُ سَلَّاحُ الْمُؤمِنِ (وضو مومن کا اسلحہ ہے) جس طرح ایک انسان اسلحے کے ذریعے اپنےدشمن کا مقابلہ کرتا ہے اسی طرح مومن وضو کے ذیعے شیطانی حملوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ امام غزالیؒ فرمایا کرتےتھے کہ تم اپنے قلبی احوال پر نظر ڈالو تمہیں وضو سے پہلے اور وضو کے بعد کی حالت میں واضح فرق نظر آئے گا۔ ہمارے مشائخ اپنی زندگی با وضو گزارنے کا اہتمام فرماتے تھے۔
مولانا ذوالفقار نقشبندی ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ ایک مرتبہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے خاندان سےتعلق رکھنے والے ایک صاحب کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ انکی کوٹھی ایک نئی کالونی میں بن رہی تھی۔ مغرب کا وقت شروع ہوا تو انہوں نے گھرکے دالان میں نماز ادا کرنے کے لئے صفیں بچھا دیں۔ انکے گھر کے صحن میں پانچ سات چھوٹے بڑے بچے کھیل رہے تھے۔ جب اقامت ہوئی تو کھیلنے والے بچے دوڑتے ہوئے آئے اور نماز میں شریک ہو گئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ وضو بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تو انکے والد نے بتایا کہ ہم نے اپنے بزرگوں سے یہ بات سیکھی ہے کہ اپنی زندگی باوضو گزارو۔ ہمارے گھر کاچھوٹا بڑا کوئی بھی فرد جب بھی آپکو ملے گا با وضو ہو گا۔ جب بھی وضو ٹوٹتا ہے فورًا نیا وضو کر لیتے ہیں۔
*استغفار*
*دو قابل رشک اور دو قابل عبرت عورتیں*
دعا مانگنے کے سات آداب جو دعا کی روح ہیں.
دعا مانگنے کے سات آداب جو دعا کی روح ہیں.
مذہب اور دین میں فرق
الحجرات کی نصیحتیں
الله سبحان و تعالی کی بنی نوع انسان کو 9 نصیحتیں اور ممنوعات
(سورہ الحجرات)
1- فتبينوا
کوئ بھی بات سن کر آگے کرنے سے پہلے تحقیق کر لیا کرو . کہیں ایسا نہ ہو کہ بات سچ نہ ہو اور کسی کوانجانے میں نقصان پہنچ جائے۔
2 - فأصلحوا
دو بھایوں کے درمیان صلح کروا دیا کرو. تمام ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
3- وأقسطوا
ہر جھگڑے کو حل کرنے کی کوشش کرو اور دو گروہوں کے درمیان انصاف کرو. الله کریم انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
4 - لا يسخر
کسی کا مذاق مت اڑاؤ. ہو سکتا ہے کہ وہ الله کے قریب تم سے بہتر ہو۔
5 - ولا تلمزوا
کسی کو بے عزّت مت کرو۔
6- ولا تنابزوا
لوگوں کو برے القابات
(الٹے ناموں) سے مت پکارو.
7- اجتنبوا كثيرا من الظن
برا گمان کرنے سے بچو کہ کُچھ گمان گناہ کے زمرہ میں آتے ہیں۔
8 - ولا تجسَّسُوا
ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہو۔
9- ولا يغتب بعضكم بعضا
تُم میں سےکوئی ایک کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے کہ یہ گناہ کبیرہ ہے اور اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔
الله کریم اخلاص کیساتھ عمل کرنیکی تو فیق دے۔
آمین یاربُّ العالمین
درسِ حدیث ، طائف کی دعا۔اللُھم الیک اشکو ضعف قوتی
درسِ حدیث۔ نماز کا طریقہ
نماز کا طریقہ
ابی ہریرہ رضی الله تعالی عنہ سے روایت ہے کہ
’’ ان رجلا دخل المسجد ‘‘
یہ کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا’’
و رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جالس فی ناحیۃ المسجد
‘‘اورسید عالم صلی الله علیہ وسلم مسجد کے ایک گوشہ میں تشریف فرما تھے۔
فصلی
پس اس شخص نے نماز پڑھی۔
’’ثم جآء فسلم علیہ ‘‘
پھر وہ شخص آیا اور حضور اکرم کو سلام کیا
’’ فقال لہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم وعلیک السلام ارجع فصل فانک لم تصل‘‘
اس کو سید عالم صلی الله علیہ وسلم نے ارشادفرمایا
وعلیک السلام واپس لوٹ نماز پڑھ، بالتحقیق تو نے نماز نہیں پڑھی۔
یعنی تعدیل ارکان، قومہ ، جلسہ صحیح ادا نہیں کیا۔
’’فرجع فصلی ‘‘
وہ شخص واپس ہوا۔ پھر نماز پڑھی ۔
’’ ثم جاء فسلم ‘‘
وہ شخص پھر نماز پڑھ کر آیا اور حضور انور صلی الله علیہ وسلم کو سلام کیا
’’فقال وعلیک السلام ارجع فصل فانک لم تصل ‘‘
پھر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا و علیک السلام واپس جا پھر نماز پڑھ، بالتحقیق تو نے نماز نہیں پڑھی
’’فقال فی الثالثۃ اوفی التی بعدھا‘‘
پھر اس شخص نے تیسری دفعہ یا اس کے بعد عرض کی
’’علمنی یا رسول۔ ﷲ‘‘
اے اللہ تعالیٰ کے (پیارے) رسول الله صلی الله علیہ وسلم مجھے سکھلا دیجئے
’’ فقال اذا اقمت الی الصلوۃ فاسبغ الوضوء‘‘
آپ نے ارشاد فرمایا جب تو نماز کا قصد کرے تو مکمل وضو کر
’’ ثم استقبل القبلۃ ‘‘
پھر قبلہ (کعبہ) کی طرف منہ کر
’’ فکبر‘‘
تکبیر تحریمہ کہہ
’’ ثم اقرء بما تیسر معک من القران‘‘
پھر قرآن مجید پڑھ جو تجھ کو آسان ہو یعنی جس جگہ سے تجھ کو یاد ہو
’’ ثم ارجع حتی تطمئن راکعا ‘‘
پھر رکوع کر یہاں تک کہ تجھے رکوع میں اطمینان حاصل ہوجائے
’’ ثم ارجع حتی تستوی قائما‘‘
پھر سر کو اٹھا ، یہاں تک کہ تو بالکل سیدھا کھڑا ہو جائے
’’ ثم اسجد حتی تطمئن ساجدا‘‘
پھر سجد ہ کریہاں تک کہ تیرا سجدہ اطمینان کے ساتھ ہو
’’ثم ارفع حتی تطمئن جالسا ‘‘
پھر بیٹھ یہاں تک کہ بیٹھنے میں تجھے اطمینان حاصل ہو جائے
’’ ثم اسجد حتی تطمئن ساجدا‘‘
پھر سجدہ کر ، یہاں تک کہ تو سجدے میں اطمینان پالے
’’ ثم ارفع حتی تطمئن جالسا‘‘
پھر اپنا سر اٹھا ، یہاں تک کہ تو اطمینان کے ساتھ بیٹھے۔
اور ایک روایت میں یوں ہے کہ اپنے سرکو اٹھا ، یہاں تک کہ تو سیدھا کھڑا ہو ، پھر اپنی تمام نماز اسی طرح ادا کر ۔
متفق علیہ
قومہ ، جلسہ ، رکوع اور سجود میں طمانیت نہایت ضروری ہے۔
امام شافعی اور امام مالک کے نزدیک طمانیت فرض ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک واجب ہے۔ طمانیت بدن کے تمام جوڑ رکوع اور سجود میں اپنی اپنی جگہ پر آجانے کو اور سکون حاصل ہو جانے کو کہتے ہیں۔
آج کل عموماً اس طرف بہت کم توجہ کی جاتی ہے۔ حالانکہ نماز کے صحیح ہونے کا مدار اسی پر ہے کہ نماز اطمینان کے ساتھ ٹہرٹہر کر ادا کی جائے تاکہ قبولیت کے مقام پر پہنچ جائے۔
آٹھ مسئلے
لا یحب ۔۔الله تعالی نہیں پسند کرتا
ایک جیسے الفاظ والی آیات
وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ
اور یہ ملک میں فساد کے لئے دوڑتے پھرتے ہیں۔ اور اللہ فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
مائدہ ۔۶۴
وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ۔
اور الله تعالی ظالموں کو پسند نہیں کرتا ۔
آل عمران ۔۱۴۰
إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
بے شک الله تعالی زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔
بقرہ۔۱۹۰
إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا
بیشک اللہ تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔
نساء ۔۳۶
وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
اور بے جا نہ اڑاؤ کہ اللہ بے جا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
اعراف ۔٣١
إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا
بے شک اللہ دغاباز اور گناہگار کو دوست نہیں رکھتا۔
نساء۔۱۰۷
إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ
بے شک اللہ دغابازوں کو دوست نہیں رکھتا۔
انفال ۔۵۸
إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ
وہ سرکشوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔
نحل ۔٢٣
وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ
اور اللہ کسی ناشکرے گناہگار کو دوست نہیں رکھتا۔
بقرہ ۔٢٧٦
إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ
بے شک اللہ تعالی اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
قصص ۔ ۷۶
دعا کی قبولیت کے اوقات
دعا کی قبولیت کے اوقات
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الثَّقَفِيُّ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ ؟ قَالَ: جَوْفَ اللَّيْلِ الْآخِرِ، وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوبَاتِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: جَوْفُ اللَّيْلِ الْآخِرُ الدُّعَاءُ فِيهِ أَفْضَلُ أَوْ أَرْجَى أَوْ نَحْوَ هَذَا .
پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! کون سی دعا زیادہ سنی جاتی ہے؟
آپ نے فرمایا:
”آدھی رات کے آخر کی دعا (یعنی تہائی رات میں مانگی ہوئی دعا) اور فرض نمازوں کے اخیر میں*
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
ابوذر اور ابن عمر رضی الله عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
”رات کے آخری حصہ میں دعا سب سے بہتر ہے، یا اس کے قبول ہونے کی امیدیں زیادہ ہیں یا اسی جیسی کوئی اور بات آپ نے فرمائی"
اذان اوربارش کے وقت:
حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا دو دعائیں رد نہیں کی جاتیں۔ ایک اذان کے وقت ،دوسرے بارش کے وقت ۔
(أبوداود)
اذان اور اقامت کے درمیان:
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا اذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والی دعا رد نہیں کی جاتی۔
لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ ! پھر ہم اس وقت کیا دعا کریں؟
آپ ﷺنے فرمایا اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت کی عافیت مانگا کرو۔
(أبوداود والترمذي)
جب امام ولاالضالین کہے:
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا
جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو جائے گی تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔
(صحیح بخاری ومسلم)
جب امام غیر المغضوب علیھم و لا الضالین کہے تو تم آمین کہو اللہ تمہاری دعا قبول کرے گا۔
(صحیح مسلم)
حالت سجدہ:
حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا
انسان اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے، اس لئے (سجدے میں ) دعاء کثرت سے کیا کرو۔
( صحیح مسلم وأبوداود وأحمد)
فرض نماز کے بعد:
حضرت ابوامامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺسے پوچھا گیا کہ کونسی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے ؟
آپ ﷺنے فرمایا
رات کے آخری حصے میں اور فرض نمازوں کے بعد مانگی جانے والی (دعا)۔
(ترمذي صحيح)
تلاوت قرآن مجید کے بعد:
حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
جو شخص قرآن پڑھے اسے چاہئے کہ اللہ سے سوال کرے اس لئے کہ عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن پڑھ کر لوگوں سے سوال کریں گے۔
(ترمذي صحيح)
جمعہ کے دن کی ایک خاص گھڑی:
ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے جمعہ کے دن کا تذکرہ کیا۔ تو آپ rنے فرمایا کہ
اس دن میں ایک ساعت ایسی ہے کہ کوئی مسلمان بندہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور اس ساعت میں جو چیز بھی اللہ سے مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عطا کرتا ہے، اور اپنے ہاتھوں سے اس ساعت کی کمی کی طرف اشارہ کیا﴿یعنی وہ وقت بہت چھوٹا ہوتا ہے﴾۔
(صحیح بخاری ومسلم)
ہررات کی ایک مخصوص ساعت:
جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا
کہ رات میں ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ اس وقت جو مسلمان بندہ بھی اللہ تعالیٰ سے جو بھی بھلائی مانگے گا اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا فرمائیں گے۔
(صحیح مسلم)
آب زمزم پیتے ہوئے:
حضرت جابر سے مروی ہے کہ نبی ﷺنے ارشاد فرمایا کہ زمزم کا پانی جس نیت سے پیا جائے وہ پوری ہوتی ہے۔
(ابن ماجه وأحمد)
مرغ کی بانگ سنتے وقت:
حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ جب تم مرغ کی بانگ سنو تو اللہ سے اس کے رحمت و فضل کی دعا مانگو کیونکہ اس مرغ نے فرشتہ دیکھا ہے اور جب تم گدھے کی آوز سنو تو شیطان سے خدا کی پناہ مانگو ﴿یعنی أعوذ باالله من الشيطن الرجيم پڑھو﴾کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے۔
(متفق عليه)
مہر کی مقدار
حق مہر کتنا ہونا چاہیے؟
کم از کم مہر کے متعلق صحیح مسلم میں ایک روایت ملتی ہے جو درج ذیل ہے ۔۔
سہل بن سعد ساعدی رضي اللہ تعالی بیان کرتےہیں کہ :
ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئي اورکہنے لگی اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپنے آپ کوآپ کے لیے ھبہ کرتی ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اوراپنی نظریں اوپرکرنے کے بعد نيچے کرلیں جب عورت نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئي فیصلہ نہیں فرمایا تووہ بیٹھ گئي ۔
صحابہ کرام میں سے ایک صحابی کھڑا ہوا اورکہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگرآپ کواس عورت کی ضرورت نہیں تومیرے ساتھ اس کی شادی کردیں ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تیرے پاس کچھ ہے ؟ اس صحابی نے جواب دیا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ اللہ تعالی کی قسم میرے پاس کچھ نہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اپنے گھروالوں کے پاس دیکھو ہوسکتا ہے کچھ ملے جائے ، وہ صحابی گيا اورواپس آ کہنے لگا اللہ کی قسم مجھے کچھ بھی نہیں ملا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو اگر لوہے کی انگوٹھی ہی مل جائے وہ گیا اورواپس آکر کہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم لوہے کی انگوٹھی بھی نہيں ملی ، لیکن میرے پاس یہ چادر ہے اس میں سے نصف اسے دیتا ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
اس کا تم کیا کرو گے اگر اسے تم باندھ لو تواس پر کچھ بھی نہيں ہوگا ، وہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ بات سن کر بیٹھ گيا اورجب زيادہ دیر بیٹھا رہا تواٹھ کر چل دیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جاتے ہوئے دیکھا تواسے واپس بلانے کاحکم دیا جب وہ واپس آیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
تجھے کتنا قرآن حفظ ہے ؟ اس نے جواب دیا فلاں فلاں سورۃ حفظ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اسے زبانی پڑھ سکتے ہو ؟ وہ کہنے لگا جی ہاں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : جاؤ میں نے جو تمہیں قرآن کریم حفظ ہے اس کے بدلہ میں اس کا مالک بنا دیا ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1425 )
تواس حدیث میں ہے کہ مہر کم بھی ہوسکتا ہے اورزیادہ بھی جس سے مال حاصل کیا جاسکتا ہو ، لیکن اس میں خاوند اوربیوی کی رضامندی ضروری ہے کہ وہ جتنے مہر پر راضي ہوجائيں ، اس لیے کہ مہر میں کم از کم لوہے کی انگوٹھی ہے ۔
امام شافعی اورسلف اوربعد میں آنے والے جمہور علماء کرام رحمہ اللہ تعالی کا یہی مسلک ہے ، ربیعہ ، ابوالزناد ، ابن ابی ذئب ، یحیی بن سعید ، لیث بن سعد ، اورامام ثوری ، اوزاعی ، مسلم بن خالد ، ابن ابی لیلی ، اورداود ، اوراہل حدیث فقھاء کرام رحمہ اللہ تعالی اجمعین اورامام مالک کے اصحاب میں ابن وھب کا بھی یہی مسلک ہے ۔
حجازیوں ، بصریوں ، کوفیوں ، اورشامیوں وغیرہ کا بھی یہی مسلک ہے کہ جس پر بھی خاوند اوربیوی راضي ہوجائیں چاہے وہ زيادہ وہ یا کم مہر مثلا جوتا ، لوہے کی انگوٹھی اور چھڑی وغیرہ ۔
اور ایک بات امہات المؤمنین رضي اللہ تعالی عنہن کے مہر کے بارہ میں گزارش ہے کہ :
امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے حدیث بیان کی ہے کہ :
ابوسلمہ بن عبدالرحمن رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتےہیں کہ میں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام المؤمنین عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے دریافت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مہر کتنا تھا ؟
توان کا جواب تھا :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا مہر بارہ اور نش اوقیہ تھا ، فرمانے لگیں کہ نش کا علم ہے کہ وہ کتنا ہے ؟ ابوسلمہ کہتے ہیں میں نے جواب دیا نہیں مجھے علم نہيں وہ کہنے لگیں کہ نصف اوقیہ :
تویہ پانچ سودرھم ہیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا مہرتھا ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1426 )
علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
آپ اپنے علم میں یہ رکھیں کہ شروع اسلام اورصحابہ کرام اورتابعین عظام کے دور سے یہ اجماع پایا جاتا ہے کہ شرعی درھم وہ ہے جس کا وزن دس درھم سات مثقال سونے کے برابر ہو ، اورایک اوقیہ چالیس درھم کا ہوتا ہے ، تو وہ اس طرح ستر دینار ہوئے ۔۔۔ وزن کا یہ اندازہ اجماع سے ثابت ہے ۔ دیکھیں : مقدمہ ابن خلدون ص ( 263 ) ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دینار بارہ درھم کے برابر تھا ۔
اور دینار کا وزن ہمارے موجودہ دور میں سوا چارگرام چوبیس کیرٹ سونے کا وزن بنتا ہے ۔
تو اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا مجموعی مہر پانچ سو درھم جو کہ تقریبا ساڑھے اکتالیس دینار بنتا ہے جو ( 176.375 ) یعنی ایک سوچھتر اعشاریہ تین سو پچھتر گرام سونے کے برابر ہوگا ۔
تومثلا جب ایک گرام سونا نو ڈالر کا ہو تو جوتقریبا اس وقت ریٹ چل رہا ہے توازاوج مطہرات کا مجموعی مہر موجودہ کرنسی میں تقریبا ( 1587 ) ڈالر
اور پاکستانی روپوں میں (40162)بنے گا ۔
لیکن یاد رہے جتنا آپ آسانی سے دے سکیں اتنا دینا چاہیے اور ذیادہ حق مہر کی کوئی حد مقرر نہیں
واللہ اعلم .
مہر عورت کی قیمت نہیں ہوتی اور نہ عورت کے پیار و عصمت کی کوئی قیمت ہوسکتی ہے ۔ یہ تو صدیوں سے ظلم اور بے بسی میں جکڑی عورت کو آزادی کا اختیار Freedom of Will عطا کرنے کے لیے اسلام نے عورت کو مہر کا حق دے دیا ۔ یہ ایک علامت symbol ہے جس کو قبول کر کے وہ مرد کو اپنانے کا اعلان کرتی ہے ۔ اگر وہ اسے قبول نہ ہو تو نہ مرد اس پر زبردستی کر سکتا ہے نہ خود اس کے ماں باپ ۔ دراصل مہر عورت کی رضا مندی Consent کا اعلان ہے ۔
قرآن مجید میں واضح طور پر جہاں بھی مہر کا حکم آیا ہے ’ نقد ‘ ادا کرنے کے مفہوم میں آیا ہے ۔ فقہاء نے اگرچہ اس کو اُدھار رکھنے کی اجازت دی ہے لیکن قرآن مجید یا سیرت رسول و صحابہ سے ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا کہ مہر کو اُدھار رکھا گیا ہو ۔ صحابہ (رضی اللہ عنہم) کی مالی حیثیت کیا تھی یہ تو سبھی جانتے ہیں ۔ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہر ایک کو حسب استطاعت جتنا نقد ادا کرسکتے ہوں ادا کرنے کا حکم دیا ہے بشرطیکہ وہ عورت کو قبول ہو ۔
کسی صحابی (رضی اللہ عنہ) کو زرہ فروخت کرنے کا حکم دیا کسی کے پاس صرف ایک چادر تھی ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے وہی چادر دینے کا حکم دیا ۔
کسی کو صرف قرآن مجید کی کچھ آیتیں یاد تھیں ، اس کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں تھا ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے وہی سورتیں عورت کو یاد دلادینے کے کام کو مہر کے طور پر ادا کرنے کا حکم دیا ۔
حضرت اُم سلیم (رضی اللہ عنہا) کا واقعہ قابل مثال ہے کہ انہوں نے ابوطلحہ (رضی اللہ عنہ) جیسے امیر شخص کے لیے مہر میں صرف کلمہ پڑھنے کی شرط رکھی۔ (اُس وقت تک ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اسلام نہیں لائے تھے ) ۔
شادی کے رقعوں پر النکاح من سنتی لکھوانے والے غور کریں کہ اگر اُدھار رکھنے کا جواز ہوتا تو سیرت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) و صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے ہمیں بے شمار واقعات مل جاتے جو یقیناً بہت غریب تھے لیکن دلوں کے ایسے امیر کہ اگر وہ اُدھار بھی رکھتے تو ان کی طرف سے مہر کے ڈوب جانے کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
مہرکے فرض ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ :
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ // النساء:34
مرد کو عورتوں پر قوام اس لیے بھی بنایا گیا ہے کہ وہ اپنا مال خرچ کرتا ہے اور اس کی ابتداء مہر سے ہوتی ہے ۔ جہیز لے کر جہاں وہ اس آیت کو الُٹ دیتا ہے وہیں مہر کو اُدھار کر کے وہ ان تمام آیات کی خلاف ورزی کرتا ہے ، جن کے ذریعے عورت اس پر حلال ہوتی ہے۔۔۔۔ واللہ اعلم
مہر کی اہمیت ومقدار
مہر لوازم نکاح میں سے ہے ، اس کی ادائیگی مرد کے ذمے ہے ۔ قرآن کریم میں ہے
واٰتواالنساء صدقاتھن نحلة
عورتوں کو خوش دلی سے ان کے مہر ادا کردو۔
مہردراصل عورت کے اعزاز کا ایک رمز ہے، اس کا مقصد عورت کا اعزاز ہے ، مہر نہ تو عورت کی قیمت ہے اورنہ صرف ایک رسمی اور فرضی کارروائی کا نام ہے ، اسلام مہر کو لازم کرتا ہے ، مگر اسے نکاح کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیتا۔ اس لیے اس کی زیادہ سے زیادہ مقدار کی کوئی تحدید وتعیین نہیں کی گئی ہے ، اسلام نے مہر کی کوئی ایسی آخری حد متعین نہیں کی ہے جس کے بعد اجازت نہ رہے، لیکن احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مہر کا اتنا رہنا مطلوبِ شرعی ہے جو بآسانی ادا ہو سکے۔
حضرت عمر رضی الله عنہ نے ایک موقع پر اپنے اجتہاد سے مہر کی تحدید کرنی چاہی اور چار سو درہم سے زیادہ مہرمتعین کرنے پر روک لگا دی اور یہ فرمایا کہ اس سے زیادہ مہر نہ باندھا جائے ، اگر مہر کی زیادتی باعث اعزاز دینی ودنیوی ہوتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم ایسا ضرور کرتے ، مگر آپ صلی الله علیہ وسلم کاعمل یہ رہا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بالعموم اپنی بیویوں اور صاحب زادیوں کا مہر بارہ اوقیہ چاندی سے زیادہ نہیں رکھا، اب چارسو درہم سے زیادہ جو مہر رکھے گا وہ زائد رقم بیت المال میں جمع کرے گا۔۔۔۔
اس پر قریش کی ایک خاتون نے اعتراض کیا اور کہا : اے عمر ! اس تحدید کا تمہیں کس نے اختیار دیا ہے؟
قرآن تو اس طرح کی حدبندی نہیں کرتا۔ قرآن میں تو آیا ہے:
واٰتیتم احداھن فنطاراً فلا تاخذوا منہ شیئاً
تم نے اسے ڈھیر سا مال بھی دیا ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لینا۔
”قنطار“(خزانہ او رمال کثیر) کا لفظ مہر کی کثرت بتارہا ہے ، پھر تم کیسے حدبندی کرسکتے ہو؟
اس پر حضرت عمر رضی الله عنہ نے برملا اعتراف کیا کہ عورت نے درست کہا او رمرد نے غلطی کی، خدایا! مجھے معاف رکھیے۔۔۔۔ ہر آدمی عمر سے زیادہ سمجھ دار ہے
پھر فرمایا: اے لوگو! میں نے چار سو درہم سے زیادہ مہر رکھنے سے روکا تھا، مگر اب میں کہتا ہوں کہ جو شخص اپنے مال میں کم وبیش جتنا چاہے مہر رکھ سکتا ہے۔
(مجمع الزوائد:283/4 ، الفقہ الاسلامی للزحیلی256,255/7)
اس لیے یہ بات بالکل واضح ہے کہ مہر کی آخری کوئی حد اسلام نہیں مقرر کرتا، تاہم اسلام یہ مزاج بنانا چاہتا ہے کہ مہر کی تعیین انسان اپنی ادائیگی کی وسعت وطاقت کے تناسب سے کرے۔ اس سلسلہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا انتہائی صریح، زریں اورپورے معاملہٴ نکاح میں حرزجاں بنانے کے قابل ارشاد یہ ہے:
”ان اعظم النکاح برکة أیسرہ مؤنة“․
(نیل الاوطار:168/6)
ترجمہ: سب سے بابرکت نکاح بلاشبہ وہ ہے ،جس میں مشکلات ومصارف کم سے کم اور آسانیاں زیادہ سے زیادہ ہوں۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی الله عنہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:
”خیر الصداق أیسرہ․“
( مستدرک حاکم:182/6)
اس طرح ارشاد نبوی ہے:
”ان اعظم النساء برکة ایسرھن صداقاً“․
( ایضاً)
ترجمہ: سب سے بابرکت خاتون وہ ہے ( جس کا مہر ادا کرنے کے اعتبار سے) آسان(اورکم) ہو۔
مہر کو زیادہ نہ رکھنے کی تعلیم کا مقصود صرف یہ ہے کہ نوجوان بآسانی نکاح کے بندھن میں بندھ سکیں اور بے نکاح رہنے کی وجہ سے جو بے شمار اور لاینحل معاشرتی او راخلاقی مفاسد درآتے ہیں، ان سے بچاؤ ہو سکے۔
والله اعلم
نکاح میں مہر کا رکھنا ضروری ہے، نکاح کے وقت اگر مہر مقرّر نہیں کیا گیا تو ”مہرِ مثل“ لازم ہوگا، اور ”مہرِ مثل“ سے مراد یہ ہے کہ اس خاندان کی لڑکیوں کا جتنا مہر رکھا جاتا ہے، اتنا لازم ہے۔ مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم یعنی دو تولے ساڑھے سات ماشے چاندی ہے۔ نکاح کے دن بازار میں اتنی چاندی کی جتنی قیمت ہو، اس سے کم مہر رکھنا جائز نہیں، اور زیادہ مہر کی کوئی حد مقرّر نہیں کی گئی، فریقین کی باہمی رضامندی سے جس قدر مہر رکھا جائے جائز ہے۔ لیکن مہر لڑکی اور لڑکے کی حیثیت کے مطابق رکھنا چاہئے تاکہ لڑکا اسے بہ سہولت ادا کرسکے۔
مہر وہی دینا ہوگا جو طے ہوا، مرد کی نیت کا اعتبار نہیں
وقت میں برکت کا نایاب نسخہ ۔
وقت میں برکت کیسے ہو؟
حالیہ اشاعتیں
آیت الحجاب
آیۃ الحجاب سورۂ احزاب کی آیت نمبر 53 آیتِ حجاب کہلاتی ہے۔ اس کا آغاز ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النّ...
پسندیدہ تحریریں
-
اَعُوْذُ ۔ بِاللهِ ۔ ُ مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔ الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ ...
-
سورة مائدہ وجہ تسمیہ سورة مائدہ إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَن يُنَزِّلَ عَلَيْنَا ...
-
يَا۔۔۔۔۔۔ بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔ اذْكُرُوا ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ الَّتِي اے ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یا...
-
🌼🌺. سورۃ البقرہ 🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گا...