نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

رسولوں کے درجات ۔ آیت 253- 1

رسولوں کے درجات

تِلْكَ ۔۔۔  الرُّسُلُ ۔۔۔۔۔۔۔۔  فَضَّلْنَا ۔۔۔۔۔۔۔   بَعْضَهُمْ ۔۔ عَلَى ۔۔ بَعْضٍ 
یہ ۔۔۔ رسول ۔۔ ہم نے فضیلت دی ۔۔۔ ان کے بعض کو ۔۔ پر ۔۔ بعض 
مِّنْهُم ۔۔ مَّن ۔۔۔۔۔۔  كَلَّمَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔  وَرَفَعَ ۔۔۔۔۔۔۔  بَعْضَهُمْ ۔۔۔ دَرَجَاتٍ 
ان میں ۔۔ وہ ۔۔ کلام فرمایا ۔۔ الله تعالی ۔۔ اور بلند کیا ۔۔ ان کے بعض ۔۔ درجات 

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ 

یہ رسول ہیں ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ان میں سے کوئی وہ ہے جس سے الله تعالی نے کلام فرمایا اور بعض کے درجے بلند کئے ۔

اَلرُّسُلُ ۔۔ واحد رُسل ہے ۔ جس کے لئے پیغمبر اور نبی کے لفظ بھی استعمال ہوتے  ہیں ۔ مصدر " رسالت " ہے ۔ یعنی پیغام پہنچانا ۔ رسول اس مقدس گروہ کو کہا جاتا ہے جس نے الله کے پیغام اس کے بندوں تک کمی بیشی کے بغیر پہنچائے ۔ 
فَضَّلْنَا  ( ہم نے فضیلت دی ) ۔ " فضل " اس کا مادہ ہے ۔ جس کے معنی بزرگی کے ہیں ۔ تمام بزرگیاں اور بڑائیاں الله کے ہاتھ میں ہیں ۔ وہ جسے چاہے اپنے فضل و کرم سے نوازے ۔ کوئی شخص اپنے طور پر حاصل نہیں کر سکتا ۔ دولت ، وجاہت ، علم ، زورِ بازو یا خاندان غرض کوئی ایسی شے نہیں جس کے ذریعے لازمی طور پر کسی کو بزرگی اور فضیلت حاصل ہو جائے ۔ سوائے اس کے کہ الله تعالی کا فضل شاملِ حال ہو ۔ 
مَنْ کَلَّمَ اللهُ ( جس سے الله تعالی نے کلام فرمایا ) ۔ یعنی وہ رسول جس سے الله تعالی نے کلام فرمایا ۔ اور براہ راست اس تک اپنا پیغام پہنچایا ۔ جیسا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے ساتھ ہوا ۔ 
الله تعالی نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ رسولوں میں بعض کے درجے بعض سے بلند ہیں ۔ مثلا بعض سے اس نے براہ راست کلام فرمایا ۔ بعض سے فرشتے کے ذریعےاور کچھ ایسے پیغمبر بھی ہوئےجو صرف پہلی شریعتکو زندہ کرنے کے لئے آئے ۔ کوئی نئی کتاب لے کر نہیں آئے ۔ 
قرآن مجید میں ایک دوسرےمقام پر آیا ہے ۔ 
لَا نُفَرّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنّھُمْ  ( ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے ) ۔ اس سے مقصد یہ ہے کہ جہاں تک رسالت کا تعلق ہے ہم کسی کو چھوٹا بڑا نہیں کہتے ۔ لہذا ان دونوں آیتوں میں کوئی تضاد یا اختلاف نہیں ۔بلکہ دونوں اپنے اپنے محل پر درست ہیں ۔ 
بحیثیت مسلمان  ہمارا عقیدہ ہے کہ جب سے دنیا کا وجود ہوا ہےاس وقت سے آج تک ہر زمانے میں اور ہر امت میں نبی مبعوث ہوئے ۔ وہ سب ایک الله  کا پیغام لائے۔ ہر ایک اپنے اپنے زمانے میں واجب الاطاعت تھا ۔ ہم ان سب کی سچائی پر ایمان لاتے ہیں ۔ 

درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...