نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حضرت عیسٰی علیہ السلام ۔ آیت 253 ب

حضرت عیسٰی علیہ السلام

وَآتَيْنَا ۔۔۔ عِيسَى ۔۔۔ ابْنَ ۔۔۔۔۔۔۔  مَرْيَمَ ۔۔۔۔۔۔۔۔الْبَيِّنَاتِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَأَيَّدْنَاهُ 
اور دی ہم نے ۔۔۔ عیسی ۔۔ بیٹے ۔۔ مریم ۔۔ کھلی نشانیاں ۔۔ اور تائید کی ہم نے اس کی 
بِرُوحِ ۔۔۔ الْقُدُسِ ۔۔۔ وَلَوْ ۔۔۔ شَاءَ ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ مَا اقْتَتَلَ 
ساتھ روح ۔۔۔ مقدس ۔۔ اور اگر ۔۔ چاہتا ۔۔ الله ۔۔ نہ لڑتے 
الَّذِينَ ۔۔۔ مِن ۔۔۔ بَعْدِهِم ۔۔۔ مِّن ۔۔۔ بَعْدِ ۔۔۔ مَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  جَاءَتْهُمُ 
وہ لوگ ۔۔ سے ۔۔ ان کے بعد ۔۔۔۔ سے ۔۔۔۔ بعد ۔۔ جو ۔۔۔ آچکا ان کے پاس 
الْبَيِّنَاتُ ۔۔۔  وَلَكِنِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   اخْتَلَفُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فَمِنْهُم ۔۔۔ مَّنْ 
صاف حکم ۔۔ اور لیکن ۔۔ اختلاف کیا انہوں نے ۔۔ پس ان میں ۔۔ جو 
آمَنَ ۔۔۔ وَمِنْهُم ۔۔۔ مَّن ۔۔۔۔۔۔۔  كَفَرَ ۔۔۔۔۔۔۔  وَلَوْ ۔۔۔ شَاءَ ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔ مَا
ایمان لایا ۔۔ اور ان میں ۔۔ جو ۔۔ کفر کیا ۔۔ اور اگر ۔۔ چاہتا ۔۔ الله ۔۔ نہ 
 اقْتَتَلُوا ۔۔۔ وَلَكِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ يَفْعَلُ ۔۔۔۔۔۔   مَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  يُرِيدُ   2️⃣5️⃣3️⃣
وہ آپس میں لڑتے ۔۔۔ اور لیکن ۔۔ الله ۔۔ وہ کرتا ہے ۔۔ جو ۔۔ وہ چاہتا ہے 

وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ.  2️⃣5️⃣3️⃣

اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسی کو کھلے معجزے دئیے اور اس کو روح القدس یعنی جبرائیل سے قوت دی اور اگر الله تعالی چاہتا تو جو لوگ ان پیغمبروں کے بعد ہوئے آپس میں نہ لڑتے  اس کے بعد کہ ان کے پاس صاف حکم پہنچے لیکن ان میں اختلاف پڑ گیا اور پھر کوئی ان میں سے ایمان لایا اور کوئی کافر ہوا اور اگر الله تعالی چاہتا تو وہ باہم نہ لڑتے لیکن الله تعالی جو چاہے وہ کرتا ہے ۔ 

اِبْنِ مَرْیَم ( مریم کا بیٹا ) ۔ اس لفظ سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام جنہیں عیسائی خدا یا خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں ۔ حقیقت میں مریم علیھا السلام کے بیٹے ہیں ۔ خدا یا خدا کے بیٹے نہیں ہیں ۔ وہ شکل و صورت میں ایسے ہی انسان ہیں جیسا کہ دوسرے اور ضروریاتِ انسانی میں بھی دوسرے انسانوں جیسے ہیں ۔ 
اَلْبَیّنات ( کھلے معجزے ) ۔ ان سے مراد وہ تمام کُھلی ہوئی نشانیاں اور معجزے ہیں جو عیسٰی علیہ السلام کو دئیے گئے تھے ۔ جنہیں دیکھ کر ہر عقلمند اور انصاف پسند آدمی حضرت عیسٰی علیہ السلام کو نبی مان لینے پر مجبور ہوا ۔ 
رُوْحُ الْقُدُسِ ( روح القدس ) ۔ قرآن مجید کی اصطلاح میں اس سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں ۔ وہ اگرچہ بہت مقرب فرشتہ ہیں ۔ تاہم الله تعالی کی مخلوق ہیں اور عیسائی جو انہیں تین خداؤں میں سے ایک خدا سمجھتے ہیں غلطی پر ہیں ۔ فرشتہ بھلا خدا کیسے ہو سکتا ہے ۔ 
اَیَّدْنَاہ ( اور اس کو ہم نے قوت دی ) ۔ اگرچہ عیسٰی علیہ السلام بڑے کمال اور فضل کے مالک تھے ۔ پھر بھی آپ انسان ہی تھے ۔ اور انسانوں کی طرح وہ بھی نقصان سے بچاؤ اور نفع حاصل کرنے کے لئے الله تعالی کے محتاج تھے ۔ 
آخر میں یہ بتا دیا کہ اگر الله تعالی چاہتا تو وہ لوگ جنہوں نے ان تمام پیغمبروں کی اور سب کے بعد حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی روشن نشانیاں دیکھ لیں آپس میں نہ لڑتے ۔ یہ لوگ یہودی ، عیسائی اور مشرکین ہیں ان میں سے بعض تو ایمان لائے اور جزاء کے مستحق ہوئے اور بعض نے کفر و انکار کیا اور سزاء کے مستحق ہوئے ۔ 

درس قرآن۔۔۔ مرتبہ درس بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...