نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

دین میں جبر نہیں ۔ آیة 256 (ا)

دین میں جبر نہیں

لَا إِكْرَاهَ ۔۔ فِي ۔۔ الدِّينِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قَد تَّبَيَّنَ ۔۔۔ الرُّشْدُ۔۔۔  مِنَ ۔۔۔ الْغَيِّ
نہیں جبر ۔۔ میں ۔۔ دین ۔۔ بے شک واضح ہو چکی ۔۔ ھدایت ۔۔ سے ۔۔ گمراہی 

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ

دین میں کوئی جبر نہیں  بے شک ھدایت گمراہی سے جدا ہو چکی ہے 

لَا اِکْرَاہَ ( کرہٌ سے یہ لفظ بنا ہے ۔ کراہیت بھی اسی سے ہے ۔ ایسا کام جو اپنی مرضی سے نہ کیا جائے  بلکہ اس میں زبردستی اور جبر کو دخل ہو ۔ اسے جبر و کراہ کہا جاتا ہے ۔ 
اَلدّین ۔ ( مذھب ) ۔ لفظ دین دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے
۱-جزا و سزا یعنی بدلہ 
۲- طریق فکر و عمل ( یعنی طریقِ زندگی ) 
یہاں انہی دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ 
اَلرّشد ( ھدایت ) راشد اس کا اسم فاعل ہے ۔ جس کے معنی ھدایت یافتہ کے ہیں ۔ یہاں لفظ رشد سے ھدایت کے عام معنوں کے علاوہ خود اسلام کے معنی بھی مراد لیے جاسکتے ہیں ۔ 
اَلْغَیّ ( گمراہی ) ۔ غ ۔ و ۔ ی ۔ اس کا مادہ ہے ۔ جس کے معنی بہکانے اور گمراہ کرنے کے ہوتے ہیں ۔ یہاں " الغی " سے کفر و شرک کی گمراہی مراد ہے ۔ اغوا ۔ بہکانا " اسی سے بنا ہے ۔ 
اس آیت سے اسلام کی مذہبی آزادی واضح ہوتی ہے ۔ اسلام ہر شخص کو مذہب کے بارے میں اختیار عطا کرتا ہے ۔ اسلام قبول کرنے کے لیے کسی کو مجبور نہیں کرتا ۔ اپنے ماننے والوں پر تبلیغ کو فرض قرار دیتا ہے ۔ لیکن اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی کو زبردستی اسلام میں داخل کریں اور اسلام قبول کرنے پر مجبور کریں ۔ 
اسلام کی مکمل تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ مسلمانوں نے کبھی اپنے ہمسائیوں بلکہ محکوم رعایا کو بھی اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا ۔ اگر ایسا ہوتا تو ہندوستان  و پاکستان میں مسجدوں کے ساتھ ساتھ مندر بھی موجود نہ ہوتے ۔ مسلمانوں کے دارالخلافوں میں شاہی قلعوں کے ساتھ مندر ، گوردوارے اور غیر مسلموں کے عبادت خانے نہ ہوتے ۔ 
ایک بات خوب سمجھ لینی چاہیے ۔ کہ اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ ایک شخص اسلام قبول کرنے کے بعد آزاد ہے کہ اسلام کی جس بات کو چاہے مانے اور جس کو نہ چاہے نہ مانے ۔ 
جب ایک بار مذہب اسلام قبول کر لیا تو اس کے سب احکام کو ماننا ہوگا ۔ اب آزادی اور اختیار کا سوال نہیں رہتا ۔ آزادی صرف مذھب کے قبول کرنے یا نہ کرنے میں ہے  عمل میں نہیں ۔ 
اگر خدانخواستہ ایسا ہوجائے تو مذھب کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی ۔ 
جب دلائل توحید خوب کھول کر اور واضح کرکے بتا دئیے جس سے کافر کا کفر پر قائم رہنے کا کوئی عذر باقی نہیں رہا تو اب زبردستی مسلمان بنانے کی ضرورت ہی نہیں ۔ عقل والوں کو خود سمجھ لینا چاہیے ۔ اور نہ ہی شریعت کا حکم ہے کہ لوگوں کو زبردستی اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور کیا جائے ۔ مسلمان ریاست میں جو جزیہ کو قبول کرے گا اُس کا جان ومال محفوظ ہو جائیگا ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تفسیر عثمانی 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...