نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

گذشتہ نشانیاں ۔ آیہ 252

گذشتہ نشانیاں

تِلْكَ ۔۔۔  آيَاتُ ۔۔۔۔۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  نَتْلُوهَا ۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  بِالْحَقِّ 
یہ ۔۔ آیات ۔۔ الله تعالی ۔۔۔ ہم پڑھتے ہیں ان کو ۔۔ آپ پر ۔۔ سچ کے ساتھ 
وَإِنَّكَ ۔۔۔ لَمِنَ ۔۔۔ الْمُرْسَلِينَ 2️⃣5️⃣2️⃣
اور بے شک آپ ۔۔ البتہ میں ۔۔ بھیجے گئے 

تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ   2️⃣5️⃣2️⃣

یہ الله تعالی کی آیات ہیں ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کو ٹھیک ٹھیک سناتے ہیں اور بے شک آپ تو ہمارے رسولوں میں سے ہیں ۔ 

بِالْحقّ ( ٹھیک ٹھیک ) ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ گذشتہ قصے اور نشانیاں کمی بیشی کے بغیر پیغمبر کو سنائی جاتی ہیں ۔ اس لفظ کو لاکر یہ بھی واضح کردیا کہ قرآن مجید دوسری کتابوں کی طرح قصوں کو مسخ نہیں کرتا ۔
مِنَ الْمُرسَلِیْنَ ( رسولوں میں سے ) اس لفظ سے واضح ہے کہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی حیثیت بھی دوسرے پیغمبروں کی طرح ایک پیغمبر کی ہی ہے ۔ پیغمبر نہ تو خدا ہے اور نہ کوئی دیوتا ۔ غرض قرآن مجید شرک سے بچنے کے لئے ٹھیک ٹھیک الفاظ استعمال کرتا ہے ۔ 
اس جملے سے یہ بھی واضح ہے کہ جس طرح الله تعالی نے حضرت داود علیہ السلام کو علم و حکمت اور نبوت دی تھی اسی طرح الله تعالی نے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو بھی اپنی ان نعمتوں سے سرفراز فرمایا ہے ۔ 
اس آیت میں الله تعالی نے یہ بتایا کہ یہ گذشتہ قصے جو ہم پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام کو سناتے ہیں یہ بالکل حق ہیں ۔ ان میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ۔ ان قصوں میں بے شمار نصیحت کی باتیں ہوتی ہیں ۔ جو آنے والی قوموں اور نسلوں کے لئے مشعلِ راہ کا کام دیتی ہیں ۔ 
بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کا اپنے گھروں سے نکلنا ، اچانک مرجانا پھر الله تعالی کے حکم سے دوبارہ زندہ ہوجانا ، جالوت کا ان پر حملہ کا ان پر حملہ کرنا ، ان کا سپہ سالار کے لئے درخواست کرنا ، حضرت طالوت علیہ السلام کا بادشاہ بننا ، انہیں علم اور جسم میں بڑائی دینا ، تابوتِ سکینہ کا واپس آجانا ، طالوت کا جالوت کے مقابلے کے لئے نکلنا ، حضرت داود علیہ السلام کا جالوت کو قتل کرنا اور انہیں سلطنت وحکمت کا عطا ہونا ان سب باتوں کی اطلاع الله تعالی اپنے پیغمبر کو دیتا ہے ۔ اور ان میں ہمارے لئے نصیحت ہے ۔ 
الله سبحانہ و تعالی نے اپنے رسول کو یہ بھی بتایا کہ آپ ہمارے رسولوں میں سے ایک رسول ہیں ۔ اور اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ ہم گذشتہ زمانوں کے قصے اور نشانیاں آپ پر کھولتے ہیں ۔ اور یہ باتیں صرف پیغمبروں کو ہی بتائی جاتی ہیں ۔ حالانکہ یہ تمام باتیں  نہ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے کسی کتاب میں پڑھی ہیں اور نہ کسی آدمی سے سنی ہیں ۔ بلکہ صرف الله تعالی کی وحی کے ذریعے آپ تک پہنچی ہیں ۔ 
قرآن مجید میں سابقہ اقوام اور انبیاء علیھم السلام کے بے شمار واقعات کا ذکر موجود ہے ۔ ہر سورہ میں جگہ جگہ ان کے حالات اور اشارات موجود ہیں ۔ 
ان بیانات سےکہیں بھی تاریخ نویسی اور سیرت نگاری مطلوب نہیںبلکہ اصل مدعا و مقصد نصیحت اور عبرت ہے ۔ ہمارا فرض ہے کہ گذشتہ امتوں کے حالات کے آئینہ میں ماضی کے ذریعے اپنے حال کو درست کریں اور مستقبل کی فکر کریں ۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو یہ ہماری حد درجہ غفلت اور نادانی ہوگی ۔ 

درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...