حضرت ابراھیم علیہ السلام اور نمردو ۔ آیہ 258 سورة بقرہ

حضرت ابراھیم اور نمرود 

أَلَمْ تَرَ ۔۔۔ إِلَى ۔۔۔ الَّذِي ۔۔۔  حَاجَّ ۔۔۔ إِبْرَاهِيمَ ۔۔  فِي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   رَبِّهِ 
کیا تو نے نہ دیکھا ۔۔ طرف ۔۔ وہ ۔۔ جھگڑا کیا ۔۔ ابراھیم ۔۔ میں ۔۔۔ اس کا رب 
أَنْ ۔۔۔۔۔۔  آتَاهُ ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ الْمُلْكَ ۔۔۔  إِذْ ۔۔۔ قَالَ ۔۔۔ إِبْرَاهِيمُ 
یہ ۔۔۔ اس نے دی اسے ۔۔۔ بادشاہی ۔۔ جب ۔۔ کہا ۔۔ ابراھیم 
رَبِّيَ ۔۔۔ الَّذِي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   يُحْيِي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَيُمِيتُ ۔۔۔ قَالَ ۔۔۔ أَنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  أُحْيِي 
میرا رب ۔۔ وہ ۔۔ وہ زندہ کرتا ہے ۔۔۔ اور وہ مارتا ہے ۔۔ کہا ۔۔ میں ۔۔ زندہ کرتا ہوں 
وَأُمِيتُ ۔۔۔ قَالَ ۔۔۔ إِبْرَاهِيمُ ۔۔۔۔۔۔۔  فَإِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔  يَأْتِي ۔۔۔ بِالشَّمْسِ 
اور میں مارتا ہوں ۔۔ کہا ۔۔ ابراھیم ۔۔ پس بے شک ۔۔ الله ۔۔ وہ لاتا ہے ۔۔ سورج کو 
مِنَ ۔۔۔ الْمَشْرِقِ ۔۔۔ فَأْتِ ۔۔۔۔۔۔۔   بِهَا ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔ الْمَغْرِبِ 
سے ۔۔ مشرق ۔۔ پس تو لا ۔۔۔ اس کو ۔۔ سے ۔۔ مغرب 
فَبُهِتَ ۔۔۔ الَّذِي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   كَفَرَ 
حیران رہ گیا ۔۔ وہ ۔۔ جس نے کفر کیا 
 وَاللَّهُ ۔۔۔ لَا يَهْدِي ۔۔۔  الْقَوْمَ ۔۔۔ الظَّالِمِينَ  2️⃣5️⃣8️⃣
اور الله ۔۔ نہیں ھدایت دیتا ۔۔ قوم ۔۔ بے انصاف 

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ.   2️⃣5️⃣8️⃣

کیا تو نے اس شخص کو نہ دیکھا جس نے ابراھیم سے اس کے رب کی بابت جھگڑا کیا اس وجہ سے کہ الله تعالی نے اسے سلطنت دی تھی جب ابراھیم نے کہا میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے وہ بولا میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں  ابراھیم نے کہا بے شک الله تعالی سورج کو مشرق سے لاتا ہے اب تو اسے مغرب سے لے آ  تب وہ کافر حیران رہ گیا  اور الله بے انصافوں کو راہ نہیں دکھاتا ۔

اَلّذی حَاجَّ ( جس نے جھگڑا کیا ) حضرت ابراھیم علیہ السلام سے بحث کرنے والا شخص آپ کے زمانے کا بادشاہ تھا ۔ مفسروں نے نمرود کا نام لیا ہے ۔ اس سے پہلی آیت میں ایمانداروں اور کافروں کا ذکر تھا اور نور کی روشنی اور کفر کی تاریکی کا بیان تھا اب اس آیت کی تائید میں چند مثالیں بیان کی گئی ہیں ۔ 
پہلی مثال میں نمرود بادشاہ کا ذکر ہے وہ سلطنت کے غرور سے اپنے آپ کو سجدہ کرواتا تھا۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام اس کے سامنے آئے تو اسے سجدہ نہ کیا ۔ نمرود نے وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ میں اپنے رب کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتا ۔ 
اس نے کہا ربّ تو میں ہوں ۔ 
حضرت ابراھیم نے جواب دیا ۔۔ رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے ۔ 
حضرت ابراھیم کی اس دلیل کے جواب میں نمرود نے دو قیدی منگوائے ۔ ان میں سے جو بے قصور تھا اسے مار ڈالا اور قصور وار کو چھوڑ دیا ۔ اور کہا آپ نے دیکھا میں جس کو چاہوں مارتا ہوں اور جسے چاہوں موت سے بچاتا ہوں ۔ 
اگرچہ نمرود بادشاہ حضرت ابراھیم کے چیلنج کا صحیح جواب نہ دے سکا تھا ۔ آپ نے سوچا نمرود میری دلیل کو نہیں سمجھا ۔ اس لیے آپ نے سورج کی دلیل پیش کی اور فرمایا میرا رب سورج کو مشرق سے چڑھاتا ہے تو مغرب سے چڑھا کر دکھا ۔اس پر وہ مغرور اور احمق لاجواب ہوگیا ۔ اور اس سے کچھ بن نہ پڑا ۔ لیکن اس کے باوجود نمرود ایمان نہ لایا ۔ واقعی بے انصافوں کو ھدایت کی راہ نہیں ملتی ۔ 

درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

ھدایت اور گمراہی ۔ آیة 256-257 سورة بقرہ

ھدایت اور گمراہی

فَمَن ۔۔۔ يَكْفُرْ ۔۔۔۔۔۔  بِالطَّاغُوتِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَيُؤْمِن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   بِاللَّهِ 
پس جو ۔۔ انکار کرتا ہے ۔۔ طاغوت کا ۔۔۔ اور ایمان رکھتا ہے ۔۔۔ الله تعالی پر 
فَقَدِ اسْتَمْسَكَ ۔۔۔۔ بِالْعُرْوَةِ ۔۔۔ الْوُثْقَى ۔۔۔ لَا انفِصَامَ ۔۔۔۔۔۔۔ لَهَا
پس تحقیق پکڑ لیا اس نے۔۔۔ حلقہ ۔۔۔ مضبوط ۔۔۔ نہیں ٹوٹنا ۔۔۔ اس کا 
وَاللَّهُ ۔۔۔ سَمِيعٌ ۔۔۔۔عَلِيمٌ 2️⃣5️⃣6️⃣
اور الله ۔۔۔ سننے والا ۔۔ جاننے والا 

اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔  وَلِيُّ ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔   يُخْرِجُهُم ۔۔۔۔۔۔۔۔   مِّنَ ۔۔ الظُّلُمَاتِ
الله ۔۔۔ دوست ۔۔ وہ لوگ ۔۔ ایمان لائے ۔۔۔ وہ نکالتا ہے ان کو ۔۔ سے ۔۔ اندھیرے 
 إِلَى ۔۔۔ النُّورِ ۔۔۔ وَالَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ كَفَرُوا ۔۔۔ أَوْلِيَاؤُهُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  الطَّاغُوتُ 
طرف ۔۔۔ نور ۔۔ اور وہ لوگ ۔۔ کفر کیا ۔۔ دوست ہیں ان کے ۔۔۔ طاغوت 
يُخْرِجُونَهُم ۔۔۔ مِّنَ ۔۔۔ النُّورِ ۔۔۔ إِلَى  ۔۔۔ الظُّلُمَاتِ ۔۔۔ أُولَئِكَ ۔۔۔ أَصْحَابُ۔۔۔ النَّارِ 
وہ نکالتے ہیں ان کو ۔۔۔ سے ۔۔ نور ۔۔ طرف ۔۔ اندھیرے ۔۔۔۔۔۔  یہی ۔۔۔ صاحب ۔۔ آگ 
هُمْ ۔۔۔ فِيهَا ۔۔۔ خَالِدُونَ 2️⃣5️⃣7️⃣
وہ ۔۔ اس میں ۔۔ ہمیشہ رہنے والے ہیں 

فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ 2️⃣5️⃣6️⃣

جو گمراہ کرنے والوں کو نہ مانے اور الله تعالی پر ایمان لائے تو اس نے مضبوط حلقہ پکڑ لیا جو ٹوٹنے والا نہیں۔ اور الله  سب سنتا اور جانتا ہے 

اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ 2️⃣5️⃣7️⃣

الله سبحانہ و تعالی ایمان والوں کا مدد گار ہے انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے  اور جو لوگ کافر ہوئے ان کے رفیق شیطان ہیں انہیں روشنی سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں  یہی لوگ دوزخ میں رہنے والے ہیں وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے ۔ 

اَلطّاغُوت ( سرکش ، گمراہ کرنے والا ) ۔ طغٰی اس کا مادہ ہے ۔ طاغی اور طغیان بھی اسی سے نکلے ہیں ۔ الطاغوت سے مراد وہ ہستی ہے جو باختیار ہو ۔ خود بھی گمراہ ہو اور دوسروں کو گمراہ کرنے کا سبب ہو ۔ 
وَلِیّ ( مددگار ، دوست ) ۔ اس کی جمع اولیاء ہے ۔ یہ لفظ رفیق ، سرپرست ، کارساز اور دوست کے معنٰی میں استعمال ہوا ہے ۔ 
اَلظُّلُمٰت ( اندھیرے ) ۔ اس کا واحد ظلمت ہے ۔ روشنی اور نور ایک ہی ہو سکتا ہے ۔ لیکن تاریکیاں کئی قسم کی ہو سکتی ہیں ۔ یہاں کفر ، شرک ، بے ایمانی اور گمراہی کی تاریکیاں مراد ہیں ۔ 

الله تعالی نے واضح لفظوں میں فرما دیا کہ جو کوئی ھدایت اختیار کرے گا وہ گویا نور میں پہنچ جائے گا ۔ الله اس کا رفیق و کارساز ہو گا ۔ 
جو کوئی کفر اور سرکشی اختیار کرے گا گویا وہ اندھیروں اور تاریکیوں میں گرفتار ہو جائے گا ۔ سرکش اور گمراہ اس کے ساتھی ہوں گے اور جہنم اس کا ٹھکانہ ہو گا ۔ 
جب ھدایت اور گمراہی میں تمیز ہو گئی تو اب جو کوئی گمراہی کو چھوڑ کر ھدایت کو منظور کرے گا تو اس نے ایسی مضبوط چیز کو پکڑ لیا جس کے ٹوٹنے اور چھوٹ جانے کا کوئی ڈر نہیں ہے ۔ الله تعالی انسان کی باتوں کو خوب سنتا ہے ۔ اس کے دل کے حال اور نیت سے بھی خوب واقف ہے ۔ اس سے کسی کی خیانت اور برا ارادہ چھپا نہیں رہ سکتا ۔ یعنی وہ انسان کے ظاہر و باطن سے خوب آگاہی رکھتا ہے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تفسیر عثمانی

دین میں جبر نہیں ۔ آیة 256 (ا)

دین میں جبر نہیں

لَا إِكْرَاهَ ۔۔ فِي ۔۔ الدِّينِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قَد تَّبَيَّنَ ۔۔۔ الرُّشْدُ۔۔۔  مِنَ ۔۔۔ الْغَيِّ
نہیں جبر ۔۔ میں ۔۔ دین ۔۔ بے شک واضح ہو چکی ۔۔ ھدایت ۔۔ سے ۔۔ گمراہی 

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ

دین میں کوئی جبر نہیں  بے شک ھدایت گمراہی سے جدا ہو چکی ہے 

لَا اِکْرَاہَ ( کرہٌ سے یہ لفظ بنا ہے ۔ کراہیت بھی اسی سے ہے ۔ ایسا کام جو اپنی مرضی سے نہ کیا جائے  بلکہ اس میں زبردستی اور جبر کو دخل ہو ۔ اسے جبر و کراہ کہا جاتا ہے ۔ 
اَلدّین ۔ ( مذھب ) ۔ لفظ دین دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے
۱-جزا و سزا یعنی بدلہ 
۲- طریق فکر و عمل ( یعنی طریقِ زندگی ) 
یہاں انہی دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ 
اَلرّشد ( ھدایت ) راشد اس کا اسم فاعل ہے ۔ جس کے معنی ھدایت یافتہ کے ہیں ۔ یہاں لفظ رشد سے ھدایت کے عام معنوں کے علاوہ خود اسلام کے معنی بھی مراد لیے جاسکتے ہیں ۔ 
اَلْغَیّ ( گمراہی ) ۔ غ ۔ و ۔ ی ۔ اس کا مادہ ہے ۔ جس کے معنی بہکانے اور گمراہ کرنے کے ہوتے ہیں ۔ یہاں " الغی " سے کفر و شرک کی گمراہی مراد ہے ۔ اغوا ۔ بہکانا " اسی سے بنا ہے ۔ 
اس آیت سے اسلام کی مذہبی آزادی واضح ہوتی ہے ۔ اسلام ہر شخص کو مذہب کے بارے میں اختیار عطا کرتا ہے ۔ اسلام قبول کرنے کے لیے کسی کو مجبور نہیں کرتا ۔ اپنے ماننے والوں پر تبلیغ کو فرض قرار دیتا ہے ۔ لیکن اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی کو زبردستی اسلام میں داخل کریں اور اسلام قبول کرنے پر مجبور کریں ۔ 
اسلام کی مکمل تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ مسلمانوں نے کبھی اپنے ہمسائیوں بلکہ محکوم رعایا کو بھی اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا ۔ اگر ایسا ہوتا تو ہندوستان  و پاکستان میں مسجدوں کے ساتھ ساتھ مندر بھی موجود نہ ہوتے ۔ مسلمانوں کے دارالخلافوں میں شاہی قلعوں کے ساتھ مندر ، گوردوارے اور غیر مسلموں کے عبادت خانے نہ ہوتے ۔ 
ایک بات خوب سمجھ لینی چاہیے ۔ کہ اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ ایک شخص اسلام قبول کرنے کے بعد آزاد ہے کہ اسلام کی جس بات کو چاہے مانے اور جس کو نہ چاہے نہ مانے ۔ 
جب ایک بار مذہب اسلام قبول کر لیا تو اس کے سب احکام کو ماننا ہوگا ۔ اب آزادی اور اختیار کا سوال نہیں رہتا ۔ آزادی صرف مذھب کے قبول کرنے یا نہ کرنے میں ہے  عمل میں نہیں ۔ 
اگر خدانخواستہ ایسا ہوجائے تو مذھب کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی ۔ 
جب دلائل توحید خوب کھول کر اور واضح کرکے بتا دئیے جس سے کافر کا کفر پر قائم رہنے کا کوئی عذر باقی نہیں رہا تو اب زبردستی مسلمان بنانے کی ضرورت ہی نہیں ۔ عقل والوں کو خود سمجھ لینا چاہیے ۔ اور نہ ہی شریعت کا حکم ہے کہ لوگوں کو زبردستی اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور کیا جائے ۔ مسلمان ریاست میں جو جزیہ کو قبول کرے گا اُس کا جان ومال محفوظ ہو جائیگا ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تفسیر عثمانی 

آیة الکرسی ۔ متعلق آیة 257 سورة بقرہ

آیة الکرسی
الله سبحانہ و تعالی نے اپنے کلام میں تین قسم کے مضامین کو بار بار ذکر فرمایا ہے ۔ 

1. علم توحید و صفات 

2. علم احکام 

3. علم قصص و حکایات 

اور یہ تمام مضامین  ایک دوسرے سے اس طرح باہم مربوط اور جُڑے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے کی تائید ، وضاحت و ثبات کی وجہ ہیں ۔ الله سبحانہ و تعالی کی صفات  احکام شریعت کے لئے اصل اور بنیاد ہیں تو احکام  علم صفات و توحید  ہی کا ثمرہ اور شاخ ہیں ۔ اسی طرح علم قصص اور علم احکام سے علم توحید و صفات کو ثبات اور قوت میسر ہوتی ہے تو علم توحید و صفات سے  علم احکام اور قصص کا مقصد ،  وضاحت اور  صداقت ظاہر ہوتی ہے ۔ غرض یہ کہ یہ تینوں مضامین ایک  دوسرے کے لیے علّت و  علامت اور لازم و ملزوم ہیں ۔ 
ان تینوں مضامین سے حقیقت ، مقصد و منشاء اور نتائج  و فوائد سب کا علم ہو جاتا ہے ۔  ان مضامین کو سمجھنا آسان اور پُر شوق ہوجاتا ہے ۔ عمل کرنے میں لطف ، رغبت اور بصیرت حاصل ہوتی ہے ۔ 
قرآن مجید میں ان تینوں مضامین کا بیان بکثرت اور ایک دوسرے سے متصل ہوا ہے ۔ سورۃ بقرہ پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے احکام کو خوب واضح اور کھول کر بیان کیا گیا ۔ پھر ضرورت کے مطابق قصص بیان کیے گئے جس سے ان احکام کے فائدے اور نتائج ہماری نگاہوں کے سامنے آگئے ۔ پھر آیت الکرسی جو  توحید وصفات کے لحاظ سے قرآن مجید کی سب سے عظیم آیت ہے کو بیان فرمایا ۔ تاکہ تمام احکام کی جڑ ہمارے دلوں میں ایسی مضبوطی سے جم جائے  کہ کفر و شرک کی آندھیاں بھی اس کو اپنی جگہ سے ہلا نہ پائیں ۔ 
آیت الکرسی میں الله تعالی کی وحدانیت ، قدرت اور عظمت کا بیان ہے کہ الله تعالی ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا ۔ اسے کبھی فنا نہیں ۔ صرف وہی ہے جو عبادت کے لائق ہے ۔ وہ ایسی صفتوں کا مالک ہے کہ اس کے علاوہ کسی کو وہ صفات میسر نہیں ۔ وہ تمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا ، سب کا پالنے والا اور تمام کی ضروریات کو پورا کرنے والا ہے ۔ اور ان تمام کاموں کے کرنے میں اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اسے کسی مددگار کی ضرورت نہیں ۔ وہ اکیلا ہی یہ سارے کام انجام دیتا ہے ۔ اور وہ ان پر پوری طرح حاوی ہے ۔ کوئی بھی چیز اس کے قبضۂ قدرت سے باہر نہیں ۔ وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا ۔ اس کی ذات سے ہی سب زندہ ہیں ۔ وہ ہمیشہ سے قائم ہے اور دوسروں کے قائم رہنے کا سبب ہے ۔ اسے کبھی تھکان نہیں ہوتی ۔ ساری کائنات کے اس قدر وسیع انتظام کے باوجود بھی اسے نہ آرام کی ضرورت پڑتی ہے نہ اسے کبھی اونگھ آتی ہے اور نہ نیند ۔ وہ ہمہ وقت بیدار اور ہوشیار ہے ۔ 
اس کا حلقۂ اختیار تنگ یا محدود نہیں بلکہ ساری کائنات اور زمین و آسمان پر محیط ہے ۔ سب کچھ اسی کے لیے ہے ۔ اور اسے ہر چیز پر غلبہ اور اختیار حاصل ہے ۔ تمام چیزیں اس کے حکم سے بندھی ہوئی ہیں ۔ اور وہ جس طرح چاہے ان سے کام لیتا ہے ۔ 
اس قدر علم و قدرت اور عظمت کا مالک ہونے کی حیثیت سے الله تعالی کے پاس کسی کو سفارش کرنے کی جرأت نہیں ہو سکتی ۔ ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے ۔ درویش ہو یا دنیا دار ، امیر ہو یا غریب ، بڑا ہو یا چھوٹا اپنے کیے کا پھل خود حاصل کرے گا ۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں بانٹ سکے گا ۔ البتہ الله تعالی کسی کو اجازت دے تو وہ اس کے دربار میں  کچھ عرض کر سکتا ہے ۔
 وہ ہر شخص کے دل کی باتیں جانتا ہے ۔ وہ ہر کسی کے ارادوں اور نیتوں سے واقف ہے ۔ وہ ہر مخلوق کی نیکی اور بدی کا حساب رکھتا ہے ۔ اور یہ اس کے لیے بالکل آسان ہے ۔ 
کسی کو اتنی طاقت نہیں۔ کہ وہ اس کے علم کا کچھ حصہ اس کی اجازت کے بغیر پا سکے ۔ بلکہ جس قدر بھی علم کسی کو حاصل ہے وہ الله تعالی کے رحم و کرم کا نتیجہ ہے ۔ اس کی کرسی علم اور کرسی حکومت کل کائنات کا احاطہ کئے ہوے ہے ۔ بڑی چھوٹی ، اچھی بُری ظاہر پوشیدہ ہر چیز اس پر روشن ہے ۔ وہ اتنے وسیع سلسلہ کی نگرانی کرنے سے تھک نہیں جاتا ۔ اس کے لیے یہ سب انتظام آسان ہے ۔ وہ ہر عیب سے پاک ہے ۔ تمام صفتوں اور خوبیوں کا مالک ہے ۔ اس کے مرتبہ کی کوئی انتہا نہیں ۔ 
مختصر یہ کہ آیت الکرسی میں الله تعالی کی مندرجہ ذیل صفات بیان کی گئی ہیں ۔ 
1. وہ الحی ( زندہ ) ہے ۔ 
2. القیوم ( خود قائم رہنے والا اور دوسروں کو قائم رکھنے اور کائنات کو تھامنے والا ہے ) 
3. اسے نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ 
4. زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اسی کا ہے اور اسی کے لئے ہے ۔ 
5. اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے سامنے سفارش نہیں کرسکتا 
6. وہ ہر کسی کے تمام حالات سے باخبر ہے ۔ 
7. کوئی اس کے علم و اقتدار میں سے کچھ چھین نہیں سکتا ۔ 
8. زمین و آسمان۔ اور ساری کائنات کی حفاظت اس کے لیے آسان ہے ۔ 
9. بلندی اور عظمت اسی کے لیے ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

 تفسیر عثمانی

آیة الکرسی ۔ آیت -255

آیت الکرسی

اللَّهُ ۔۔ لَا ۔۔ إِلَهَ ۔۔۔۔۔ إِلَّا ۔۔ هُوَ ۔۔۔۔۔۔ الْحَيُّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   الْقَيُّومُ 
الله ۔۔۔ نہیں ۔۔ معبود ۔۔ مگر ۔۔ وہ ۔۔ زندہ ۔۔ ہمیشہ قائم رہنے والا 
لَا تَأْخُذُهُ ۔۔ سِنَةٌ ۔۔۔۔۔۔۔ وَلَا نَوْمٌ ۔۔۔ لَّهُ ۔۔ مَا ۔۔ فِي ۔۔۔ السَّمَاوَاتِ 
نہیں پکڑ سکتی اس کو ۔۔ اونگھ ۔۔ اور نہ نیند ۔۔ اس کے لئے ۔۔ جو ۔۔ آسمانوں 
وَمَا ۔۔ فِي ۔۔۔ الْأَرْضِ ۔۔۔ مَن ۔۔ ذَا الَّذِي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  يَشْفَعُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ عِندَهُ 
اور جو ۔۔ میں ۔۔ زمین ۔۔ کون ۔۔ وہ جو ۔۔ سفارش کرے ۔۔ اس کے پاس 
إِلَّا ۔۔۔۔۔۔۔  بِإِذْنِهِ ۔۔۔۔۔۔۔ يَعْلَمُ ۔۔۔۔۔۔  مَا ۔۔ بَيْنَ  أَيْدِيهِمْ ۔۔۔۔۔۔۔  وَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   خَلْفَهُمْ 
مگر ۔۔ اس کے حکم سے ۔۔ وہ جانتا ہے ۔۔ جو ۔۔ ان کے سامنے ۔۔ اور جو ۔۔ ان کے پیچھے 
وَلَا يُحِيطُونَ ۔۔۔  بِشَيْءٍ ۔۔۔ مِّنْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    عِلْمِهِ ۔۔۔ إِلَّا ۔۔۔ بِمَا ۔۔۔ شَاءَ 
اور نہیں وہ احاطہ کرتے ۔۔ کوئی چیز ۔۔ سے ۔۔ اس کا علم ۔۔ مگر ۔۔ جو ۔۔ وہ چاہے 
وَسِعَ ۔۔۔ كُرْسِيُّهُ ۔۔۔۔۔۔  السَّمَاوَاتِ ۔۔۔ وَالْأَرْضَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَلَا يَئُودُهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   حِفْظُهُمَا 
چھا گیا ۔۔ اس کی کرسی ۔۔ آسمانوں ۔۔ اور زمین ۔۔ اور تھکا سکتی اس کو ۔۔ حفاظت ان دونوں کی 
وَهُوَ ۔۔۔ الْعَلِيُّ ۔۔۔۔الْعَظِيمُ
اور وہ ۔۔ برتر ۔۔ عظمت والا  2️⃣5️⃣5️⃣

اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ.  2️⃣5️⃣5️⃣

الله کے سوا کوئی معبود نہیں زندہ ہے سب کا تھامنے والا اس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ۔ کون ہے جو اس کے پاس سفارش کرے اس کی اجازت کے بغیر  جانتا ہے جو کچھ ان کے روبرو اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے  اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا کہ وہ چاہے  اس کی کرسی میں تمام آسمانوں اور زمین کو گنجائش ہے  اور ان کا تھامنا اس کو گراں نہیں اور وہی سب سے برتر عظمت والا ہے ۔ 

اَلْحَیُّ ( زندہ ) ۔ مراد ہے کہ الله تعالی ازل سے ابد تک ہے ۔ زندگی کی صفت اس کی ذاتی صفت ہے ۔ نہ کبھی پہلے اس پر موت طاری ہوئی اور نہ آئندہ کبھی ہو گی ۔ 
اَلْقَیُّومُ ( تھامنے والا ) ۔ یعنی ایسی ہستی جو نہ صرف اپنی ذات سے قائم ہے بلکہ دوسروں کے قیام اور بقا کا سبب بھی ہے ۔ اور سب کو سنبھالے ہوئے ہے ۔ 
کُرْسِیُّ ( کرسی ) ۔ اس سے یہ مراد نہ لینا چاہئیے کہ نعوذ بالله الله تعالی کوئی جسم رکھتا ہے ۔ اور وہ کرسی نشین ہے ۔ کرسی کے معنیٰ علم کے لیے گئے ہیں ۔ اور قدرت اور طاقت کے بھی ۔ یعنی الله تعالی کا علم اور قدرت ساری کائنات پر غالب ہے ۔ 
یَشْفَعُ عِنْدَہُ ( اس کے پاس سفارش کرے ) ۔ شفاعت کے معنیٰ سفارش کے ہیں ۔ اور شافع سفارش کرنے والے والے کو کہتے ہیں ۔ قرآن مجید میں کئی بار اس حقیقت کو دہرایا گیا ہے کہ الله تعالی کے حضور کسی کو اس کی اجازت کے بغیر سفارش کی ہمت نہ ہو گی ۔ اور جو شفارش کرے گا بھی  وہ حق وصداقت کے خلاف نہ کرے گا ۔ اس ایک جملہ نے سابقہ امتوں کے غلط عقیدے کی تردید کردی ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

الله کی راہ میں خرچ کرنا ۔ آیت ۔ 254

الله کی راہ میں خرچ کرنا 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ ۔۔۔ آمَنُوا ۔۔  أَنفِقُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔    مِمَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   رَزَقْنَاكُم 
اے لوگو ۔۔ ایمان لائے ۔۔ خرچ کرو ۔۔ اس سے جو ۔۔ دیا ہم نے تم کو 
مِّن  ۔۔ قَبْلِ ۔۔۔ أَن يَأْتِيَ ۔۔۔ يَوْمٌ ۔۔۔۔۔۔ لَّا بَيْعٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فِيهِ 
سے ۔۔۔ پہلے ۔۔ کہ آئے ۔۔ دن ۔۔ نہ تجارت ۔۔ اس میں 
وَلَا خُلَّةٌ ۔۔۔ وَلَا شَفَاعَةٌ ۔۔۔ وَالْكَافِرُونَ ۔۔۔ هُمُ ۔۔۔ الظَّالِمُونَ    2️⃣5️⃣4️⃣
اور نہ دوستی ۔۔ اور نہ سفارش ۔۔ اور کافر ۔۔ وہ ۔۔ ظالم 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ.   2️⃣5️⃣4️⃣

اے ایمان والو اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہیں دیا اس دن کے آنے سے پہلے کہ جس دن نہ خرید و فروخت ہے نہ آشنائی اور نہ سفارش اور جو کافر ہیں وہی ظالم ہیں ۔ 

رَزَقْنٰکُمْ ( ہم نے تمہیں عطا کیا ) ۔ یہاں جمع متکلم کا صیغہ لا کر الله تعالی نے یہ واضح کردیا کہ مال و دولت رزق و خوشحالی جو کچھ بھی لوگوں کے پاس ہے وہ سب ہمارا ہی دیا ہوا ہے ۔ اور اصل میں ہمیں ہی حق حاصل ہے کہ جن کاموں میں چاہیں مال و دولت خرچ کرنے کا حکم دیں ۔ 
یَوْمٌ ( دن ) ۔ یہاں دن سے مراد روزِ قیامت ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ نیک کاموں میں مال خرچ کرنے کا اور نیکیاں جمع کرنے کا موقع اس دنیا میں ہے ۔ اس کے بعد جب روزِ قیامت آ پہنچے گا تو پھر کسی عمل کا موقع نہیں مل سکے گا ۔ 
اس سورۃ میں الله سبحانہ و تعالی نے عبادات و معاملات کے متعلق بہت سے احکام بیان فرمائے ہیں ۔ ان تمام نیک کاموں میں سب سے زیادہ دشوار کام جان اور مال کی قربانی ہے ۔اس لئے بار بار ان کا حکم آتا ہے ۔ ان کی محبت ہی انسان کو گناہ کی طرف لے جاتی ہے ۔ 
حضرت طالوت اور ان کے دشمن جالوت کا قصہ بیان کرکے الله تعالی نے جہاد کی اہمیت جتا دی اور لوگوں کو حکم دیا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق الله کی راہ میں اپنی جانیں قربان کریں ۔ سامانِ جنگ خریدنے کے لئے مال و زر  کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لئے الله تعالی نے جہاد کے حکم کے ساتھ ہی مال خرچ کرنے کی بھی تاکید فرمائی ۔ اور یہ بات واضح کر دی کہ اے ایمان والو ! تمہیں دینے والے ہم ہیں ۔ تمہیں اس چیز کا خوف نہیں ہونا چاہئیے کہ نیک کاموں پر مال خرچ کرنے سے تم غریب ہو جاؤ گے ۔ یا آئندہ کے لئے تم بچا نہیں سکو گے ۔ بلکہ اس چیز پر نظر رکھو کہ تمہارا اپنا کچھ نہیں ۔ یہ صرف ہماری دین ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ تم مال و زر کی محبت میں پڑ کر اسے جمع کرتے رہو اور مہلت کا وقت ختم ہو جائے ۔ 
کیونکہ اس وقت نہ تو کہیں سے اس مال کے بدلے میں نیکی خریدی جا سکے گی ۔ اور نہ بدی کی سزا سے نجات مل سکے گی ۔ نہ وہاں سفارش چلے گی ۔ نہ کسی کی دوستی اور آشنائی کام آئے گی ۔ دنیا میں انسان کچھ لے دے کر یا دوستی آشنائی سے یا سفارش سے کام نکال لیتا ہے ۔ لیکن قیامت کے دن صرف عمل کام آئیں گے ۔ 

درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

حضرت عیسٰی علیہ السلام ۔ آیت 253 ب

حضرت عیسٰی علیہ السلام

وَآتَيْنَا ۔۔۔ عِيسَى ۔۔۔ ابْنَ ۔۔۔۔۔۔۔  مَرْيَمَ ۔۔۔۔۔۔۔۔الْبَيِّنَاتِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَأَيَّدْنَاهُ 
اور دی ہم نے ۔۔۔ عیسی ۔۔ بیٹے ۔۔ مریم ۔۔ کھلی نشانیاں ۔۔ اور تائید کی ہم نے اس کی 
بِرُوحِ ۔۔۔ الْقُدُسِ ۔۔۔ وَلَوْ ۔۔۔ شَاءَ ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ مَا اقْتَتَلَ 
ساتھ روح ۔۔۔ مقدس ۔۔ اور اگر ۔۔ چاہتا ۔۔ الله ۔۔ نہ لڑتے 
الَّذِينَ ۔۔۔ مِن ۔۔۔ بَعْدِهِم ۔۔۔ مِّن ۔۔۔ بَعْدِ ۔۔۔ مَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  جَاءَتْهُمُ 
وہ لوگ ۔۔ سے ۔۔ ان کے بعد ۔۔۔۔ سے ۔۔۔۔ بعد ۔۔ جو ۔۔۔ آچکا ان کے پاس 
الْبَيِّنَاتُ ۔۔۔  وَلَكِنِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   اخْتَلَفُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فَمِنْهُم ۔۔۔ مَّنْ 
صاف حکم ۔۔ اور لیکن ۔۔ اختلاف کیا انہوں نے ۔۔ پس ان میں ۔۔ جو 
آمَنَ ۔۔۔ وَمِنْهُم ۔۔۔ مَّن ۔۔۔۔۔۔۔  كَفَرَ ۔۔۔۔۔۔۔  وَلَوْ ۔۔۔ شَاءَ ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔ مَا
ایمان لایا ۔۔ اور ان میں ۔۔ جو ۔۔ کفر کیا ۔۔ اور اگر ۔۔ چاہتا ۔۔ الله ۔۔ نہ 
 اقْتَتَلُوا ۔۔۔ وَلَكِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ يَفْعَلُ ۔۔۔۔۔۔   مَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  يُرِيدُ   2️⃣5️⃣3️⃣
وہ آپس میں لڑتے ۔۔۔ اور لیکن ۔۔ الله ۔۔ وہ کرتا ہے ۔۔ جو ۔۔ وہ چاہتا ہے 

وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ.  2️⃣5️⃣3️⃣

اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسی کو کھلے معجزے دئیے اور اس کو روح القدس یعنی جبرائیل سے قوت دی اور اگر الله تعالی چاہتا تو جو لوگ ان پیغمبروں کے بعد ہوئے آپس میں نہ لڑتے  اس کے بعد کہ ان کے پاس صاف حکم پہنچے لیکن ان میں اختلاف پڑ گیا اور پھر کوئی ان میں سے ایمان لایا اور کوئی کافر ہوا اور اگر الله تعالی چاہتا تو وہ باہم نہ لڑتے لیکن الله تعالی جو چاہے وہ کرتا ہے ۔ 

اِبْنِ مَرْیَم ( مریم کا بیٹا ) ۔ اس لفظ سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام جنہیں عیسائی خدا یا خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں ۔ حقیقت میں مریم علیھا السلام کے بیٹے ہیں ۔ خدا یا خدا کے بیٹے نہیں ہیں ۔ وہ شکل و صورت میں ایسے ہی انسان ہیں جیسا کہ دوسرے اور ضروریاتِ انسانی میں بھی دوسرے انسانوں جیسے ہیں ۔ 
اَلْبَیّنات ( کھلے معجزے ) ۔ ان سے مراد وہ تمام کُھلی ہوئی نشانیاں اور معجزے ہیں جو عیسٰی علیہ السلام کو دئیے گئے تھے ۔ جنہیں دیکھ کر ہر عقلمند اور انصاف پسند آدمی حضرت عیسٰی علیہ السلام کو نبی مان لینے پر مجبور ہوا ۔ 
رُوْحُ الْقُدُسِ ( روح القدس ) ۔ قرآن مجید کی اصطلاح میں اس سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں ۔ وہ اگرچہ بہت مقرب فرشتہ ہیں ۔ تاہم الله تعالی کی مخلوق ہیں اور عیسائی جو انہیں تین خداؤں میں سے ایک خدا سمجھتے ہیں غلطی پر ہیں ۔ فرشتہ بھلا خدا کیسے ہو سکتا ہے ۔ 
اَیَّدْنَاہ ( اور اس کو ہم نے قوت دی ) ۔ اگرچہ عیسٰی علیہ السلام بڑے کمال اور فضل کے مالک تھے ۔ پھر بھی آپ انسان ہی تھے ۔ اور انسانوں کی طرح وہ بھی نقصان سے بچاؤ اور نفع حاصل کرنے کے لئے الله تعالی کے محتاج تھے ۔ 
آخر میں یہ بتا دیا کہ اگر الله تعالی چاہتا تو وہ لوگ جنہوں نے ان تمام پیغمبروں کی اور سب کے بعد حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی روشن نشانیاں دیکھ لیں آپس میں نہ لڑتے ۔ یہ لوگ یہودی ، عیسائی اور مشرکین ہیں ان میں سے بعض تو ایمان لائے اور جزاء کے مستحق ہوئے اور بعض نے کفر و انکار کیا اور سزاء کے مستحق ہوئے ۔ 

درس قرآن۔۔۔ مرتبہ درس بورڈ 

رسولوں کے درجات ۔ آیت 253- 1

رسولوں کے درجات

تِلْكَ ۔۔۔  الرُّسُلُ ۔۔۔۔۔۔۔۔  فَضَّلْنَا ۔۔۔۔۔۔۔   بَعْضَهُمْ ۔۔ عَلَى ۔۔ بَعْضٍ 
یہ ۔۔۔ رسول ۔۔ ہم نے فضیلت دی ۔۔۔ ان کے بعض کو ۔۔ پر ۔۔ بعض 
مِّنْهُم ۔۔ مَّن ۔۔۔۔۔۔  كَلَّمَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔  وَرَفَعَ ۔۔۔۔۔۔۔  بَعْضَهُمْ ۔۔۔ دَرَجَاتٍ 
ان میں ۔۔ وہ ۔۔ کلام فرمایا ۔۔ الله تعالی ۔۔ اور بلند کیا ۔۔ ان کے بعض ۔۔ درجات 

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ 

یہ رسول ہیں ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ان میں سے کوئی وہ ہے جس سے الله تعالی نے کلام فرمایا اور بعض کے درجے بلند کئے ۔

اَلرُّسُلُ ۔۔ واحد رُسل ہے ۔ جس کے لئے پیغمبر اور نبی کے لفظ بھی استعمال ہوتے  ہیں ۔ مصدر " رسالت " ہے ۔ یعنی پیغام پہنچانا ۔ رسول اس مقدس گروہ کو کہا جاتا ہے جس نے الله کے پیغام اس کے بندوں تک کمی بیشی کے بغیر پہنچائے ۔ 
فَضَّلْنَا  ( ہم نے فضیلت دی ) ۔ " فضل " اس کا مادہ ہے ۔ جس کے معنی بزرگی کے ہیں ۔ تمام بزرگیاں اور بڑائیاں الله کے ہاتھ میں ہیں ۔ وہ جسے چاہے اپنے فضل و کرم سے نوازے ۔ کوئی شخص اپنے طور پر حاصل نہیں کر سکتا ۔ دولت ، وجاہت ، علم ، زورِ بازو یا خاندان غرض کوئی ایسی شے نہیں جس کے ذریعے لازمی طور پر کسی کو بزرگی اور فضیلت حاصل ہو جائے ۔ سوائے اس کے کہ الله تعالی کا فضل شاملِ حال ہو ۔ 
مَنْ کَلَّمَ اللهُ ( جس سے الله تعالی نے کلام فرمایا ) ۔ یعنی وہ رسول جس سے الله تعالی نے کلام فرمایا ۔ اور براہ راست اس تک اپنا پیغام پہنچایا ۔ جیسا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے ساتھ ہوا ۔ 
الله تعالی نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ رسولوں میں بعض کے درجے بعض سے بلند ہیں ۔ مثلا بعض سے اس نے براہ راست کلام فرمایا ۔ بعض سے فرشتے کے ذریعےاور کچھ ایسے پیغمبر بھی ہوئےجو صرف پہلی شریعتکو زندہ کرنے کے لئے آئے ۔ کوئی نئی کتاب لے کر نہیں آئے ۔ 
قرآن مجید میں ایک دوسرےمقام پر آیا ہے ۔ 
لَا نُفَرّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنّھُمْ  ( ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے ) ۔ اس سے مقصد یہ ہے کہ جہاں تک رسالت کا تعلق ہے ہم کسی کو چھوٹا بڑا نہیں کہتے ۔ لہذا ان دونوں آیتوں میں کوئی تضاد یا اختلاف نہیں ۔بلکہ دونوں اپنے اپنے محل پر درست ہیں ۔ 
بحیثیت مسلمان  ہمارا عقیدہ ہے کہ جب سے دنیا کا وجود ہوا ہےاس وقت سے آج تک ہر زمانے میں اور ہر امت میں نبی مبعوث ہوئے ۔ وہ سب ایک الله  کا پیغام لائے۔ ہر ایک اپنے اپنے زمانے میں واجب الاطاعت تھا ۔ ہم ان سب کی سچائی پر ایمان لاتے ہیں ۔ 

درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

دوسرے پارے کے اسباق کا خلاصہ

دوسرے پارے کے اسباق کا خلاصہ

پہلے پارے کی ابتداء سورۃ فاتحہ سے ہوئی ۔ اس میں پورے کلام الله کا خلاصہ ہے ۔ اس کے بعد سورۃ بقرہ کی ابتداء میں کلام مجید کی حیثیت ۔۔ مؤمن  ،  کافر اور منافق جماعتوں کا ذکر تھا ۔ اس کے بعد خلافتِ آدم ۔۔ بنی اسرائیل کی تاریخ ۔۔۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام اور ان کے خاندان کا بیان ہوا اور ساتھ ساتھ بہت سے مسائل کا ذکر ہوا ۔ 
دوسرے پارے کی ابتداء میں ملتِ اسلامیہ کے مقصدِ حیات اور فرائضِ ملی کا ذکر ہوا کہ یہ ملّت دنیا کی نگران بنائی گئی ہے ۔ اس کے فورا بعد تحویلِ قبلہ کا بیان ہوا نیز یہ کہ قبلہ کا مقصد پوری ملّت کو ایک مرکز پر جمع  کرنا ہے ۔
تیسرے رکوع میں شھادت اور شھیدوں کا درجہ بتلایا اور اس کے فوراً بعد توبہ کا طریقہ اور شرائط بتائیں ۔ چوتھے اور پانچویں رکوع میں حلال و حرام غذاؤں اور باپ دادوں کی رسموں کی طرف توجہ دلائی ۔ 
چھٹے رکوع کی پہلی آیت میں " نیکی " کا ایک جامع تصور دیا گیا ۔ اس کے بعد قصاص ، وصیت ، روزہ رمضان ، دعا اور اعتکاف کے مسائل کا ذکر نہایت خوبصورتی سے موجود ہے 
آٹھویں ، نویں اور دسویں رکوع میں قتال فی سبیل الله اور حج کے مسائل بیان ہوئے اور درمیان میں کئی دوسرے مسائل بھی آگئے ۔ 
اس کے بعد انفاق فی سبیل الله کا ذکر ہوا ۔ شراب کی حرمت ۔۔۔ اہلِ شرک سے نکاح کی ممانعت کا حکم ہوا ۔ اہلِ کتاب کا بھی ذکر آیا ۔ 
بعد ازاں مسلسل چار رکوع یعنی بارہ سے پندرہ  تک ازدواجی زندگی کے مسائل سے متعلق ہیں ۔ مثلاً حیض و نفاس  ، طلاق ، عدت ، مہر ، رضاعت اور دوسرے متعلقہ مسائل 

دوسرے پارے کے آخری دو رکوع یعنی نمبر سولہ اور سترہ میں بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ مذکور ہے ۔ یعنی جالوت کے مقابلے میں حضرت طالوت کی لشکر کشی ۔ حضرت داود علیہ السلام کی سر فروشی ۔۔ حق پرستوں کی شاندار کامیابی  اور باطل کی رُسوا کن شکست 

گذشتہ نشانیاں ۔ آیہ 252

گذشتہ نشانیاں

تِلْكَ ۔۔۔  آيَاتُ ۔۔۔۔۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  نَتْلُوهَا ۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  بِالْحَقِّ 
یہ ۔۔ آیات ۔۔ الله تعالی ۔۔۔ ہم پڑھتے ہیں ان کو ۔۔ آپ پر ۔۔ سچ کے ساتھ 
وَإِنَّكَ ۔۔۔ لَمِنَ ۔۔۔ الْمُرْسَلِينَ 2️⃣5️⃣2️⃣
اور بے شک آپ ۔۔ البتہ میں ۔۔ بھیجے گئے 

تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ   2️⃣5️⃣2️⃣

یہ الله تعالی کی آیات ہیں ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کو ٹھیک ٹھیک سناتے ہیں اور بے شک آپ تو ہمارے رسولوں میں سے ہیں ۔ 

بِالْحقّ ( ٹھیک ٹھیک ) ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ گذشتہ قصے اور نشانیاں کمی بیشی کے بغیر پیغمبر کو سنائی جاتی ہیں ۔ اس لفظ کو لاکر یہ بھی واضح کردیا کہ قرآن مجید دوسری کتابوں کی طرح قصوں کو مسخ نہیں کرتا ۔
مِنَ الْمُرسَلِیْنَ ( رسولوں میں سے ) اس لفظ سے واضح ہے کہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی حیثیت بھی دوسرے پیغمبروں کی طرح ایک پیغمبر کی ہی ہے ۔ پیغمبر نہ تو خدا ہے اور نہ کوئی دیوتا ۔ غرض قرآن مجید شرک سے بچنے کے لئے ٹھیک ٹھیک الفاظ استعمال کرتا ہے ۔ 
اس جملے سے یہ بھی واضح ہے کہ جس طرح الله تعالی نے حضرت داود علیہ السلام کو علم و حکمت اور نبوت دی تھی اسی طرح الله تعالی نے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو بھی اپنی ان نعمتوں سے سرفراز فرمایا ہے ۔ 
اس آیت میں الله تعالی نے یہ بتایا کہ یہ گذشتہ قصے جو ہم پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام کو سناتے ہیں یہ بالکل حق ہیں ۔ ان میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ۔ ان قصوں میں بے شمار نصیحت کی باتیں ہوتی ہیں ۔ جو آنے والی قوموں اور نسلوں کے لئے مشعلِ راہ کا کام دیتی ہیں ۔ 
بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کا اپنے گھروں سے نکلنا ، اچانک مرجانا پھر الله تعالی کے حکم سے دوبارہ زندہ ہوجانا ، جالوت کا ان پر حملہ کا ان پر حملہ کرنا ، ان کا سپہ سالار کے لئے درخواست کرنا ، حضرت طالوت علیہ السلام کا بادشاہ بننا ، انہیں علم اور جسم میں بڑائی دینا ، تابوتِ سکینہ کا واپس آجانا ، طالوت کا جالوت کے مقابلے کے لئے نکلنا ، حضرت داود علیہ السلام کا جالوت کو قتل کرنا اور انہیں سلطنت وحکمت کا عطا ہونا ان سب باتوں کی اطلاع الله تعالی اپنے پیغمبر کو دیتا ہے ۔ اور ان میں ہمارے لئے نصیحت ہے ۔ 
الله سبحانہ و تعالی نے اپنے رسول کو یہ بھی بتایا کہ آپ ہمارے رسولوں میں سے ایک رسول ہیں ۔ اور اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ ہم گذشتہ زمانوں کے قصے اور نشانیاں آپ پر کھولتے ہیں ۔ اور یہ باتیں صرف پیغمبروں کو ہی بتائی جاتی ہیں ۔ حالانکہ یہ تمام باتیں  نہ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے کسی کتاب میں پڑھی ہیں اور نہ کسی آدمی سے سنی ہیں ۔ بلکہ صرف الله تعالی کی وحی کے ذریعے آپ تک پہنچی ہیں ۔ 
قرآن مجید میں سابقہ اقوام اور انبیاء علیھم السلام کے بے شمار واقعات کا ذکر موجود ہے ۔ ہر سورہ میں جگہ جگہ ان کے حالات اور اشارات موجود ہیں ۔ 
ان بیانات سےکہیں بھی تاریخ نویسی اور سیرت نگاری مطلوب نہیںبلکہ اصل مدعا و مقصد نصیحت اور عبرت ہے ۔ ہمارا فرض ہے کہ گذشتہ امتوں کے حالات کے آئینہ میں ماضی کے ذریعے اپنے حال کو درست کریں اور مستقبل کی فکر کریں ۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو یہ ہماری حد درجہ غفلت اور نادانی ہوگی ۔ 

درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

صبر و استقامت ۔ آیہ ۔250-251

صبر و استقامت

وَلَمَّا ۔۔۔  بَرَزُوا ۔۔۔۔۔۔۔    لِجَالُوتَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وَجُنُودِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   قَالُوا 
اور جب ۔۔۔ سامنے ہوئے ۔۔۔ جالوت کے ۔۔ اور اس کے لشکر کے ۔۔ انہوں نے کہا 
رَبَّنَا ۔۔۔ أَفْرِغْ ۔۔۔ عَلَيْنَا ۔۔۔  صَبْرًا ۔۔۔۔۔۔۔۔  وَثَبِّتْ ۔۔۔۔۔۔۔۔  أَقْدَامَنَا 
اے رب ہمارے ۔۔ ڈال ۔۔ ہم پر ۔۔ صبر ۔۔ اور ثابت رکھ ۔۔ قدم ہمارے 
وَانصُرْنَا ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ الْقَوْمِ ۔۔۔ الْكَافِرِينَ۔ 2️⃣5️⃣0️⃣
اور ہماری مدد کر ۔۔۔ پر ۔۔ قوم ۔۔ کافر 

فَهَزَمُوهُم ۔۔۔۔۔۔۔   بِإِذْنِ ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔ وَقَتَلَ ۔۔۔۔۔۔۔  دَاوُدُ ۔۔۔ جَالُوتَ 
پھر شکست دی انہوں نے انکو ۔۔۔ حکم سے ۔۔ الله ۔۔ اور قتل کیا ۔۔ داود نے ۔۔ جالوت 
وَآتَاهُ ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ الْمُلْكَ ۔۔۔۔۔۔۔   وَالْحِكْمَةَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وَعَلَّمَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مِمَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   يَشَاءُ 
اور دی اس کو ۔۔ الله ۔۔ سلطنت ۔۔ اور حکمت ۔۔ اور سکھایا اس کو ۔۔ اس سے جو ۔۔ وہ چاہتا ہے 
وَلَو ۔۔۔لَا دَفْعُ ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔ النَّاسَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  بَعْضَهُم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   بِبَعْضٍ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   لَّفَسَدَتِ ۔۔۔ الْأَرْضُ 
اور اگر ۔۔ نہ دور کرے ۔۔ الله ۔۔ لوگ ۔۔ بعض ان کے ۔۔ بعض کی وجہ سے ۔۔۔البتہ ۔۔ بگڑ جائے ۔۔ زمین 
وَلَكِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ ذُو فَضْلٍ ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ الْعَالَمِينَ۔    2️⃣5️⃣1️⃣
اور لیکن ۔۔ الله تعالی ۔۔ فضل والا ۔۔ پر ۔۔ سارے جہان 

وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ.  2️⃣5️⃣0️⃣

اور جب طالوت اور اس کی فوجیں سامنے ہوئیں تو بولے اے ہمارے رب ہمارے دلوں میں صبر ڈال دے اور ہمارے پاؤں جمائے رکھ اور کافر قوم پر ہماری مدد کر 

فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللَّهِ وَقَتَلَ دَاوُدُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ.   2️⃣5️⃣1️⃣

پھر مؤمنوں نے جالوت کے لشکر کو الله کے حکم سے شکست دے دی اور داود علیہ السلام نے جالوت کو مار ڈالا اور الله تعالی نے اسے سلطنت و حکمت دی اور جو چاہا سکھایا اور اگر الله دفع نہ کراتا ایک کو دوسرے سے تو ملک خراب ہو جاتا لیکن الله تعالی جہان والوں پر بہت مہربان ہے ۔ 

داوود ( داؤد علیہ السلام ) ۔ داؤد بن یسی ۹۶۳ تا ۱۰۲۴ ق م ایک پیغمبر گزرے ہیں ۔ قرآن مجید میں آپ کا ذکر سولہ جگہوں پر آیا ہے ۔ 
جب طالوت کے لشکر سے سامنا ہوا تو وہی تین سو تیرہ آدمی تھے ۔ اور انہی میں داود علیہ السلام ایک نوجوان سپاہی کی حیثیت سے شامل تھے ۔ اس وقت تک نہ ان کی نبوت کا اعلان ہوا تھا اور نہ وہ بادشاہ بنے تھے ۔ 
جب طالوت علیہ السلام کا لشکر جالوت کے مقابل آیا تو اس نے اپنی قوت اور توانائی کے زور میں الله کے بندوں کو للکارا ۔ مؤمن کبھی بھی اپنی کثرتِ تعداد یا دست و بازو کی طاقت پر بھروسہ نہیں کرتے چنانچہ انہوں نے الله جل جلالہ سے صبر کی  توفیق مانگی اور ثابت قدم رہنے کے لئے دُعا کی ۔ 
حضرت داود علیہ السلام کا یہ ابتدائی زمانہ تھا ۔ وہ طالوت کے لشکر میں شامل تھے ۔ ان کے ہاتھوں جالوت قتل ہوا ۔ اس کا لشکر بھاگا اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی ۔ الله تعالی کی سنت یہی ہے ایک کے ہاتھوں دوسرے کو شکست دے کر دنیا سے خرابی اور فساد کو مٹا دیتا ہے ۔ 
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد کا حکم ہمیشہ سے چلا آرہا ہے ۔ اور اس میں الله تعالی کی بڑی رحمت اور احسان ہے ۔ نادان کہتے ہیں کہ لڑائی نبیوں کا کام نہیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تفسیر عثمانی 

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں