نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*استغفار*

*استغفار کے فوائدقرآن وسنت کی روشنی میں*

استغفار کے بہت سے فوائد ہیں جنمیں سے چند درج ذیل ہیں
🌟
١۔ استغفار گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے 
ارشاد باری تعالی ہے۔۔۔

وَمَن یَعْمَلْ سُوء اً أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّہَ یَجِدِ اللّہَ غَفُوراً رَّحِیْما
''جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو وہ اللہ کو بخشنے والا'مہربانی کرنے والا پائے گا''
(سورئہ نساء:١١٠)
🌟
٢۔ استغفار گناہوں کے مٹانے اوردرجات کی بلندی کا ذریعہ ہے
 'رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
''اللہ تعالی جب جنت میں نیک بندے کے درجہ کو بلند فرمائے گا تو بندہ عرض کرے گا :پروردگار یہ مرتبہ مجھے کیسے ملا؟اللہ تعالی فرمائے گاتیرے لئے تمہارے بچوں کے استغفار کے سبب 
''(مسند احمد'شعیب ارنؤوط نے اس کی سند کو حسن قراردیا ہے )
🌟
٣۔ استغفار بارش کے نزول 'مال واولادکی ترقی اور دخول حنت کا سبب ہے۔
  ارشاد باری تعالی ہے 

فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ اِنَّہُ کَانَ غَفَّاراً ' یُرْسِلِ السَّمَاء عَلَیْْکُمْ مِّدْرَاراً ' وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَل لَّکُمْ جَنَّاتٍ وَّیَجْعَل لَّکُمْ أَنْہَاراً
''اور میں(نوح علیہ السلام) نے کہا کہ اپنے رب سے اپنے گناہ بخشواؤ(اور معافی مانگو)وہ یقینا بڑا بخشنے والا ہے 'وہ تم پرآسمان کو خوب برستا ہوا چھوڑدے گا'اور تمہیں خوب پے درپے مال اور اولاد میں ترقی دے گا'اور تمہیں باغات دے گا اور تمہارے لئے نہریں نکال دے گا
''(سورئہ نوح:١٠۔١٢)
🌟
٤۔ استغفار ہر طرح کی طاقت وقوت کی زیادتی کا ذریعہ ہے ۔
:ارشاد باری تعالی ہے

وَیَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوْا ِلَیْْہِ یُرْسِلِ السَّمَاء َ عَلَیْْکُم مِّدْرَاراً وَیَزِدْکُمْ قُوَّةًالَی قُوَّتِکُمْ وَلاَ تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْن
''اے میری قوم کے لوگو!تم اپنے پالنے والے سے اپنی تقصیروں کی معافی طلب کرو اور اس کی جناب میں توبہ کرو'تاکہ وہ برسنے والے بادل تم پر بھیج دے اور تمہاری طاقت پراور طاقت وقوت بڑھادے اور تم جرم کرتے ہوئے روگردانی نہ کرو''
(سورئہ ہود:٥٢)
🌟
٥۔ استغفار سامانِ زندگی کا سبب ہے 
ارشاد باری تعالی ہے

وَأَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُواْ ِلَیْْہِ یُمَتِّعْکُم مَّتَاعاً حَسَناً ِالَی أَجَلٍ مُّسَمًّی وَّیُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہُ
اور یہ کہ تم لوگ اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤپھر اسی کی طرف متوجہ رہو وہ تم کو وقت مقرر تک اچھا سامان (زندگی)دے گا اور ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب دے گا''
(سورئہ ہود:٣)
🌟
٦۔ استغفار بندے کے دنیاوی واخروی عذاب سے بچاؤ کا ذریعہ ہے 
ارشاد باری تعالی ہے
وَمَا کَانَ اللّہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَأَنتَ فِیْہِمْ وَمَا کَانَ اللّہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ یَسْتَغْفِرُون
''اور اللہ تعالی ایسا نہ کرے گاکہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گااس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں''
(سورئہ انفال:٣٣)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
''بندہ عذاب الہی سے محفوظ رہتا ہے جب تک وہ استغفار کرتارہتا ہے ''
(مسند احمد'شعیب ارنؤوط نے اس حدیث کو حسن قراردیا ہے )۔
🌟
٧۔ استغفار نزولِ رحمت کا سبب ہے 
ارشاد باری تعالی ہے
قَالَ یَا قَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُوْنَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُون
''آپ نے فرمایا اے میری قوم کے لوگو!تم نیکی سے پہلے برائی کی جلدی کیوں مچارہے ہو؟ تم اللہ تعالی سے استغفار کیوں نہیں کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے ''
(سورئہ نمل:٤٦)
🌟
٨۔  استغفاردلوں کی صفائی کا ذریعہ ہے 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:'
'کہ مومن بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے اگر وہ گناہ چھوڑکر توبہ واستغفار کر لیتا ہے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگرگناہ پرگناہ کئے جاتا ہے تو وہ سیاہی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے پورے دل پر چھاجاتی ہے یہی وہ ''رین ''ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے
 کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوا یَکْسِبُونَ
یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ چڑھ گیا ہے
''(مسند احمد'شعیب ارنؤوط نے اس کی سند کوقوی قراردیا ہے )۔
🌟
٩۔ *استغفار قربت ِالہی کا سبب ہے*
ارشاد باری تعالی ہے

 ہُوَ أَنشَأَکُمْ مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَکُمْ فِیْہَا فَاسْتَغْفِرُوْہُ ثُمَّ تُوبُوْا ِلَیْْہِ اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْب مُّجِیْب

''اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی نے اس زمین میں تمہیں بسایا ہے پس تم اس سے معافی طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو بیشک میرا رب قریب اور دعاؤں کاقبول کرنے والا ہے''
 (سورئہ ہود:٦١)۔
🌟
١٠۔ استغفار اللہ کی محبت اور اس کے لطف وکرم کا سبب ہے 
ارشاد باری تعالی ہے 
وَاسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوْا ِلَیْْہِ اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْم وَدُود
تم اپنے رب سے استغفار کرو اور اس کی طرف توبہ کرو یقین مانو کہ میرا رب بڑی مہربانی والا اور بہت محبت کرنے والا ہے''
(سورئہ ہود:٩٠)
🌟
١١۔ استغفار بعض گناہ کبیرہ کی بخشش کا ذریعہ ہے 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
کہ جس نے کہا:
'' أَسْتَغْفِرُ اللّہَ الّذِیْ لَا الَہَ الَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَأَتُوْبُ اِلَیْہِ'' 
تو اللہ تعالی اس کے گناہ کو معاف فرمادے گااگرچہ وہ میدانِ جنگ سے بھاگا ہو
''(سنن ابوداود' علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے )۔
🌟
١٢۔ استغفارقبر میں میت کی ثابت قدمی کا باعث ہے 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو اس کے پاس ٹھہر کر فرماتے :
''اپنے بھائی کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کرواور اس کے ثابت قدمی کی دعا کروکیوں کہ اس وقت اس سے سوال کیا جائے گا''
(سنن ابوداود 'علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے )۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...