نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

الله کی راہ میں خرچ کرنا ۔ آیت ۔ 254

الله کی راہ میں خرچ کرنا 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ ۔۔۔ آمَنُوا ۔۔  أَنفِقُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔    مِمَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   رَزَقْنَاكُم 
اے لوگو ۔۔ ایمان لائے ۔۔ خرچ کرو ۔۔ اس سے جو ۔۔ دیا ہم نے تم کو 
مِّن  ۔۔ قَبْلِ ۔۔۔ أَن يَأْتِيَ ۔۔۔ يَوْمٌ ۔۔۔۔۔۔ لَّا بَيْعٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فِيهِ 
سے ۔۔۔ پہلے ۔۔ کہ آئے ۔۔ دن ۔۔ نہ تجارت ۔۔ اس میں 
وَلَا خُلَّةٌ ۔۔۔ وَلَا شَفَاعَةٌ ۔۔۔ وَالْكَافِرُونَ ۔۔۔ هُمُ ۔۔۔ الظَّالِمُونَ    2️⃣5️⃣4️⃣
اور نہ دوستی ۔۔ اور نہ سفارش ۔۔ اور کافر ۔۔ وہ ۔۔ ظالم 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ.   2️⃣5️⃣4️⃣

اے ایمان والو اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہیں دیا اس دن کے آنے سے پہلے کہ جس دن نہ خرید و فروخت ہے نہ آشنائی اور نہ سفارش اور جو کافر ہیں وہی ظالم ہیں ۔ 

رَزَقْنٰکُمْ ( ہم نے تمہیں عطا کیا ) ۔ یہاں جمع متکلم کا صیغہ لا کر الله تعالی نے یہ واضح کردیا کہ مال و دولت رزق و خوشحالی جو کچھ بھی لوگوں کے پاس ہے وہ سب ہمارا ہی دیا ہوا ہے ۔ اور اصل میں ہمیں ہی حق حاصل ہے کہ جن کاموں میں چاہیں مال و دولت خرچ کرنے کا حکم دیں ۔ 
یَوْمٌ ( دن ) ۔ یہاں دن سے مراد روزِ قیامت ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ نیک کاموں میں مال خرچ کرنے کا اور نیکیاں جمع کرنے کا موقع اس دنیا میں ہے ۔ اس کے بعد جب روزِ قیامت آ پہنچے گا تو پھر کسی عمل کا موقع نہیں مل سکے گا ۔ 
اس سورۃ میں الله سبحانہ و تعالی نے عبادات و معاملات کے متعلق بہت سے احکام بیان فرمائے ہیں ۔ ان تمام نیک کاموں میں سب سے زیادہ دشوار کام جان اور مال کی قربانی ہے ۔اس لئے بار بار ان کا حکم آتا ہے ۔ ان کی محبت ہی انسان کو گناہ کی طرف لے جاتی ہے ۔ 
حضرت طالوت اور ان کے دشمن جالوت کا قصہ بیان کرکے الله تعالی نے جہاد کی اہمیت جتا دی اور لوگوں کو حکم دیا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق الله کی راہ میں اپنی جانیں قربان کریں ۔ سامانِ جنگ خریدنے کے لئے مال و زر  کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لئے الله تعالی نے جہاد کے حکم کے ساتھ ہی مال خرچ کرنے کی بھی تاکید فرمائی ۔ اور یہ بات واضح کر دی کہ اے ایمان والو ! تمہیں دینے والے ہم ہیں ۔ تمہیں اس چیز کا خوف نہیں ہونا چاہئیے کہ نیک کاموں پر مال خرچ کرنے سے تم غریب ہو جاؤ گے ۔ یا آئندہ کے لئے تم بچا نہیں سکو گے ۔ بلکہ اس چیز پر نظر رکھو کہ تمہارا اپنا کچھ نہیں ۔ یہ صرف ہماری دین ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ تم مال و زر کی محبت میں پڑ کر اسے جمع کرتے رہو اور مہلت کا وقت ختم ہو جائے ۔ 
کیونکہ اس وقت نہ تو کہیں سے اس مال کے بدلے میں نیکی خریدی جا سکے گی ۔ اور نہ بدی کی سزا سے نجات مل سکے گی ۔ نہ وہاں سفارش چلے گی ۔ نہ کسی کی دوستی اور آشنائی کام آئے گی ۔ دنیا میں انسان کچھ لے دے کر یا دوستی آشنائی سے یا سفارش سے کام نکال لیتا ہے ۔ لیکن قیامت کے دن صرف عمل کام آئیں گے ۔ 

درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...