*اندھی تقلید*

وَإِذَا ۔۔۔قِيلَ ۔۔۔لَهُمُ ۔۔۔اتَّبِعُوا ۔۔۔مَا ۔۔ أَنزَلَ ۔۔۔اللَّهُ 
اور جب ۔۔۔ کہا جاتا ہے ۔۔ ان سے ۔۔ تابعداری کرو ۔۔ جو ۔۔ اتارا ۔۔ الله تعالی 
قَالُوا ۔۔۔ بَلْ ۔۔۔ نَتَّبِعُ ۔۔۔ مَا أَلْفَيْنَا ۔۔۔۔عَلَيْهِ
وہ کہتے ہیں ۔۔۔ بلکہ ۔۔ ہم پیروی کریں گے ۔۔ جو پایا ہم نے ۔۔۔ اس پر 
آبَاءَنَا ۔۔۔ أَوَلَوْ ۔۔۔ كَانَ ۔۔۔آبَاؤُهُمْ
اپنے اجداد کو ۔۔ اگرچہ ۔۔۔ہوں ۔۔۔ باپ دادا ان کے 
لَا يَعْقِلُونَ ۔۔۔ شَيْئًا ۔۔۔  وَلَا يَهْتَدُونَ۔  1️⃣7️⃣0️⃣
نہیں وہ عقل رکھتے ۔۔۔ کچھ ۔۔۔اور نہیں وہ ھدایت یافتہ 

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ.  1️⃣7️⃣0️⃣

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تابعداری کرواس حکم کی جو الله تعالی نے نازل فرمایا  تو کہتے ہیں ہم تو اس کی تابعداری کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ۔ بھلا اگرچہ ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ سمجھتے ہوں اور نہ سیدھی راہ جانتے ہوں ۔ 

اس آیت میں وہم پرستوں کی ایک عادتکا بیان ہے  یعنی جب ان لوگوں سے کہا جائے کہ تم الله تعالی کی عبادت کرو ۔ اپنی زندگی کے ہر شعبے میںاس کے حکم اور قانون کی پیروی کرو ۔ اس کے حکموں کے مطابق دولت کماؤ اس کے حکموں کے مطابق خرچ کرو 
معاملات میں ، لین دین میں ، خریدوفروختمیں ، شادی بیاہ میں، نکاح و طلاق میںاسی کی دی ہوئی شریعت کے مطابق عمل کرو تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اپنے باپ دادا اور اپنے بڑوں کی رسموں اور خاندانی روایات کا لحاظ کریں گے ۔ ہم تو ان راستوں پر چلیں گے جن پر ہم نے اپنے باپ دادا اوراپنے بڑوں بوڑھوں کو چلتے دیکھا ۔ گویا الله تعالی کے احکام کو چھوڑ کر یہ لوگ اپنے بڑے بوڑھوں کی روایات کو مانتے ہیں۔ ان کی رسموں کو مقدم سمجھتے ہیں ۔اور انہیں الله تعالی کی شریعت سے زیادہ اہمیت اور وقعت دیتے ہیں۔
الله جل شانہ فرماتا ہےیہ لوگ اپنے بڑوں کی اندھا دھند پیروی کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہ ممکن ہے کہ ان کے باپ دادا کو کوئی سمجھ بوجھ نہ ہو ۔ وہ گمراہی میں بھٹک رہے ہوں ۔ سیدھی راہ سے بالکل ہٹے ہوئے ہوں۔لہذا ایسے باپ دادا کی اندھی پیروی سے یہ لوگ ضرور تباہی اور بربادی میں جا گریں گے ۔
 علامہ اقبال نے اس تصور کو  شاعرانہ انداز میں یوں بیان کیا ہے ۔ 

        *آئینِ نو سے ڈرنا  ، طرز کہن پہ اڑنا* 
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں*۔      *        

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*برائی اور بے حیائی*

إِنَّمَا ۔۔۔يَأْمُرُكُم ۔۔۔بِالسُّوءِ ۔۔۔وَالْفَحْشَاءِ ۔۔۔وَأَن
بے شک ۔۔۔ وہ حکم دیتا ہے تم کو ۔۔۔ برائی ۔۔۔ اور بے حیائی ۔۔۔ اور یہ 
تَقُولُوا ۔۔۔ عَلَى۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔مَا ۔۔۔ لَا تَعْلَمُونَ۔  1️⃣6️⃣9️⃣
تم کہو ۔۔۔ پر ۔۔۔ الله ۔۔۔ جو ۔۔۔ تم نہیں جانتے 
إِنَّمَا يَأْمُرُكُم بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ.   1️⃣6️⃣9️⃣

اَلسُّوآء ۔ ( برائی ) ۔ وہ چیز جو عقلا اور شرعا بری ہو ۔ 
اَلْفَحْشَآء ۔ ( بے حیائی ) ۔ وہ جسے اخلاق اور ادب نے نا پسندیدہ ٹہرایا ہے ۔ لفظ فحش اور فاحشہ اسی سے ہے ۔ 
اس آیت میں شیطان کی دو خصوصیات بیان کی گئی ہیں ۔ 
پہلی یہ کہ وہ ہمیشہ انسان کو برائی اور بے حیائی سکھاتا ہے ۔ اس سے کبھی بھی انسان کو فائدے کی امید نہیں رکھنی چاہئیے ۔ بلکہ شیطان کی فطرت ہی ایسی ہے کہ وہ سراسر برائی ، گندگی ، بے حیائی ، گمراہی اور نا پاکی میں آلودہ ہے ۔ اور دوسروں کو بھی آلودہ رکھنا چاہتا ہے ۔ ہر وقت کسی نہ کسی شرارت ، فساد ، فتنہ اور گڑ بڑ پر اکساتا ہے اور نیکی میں روڑے اٹکاتا ہے ۔ایسی تمام خواہشات اور کام جو انسانی برادری اور خود انسانیت کے لئے مہلک ہیں وہ سب برائی اور بے حیائی میں آجاتے ہیں ۔ 
سوسائٹی کے امن وامان کو خراب کرنا ، باہمی اخوت اور برادری میں تفریق پیدا کرنا ،اتحاد اور تعاون کی جڑ اکھاڑنا ، بندوں کے حق پورے نہ کرنا ، غرض تمام شرو فساد پھیلانے والے کام شیطانی ہیں ۔ 
شیطان کا دوسرا کام یہ ہے کہ وہ انسان کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اپنے پاس سے من گھڑت باتیں بتایا کرے ۔اور ظاہر یہ کرے کہ یہ الله تعالی کا حکم ہے ۔ حالانکہ الله جل شانہ ہرگز ان باتوں کا حکم نہیں دیتا ۔لیکن شیطان کی پیروی کرنے والے لوگ مال کی حرص ، دنیاوی طمع و شہرت ، عارضی فائدے اور نا پائیدار چیزوں کو حاصل کرنے کی خاطر یہ سب کچھ کر گزرتے ہیں ۔
یہودی علماء میں یہ مرض عام ہو گیا تھا ۔ وہعوام کو دھوکا دینے کے لئے اپنے فائدے کی باتیں کہہ کر الله تعالی سے مسوب کر دیتے تھے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے دین کی جڑیں کھوکھلی ہو گئیں اور وہ آئیندہ کے لئے ناکام ہو گئے ۔
ہمیں اس آیت سے سبق سیکھنا چاہئیے کہ نہ بدی اور بے حیائی میں حصہ لیں ۔نہ ہی جھوٹے مسائل گھڑ کر لوگوں کو سنائیں ۔ کیونکہ یہ دونوں شیطانی کام ہیں ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*حلال و طیب غذا*

يَا أَيُّهَا ۔۔۔ النَّاسُ ۔۔۔ كُلُوا ۔۔۔ مِمَّا ۔۔ فِي الْأَرْضِ
اے ۔۔ لوگو ۔۔ کھاؤ ۔۔۔ اس سے جو۔۔۔ زمین میں 
حَلَالًا ۔۔۔طَيِّبًا ۔۔۔ وَلَا تَتَّبِعُوا ۔۔۔ خُطُوَاتِ ۔۔۔الشَّيْطَانِ
حلال ۔۔۔ پاکیزہ ۔۔ اورنہ پیروی کرو۔۔۔ قدم ۔۔۔ شیطان 
  إِنَّهُ ۔۔۔ لَكُمْ ۔۔۔ عَدُوٌّ ۔۔۔مُّبِينٌ۔ 1️⃣6️⃣8️⃣
بے شک وہ ۔۔۔ تمہارے لئے ۔۔۔ دشمن ۔۔۔ کُھلا 

يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ.  1️⃣6️⃣8️⃣

اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو  بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔

اس آیت میں الله تعالی نے تمام بنی نوع کو مخاطب کرکےحلال اور حرام کے فرق کو بیان فرمایا ہے ۔ اور کھانے پینے کی چیزوں میں دوشرطیں ضروری قرار دی ہیں ۔
اول ۔۔۔ حلال ہونا 
دوم ۔۔۔طیّب ہونا 
حَلَالٌ ۔  اس چیز کو کہا ہے جو الله تعالی کی طرف سے ممنوع نہ ہو ۔شریعت نے اسے جائز کہا ہو حرام اور ناپسندیدہ نہ قرار دیا ہو ۔مثلا ۔۔۔ سبزیاں ، گوشت ، دالیں۔ وغیرہ 
پاکیزہ ۔ وہ چیز جو حلال ہو ۔ ساتھ ہی نجاست اور گندگی سے پاک ہو ۔ 
غذا کے اندر الله تعالی نے حلال اور طیب کی دو شرطیں لگا کر ایک بہت بڑی خوبی پیدا کی ہے ۔ ان اصولوں کی بنا پر ہر وہ شے جو پاکیزہ نہیں ۔ روح اور جسم کے لئے نقصان دہ ہے یا جائز طور پر حاصل نہیں کی گئی ۔ اس کا کھانا پینا اور استعمال کرنا ممنوع ہے ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پاکیزگی کا اسقدر خیال رکھا کہ وہ چیزیں جن کی بو عام طور پر طبیعت پر گراں گزرتی ہے ۔ مکروہ قرار دے دیں اور انہیں کھا کر مسجد میں آنے کو ناپسندیدہ بیان کیا ۔ تاکہ ساتھی نمازیوں کی طبیعت پر گراں نہ گزرے اہل عرب بت پرستی کرتے تھے ۔ اور بتوں کے نام پر چھوڑے ہوئے جانور سانڈ وغیرہ اور بعض دوسری غذائیں از خود حرام قرار دے رکھی تھیں ۔ اور ان جانوروں سے نفع اٹھانا بھی حرام سمجھتے تھے ۔
 اسی طرح بعض حرام چیزوں کو شیر مادر کی طرح استعمال کرنا شروع کر دیا تھا ۔ یہ بھی ایک طرح کا شرک ہے ۔ کیونکہ حرام اور حلال قرار دینے کا منصب الله جل جلالہ کے سوا کسی کو نہیں ۔اس بارے میں کسی کی بات ماننی گویا اُس کو الله تعالی کا شریک ٹہرانے کے برابر ہے ۔
چنانچہ پہلی آیات میں شرک کی ممانعت فرما کر اب تحریم حلال سے منع کیا جارہا ہے ۔  جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ زمین میں پیدا ہوتا ہے اس سے کھاؤ ۔ جبکہ وہ شرعاحلال اور طیب ہو نہ کہ فی نفسہ حرام ہو جیسے  مردار ، خنزیر اور جس پر غیرالله کا نام لیا گیا ہو ۔ اسی طرح غصب ، چوری رشوت ، سود کا مال ان سب سے اجتناب ضروری ہے ۔ 
نبی آخرالزماں صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ 
جس شخص کا کھانا حرام کا ، لباس حرام کا ، غذا حرام کی ہو اُس کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے ۔ 
الله تعالی نے فرمایا ۔ جو لوگ حلال و طیّب کی پرواہ نہیں کرتےوہ شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔اور شیطان انسان کا کُھلا دشمن ہے ۔ وہ کبھی انسان کی خیر خواہی نہیں کرتا ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

*مشرکوں کی بے بسی*

إِذْ ۔۔۔تَبَرَّأَ ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ اتُّبِعُوا 
جب ۔۔۔ بیزار ہوں گے ۔۔۔ وہ لوگ ۔۔ جن کی پیروی کی گئی 
مِنَ الَّذِينَ ۔۔۔ اتَّبَعُوا ۔۔۔ وَرَأَوُا ۔۔۔ الْعَذَابَ
ان لوگوں سے ۔۔۔ جنہوں نے پیروی کی ۔۔۔ اور وہ دیکھیں گے ۔۔۔ عذاب 
 وَتَقَطَّعَتْ ۔۔۔ بِهِمُ ۔۔۔ الْأَسْبَابُ۔  1️⃣6️⃣6️⃣
اور کٹ جائیں گے ۔۔۔ ان سے ۔۔۔ اسباب 

وَقَالَ ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ اتَّبَعُوا ۔۔۔لَوْ ۔۔ أَنَّ
اور کہیں گے ۔۔۔ وہ لوگ ۔۔ جنہوں نے پیروی کی ۔۔ کاش ۔۔ ہو 
 لَنَا ۔۔۔ كَرَّةً ۔۔۔ فَنَتَبَرَّأَ ۔۔۔ مِنْهُمْ 
ہمارے لئے ۔۔۔ لوٹنا ۔۔ پس ہم بیزار ہوں گے ۔۔۔ ان سے 
كَمَا ۔۔۔ تَبَرَّءُوا ۔۔۔ مِنَّا ۔۔۔ كَذَلِكَ ۔۔۔ يُرِيهِمُ 
جیسا ۔۔ وہ  بیزار ہوئے ۔۔۔ ہم سے ۔۔ اسی طرح ۔۔ دکھائے گا ان کو 
اللَّهُ ۔۔۔ أَعْمَالَهُمْ ۔۔۔ حَسَرَاتٍ ۔۔۔عَلَيْهِمْ 
الله تعالی ۔۔۔ اعمال ان کے ۔۔۔ حسرتیں ۔۔۔ ان پر 
وَمَا ۔۔۔هُم ۔۔۔ بِخَارِجِينَ ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔النَّارِ.  1️⃣6️⃣7️⃣
اور نہیں ۔۔۔ وہ ۔۔ نکلنے والے ۔۔۔ سے ۔۔۔ آگ 

إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ
وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ.  1️⃣6️⃣6️⃣

جب وہ جن کی پیروی کی گئی اپنے پیراکاروں سے بیزار ہو جائیں گے  اور وہ عذاب دیکھ لیں گے اور ان سے سب اسباب کٹ جائیں گے ۔

وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا كَذَلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ 
وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ.   1️⃣6️⃣7️⃣
 
اور پیروکار کہیں گے کاش ایسا ہوتا دنیا کی طرف لَوٹ جانا مل جاتا تو پھر ہم بھی ان سے بیزار ہو جاتے جیسے یہ ہم سے بیزار ہو گئے  اسی طرح الله تعالی انہیں دکھائے گا ان کے اعمال حسرت دلانے کے لئے اور وہ آگ سے ہرگز نکلنے والے نہیں ۔ 

اَلَّذِیْنَ اتُّبِعُوا۔ ( جن کی پیروی کی گئی ) ۔ اتباع  اس کا مصدر ہے ۔ جس کے معنیٰ  پیروی کرنا ہیں ۔ مراد مرشد جن کی پیروی کی جاتی ہو ۔ 
اَلّذِیْنَ اتَّبَعُوْا  ۔ ( جنہوں نے پیروی کی ) ۔ یعنی پیروکار اور مرید ۔ ماننے والے جنہوں نے پیروی کی ہو ۔

ان آیات میں الله تعالی نے قیامت کے ایک ہولناک منظر کا بیان فرمایا ہے ۔  کاش غلط کار مشرک آج اس پر غور کرکے عبرت پکڑ لیں اور بے راہ روی سے باز آجائیں ۔ 
اس دن جھوٹے مُرشد جنہوں نے دنیا میں نادان عوام کو اپنے پیچھے لگا رکھا تھا ۔ ان لوگوں کو چھوڑ دیں گے  جنہوں نے دنیا میں ان کی پیروی کی تھی ۔ اور ان کے پیچھے لگ کر راہِ حق چھوڑ بیٹھے تھے ۔ یہ گھڑی ان نادان پیروکاروں کے لئے بڑی بھیانک ہو گی  کہ ان کے مُرشد جواب دے چکے ہوں گے ۔ اسباب کٹ گئے ہوں گے اور عذاب سامنے نظر آرہا ہو گا ۔ 
نادان مُرید کہیں گے کہ کاش !!!  دنیا میں ایک بار جانا نصیب ہو اور ہم ان مکار مرشدوں سے اسی طرح بیزاری اختیار کریں ۔ اور ہم بھی ان سے انتقام لیں اور جیسا یہ آج ہم کو جواب دے کر الگ ہوگئے ہیں ہم بھی ان کو جواب دے کر جُدا ہو جائیں ۔ مگر اب کچھ نہ ہو سکے گا ۔ اعمال ایک حسرت کا دفتر بن کر ان کے سامنے ہوں گے ۔ اور جہنم کی آگ سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہ ہو گی ۔ جیسے مشرکین کو عذابِ  الٰہی اور اپنے معبودوں کی بیزاری دیکھ کر سخت حیرت ہو گی اسی طرح ان کے تمام اعمال کو الله تعالی ان کے لئے حسرت بنادے گا ۔ کیونکہ حج و عمرہ ، صدقات و خیرات جو اچھی باتیں ہوں گی وہ تو شرک کی وجہ سے مردود ہو جائیں گی ۔ اور شرک و گناہ جس قدر کئے ہوں گے ان کا بدلہ عذاب کی صورت میں ملے گا ۔ تو اب ان کے برے اعمال ان کے لئے حسرت کی وجہ بن جائیں گے کسی عمل سے کچھ نفع حاصل نہ ہو گا ۔  
بخلاف موحدین اور اہل ایمان کے کہ اگر گناہوں کے سبب دوزخ میں جائیں گے تو آخر کار نجات پا لیں گے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

*تمام قوت الله تعالی کے لئے ہے*

وَلَوْ ۔۔ يَرَى ۔۔ الَّذِينَ ۔۔ ظَلَمُوا ۔۔ إِذْ يَرَوْنَ
اور اگر ۔۔ وہ دیکھ لیں ۔۔ لوگ ۔۔ جنہوں نے ظلم کیا ۔۔۔ جب وہ دیکھیں گے 
الْعَذَابَ ۔۔۔ أَنَّ ۔۔ الْقُوَّةَ ۔۔ لِلَّهِ ۔۔۔ جَمِيعًا
عذاب ۔۔۔ بے شک ۔۔ قوت ۔۔۔ الله تعالی کے لئے ہے ۔۔۔ ساری 
وَأَنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔ شَدِيدُ ۔۔۔الْعَذَابِ۔ 1️⃣6️⃣5️⃣
اور بے شک ۔۔۔ الله تعالی ۔۔ سخت ۔۔ عذاب 

وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا
وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ.  1️⃣6️⃣5️⃣

اور اگر یہ ظالم دیکھ لیں اس وقت کو جب یہ عذاب دیکھیں گے کہ ساری قوت الله تعالی ہی کے لئے ہے اور یہ کہ الله جل  جلالہ کا عذاب سخت ہے ۔ 

پہلی آیات میں الله تعالی نے اپنے واحد ہونے ، کائنات کا خالق ہونے اور مؤمنوں کا رتبہ بتانے کے بعد اپنی قوت اور طاقت کا پتہ دیا اور فرمایا کہ کافر اور مشرک اپنی کم عقلی جہالت اور ناعاقبت اندیشی کے سبب مختلف چیزوں کو الله تعالی کا شریک ٹہراتے ہیں ۔ انہیں اپنی حاجتوں کا پورا کرنے والا سمجھتے ہیں ۔ مصیبت کے وقت مدد کرنے والا خیال کرتے ہیں ۔ اور عبادت کے صلہ میں انعامات کی بارش کرنے والا گمان کرتے ہیں ۔ اور یقین رکھتے ہیں کہ یہ چیزیں قوتقں کی مالک ہیں ۔ 
اس آیت میں الله تعالی نے فرمایا ۔ اگر ! یہ منکرین حق اور الله کے ساتھ مخلوقات کو شریک ٹہرانے والے اس عذاب کو دیکھ لیں جو ہم قیامت کے دن ان پر نازل کریں گے ۔ جسے دیکھ کر وہ فورا کہہ اٹھیں گے کہ ہر قسم کی قوت وطاقت ۔ عظمت و قدرت اور اختیار اور اقتدار صرف الله تعالی ہی کے لئے ہے ۔ کسی کو اس کے سامنے دم مارنے کی مجال نہیں ۔ اس کے سوا کوئی دوسری ہستی کسی کی مدد نہیں کر سکتی اور ہر چیز اس کے سامنے عاجز ہے ۔ 
اس دن نہ کسی کا مال واسباب اس کے کچھ کام آئے گا اور نہ عزیز واقارب ساتھ دے سکیں گے ۔ ہر شخص اپنے محرم بھائی بند ، ماں باپ ، بہن بھائی سے یار دوستوں اور عزیزوں سے دور بھاگے گا ۔ تاکہ کہیں ان کا وبال اُس کے اوپر نہ آپڑے ۔ اس روز مشرک لوگ اپنے ان باطل معبودوں اور جھوٹے شریکوں کو بھول جائیں گے اور  الامان الامان۔ پکاریں گے ۔
دنیاوی زندگی میں انسان پر طرح طرح کی مصیبتیں اور آزمائشیں نازل ہوتی ہیں ۔ اسے اپنی عقل سے کام لے کر یہ سمجھنا چاہئیے کہ یہ سب الله تعالی کی طرف سے ہیں اور ان سے سبق حاصل کرکے الله تعالی کے سامنے جھک جانا چاہئیے ۔ 
احادیث نبوی صلی الله علیہ وسلم میں اس عاجزی اور نیاز مندی کو توبہ و استغفار اور دعاکو عبادت کی جان بتایا گیا ہے ۔ 
فرمایا ۔۔۔۔ 
اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃ 
دعا عبادت کا مغز ہے ۔۔۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*غیر الله سے محبت*

وَمِنَ النَّاسِ ۔۔۔ مَن ۔۔۔ يَتَّخِذُ ۔۔۔  مِن دُونِ اللَّهِ 
اور لوگوں میں سے ۔۔۔ جو ۔۔ بناتا ہے ۔۔ الله تعالی کے علاوہ 
أَندَادًا ۔۔۔يُحِبُّونَهُمْ ۔۔۔كَحُبِّ ۔۔۔اللَّهِ 
برابر ۔۔ وہ محبت کرتے ہیں اُن سے ۔۔۔ جیسی محبت ۔۔ الله تعالی 
وَالَّذِينَ آمَنُوا ۔۔۔أَشَدُّ ۔۔۔ حُبًّا ۔۔۔لِّلَّهِ
اور ایمان والے ۔۔  زیادہ سخت ۔۔۔ محبت ۔۔۔ الله تعالی کے لئے 

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ

اور بعض وہ لوگ ہیں جو بناتے ہیں اوروں کو الله تعالی کے برابر   ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی الله تعالی کی محبت   اور مؤمنوں کو الله تعالی کی محبت سب سے زیادہ ہے ۔ 

اَنْدَادًا ۔ ( برابر ) ۔ یہ لفظ "ند سے بنا ہے ۔ جس کے معنی ہیں مثل یا مقابل ۔ مثلا الله تعالی کے مقابلے میں بُت ، مورتیاں ،دیوتا ، رئیس ، اور پیشوا وغیرہ ۔ یا کوئی اور شئے جو الله تعالی کے علاوہ دل میں جگہ حاصل کر لے ۔ اور اس کی محبت دل پر غالب آجائے ۔ 
اس سے پہلے کی آیات میں الله جل شانہ نے اپنی  الوہئیت ، رحمانیت اور رحیمیت بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ انسان کی ضروریات کے لئے ہم نے ساری کائنات پیدا کی ۔زمین ، آسمان ، رات، دن ، کشتیاں ، بارش ، زمین کی پیداوار ، مویشی ، چوپائے ، ہوائیں اور بادل وغیرہ انسان ان سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ اپنی ضروریات پوری کرتا ہے ۔ اور آرام سے زندگی گزارتا ہے ۔ اسے چاہئیے کہ وہ ان نعمتوں کو پانے کے بعد الله تعالی کا شکریہ ادا کرے ۔ 
افسوس لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو شکر ادا کرنے کی بجائے الله تعالی کو بھول جاتے ہیں جو شعور و عقل میں تمام مخلوقات سے افضل ہیں ۔ اور تمام دلائل ظاہرہ کے باوجود غیر الله کو حق تعالی کا شریک اور اُس کے برابر بناتے ہیں ۔ انہیں اپنے معبود بناتے ہیں ۔الله جل شانہ کے ساتھ دوسرے بتوں ، دیوتاؤں اور پیشواؤں کو شریک ٹہراتے اور انہیں قدرت و اختیار والا سمجھتے ہیں ۔  الله تعالی کی نعمتیں دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ اور ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی الله تعالی سے رکھنی چاہئیے تھی ۔ اس آیت میں انہی لوگوں کا ذکر ہے 
الله تعالی فرماتا ہے کہ جب خالق و مالک وہ خود ہے معبود بھی وہی ہے تو سب سے زیادہ محبت بھی اسی سے ہونی چاہئیے ۔ ایک مؤمن کامل کی نشانی یہی ہے کہ وہ سب سے زیادہ الله تعالی کو محبوب رکھے ۔ اپنے دل میں اس کی محبت سب سے زیادہ مضبوط کرے ۔
کیونکہ مشرکین کو اپنے معبودوں سے جو محبت ہے مؤمنین کو اپنے الله  سے اُس سے بھی بہت زیادہ اور مستحکم محبت ہے مصائب دنیا میں مشرکین کی محبت بعض اوقات ختم ہو جاتی ہے ۔ لیکن مؤمن مصائب اور مشکلات میں الله سے اور زیادہ جُڑ جاتا ہے ۔ 
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ 
مؤمن وہ ہے جس کی دشمنی اور دوستی الله کے لئے ہوتی ہے ۔ جسے الله تعالی چاہتا ہے وہ اسے دوست رکھتا ہے ۔اور جس سے الله تعالی ناراض ہو اسے دشمن سمجھتا ہے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

*الله کے نشانات*

إِنَّ ۔۔ فِي ۔۔ خَلْقِ ۔۔ السَّمَاوَاتِ۔۔۔ وَالْأَرْضِ 
بے شک ۔۔۔ میں ۔۔ پیدائش ۔۔ آسمان ۔۔ اور زمین 
وَاخْتِلَافِ ۔۔۔اللَّيْلِ ۔۔۔   وَالنَّهَارِ ۔۔۔۔۔ وَالْفُلْكِ 
اور بدلنا ۔۔ رات ۔۔ اوردن ۔۔ اور کشتیاں 
الَّتِي ۔۔  تَجْرِي ۔۔۔۔۔ فِي الْبَحْرِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بِمَا ۔۔۔    يَنفَعُ ۔۔۔۔۔۔ النَّاسَ 
جو ۔۔ چلتی ہیں ۔۔ سمندر میں ۔۔ اس کے ساتھ ۔۔وہ نفع دیتا ہے ۔۔ لوگ 
وَمَا ۔۔۔ أَنزَلَ ۔۔۔۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔۔۔ مِنَ السَّمَاءِ ۔۔۔    مِن مَّاءٍ 
اور جو ۔۔ اتارا ۔۔ الله تعالی ۔۔ آسمان سے ۔۔ پانی سے 
 فَأَحْيَا ۔۔۔۔۔۔۔ بِهِ الْأَرْضَ ۔۔۔۔۔۔ بَعْدَ ۔۔۔۔۔ ۔ مَوْتِهَا ۔۔۔۔۔۔     وَبَثَّ ۔۔۔۔۔۔  فِيهَا
پس زندہ کیا ۔۔ اس سے زمین ۔۔ بعد ۔۔ اس کی موت ۔۔ اور پھیلائے ۔۔ اس میں 
 مِن ۔۔   كُلِّ ۔۔۔دَابَّةٍ ۔۔۔ وَتَصْرِيفِ ۔۔۔ الرِّيَاحِ
سے ۔۔ سارے ۔۔جانور ۔۔۔۔۔اور بدلنا ۔۔۔۔ ہوائیں 
 وَالسَّحَابِ ۔۔۔ الْمُسَخَّرِ ۔۔۔ بَيْنَ ۔۔۔ السَّمَاءِ ۔۔۔ وَالْأَرْضِ 
اور بادل ۔۔۔۔ تابع ۔۔ درمیان ۔۔ آسمان ۔۔ اورزمین 
لَآيَاتٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔ لِّقَوْمٍ ۔۔۔ يَعْقِلُونَ۔ 1️⃣6️⃣4️⃣
البتہ نشانیاں ہیں ۔۔ قوم کے لئے ۔۔ وہ عقل  رکھتے ہیں 

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ 
    1️⃣6️⃣4️⃣.  لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے بدلتے رہنے میں اور کشتیوں میں جو دریا میں چلتی ہیں لوگوں کے کام کی چیزیں لے کر اور پانی میں جسے الله تعالی نے آسمان سے اتارا پھر اس سے زمین کو زندہ کیا اس کے مردہ ہونے کے بعد اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہواؤں کے بدلنے میں اور بادل میں جو اس کے حکم کا تابع ہے ۔ زمین اور آسمان کے درمیان بے شک ان سب چیزوں میں عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں ۔ 

اس آیت میں الله جل شانہ نے اپنی قوت اور فدرت کی بے شمار نشانیاں بیان فرمائی ہیں تاکہ انسان ان پر غور کرے اور اس کی الوہیت اور برتری کا اقرار کرے ۔ 
یعنی آسمان کے اس قدر وسیع ، اُونچا اور بے ستون پیداکرنے میں اور زمین کو اتنا وسیع مضبوط پیدا کرنے میں ، دن اور رات کے بدلتے رہنے اور ان کے گھٹانے اور بڑھانے میں اور کشتیوں کے دریا میں چلنے میں اور آسمان سے پانی برسانے میں ، اس سے زمین کو سرسبز و تازہ کرنے میں اور تمام حیوانات میں ان کی پیدائش و افزائش میں ، نشو ونما ہونے میں ، مختلف سمتوں سے ہواؤں کے چلانے میں ، بادلوں کو زمین اور آسمان کے درمیان معلق کرنے میں ۔۔۔ الله تعالی کی قدرتوں اور قوتوں کا نشان نہیں تو اور کیا ہے ؟ 
ان تمام باتوں میں عقل و فکر رکھنے والوں کے لئے حق تعالی کی واحدانیت ، قدرت اور حکمت و رحمت کے بے شمار عظیم دلائل ہیں ۔ مگر ان پر عقل والے ہی غور کر سکتے ہیں ۔ نادان کسی چیز سے سبق حاصل نہیں کر سکتے ۔ 
آیہ ۔۔ 163 میں 
لاالہ الا ھو ۔۔۔ میں توحید ذات کا 
الرحمٰن الرحیم ۔۔۔ میں توحید صفات کا 
اور انّ فی خلق السموات ۔۔ الخ ۔۔۔۔۔ میں توحید افعال کا ثبات ہے 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

*مفتی عتیق الرحمٰن شھید ۔۔۔ مرد مؤمن ۔۔ مرد حق *

مفتی عتیق الرحمان شہید کی تروتازہ لاش
تحریر: مولانا ابرار عالم
جامعہ بنوریہ العامیہ سائٹ ایریاکراچی کے مشہور و معروف استاذ الحدیث حضرت مولانا و مفتی عتیق الرحمان صاحب کا واقعہ بیان کرنے جارہا ہوں۔ 2001ء تک میں بھی جامعہ بنوریہ میں پڑھاتا رہا ہوں۔ ان دنوں حضرت مفتی صاحب سے میری ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ چونکہ حضرت بنین و بنات دونوں شعبوں میں پڑھاتے تھے اور میں بھی ان دونوں شعبوں میں پڑھاتا تھا۔

نیز مفتی صاحب کا ایک فرزند جمال عتیق ان دنوں میرا شاگرد بھی تھا۔ مفتی صاحب کی شہادت کے بعد جب میں ان کے موصوف فرزند سے ملااور مفتی صاحب کی شہادت کے بارے میں اور اس کے بعد کے حوالہ سے جاننا چاہا تو موصوف عزیزم نے جو مجھے بتایا مخصراً اپنے الفاظ میں پیش کرتا ہوں۔

انہوں نے بتایا کہ مفتی صاحب برنس روڈ پر مسجد سے آرہے تھے کہ نامعلوم افراد نے ان پر گولیاں برسا کر شہید کردیا۔ مفتی صاحب کے بارے میں بتایا گیاکہ اکثر خصوصی طور پر امریکہ کے خلاف اور عمومی طور پرحق و باطل کے موضوع پر ان کا بیان ہوتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جنازے میں عبدالستار ایدھی تشریف لائے تو ان سے سوال کیا گیاکہ آپ مفتی صاحب کے بارے میں کچھ بتائیں تو ایدھی صاحب نے بتایا کہ میری مفتی صاحب سے کوئی رشتہ داری اوردوستی نہیں لیکن میں جنازہ میں شرکت کیلئے اس لئے آیا ہوں کہ ان کا جنازہ میرے سرد خانے میں تقریباً دس گھنٹے سے زیادہ رہا۔ میں نے دیکھا کہ مفتی صاحب کے زخموں سے مسلسل خون بہہ رہا ہے۔ حالانکہ یہ بات حقیقت ہے کہ کسی بھی زخم سے خون زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے تک جاری رہ سکتا ہے اسکے بعد خون بہنا بند ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ میری زندگی کا عجیب واقعہ ہے کہ مفتی موصوف کا خون دس گھنٹوں تک مسلسل بہہ رہا تھا جس سے میں نے سمجھ لیا کہ ضرور یہ کوئی نیک آدمی ہیں اور انکے جنازے میں ضرور شرکت کرنی چاہئے کہ شاید ان کے صدقے میں میری مغفرت بھی ہوجائے۔

قارئین گرامی !میں پہلے بھی کئی بار عرض کرچکا ہوں کہ شہید زندہ ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کے حوالے سے میں نے عرض کیا ہے اور انکو اللہ تعالیٰ کے پاس سے رزق دیا جاتا ہے چونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس سے ان کی شہادت کے بعد رزق ملنا شروع ہوجاتا ہے جو کہ دنیاوی رزق سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے اور رزق کھانے کے بعد خون کا بننا ضروری ہے۔ لہذا انکے زخموں سے مسلسل خون بہتا رہاکیونکہ ان کو اللہ تعالیٰ کے پاس سے روحانی طور پرکھانے پینے کی فراہمی شروع ہوگئی تھی۔ شہیدزندہ ہوتا ہے اور زندہ جسم میں خون کا ہونا ضروری ہے اور جب جسم میں خون بڑھتا ہی جائے گا تو یقینازخم سے مسلسل نکلناتو ضروری ہے۔اسی لئے کرامتاً مسلسل دس گھنٹوں تک خون بہتا رہا۔

بہرحال اسکے بعد عزیزم جمال عتیق صاحب نے بتایا کہ پھر تقریباً 13ماہ بعد کراچی میں بہت موسلادھار بارش ہوئی جس کے نتیجہ میں مفتی صاحب کی قبر جو کہ کچی تھی وہ کھل گئی اور مرمت کی ضرورت پڑگئی۔ چناچہ جامعہ بنوریہ کے علماء و طلباء مرمت کی غرض سے گئے اور مفتی صاحب کے فرزندجمال عتیق قبر میں اترے تاکہ مرمت کرسکیں اور قبر کی صفائی بھی ہوجائے۔تو ان کا مجھ سے بیان ہے کہ قبر سے خوشبو آرہی تھی جو کہ موجود علماء و طلباء نے بھی محسوس کی۔ نیز جب میں نے جسم کو ہاتھ لگایا تو وہ زندہ انسان کی طرح نرم و ملائم اور گرم تھا جبکہ مفتی صاحب کے خون سے بھی خوشبو آرہی تھی اور جو خون صفائی کے دوران میرے ہاتھ پر لگ گیا تھا اسے دھونے کے پندرہ دن بعد بھی ہاتھ سے خوشبو آرہی تھی۔مفتی صاحب کے صاحبزادے اور دیگر علماء کرام و طلباء نیز خود مفتی محمد نعیم صاحب جامعہ بنوریہ ممتہم نے دیکھا کہ مفتی صاحب کا جسم سوا سال بعد بھی بالکل ترو تازہ حالت میں محفوظ اور صحیح و سالم تھا۔مزید تصدیق کیلئے میری ویب سائٹwww.RightfulReligion.com پر مفتی عتیق صاحب کے صاحبزادے سے لئے گئے انٹرویو کی ویڈیو موجود ہے۔


رمضان المبارک ۱۴۳۷ھ میں ۔۔۔میں نزہت وسیم ہر روزایک پارے کی تفسیر ۔۔۔ مختصر تفسیر مفتی عتیق الرحمن ۔۔۔ سے گوگل پلس پر صرف اردوکمیونٹی میں شئر کرتی رہی ۔۔۔ لیکن سولہویں پارے کی تفسیر متن میں موجود نہ تھی ۔ اس لئے میں نے مفتی عتیق الرحمن شھید کی طرز پر وہ خود تحریر کی ۔ الله جل شانہ قبول فرمائے ۔ اور اس میں اگر کوئی غلطی کوتاہی ہو تو درگذر کا معاملہ فرمائے ۔۔۔

پارہ~~~30~~~ عَمَّ*

               *سورہ نبأ*

مشرکین مکہ استہزاء و تمسخر کے طور پر مرنے کے بعد زندہ ہونے کو اور قرآن کریم کو ’’النبأ العظیم‘‘ یعنی ’’بڑی خبر‘‘ کہتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعی بڑی اور عظیم الشان خبر ہے۔
 اللہ تعالیٰ نے ان کے منہ کی بات لیکر فرمایا کہ اس ’’بڑی خبر‘‘ پر تعجب یا انکار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تمہیں عنقریب اس کی حقیقت کا علم ہو جائے گا۔ پھر اس پر کائناتی شواہد پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ آسمان و زمین اور ان میں موجود چیزیں جن کی تخلیق انسانی نقطۂ نظر سے زیادہ مشکل اور عجیب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کی تخلیق فرمائی ہے اور ایسی طاقت و قدرت رکھنے والے اللہ کے لئے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنا کون سا مشکل کام ہے۔
 پھر اس اعتراض کا جواب دیا کہ اگر یہ برحق بات ہے تو آج مردے زندہ کیوں نہیں ہوتے؟ ہر چیز کے ظہور پذیر ہونے کے لئے وقت متعین ہوتا ہے۔ وہ چیز اپنے موسم اور وقت متعین میں آ موجود ہوتی ہے۔ مرنے کے بعد زندہ ہونے کا ’’موسم‘‘ اور وقت متعین یوم الفصل (فیصلہ کا دن) ہے لہٰذا یہ کام بھی اس وقت ظاہر ہو جائے گا۔
 پھر جہنم کی عبرتناک سزاؤں اور جنت کی دل آویز نعمتوں کے تذکرہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے جاہ و جلال اور فرشتوں جیسی مقرب شخصیات کی قطار اندر قطار حاضری اور بغیر اجازت کسی قسم کی بات کرنے سے گریز کو بیان کر کے بتایا کہ آخرت کے عذاب کی ہولناکی اور خوف کافروں کو یہ تمنا کرنے پر مجبور کر دے گا کہ کاش ہم دوبارہ پیدا ہی نہ کئے جاتے اور جانوروں کی طرح پیوندِ خاک ہو کر عذاب آخرت سے نجات پا جاتے۔

               *سورہ نازعات*

اس سورت کا مرکزی مضمون مرنے کے بعد زندہ ہونے کا اثبات ہے۔ ابتداء ان فرشتوں سے کی گئی ہے جو اس کائنات کے معاملات کو منظم طریقے پر چلانے اور نیک و بد انسانوں کی روح قبض کرنے پر مامور ہیں۔ پھر مشرکین مکہ کے اعتراض کے جواب میں قیامت کی ہولناکی اور بغیر کسی مشکل کے اللہ کے صرف ایک حکم پر قبروں سے نکل کر باہر آ جانے کا تذکرہ اور اس پر واقعاتی شواہد پیش کئے گئے ہیں جو اللہ فرعون جیسے ظالم و جابر کو حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے وسائل سے محروم شخص کے ہاتھوں شکست سے دوچار کر کے سمندر میں غرق کرسکتا ہے اور آسمانوں جیسی عظیم الشان مخلوق کو وجود میں لا سکتا ہے وہ انسان کو مرنے کے بعد زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔
 پھر جنت و جہنم کے تذکرہ اور صبح و شام کسی بھی وقت قیامت اچانک قائم ہو جانے کے اعلان پر سورت کا اختتام عمل میں لایا گیا ہے۔

               *سورہ عبس*

سرداران قریش کے مطالبہ پر حضور علیہ السلام ان سے علیحدگی میں دعوت اسلام کے موضوع پر گفتگو کر رہے تھے کہ ان کے اسلام قبول کر لینے کی صورت میں ان کے ماتحت افراد بھی مشرف بہ اسلام ہو جائیں گے۔ اتنے میں ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوب کسی قرآنی آیت کے بارے میں معلومات کے لئے حاضر خدمت ہوئے وہ نابینا ہونے کی بنا پر صورتحال سے ناواقف تھے۔ حضور علیہ السلام کو ان کا یہ انداز ناگوار گزرا جس پر اللہ تعالیٰ نے سورت نازل فرمائی۔ ایک نابینا کے آنے پر منہ بسور کر رخ موڑ لیا۔ جو استغناء کے ساتھ اپنی اصلاح کا خواہاں نہیں ہے اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور جو اللہ کی خشیت سے متأثر ہو کر اپنی اصلاح کی خاطر آپ کے پاس آتا ہے اس سے آپ اعراض کرتے ہیں۔
 یہ قرآن کریم نصیحت کا پیغام ہے، کسی بڑے چھوٹے کی تفریق نہیں کرتا۔ اس سے جو بھی نصیحت حاصل کرنا چاہے اس کی جھولی علم و معرفت سے بھردیتا ہے۔ 
غریب علاقوں کو نظرانداز کر کے فائیو اسٹار ہوٹلوں اور پوش علاقوں کے ساتھ تفسیر قرآن کی مجالس کو مخصوص کرنے والوں کی واضح الفاظ میں اس سورت میں مذمت کی گئی ہے۔
 انسان اگر پہلی مرتبہ اپنی تخلیق پر غور کرے تو دوبارہ پیدا ہونے پر اسے تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ ماخلقکم ولا بعثکم الا کنفس واحدۃ۔ تمہارا پیدا ہونا اور مرنے کے بعد زندہ ہونا ایک ہی جیسا ہے۔ زمین، فضاء اور پانی میں منتشر اجزاء کو پھلوں سبزیوں کی شکل دے کر تمہاری خوراک کے ذریعہ تمہارے جسم کا حصہ بنایا۔ مرنے کے بعد تمہارے منتشر اجزاء کو دوبارہ جمع کر کے انسان بنا کر پھر قبروں سے باہر نکال لیا جائے گا۔ پھر قیامت کے دن کی شدت اور دہشت کو بیان کر کے نیک وبد کا ان کے اعمال کے مطابق انجام ذکر فرما کر سورت کو اختتام پذیر کیا ہے۔

               *سورہ تکویر*

قیام قیامت اور حقانیت قرآن اس کے مرکزی مضامین ہیں۔ قیامت کے دن کی شدت اور ہولناکی اور ہر چیز پر اثر انداز ہو گی۔ سورج بے نور ہو جائے گا۔ ستارے دھندلا جائیں گے، پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے، پسندیدہ جانوروں کو نظر انداز کر دیا جائے گا، جنگی جانور جو علیحدہ علیحدہ رہنے کے عادی ہوتے ہیں یکجا جمع ہو جائیں گے۔ 
(پانی اپنے اجزائے ترکیبی چھوڑ کر ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تبدیل ہو کر) سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی۔ انسان کا سارا کیا دھرا اس کے سامنے آ جائے گا۔ پھر کائنات کی قابل تعجب حقیقتوں کی قسم کھا کر بتایا کہ جس طرح یہ چیزیں ناقابل انکار حقائق ہیں اسی طرح قرآنی حقیقت کو بھی تمہیں تسلیم کر لینا چاہئے۔
 پھر قرآن کریم کے اللہ رب العزت سے چل کر حضور علیہ السلام تک پہنچنے کے تمام مراحل انتہائی محفوظ اور قابل اعتماد ہونے کو بیان کر کے واضح کر دیا کہ یہ دنیا جہاں کے لئے بلا کسی تفریق و امتیاز کے اپنے دامن میں نصیحت و ہدایت کا پیغام لئے ہوئے ہے۔

               *سورہ انفطار*

قیام قیامت کے نتیجہ میں کائنات میں برپا ہونے والے انقلابی تغیرات کو بیان کر کے انسان کی غفلت کا پردہ چاک کرتے ہوئے اسے محسن حقیقی کے احسانات یاد دلا کر اس کی ’’رگِ انسانیت‘‘ کو پھڑکایا ہے۔
 پھر معرکۂ خیر و شر کی دو مقابل قوتوں کا تذکرہ کر کے بتایا ہے کہ شر کی قوت فجار اور نافرمانوں کے روپ میں جہنم کا ایندھن بننے سے بچ نہیں سکیں گے جبکہ ہر چیز کی قوت ابرار و فرماں برداروں کی شکل میں جنت اور اس کی نعمتوں کی مستحق قرار پائے گی۔ اللہ کے نگران فرشتے ’’کراماً کاتبین‘‘ ان کے تمام اعمال کا ریکارڈ محفوظ کر رہے ہیں اور روز قیامت اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چلے گا۔

               *سورہ مطففین*

ناپ تول میں کمی کرنے والے کو مطفف کہتے ہیں۔ اس سے ہر وہ شخص مراد ہو سکتا ہے جو دوسروں کا حق مارتا اور اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی کرتا ہو۔ 
مطففین کی ہلاکت کے اعلان کے ساتھ سورت کی ابتداء ہو رہی ہے اس کے بعد بتایا کہ یہ لوگ اپنے مفادات پر آنچ نہیں آنے دیتے جبکہ دوسروں کے حقوق کی دھجیاں بھی بکھیر کر رکھ دیتے ہیں۔ اس انسانی کمزوری کی بڑی وجہ قیامت کے احتساب پر یقین کا نہ ہونا ہے اگر عقیدۂ آخرت کو پختہ کر دیا جائے تو اس خطرناک بیماری کا علاج ہو سکتا ہے۔
 پھر اشرار و فجار کا انجام ذکر کر کے بتایا ہے کہ منکرین آخرت درحقیقت انتہاء پسند اور گناہوں کے عادی لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے دل گناہوں کی وجہ سے ’’زنگ آلود‘‘ ہو جاتے ہیں۔
 پھر ابرار و اخیار کا قابل رشک انجام ذکر کر کے بتایا کہ جس طرح کافر لوگ دنیا میں اہل ایمان والوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے آج ایمان والے ان کا مذاق اڑائیں گے۔

               *سورہ انشقاق*

قیامت کے خوفناک مناظر اور عدل و انصاف کے مظہر ’’بے رحم احتساب‘‘ کے تذکرہ پر یہ سورت مشتمل ہے۔
 آسمان پھٹ جائیں گے اور زمین پھیل کر ایک میدان کی شکل اختیار کر لے گی اور اللہ کے حکم پر گوش بر آواز ہوں گے۔ انسان کو جہد مسلسل اور مشقت کے پے در پے مراحل سے گزر کر اپنے رب کے حضور پہنچنا ہو گا۔ دائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال کا مل جانا محاسبہ کے عمل میں نرمی اور سہولت کی نوید ہو گی جبکہ پیٹھ کی طرف سے بائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال کا ملنا کڑے محاسبہ اور ہلاکت کا مظہر ہو گی۔
 اس کے باوجود بھی یہ لوگ آخر ایمان کیوں نہیں لاتے اور قرآن سن کر سجدہ ریز کیوں نہیں ہو جاتے۔ درحقیقت ان تمام جرائم کے پیچھے عقیدۂ آخرت اور یوم احتساب کے انکار کا عامل کار فرما ہے۔ ایسے افراد کو درد ناک عذاب کی بشارت سنادیجئے۔ اس سے وہی لوگ بچ سکیں گے جو ایمان اور اعمال صالحہ پر کاربند ہوں گے ان کے لئے کبھی منقطع نہ ہونے والا اجرو ثواب ہے۔

            *سورہ بروج*

اس سورت کے پس منظر کے طور پر احادیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک نوجوان جو شاہی خرچہ پر بل کر جواں ہوا تھا مسلمان ہو گیا، بادشاہ نے اس کے قتل کا فیصلہ کیا، اس نے ایمان کے تحفظ میں اپنی جان قربان کر دی، اس واقعہ سے متاثر ہو کر بادشاہ کی رعیت مسلمان ہو گئی، اس نے خندقیں کھدوا کر ان میں آگ جلا دی اور اعلان کر دیا کہ جو ایمان سے منحرف نہ ہوا اسے خندق پھینک دیا جائے گا، لوگ مرتے مر گئے مگر ایمان سے دستبردار نہ ہوئے۔ قرآن کریم نے ان کی اس بے مثال قربانی اور دین پر ثابت قدمی کو سراہتے ہوئے قسمیں کھا کر کہا ہے کہ اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے پر خندقوں میں پھینک کر ایمان والوں کو جلانے والے ان پر غالب ہونے کے باوجود ناکام ہو گئے اور اپنی کمزوری اور بے کسی کے عالم میں خندقوں کے اندر جلنے والے کامیاب ہو گئے۔
 اس سے یہ ثابت ہوا کہ دنیا کا اقتدار اور غلبہ عارضی ہے، اس پر کامیابی یا ناکامی کا مدار نہیں ہے، اصل کامیابی ایمان پر ثابت قدمی میں ہے۔ پھر خیر و شر کی قوتوں کے انجام کے تذکرہ کے ساتھ ہی اللہ کی طاقت و قوت، محبت و مغفرت اور جلال و عظمت کو بیان کر کے مجرموں پر مضبوط ہاتھ ڈالنے کا اعلان کیا اور پھر فرعون اور ثمود کی ہلاکت کے بیان کے ساتھ قرآن کریم کے انتہائی محفوظ ہونے کا اعلان ہے۔

               *سورہ طارق*

اس سورت کا مرکزی مضمون مرنے کے بعد زندہ ہونے کا عقیدہ ہے۔ ستاروں کی قسم کھا کر بتایا کہ جس طرح نظام شمسی میں ستارے ایک محفوظ و منضبط نظام کے پابند ہیں اسی طرح انسانوں کی اور ان کے اعمال کی حفاظت کے لئے بھی فرشتے متعین ہیں۔ 
مرنے کے بعد کی زندگی پر دلیل کے طور پر انسان کو اپنی تخلیق اول میں غور کی دعوت دی اور بتایا کہ جس نطفہ سے انسان بنا ہے وہ مرد و عورت کے جسم کے ہر حصہ (صلب سے پچھلا حصہ اور ترائب سے سامنے کا حصہ مراد ہے) سے جمع ہو کر تیزی کے ساتھ اچھل کر رحم میں منتقل ہو جاتا ہے وہ اللہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ 
آسمان سے پانی برسا کر اور زمین پھاڑ کر غلے اور سبزیاں نکال کر انسانی خوراک کا انتظام کرنے والا اس بات کو بیان کرتا ہے کہ یہ قرآن کریم حق و باطل میں امتیاز پیدا کرنے والی کتاب ہے۔ 
کافر سازشیں کر رہے ہیں اور اللہ ان کا توڑ کر رہے ہیں لہٰذا انہیں مہلت دے دو اور یہ اللہ سے بچ کر کہیں نہیں جا سکیں گے۔

               *سورہ اعلیٰ*

ابتداء میں اللہ تعالیٰ کے ہر عیب و کمزوری سے پاک ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی اس کی قدرت کاملہ اور انسانوں پر اس کے انعامات و عنایات کا تذکرہ پھر اس بات کا بیان ہے کہ نبی کو براہِ راست اللہ ہی تعلیم دیتے ہیں جس میں نسیان اور بھول چوک کی کوئی گنجائش نہیں ہے البتہ اگر اللہ کسی مرحلہ پر قرآن پاک کے کسی حصہ کو منسوخ کرنے کے لئے آپ کے ذہن سے محو کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔
 قرآن کریم سے صحیح معنی میں استفادہ وہی کرسکتا ہے جو اپنے اندر خشیت پیدا کرنے کا خواہش مند ہو اور بدبخت و جہنمی اس قرآن سے فیض حاصل نہیں کرسکتے۔ اپنے نفس کی اصلاح کر کے اسے پاکیزہ بنانے والا کامیاب ہے اور یہ کام وہی کرسکتا ہے جو اللہ کے ذکر اور نماز کا عادی ہو۔ 
اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے اور یہ بات حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کی کتابوں میں بھی لکھی ہوئی موجود ہے۔

               *سورہ غاشیہ*

قیامت کی ہولناکی اور شدت اور کافروں پر اترنے والی مشقت و مصیبت اور مؤمنوں کے لئے جنت کی نعمتوں کے ذکر سے ابتدا کی گئی ہے۔ پھر توحید باری تعالیٰ کے دلائل کا بیان ہے پھر حضور علیہ السلام کو انسانیت کے لئے یاد دہانی اور نصیحت کرانے کا حکم ہے اور قیامت کے احتساب کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھنے کی تلقین ہے۔

               *سورہ فجر*

ابتداء میں پانچ قسمیں کھا کر اللہ نے کافروں کی گرفت کرنے اور عذاب دینے کا اعلان کیا ہے پھر اس پر واقعاتی شواہد پیش کرتے ہوئے قوم عاد و ثمود و فرعون اور ان کی ہلاکت کا بیان ہے۔ 
پھر مشقت اور تنگی میں اور راحت و وسعت میں انسان کی فطرت کو بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آرام و راحت میں اترانے اور عُجب میں مبتلا ہونے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس لائق تھا تبھی تو مجھے یہ نعمتیں ملی ہیں اور تکلیف اور تنگی میں اللہ کی حکمت پر نظر کرنے کی بجائے اللہ پر اعتراضات شروع کر دیتا ہے۔ 
پھر یتیموں اور مسکینوں کی حق تلفی اور حب مال کی مذمت کی ہے۔ اس کے بعد قیام قیامت اور اس کی سختی و شدت بیان کرنے کے بعد بیان کیا کہ جب اللہ تعالیٰ فیصلہ کرنے لگیں گے، فرشتے صف بندی کر کے کھڑے ہو جائیں گے اور جہنم کو لا کر کھڑا کر دیا جائے گا اس وقت کافروں کو عقل آئے گی اور وہ نصیحت حاصل کرنے کی باتیں کریں گے جب وقت گزر چکا ہو گا اس وقت اللہ ایسا عذاب دیں گے کہ کوئی بھی ایسا عذاب نہیں دے سکتا اور مجرموں کو ایسے جکڑیں گے کہ کوئی بھی اس طرح نہیں جکڑ سکتا۔
 اللہ کے وعدوں پر اطمینان رکھنے والوں سے خطاب ہو گا اپنے رب کی طرف خوش و خرم ہو کر لوٹ جاؤ اور ہمارے بندوں میں شامل ہو کر ہماری جنت میں داخل ہو جاؤ۔

               *سورہ بلد*

سورت کی ابتداء میں مکہ مکرمہ جس میں نبی علیہ السلام رہائش پذیر تھے اور والد و اولاد کی قسم کہ انسان مشقت اور تکالیف کے مراحل سے گزرتا رہتا ہے۔ نیکی کا راستہ اختیار کرنے میں بھی مشقت آتی ہے اور بدی کا راستہ اختیار کرنے میں بھی مشقت آتی ہے مگر فرق یہ ہے کہ نیکی کی راہ میں مشقت اٹھانے والوں کے لئے اجرو ثواب ہے جبکہ بدی کی راہ میں مشقت اٹھانے والوں کو ثواب کی بجائے عذاب ہو گا۔
انسان کی ہٹ دھرمی اور اللہ کے راستہ سے روکنے کے جرم کے اعادہ پر فرمایا کہ جو کہتا ہے کہ میں نے بہت مال لگا دیا ہے، کیا اسے معلوم نہیں کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے پھر اللہ نے انسان پر اپنے انعامات ذکر فرما کر انسان کو خدمت خلق کی تلقین کی ہے اور نیک و بد کی تقسیم پر سورت کا اختتام ہے۔

               *سورہ شمس*

سات قسمیں کھا کر بتایا ہے کہ جس طرح یہ تمام حقائق برحق ہیں اسی طرح یہ بات بھی برحق ہے کہ انسان کو ہم نے نیکی اور بدی میں تمیز کا ملکہ عطاء کیا ہے جو اس سے فائدہ اٹھا کر نیکی کا راستہ اختیار کر کے اپنی اصلاح کر لیتا ہے وہ کامیاب و کامران ہے اور جو ’’بدی‘‘ کا راستہ اپنا کر گناہوں کی زندگی اپنا لیتا ہے وہ ناکام و نامراد ہے۔
 پھر ایک ایسی ہی سرکش اور گناہگار قوم کا تذکرہ ہے جنہوں نے اپنی قوم کے رئیس و شریف آدمی کو اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کر کے اونٹنی کے قتل پر مجبور کیا جس کی بناء پر یہ شخص قوم کا بدترین اور بدبخت شخص قرار پایا۔ چنانچہ پوری قوم کو ان کی سرکشی اور بغاوت کے نتیجہ میں ایسے عذاب کا سامنا کرنا پڑا جس سے کوئی ایک فرد بھی نہ بچ سکا اور اللہ تعالیٰ جب کسی کو ہلاک کرتے ہیں تو نتائج سے نہیں ڈرا کرتے۔

               *سورہ لیل*

تین حقائق کی قسمیں کھا کر فرمایا کہ جس طرح ان حقائق کو تسلیم کئے بغیر چارۂ کار نہیں ہے اسی طرح اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ خیر و شر اور نیکی و بدی کے حوالے سے انسانوں کے اعمال مختلف ہیں جو شخص تقویٰ اختیار کر کے نیکی اور سخاوت کا راستہ اپناتا ہے اللہ اس کے راستہ کو آسان کر دیتے ہیں اور جو شخص نیکی کا منکر ہو کر بخل اور گناہ کا راستہ اپناتا ہے اللہ اس کا راستہ بھی آسان کر دیتے ہیں لیکن جب یہ نافرمان جہنم کے گڑھے میں گرے گا تو بخل سے بچایا ہوا مال اسے بچا نہیں سکے گا۔ جبکہ اللہ کی رضا کے لئے مال خرچ کرنے والے کا تزکیہ بھی ہو جاتا ہے، جہنم سے حفاظت بھی ہو جاتی ہے اور اللہ اسے اپنی عطاء و انعام کے ذریعہ راضی بھی کر دیتے ہیں۔

               *سورہ ضحی*

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کی وجہ سے چند روز تہجد کے لئے نہ اٹھ سکے تو آپ کی چچی ام جمیل کہنے لگی کہ آپ کے رب نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر فرمایاجس طرح دن کے ساتھ اجالا ایک حقیقت ہے جُدا نہیں ہوتا اور رات کے ساتھ اندھیرا ایک حقیقت ہے علیحدہ نہیں ہوتا اسی طرح یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آپ کے رب نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ ہی آپ سے بیزار ہوا ہے۔ 
دنیا و آخرت میں موازنہ کرنے کی تلقین کے ساتھ آخرت کے بہتر ہونے کا اعلان ہے۔ قیامت کے دن امت کے حوالہ سے آپ کو راضی کرنے کی خوشخبری ہے اور پھر گزشتہ انعامات کی یاد دہانی ہے کہ آپ کی یتیمی میں سر پرستی کی، فقر میں غنا عطا فرمائی اور شریعت سے بے خبری میں قرآنی شریعت عطا فرمائی لہٰذا یتیموں اور حاجت مندوں کی کفالت و سرپرستی کرتے ہوئے اللہ کے احسانات و انعامات کا اعتراف اور لوگوں کے سامنے اسے بیان کرتے ہیں۔

               *سورہ انشراح*

حضور علیہ السلام کے اعلیٰ مرتبہ و مقام کا بیان ہے۔ آپ کا سینہ کھول دیا اور نبوت کی ذمہ داریوں کے بوجھ سے آپ کی کمر ٹوٹی جا رہی تھی ان سے عہدہ بر آ ہونے میں آپ کو سہولت بہم پہنچائی اور آپ کے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملا کر آپ کا ذکر بلند کر دیا 
حدیث قدسی ہے ’’اینما ذکرت ذکرت معی‘‘ جہاں میرا تذکرہ ہو گا وہیں آپ کا تذکرہ بھی ہو گا۔ مکہ مکرمہ کی مشقت و تکالیف سے بھرپور زندگی میں تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ مصائب و تکالیف دیر پا نہیں ہیں تنگی کے بعد عنقریب سہولتوں اور آسانیوں کا دور شروع ہونے والا ہے۔ 
اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے بعد اپنے رب سے راز و نیاز کے لئے خاص طور پر وقت نکالا کریں۔

               *سورہ تین*

تین مقامات مقدسہ کی قسم کھائی کہ جس طرح طور، بیت المقدس اور مکہ مکرمہ کو ’’وحی‘‘ کے ساتھ اعزاز و شرف عطاء فرمایا اسی طرح کائنات کی تمام مخلوقات میں انسان کو ’’شاہکار قدرت‘‘ بنا کر حسین و جمیل اور بہترین شکل و صورت کے اعزاز و اکرام سے نوازا ہے۔
 اس کی حیثیت کو چار چاند لگ جاتے ہیں جب یہ ایمان اور اعمال صالحہ سے اپنی زندگی کو مزین کر لیتا ہے اور اگر کفر اور تکذیب کا راستہ اپناتا ہے تو عز و افتخار کی بلندیوں سے قعرِ مذلت میں جا گرتا ہے۔

           *سورہ علق*

پہلی وحی میں نازل ہونے والی پانچ آیتیں اس سورت کی ابتداء میں شامل ہیں 
جن میں قرآنی نصاب تعلیم کے خدو خال واضح کر کے انسان کی سرکشی کے اسباب سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور ابو جہل ملعون کی بدترین حرکت کی مذمت کی گئی ہے۔ اللہ کو اور اپنی حقیقت کو فراموش نہ کرنا قرآنی نصاب تعلیم کی بنیاد ہے اور مجہولات کو معلومات کی شکل میں تبدیل کرنا اس کے مقاصد میں شامل ہے۔
 ’’فرعون ہذہ الامۃ‘‘ ابوجہل کی سرکشی اور تکبر کی انتہاء کو بیان کیا کہ محمد علیہ السلام کو نماز جیسے عظیم الشان عمل کی ادائیگی سے روکنے اور آپ کا مبارک سر اپنے ناپاک قدموں کے نیچے کچلنے کی پلاننگ کرتا تھا۔ نازیبا حرکت سے باز نہ آنے کی صورت میں اسے جہنمی فوج کے ہاتھوں گرفتار کرا کے اس کی جھوٹی اور گناہوں سے آلودہ پیشانی کے بالوں سے گھسیٹ کر جہنم رسید کرنے کی دھمکی دی گئی ہے اور ساتھ ہی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے سرکش و نافرمانوں کی اطاعت کی بجائے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اس کا تقرب حاصل کرتے رہنے کی تلقین ہے۔

               *سورہ قدر*

اس سورت میں لیلۃ القدر کی فضیلت اور وجہِ فضیلت کا بیان ہے کہ یہ رات ایک ہزار مہینہ کی عبادت سے زیادہ اجرو ثواب دلانے والی ہے اور اس کی فضیلت کی وجہ اس رات میں نزول قرآن ہے۔ گویا شب قدر کی عظمتوں کا راز نزول قرآن میں ہے اور انسانیت کے لئے یہ پیغام ہے کہ تمہیں بھی عظمتیں مطلوب ہیں تو قرآن کے دامن سے وابستگی میں مضمر ہیں۔ 
اس رات میں جبریل امین فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ اترتے ہیں اور اس رات کے عبادت گزاروں پر سلامتی اور رحمت کے نزول کی دعاء کرتے ہیں اور یہ کیفیت صبح صادق تک برقرار رہتی ہے۔

               *سورہ بینہ*

اس سورت میں پڑھے لکھے جاہلوں کے بغض و عناد کا تذکرہ ہے کہ دین فطرت اسلام کا راستہ روکنے کے لئے یہودی و عیسائی اور مشرکین باہم متحد ہیں۔
 اللہ تعالیٰ اپنی عبادت میں بندوں سے اخلاص اور یکسوئی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پھر کفر و شرک کے مرتکب انسانوں کو بدترین خلائق اور ایمان و عمل صالح کے علمبرداروں کو بہترین خلائق قرار دے کر دونوں جماعتوں کے انجام کے تذکرہ پر سورت کا اختتام کر دیا گیا ہے۔

               *سورہ زلزال*

اس سورت میں قیام قیامت کی منظر کشی کے بعد انسانی مستقبل کو اس کے اعمال پر منحصر قرار دے کر بتایا ہے کہ معمولی سے معمولی عمل بھی، چاہے اچھا ہو یا برا، انسانی زندگی پر اپنے اثرات پیدا کئے بغیر نہیں رہتا اور قیامت میں خیر و شر ہر قسم کے عمل کا بدلہ مل کر رہے گا۔

               *سورہ عادیات*

مجاہدین کی سواریوں کی قسمیں کھا کر جہاد فی سبیل اللہ عظمت و اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور بتایا ہے کہ جس طرح دوڑتے ہوئے گھوڑوں کا ہانپنا، کھروں سے چنگاریاں اڑانا، صبح سویرے دشمن پر حملہ آور ہونا، گرد و غبار اڑانا اور دشمن کے مجمع میں گھس جانا، مبنی بر حقیقت ہے اسی طرح انسان میں ناشکری اور حب مال کے جذبات کا پایا جانا بھی ایک حقیقت ہے۔ 
اگر قبروں کے کریدے جانے اور سینہ کے بھید کے ظاہر ہو جانے کا یقین ہوتا تو انسان کے اندر یہ منفی جذبات پیدا نہ ہوتے۔

               *سورہ قارعہ*

اس سورت میں قیام قیامت اور اس کی ہولناکی کے تذکرہ کے ساتھ اعمال کے وزن اور بے وزن ہونے کا تذکرہ اور دونوں صورتوں کا انجام مذکور ہے۔

               *سورہ تکاثر*

مال میں زیادتی کی حرص قبر تک انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ جب جہنم کا نظارہ ہو گا تبھی اس مال کی بے ثباتی کا پتہ چلے گا وہی محاسبہ کا وقت ہو گا اور ایک ایک نعمت کا حساب لیا جائے گا۔

               *سورہ عصر*

زمانہ کی قسم کھا کر دراصل ماضی کی تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کی تلقین کی ہے کہ چار صفات ۱۔ایمان ۲۔اعمال صالحہ ۳۔حق کی تلقین کرنے ۴۔اور حق کے راستہ کی مشکلات پر صبر کرنے والے ہر دور میں کامیاب اور ان صفات سے محروم ہر دور میں ناکام رہے ہیں۔
 امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر قرآن کریم میں صرف یہی ایک سورت نازل ہوتی تو انسانی رہنمائی اور ہدایت کے لئے کافی ہو جاتی۔

               *سورہ ہمزہ*

لوگوں کا استہزاء و تمسخر اڑانے اور طعنہ زنی کرنے والوں کی مذمت اور حب مال میں مبتلا لوگوں کا عبرتناک انجام مذکور ہے۔

               *سورہ فیل*

ہاتھیوں کے خانہ کعبہ پر حملہ آور ہونے اور ان کے عبرتناک انجام کے تذکرہ سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر انسان اللہ کے دین کے دفاع سے پہلوتہی اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ حقیر پرندوں سے یہ کام لے سکتے ہیں۔

               *سورہ قریش*

قریش مکہ اور ان کے واسطہ سے ہر اس شخص کو غیرت دلائی گئی ہے جو براہ راست اللہ کی نعمتوں، خاص طور پر اللہ کے دین کی برکتوں سے مستفید ہونے کے باوجود اپنے رب کی عبادت اور اس کے دین کے دفاع سے غافل ہو۔

               *سورہ ماعون*

خدمت خلق کے کاموں سے غفلت برتنے، یتیموں کی کفالت سے دست کش ہونے اور نماز میں سستی کا مظاہرہ کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔

               *سورہ کوثر*

حوض کوثر جیسی خیر کثیر اپنے نبی کو عطا فرمانے کے اعلان کے ساتھ ہی دشمنان و گستاخان رسول کا نام و نشان تک مٹا دینے کا اعلان ہے۔

               *سورہ کافرون*

اسلامی نظام حیات کے علاوہ کسی دوسرے نظام کی طرف نگاہ نہ اٹھانے اور کفر سے بیزاری کا اظہار کرنے کی تلقین ہے۔

               *سورہ نصر*

اسلامی ترقی کے بامِ عروج ’’فتح مکہ‘‘ کی پیشن گوئی اور لوگوں کے جوق در جوق اسلامی نظام کو اختیار کرنے کے اعلان کے ساتھ تسبیح و تحمید واستغفار میں مشغول ہونے کی تلقین ہے۔

               *سورہ لہب*

دشمنانِ خدا و رسول کے بدترین نمائندے ابو لہب جو آپ کا چچا بھی تھا اور قریش کا سردار بھی تھا اس کی اپنی بیوی سمیت عبرتناک موت کے اعلان کے ساتھ مخالفین اسلام کو تنبیہ ہے۔

               *سورہ اخلاص*

عیسائیوں اور مشرکوں کے باطل عقیدہ کی تردید کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات کاملہ اور خالص توحید کے بیان پر مشتمل ہے۔ حضور علیہ السلام نے اس سورت کو ’’تہائی‘‘ قرآن کے برابر قرار دیا ہے۔

               *سورہ فلق*

تمام مخلوقات اور شرارت کے عادی حاسدین کے شر سے اللہ کی پناہ حاصل کرنے کی تلقین ہے۔

               *سورہ ناس*

توحید کی ’’اقسام ثلاثہ‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن و انس کے قبیل سے تعلق رکھنے والے ہر وسوسہ پیدا کرنے والے سے اللہ کی پناہ میں آنے کی ترغیب ہے۔
 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ سونے سے پہلے اخلاص، فلق اور ناس تینوں سورتیں پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں پر دم کر کے پورے جسم پر پھیر لیا کرتے تھے اور یہ عمل تین مرتبہ دہرایا کرتے تھے۔

٭٭٭
مختصر تفسیر القرآن مجید ۔۔۔ مفتی مولانا عتیق الرحمٰن شھید  رحمه الله تعالی 
اللھم اغفرھم و ارحھم و اعظم درجاتھم 

تمام پاروں کی تفسیر مفتی عتیق الرحمن شھید رحمه الله تعالی کی مختصر تفسیر القرآن سے نقل کی گئی ہے سوائے سولہویں پارے کے ۔۔۔ کیونکہ سولہوین پارے کی تفسیر متن میں موجود نہ تھی ۔ 
اس لئے میں نزہت وسیم نے مولانا عتیق الرحمن کی طرز پر سولہویں پارے کی تفسیر خود تحریر کی ۔۔ الله جل شانہ قبول فرمائے ۔۔ اور جو غلطی و کوتاہی ہو اس سے درگزر فرمائے ۔ 
اور ہم سے نرمی و شفقت کا معاملہ فرمائے ۔ 

تشکر: کاشف مجید، جن کے قران مع تفسیر سافٹ وئر سے اس کا مواد حاصل کیا گیا۔
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

*پارہ~~~29~~~تَبَارَکَ الّذِیْ*


               *سورہ الملک*

مکی سورہ ہے تیس آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورہ میں دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کے قادر مطلق ہونے کو زیادہ اجاگر کیا گیا ہے۔
 ابتداء سورہ میں بتایا گیا ہے کہ زندگی اور موت کی تخلیق کا مقصد ’’مقدار کی کثرت‘‘ نہیں بلکہ ’’معیار کا حسن‘‘ پیدا کرنا ہے۔ کسی بھی نیک عمل کو بہتر سے بہتر اور خوبصورت سے خوبصورت انداز میں سرانجام دیا جائے۔
 اس کے بعد قدرت کے ’’فن تخلیق‘‘ میں کمال مہارت کا بیان ہے وسیع و عریض سات آسمان بنا دئے مگر ان میں کوئی دراڑ یا کہیں پر کوئی جھول نہیں رہنے دیا۔ ستارے پیدا کرنے کا مقصد زینت بھی ہے اور آسمانی نظام کے رازوں کو شیاطین سے تحفظ فراہم کرنا بھی ہے۔
 پھر جہنم کے اندر عذاب کی شدت، کافروں کی ندامت و شرمندگی اور بے بسی اور کسمپرسی کی بہترین انداز میں منظر کشی کی گئی ہے۔ 
پھر اخلاص کے ساتھ اللہ کا خوف رکھنے والے جو ایسے مقام پر بھی، جہاں کوئی دیکھنے والا نہ ہو، اللہ سے ڈریں ان کے لئے ’’بڑے صلہ‘‘ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ پھر زمین پر چلنے پھرنے کی سہولت، روزی کمانے کے مواقع فراہم کرنے کے انعام کا تذکرہ کر کے اس منعم حقیقی کے دربار میں پیشی کی یاددہانی کرائی گئی ہے۔
 پھر اچانک عذاب الٰہی کے ظہور کی صورت میں انسانی بے بسی کی تصویر کھینچی گئی ہے اور ہدایت یافتہ اور گمراہ انسان کو نہایت خوبصورت تعبیر میں واضح کیا گیا ہے۔
 ایک شخص فطری انداز میں بالکل سیدھا بیچ راستہ میں چل رہا ہو اور دوسرا فطرت کے خلاف سر کے بل چلنے کی کوشش کر رہا ہو، یقیناً یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔
 نبی اور اس کے ساتھیوں کی ہلاکت کی تمنا و دیندار طبقہ کی ہلاکت کی خواہش اور کوشش پر فرمایا کہ اے نبی آپ فرما دیجئے اگر میں اور میرے ساتھی ہلاک بھی ہو جائیں تو اس طرح تم اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکوگے۔ اس لئے اللہ پر توکل کرنا چاہئے اور اس کی نعمتوں میں غور کر کے اسے پہچاننے کی سعی بلیغ جاری رکھنی چاہئے۔ 
پانی جو کہ زندگی کی ابتداء اور بقاء کا ضامن ہے اسے اگر اللہ تعالیٰ خشک کر دیں اور زمین کی تہہ میں جذب کر دیں تو تمہارے کنوؤں کے ’’خشک سوتوں ‘‘ میں پانی کا بہاؤ اللہ کے سوا کون پیدا کرسکتا ہے۔ 
اس سورہ کے مضامین اور عقیدہ سے ان کا گہرا تعلق حضور علیہ السلام کے سورہ کی روزانہ سونے سے پہلے تلاوت کرنے کی حکمت کو واضح کرتا ہے۔

               *سورہ القلم*

مکی سورہ ہے، باون آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے۔ اثبات رسالت محمدیہ اس سورہ کا مرکزی مضمون قرار دیا جا سکتا ہے۔
 قلم اور اس سے لکھی جانے والی سطور کی قسم کھا کر تعلیم اور ذریعہ تعلیم، قلم کی اہمیت و عظمت کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پھر ہر دور کے باطل کے اعتراضات جو کہ مشرکین مکہ کی زبان سے ادا ہو رہے تھے، ’’مذہبی جنونی‘‘، ’’اخلاقی اقدار سے عاری‘‘ وغیرہ ان کا تسلی بخش جواب ہے کہ آپ نہ تو مجنون ہیں اور نہ ہی اخلاق سے عاری بلکہ آپ تو اخلاقی اقدار کی بلندیوں کا مظہر ہیں۔
 گمراہ اور ہدایت یافتہ کا فرق اللہ سے مخفی نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات میں نرمی اور ’’قابل قبول‘‘ بنانے کے مطالبوں سے آپ متأثر نہ ہوں۔ اس قسم کے مطالبات کرنے والے ہمیشہ بے جا قسمیں کھانے والے، بے وقعت، طعنہ باز اور چغلخور ہوتے ہیں۔ نیک کام سے روکنے والے، انتہاء پسند اور گناہوں کی زندگی میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔ تشدد پرست اور حسب و نسب کے اعتبار سے مشکوک ہوتے ہیں مال اور اولاد کے زعم میں مبتلا ہو کر ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ قرآن کریم کو قصے کہانیاں بتاتے ہیں، ایسے لوگوں کی ہم معاشرہ میں ناک کاٹ کر رکھ دیں گے۔ 
پھر ایک زراعت پیشہ اور سخی انسان اور اس کی بخیل اولاد کا تذکرہ کر کے بتایا کہ اللہ کے نام پر خرچ کرنے سے بچنے والوں کا مقدر ہلاکت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ 
پھر جنت کے انعامات اور جہنم کے عذاب اور مصائب کا تذکرہ، پھر نماز کی پابندی نہ کرنے والوں کی مذمت کہ قیامت میں ’’تجلی ساق‘‘ کے موقع پر وہ سجدہ بھی نہیں کرسکیں گے۔ پھر ظالموں اور جھٹلانے والوں کو ڈھیل دے کر اچانک گرفت کرنے کے ضابطہ کو بیان کر کے دین پر ثابت قدمی اور صبر کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کے ساتھ قرآن کریم کے عالم انسانیت کے لئے نصیحت و رہنمائی کا پیغام ہونے کے اعلان کے ساتھ سورہ ختم ہوتی ہے۔

               *سورہ الحآقہ*

مکی سورہ ہے، اس میں باون آیتیں اور دو رکوع ہیں۔ اس سورہ کا مرکزی مضمون ’’قیام قیامت‘‘ ہے۔ 
قیامت جو کہ حقیقت کا روپ دھارنے والی ہے اور اعمال کو ان کے حقائق کے ساتھ سامنے لانے والی ہے وہ آ کر رہے گی۔ 
اس کے بعد قیامت کی ہولناکی اور دنیا میں منکرین و معاندین پر عذاب الٰہی کے اترنے کا بیان ہے اور اختصار کے ساتھ عاد و ثمود اور فرعون کا تذکرہ ہے۔ پھر نامۂ اعمال کے دائیں اور بائیں ہاتھوں میں دئے جانے اور لوگوں کی خوشی و مسرت اور پریشانی و گھبراہٹ کے بیان کے ساتھ ان کے لئے جنت و جہنم کی نعمتوں اور تکلیفوں کا تذکرہ ہے۔ 
اس کے بعد قسمیں کھا کر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کا اعلان کیا اور شاعر یا کاہن کا کلام ہونے کی تردید کی ہے۔ 
قرآن کریم کو گھڑ کر پیش کرنے والے کے روپ میں ان لوگوں کی مذمت ہے جو قرآن میں تحریف اور اس کے معنی کو من مانے طریقے پر بدلنا چاہتے ہیں اور اللہ کی تسبیح کے حکم پر سورہ مکمل ہوتی ہے۔

               *سورہ المعارج*

مکی سورہ ہے چوالیس آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورہ کا مرکزی مضمون ’’قیامت اور اس کا ہولناک منظر‘‘ ہے۔ مشرکین مکہ کے اس استہزاء و تمسخر پر کہ قیامت والا عذاب ہمیں تھوڑا سا دنیا میں چکھا دیا جائے تو ہم دیکھ تو لیں کہ وہ کیسا ہوتا ہے؟ 
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو لوگ ہمارے عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جب ہمارا عذاب اترا تو انہیں کوئی جائے پناہ بھی نہیں ملے گی اور اس سے بچانے والا بھی کوئی نہیں ہو گا۔ 
پھر قیامت کی ہولناکی اور گناہگاروں کے اس عذاب سے بچنے کے لئے دنیا کا مال و دولت، اپنا خاندان اور عزیز و اقارب دے کر چھٹکارا پانے کی خواہش مذکور ہے۔
 پھر انسانی فطرت اور مزاج کا بیان ہے کہ تکلیف و مشقت کی صورت میں جزع فزع کرنے لگتا ہے اور آرام و راحت کی صورت میں بخل اور کنجوسی کرنے لگتا ہے۔ 
اس انتہاء پسندی سے بچنے والے وہ لوگ ہیں جو نماز کا اہتمام کریں۔ غریبوں کی مدد کریں قیامت پر ایمان رکھیں۔ اللہ کے عذاب سے خائف ہوں، جنسی بے راہ روی کا شکار نہ ہوں، امانتدار ہوں عہد شکنی کا ارتکاب نہ کرتے ہوں، سچی گواہی پر ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ جنت میں عزت و احترام کے مستحق قرار پائیں گے۔ 
اس کے بعد بیان کیا ہے کہ جنت کا داخلہ آرزوؤں اور تمناؤں سے اگر ہو سکتا تو جنت سے کوئی بھی پیچھے نہ رہتا کیونکہ ہر ایک کی خواہش ہے کہ وہ جنت میں چلا جائے۔ 
پھر مجرمین کے لئے دھمکی اور وعید سنائی گئی ہے کہ اگر یہ لوگ اپنی حرکات بد سے باز نہ آئے تو انہیں ختم کر کے دوسری قوم کو ان کی جگہ لا سکتے ہیں۔

               *سورہ النوح*

مکی سورہ ہے، اٹھائیس آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس پوری سورہ میں صرف نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی رسالت اور ان کی دعوت توحید کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی طویل اور انتھک جدو جہد کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ ان کے بیان کردہ دلائل توحید کی ایک جھلک دکھا کر بتایا ہے کہ وہ کس طرح قوم کی ہدایت کے لئے مخلصانہ کوششیں کرتے رہے اور قوم اپنی ہٹ دھرمی اور عناد پر اڑی رہی آخر کار نوح علیہ السلام کی بددعاء کے نتیجہ میں قوم کو پانی کے سیلاب میں غرق کر کے بتا دیا کہ ظالموں کا انجام ہمیشہ خسارہ اور ہلاکت کی شکل میں ہی ظاہر ہوا کرتا ہے اور مؤمنین ایمان اور اعمال صالحہ کی برکت سے نجات پایا کرتے ہیں۔

         *سورہ الجن*

مکی سورہ اٹھائیس آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے، اس سورہ میں جنات کی جماعت کا تذکرہ ہے جنہوں نے حضور علیہ السلام کی نماز میں تلاوت سن کر ایمان قبول کر لیا اور ان انسانوں کو غیرت دلائی گئی ہے جو قرآن کا انکار کرتے ہیں کہ تم سے تو ’’جن‘‘ ہی اچھے رہے۔ جنات کے اسلام کا مکلف ہونے کی طرف اشارہ بھی موجود ہے پھر جنات کی نیک اور بد میں تقسیم کو بیان کیا اور یہ بتایا گیا ہے کہ توحید کے پرستار ہی بلا امتیاز جن و انس ہمیشہ کامیاب و کامران رہے اور منکرین توحید ناکام و نامراد رہے۔
 مساجد اللہ کے گھر ہیں ان میں اللہ کے سوا کسی دوسرے کو پکارنا مساجد کے آداب کے منافی ہے۔ اس کے بعد حضور علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ وہ دو ٹوک انداز میں توحید کا اعلان کر کے اللہ ہی کو اپنے نفع نقصان کا مالک قرار دے کر دنیا کو بتا دیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ پڑے رہیں گے۔ 
اللہ اپنے انبیاء و رسل کو توحید بیان کرتے ہوئے اور تبلیغ رسالت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں اور منکرین کے اعمال کا احاطہ کر کے اللہ نے ان کی تعداد بھی شمار کر ر کھی ہے اور گن گن کر سب کا حساب چکائیں گے اور اللہ کے عذاب سے کوئی بچ نہیں سکے گا۔

               *سورہ المزمل*

مکی سورہ ہے، بیس آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورہ کا مرکزی مضمون ’’شخصیت رسول‘‘ ہے اس میں حضور علیہ السلام کو المزمل ’’کملی والا‘‘ کے پیار بھرے لفظ سے خطاب کیا گیا ہے اور دعوت الی اللہ اور اعلاء کلمۃ اللہ کا کام کرنے والوں کو آپ کے توسط سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ دن بھر کی جدو جہد میں تاثیر پیدا کرنے کے لئے شب بیداری اور قیام اللیل بہت ضروری ہے اور رات کی نماز میں تلاوت قرآن کی اثر انگیزی مسلم ہے۔ 
مخالفین و معاندین سے صرف نظر کر کے انہیں اللہ پر چھوڑنے کی تلقین کر کے قصۂ فرعون و موسیٰ میں معاندین کی پکڑ کی ہلکی سی جھلک دکھا کر تہجد کی نماز کے حوالہ سے نرمی کا اعلان کیا گیا ہے کہ پہلے تہجد فرض تھی مگر دن کی مصروفیات خصوصاً مجاہدین اور تجارت پیشہ احباب کی رعایت میں صوابدیدی اختیار دے دیا گیا ہے کہ جس سے جتنا ہو سکے ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے۔
 جس قدر نوافل کا اہتمام کرو گے اللہ کے یہاں اس کا اجر و ثواب ضرور ملے گا۔ کوشش کے باوجود ادائیگی اعمال میں رہ جانے والے کوتاہی پر اللہ سے استغفار کرتے رہیں اللہ غفور رحیم ہیں۔

               *سورہ المدثر*

مکی سورہ ہے۔ چھپن چھوٹی چھوٹی آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے۔ فرائض نبوت اور دعوت الی اللہ کی ذمہ داریاں پورے شرح صدر اور نشاط و انبساط کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ 
پھر قیامت کے دن کی ہولناکی اور شدت کو بیان کرتے ہوئے معاندین و منکرین کو عبرتناک انجام سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
 اس کے بعد ولید بن مغیرہ کی شکل میں ہر اس شخص کو جو حقانیتِ قرآن واضح ہو جانے کے باوجود عناد اور تکبر اور لیڈر شپ کے شوق میں قرآن کو تسلیم نہ کرے اسے دھمکی کے انداز میں انجام بد سے ڈرایا گیا ہے۔
 پھر جہنم میں داخلہ کے اسباب کو جنتیوں اور جہنمیوں کی ایک گفتگو کی شکل میں بیان کیا گیا ہے کہ ہر انسان کا انجام اس کے اعمال کے مطابق ہو گا۔ وہاں پر رشوت یا سفارش نہیں چلے گی۔ قرآن کریم کے پیغام سے پہلو تہی کرنے والوں کی مثال دے کر بتایا ہے کہ یہ لوگ قرآن سن کر ایسے بھاگتے ہیں جیسے شیر کی دھاڑ سن کر گدھا بھاگتا ہے۔
قرآن کریم ہر ایسے شخص کو نصیحت فراہم کرتا ہے جو نصیحت حاصل کرنے کا خواہاں ہوتا ہے۔ تم اگر اپنی اصلاح چاہو تو اللہ کی مشیت تمہارے ساتھ ہو گی وہ اللہ اس بات کا اہل ہے کہ اسی سے ڈرا جائے اور اسی سے مغفرت طلب کی جائے۔

               *سورہ القیامۃ*

چالیس چھوٹی چھوٹی آیتوں پر مشتمل مکی سورہ ہے۔ اس میں دو رکوع ہیں۔ نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس سورہ میں قیامت کے مناظر اور مرنے کے بعد زندہ ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔ 
اللہ نے قسمیں کھا کر انسان کی اس خام خیالی کی تردید فرمائی ہے کہ بوسیدہ ہڈیوں اور بکھرے ہوئے اجزاء کو جمع کر کے دوبارہ انسان کو وجود میں لانا ممکن نہیں ہے۔
 جسم انسانی میں انگلیوں کے پورے اور نشانات شناخت اور امتیاز کا بہترین ذریعہ ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں ہم ان پوروں کو بھی دوبارہ ترتیب دے کر پیدا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
 پھر روزِ قیامت کی ہولناکی اور شدت بیان کرنے کے لئے بتایا کہ اس دن چاند سورج بے نور ہو جائیں گے۔ نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ اب میں بھاگ کر جاؤں تو جاؤں کہاں ؟
 پھر قرآن کریم کو یاد کرنے کے لئے حضور علیہ السلام کے شدۃ اہتمام کو ذکر کر کے قرآنی ادب بھی بیان کر دیا کہ جب قرآن کی تلاوت سنیں تو خاموشی اور انہماک کے ساتھ متوجہ رہیں۔ اس کی برکت یہ ہو گی کہ جب پڑھنے کی ضرورت پیش آئے گی، اللہ تعالیٰ خود ہی آپ کی زبان پر جاری کر دیں گے۔
 پھر بتایا کہ نیک و بد کی تقسیم اور اچھے اور برے میں امتیاز کا تسلسل روزِ قیامت بھی جاری رہے گا۔ پھر سکرات کے عالم اور جان کنی کی شدت کو بیان کر کے اس وقت کی تکلیف و پریشانی سے بچنے کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا۔
 اس کے بعد انسان کو اس کی تخلیق کے ابتدائی مراحل میں غور و خوض کر کے یہ سمجھایا کہ جب پہلی تخلیق کے مشکل ترین مراحل اللہ نے سر انجام دے لئے تو اب دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل رہ گیا۔

               *سورہ الدہر*

اکتیس آیتوں پر مشتمل مدنی سورہ ہے اس میں دو رکوع ہیں انسانی تخلیق کو جن ابتدائی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اسے شروع سورہ میں ذکر کیا گیا ہے۔
 ایک زمانہ انسان پر ایسا آتا ہے کہ اسے نہ کوئی جانتا ہے اور نہ ہی کسی زبان پر اس کا تذکرہ ہوتا ہے پھر اسے میاں بیوی کے مخلوط نطفہ سے ہم ترکیب دے کر سمیع و بصیر انسان کی شکل دے دیتے ہیں۔ پھر یہ انسان دو قسم کے ہو جاتے ہیں۔ اپنے رب کے شکر گزار اور اپنے رب کے ناشکرے۔
کافروں کے لئے زنجیریں، طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ ہے اور نیکوکار افراد کے لئے جنت کی بہترین نعمتیں اور خوشبو دار شراب ہے پھر نیک افراد کی کچھ صفات کے بیان کے بعد جنت میں انہیں عطاء کئے جانے والے مزید انعامات جن میں گھنے سائے والے باغات، سونے چاندی کے آبخورے، شیشہ کے گلاس، موتیوں کی طرح حسن و جمال کے پیکر خدمت گزار، ریشم و کمخواب کے لباس اور سونے چاندی کے کنگن اور پینے کے لئے پاکیزہ شراب۔ 
اس کے بعد قرآنی تعلیمات پر ثابت قدمی کی تلقین، شب بیداری کا حکم اور لمبی لمبی نمازیں پڑھنے کی ترغیب اور آخر میں قرآن کریم سے ہر شخص کو استفادہ کا حکم اور ظالموں کے لئے دردناک عذاب کی وعید پر سورہ کو ختم کیا گیا ہے۔

               *سورہ المرسلات*

پچاس آیتوں پر مشتمل مکی سورہ ہے۔ اس میں دو رکوع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہواؤں کی قسمیں کھا کر فرمایا ہے کہ قیامت اور اس کا عذاب واقع ہو کر رہے گا۔
 پھر قیام قیامت کی منظر کشی کی گئی ہے کہ ہر چیز اپنی تاثیر کھودے گی اور اجزائے ترکیبی چھوڑ بیٹھے گی۔ پھر کچھ واقعاتی حقائق اور کائناتی شواہد پیش کر کے بتایا کہ ان بڑے بڑے کاموں کو سرانجام دینے والے رب کے لئے قیامت کا دن لانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ پہلے جہنم اور اس کی سزاؤں کا تذکرہ کیا پھر جنت اور اس کی نعمتوں کا تذکرہ کر کے منکرین و معاندین سے سوال کیا ہے کہ اس معجزانہ اسلوب کے حامل قرآن کریم سے بھی اگر تم ایمان کی روشنی حاصل کرنے سے قاصر ہو تو پھر تمہیں ہلاکت اور تباہی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

 

*پارہ~~~28~~~قَدْ سَمِعَ اللهُ*


               *سورہ مجادلہ*

المجادلۃ کے معنی ’’بحث و مباحثہ یا جھگڑا‘‘ کرنے کے ہیں، اس سورہ کی ابتداء میں ایک خاتون کی گفتگو اور اس کے ضمن میں ظہار کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ اس لئے اس کا نام ’’المجادلۃ‘‘ رکھا گیا ہے۔ 
حضرت اوس بن صامت نے اپنی بیوی حضرت خولہ بنت ثعلبہ سے ظہار کر لیا تھا، ظہار کے معنی اپنی بیوی کی پشت کو اپنی ماں کی پشت کے مشابہ قرار دینا ہے اور زمانہ جاہلیت میں یہ لفظ بیوی کو اپنے اوپر حرام کرنے کے لئے (طلاق دینے کے لئے) استعمال ہوتا تھا۔ 
خولہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہایت خوبصورت انداز میں اپنا معاملہ پیش کر کے اس کا شرعی حکم معلوم کیا۔ انہوں نے کہا یارسول اللہ! اوس نے مجھ سے ظہار کر لیا ہے۔ یہ شخص میرا مال کھا گیا۔ میری جوانی اس نے تباہ کر دی۔ میں نے اپنا پیٹ اس کے آگے کھول کر رکھ دیا۔ جب میں بوڑھی ہو کر اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ رہی تو اس نے مجھ سے ظہار کر لیا۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اگر انہیں میں اپنے پاس رکھوں تو بھوکے مرنے لگیں گے اور اگر اوس کے حوالہ کر دوں تو بے توجہی کی وجہ سے ضائع ہو جائیں گے۔ 
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ تم اپنے شوہر پر حرام ہو چکی ہو۔ خولہ نے کہا، اس نے طلاق کا لفظ تو استعمال ہی نہیں کیا تو میاں بیوی میں حرمت کیسے ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ اپنی بات دہراتی رہی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہی جواب دیتے رہے۔
 آخر میں کہنے لگیں : اے اللہ! میں اس مشکل مسئلہ کا حکم آپ سے ہی مانگتی ہوں اور آپ کے سامنے شکایت پیش کرتی ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں کمرے کے ایک کونہ میں بیٹھی سن رہی تھی۔ اتنا قریب ہونے کے باوجود مجھے بعض باتیں سنائی نہیں دے رہی تھیں مگر اللہ نے آسمانوں پر اس کی تمام باتیں سن کر مسئلہ کا حل نازل فرما دیا۔ اللہ نے اس کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے بارے میں آپ سے جھگڑ رہی تھی۔
 پھر ظہار کا حکم بیان کرنا شروع کر دیا۔ پہلے تو بیوی کو ماں کہنے کی مذمت فرمائی اور اسے جھوٹ اور گناہ کا موجب فعل قرار دیا اور پھر بتایا کہ اگر شوہر اپنی بیوی کے ساتھ ’’زوجیت‘‘ کے تعلقات باقی رکھنا چاہتا ہے تو ایک غلام آزاد کر کے یا ساٹھ روزے رکھ کر یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا کر یہ مقصد حاصل کرسکتا ہے ورنہ اس جملے سے طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔ 
اس کے بعد دشمنانِ خدا و رسول کے لئے ذلت آمیز عذاب کا تذکرہ اور اللہ کے علم و قدرت کو بیان کرنے کے لئے بتایا کہ خفیہ گفتگو کرنے والے اگر تین ہوں تو چوتھے اللہ، پانچ ہوں تو چھٹے اللہ، کم ہوں یا زیادہ اللہ ان کے ساتھ ضرور موجود ہوتے ہیں۔ یہودی اپنی سرگوشیوں سے مسلمانوں کے لئے پریشانیاں اور مسائل پیدا کرتے تھے۔ اس لئے خفیہ میٹنگوں پر پابندی لگا دی گئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے ہوئے شرارت کی نیت سے نامناسب الفاظ کے استعمال کی بھی مذمت کی گئی۔ مجلس میں نئے آنے والوں کے لئے گنجائش پیدا کرنے اور اختتامِ مجلس کے بعد بے مقصد گفتگو میں لگنے کی بجائے منتشر ہو جانے اور اپنے اپنے کام میں مصروف ہو جانے کی تلقین فرمائی۔
 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی مجلس کے لئے ادب بیان کیا کہ دربارِ رسالت میں حاضری سے پہلے صدقہ کر لیا کریں تاکہ ’’آدابِ رسالت‘‘ میں کسی کوتاہی کی صورت میں اللہ کی پکڑ سے بچ سکیں۔ 
یہودیوں سے دوستیاں گانٹھنے والوں کے خبث باطن کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کی مذمت بیان کی اور عذاب شدید کی وعید سنائی۔ اس کے بعد ’’حزب اللہ‘‘ اور ’’حزب الشیطان‘‘ کی تقسیم کرتے ہوئے بتایا کہ اللہ کے ذکر سے غافل ہو کر شیطان کے زیر اثر آنے والے شیطان کی جماعت میں شامل ہیں۔ 
اللہ نے اپنے رسولوں اور اہل ایمان کو غالب کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ مؤمن وہی ہیں جو رشتہ داری کی اسلامی بنیادوں کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ خونی، قومی اور لسانی بنیادوں پر اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے تعلقات استوار نہیں کرتے۔ یہ لوگ اللہ کی تائید و نصرت اور جنت کے مستحق ہیں، یہی لوگ ’’حزب اللہ‘‘ میں شامل ہیں اور کامیابیاں اللہ کے لشکر کے قدم چوما کرتی ہیں۔

         *سورہ حشر*

اس سورہ کا دوسرا نام ’’سورہ بنی النضیر‘‘ ہے کیونکہ اس میں قبیلہ بنی نضیر کے محاصرے اور پھر جلاوطن کئے جانے کا تذکرہ ہے۔ 
یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ تھا، مگر وہ اپنی سازشی طبیعت کے مطابق خفیہ طریقہ پر مشرکین مکہ کی حمایت اور مسلمانوں کی مخالفت میں سرگرداں رہتے۔ 
غزوۂ احد کے موقع پر مشرکین کے غلبہ سے ان کی سازشیں زور پکڑنے لگی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کر کے ان کی جلاوطنی کا فیصلہ کیا جس پر یہ سورہ نازل ہوئی۔ انہیں کہا گیا تھا کہ جاتے ہوئے جو چیز ساتھ لے جا سکتے ہو لے جاؤ، چنانچہ انہوں نے اپنے مکانات کو توڑ کر ان کا ملبہ بھی ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا تاکہ نئی جگہ پر آبادی میں تعمیری مقاصد کے لئے استعمال کرسکیں اور ان کے چلے جانے کے بعد مسلمان ان کے گھروں کو استعمال نہ کرسکیں۔ 
اللہ تعالیٰ نے اس صورتحال کو ان کے لئے دنیا کا عذاب قرار دیا اور آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہو گا۔ جنگ کے بغیر کافروں کا جو مال مسلمانوں کو ملے وہ ’’فئے‘‘ کہلاتا ہے اور جنگ کے نتیجہ میں جو ملے وہ ’’غنیمت‘‘ کہلاتا ہے۔ ’’فئے‘‘ کا مصرف بتایا کہ اللہ کے نبی کی گھریلو ضروریات اور غرباء و مساکین اور ضرورتمند مسافروں کے استعمال میں لایا جائے گا۔
 پھر اسلامی معیشت کا زریں اصول بیان کر دیا کہ مال کی تقسیم کا مقصد مال کو حرکت میں لانا ہے تاکہ چند ہاتھوں میں منجمد ہو کر نہ رہ جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کی اہمیت جتلانے کے لئے حکم دیا کہ آپ کا فیصلہ حتمی فیصلہ ہے، لہٰذا اگر وہ آپ لوگوں کو کوئی چیز دینے کا فیصلہ کریں تو وہی لینی ہو گی اور اگر کسی سے منع کر دیں تو اس سے باز رہنا ہو گا۔
 پھر انصار مدینہ کی وسعت قلبی کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ ایمان کی بنیاد پر مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والوں کو انہوں نے اپنے معاشرہ میں سمونے کے لئے اس قدر محبتیں دیں کہ اپنی ضرورتوں پر مہاجرین کی ضروریات کو ترجیح دی اور اپنے دلوں میں کسی قسم کا بغض یا نفرت نہیں پیدا ہونے دیا۔
 پھر منافقین کے یہودیوں کی حمایت کرنے پر مذمت کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ عقل و فہم سے عاری ہونے کی بناء پر اس قسم کی ناجائز حرکتوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس کے بعد تقویٰ اور آخرت کی تیاری کی تلقین فرمائی ہے اور قرآن کریم کی قوت تأثیر کو بیان کیا ہے کہ جب پتھروں اور پہاڑوں پر بھی یہ کلام اثر انداز ہو سکتا ہے تو انسان پر تو بدرجۂ اولیٰ اس کی تاثیر ظاہر ہونی چاہئے۔

               *سورہ ممتحنہ*

’’الممتحنہ‘‘ کے معنی ’’امتحان لینے والی‘‘ اس سورہ میں ان خواتین کے بارے میں تحقیقات کرنے کا حکم ہے جو ہجرت کر کے مدینہ منورہ منتقل ہو رہی تھیں۔ اس سورہ کا مرکزی مضمون ’’کافروں سے تعلقات کا قیام‘‘ ہے۔ 
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ’’فتح مکہ‘‘ کے لئے روانگی کا ارادہ کیا تو ایک مخلص صحابی حاطب بن ابی بلتعہ نے مخبری کرتے ہوئے مشرکین مکہ کے نام ایک خط تحریر کر دیا تھا۔
 اس پر تنبیہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے غیر مسلموں کے ساتھ دوستی اور تعلقات قائم کرنے کی مذمت فرمائی اور بتایا کہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں۔ ان سے کسی چیز کی توقع عبث ہے اور ایک ضابطہ بیان کر دیا کہ جن کافروں کا شر متعدّی نہیں ہے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوشاں نہیں ہیں ان سے حسن معاملہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ جو کافر مسلمانوں کے لئے مسائل و مشکلات کا باعث ہیں انہیں نقصان پہنچانے میں کوشاں رہتے ہیں ان سے کسی قسم کے تعلقات استوار نہیں کئے جا سکتے۔ 
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طرز زندگی کو اپنانے کی خصوصی دعوت دی گئی ہے، دیار کفر سے ہجرت کر کے آنے والی خواتین کے بارے میں تحقیقات کی جائیں، اگر ان کا اخلاص و اسلام ثابت ہو جائے تو انہیں کافروں کے حوالہ کرنے کی بجائے اسلامی معاشرہ میں با عزت طریقہ پر رہنے کی صورت پیدا کریں۔
 اگر وہ کسی کافر کی بیوی ہے تو اس کی مطلوبہ رقم مہر کی شکل میں دے کر اسے اس کے چنگل سے آزاد کرانے کی ضرورت ہے کیونکہ کافر اس کے لئے حلال نہیں اور یہ کافر کے لئے حلال نہیں ہے اور حضور علیہ السلام کو ایسی خواتین کو بیعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو مطلوبہ صفات کی پابندی کا عہد کریں۔
 شرک، چوری، زنا، الزام تراشی، قتل اولاد اور مخالفت رسول جیسے جرائم سے اجتناب کا عہد کریں۔ آخر میں اللہ کے دشمنوں سے تعلقات کے قائم کرنے پر تنبیہ کا اعادہ کرتے ہوئے سورہ کو ختم کر دیا گیا ہے۔

               *سورہ صف*

اس میں صف باندھ کر جہاد کرنے کا تذکرہ ہے۔ اللہ کی تسبیح کے بیان کی تلقین کے بعد مسلمانوں کو غلط بیانی اور جھوٹے دعوے سے گریز کا حکم ہے اور مضبوط سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے جہاد کرنے والوں کے لئے محبت الٰہی کا اعلان ہے۔
 پھر حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام کی دعوت و قربانیوں کا تذکرہ خاص طور پر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے ’’بعثت محمدیہ‘‘ کی بشارت کا بیان ہے۔
 اسلام کا راستہ روکنے کی کافرانہ کوششوں کو بچگانہ حرکت قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے ’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘ اسلام کے تمام ادیان پر غلبہ کے آسمانی فیصلہ کا اعلان ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کو کامیاب تجارت قرار دے کر دردناک عذاب سے نجات، جنت کے باغات و انہار اور عالیشان محلات کی عطاء کے ساتھ دنیا میں فتح و کامرانی کی نوید ہے اور یہ بتایا ہے کہ دین کی جدوجہد کرنے والوں کو ہر دور میں کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت پر لبیک کہنے والے حواریین کی اللہ نے مدد فرما کر انہیں غلبہ نصیب فرمایا تھا۔
 تم بھی حضور علیہ السلام کی حمایت کرو گے تو فتح و غلبہ اور نصرت خداوندی شامل حال ہو گی۔

               *سورہ جمعہ*

اللہ کی تعریف و توصیف بیان کرنے کے بعد حضور علیہ السلام کی بعثت اور اس کے مقاصد کے تذکرہ کے بعد بتایا کہ امت محمدیہ میں آخر تک جاں نثار پیدا ہوتے رہیں گے اور یہ دین صرف عربوں کے لئے نہیں ہے بلکہ سلمان فارسی اور ان کی نسل کے دوسرے لوگ بھی اسلام کے نام لیواؤں میں شامل رہیں گے۔
 اس کے بعد یہودیوں کا تذکرہ اور ان کے آسمانی کتاب سے فیض حاصل نہ کرنے کو ایک مثال دے کر سمجھایا کہ جس طرح گدھے پر کتابیں لادنے سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ایسے ہی یہودی بھی آسمانی کتاب کے فیض سے محروم ہیں۔ 
یہودیوں کے دعوے کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اگر کائنات میں اللہ کے سب سے پیارے ہیں تو انہیں موت کی تمنا کر کے جلدی سے اپنے پیارے رب کے پاس پہنچ جانا چاہئے، مگر یہ موت کی تمنا کبھی نہیں کریں گے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جس موت سے یہ ڈرتے ہیں وہ ایک نہ ایک دن آ کر انہیں عالم الغیب والشہادۃ کے سامنے پیش کر دے گی۔ 
پھر ایک واقعہ کی طرف اشارہ کیا کہ جب جمعہ کے وقت تجارتی قافلہ کی آمد پر لوگ آپ کو خطبہ کے دوران چھوڑ کر چلے گئے تھے، اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جمعہ کی اذان کے بعد سب کام دھندے چھوڑ کر اللہ کی یاد اور نماز میں مشغول ہو جانا چاہئے۔ نماز میں مشغولی رزق میں ترقی کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ بہترین رزق عطاء فرمانے والے ہیں۔

             *سورہ منافقون*

اس سورت میں اسلامی معاشرہ کی انتہائی خطرناک قسم، منافقین کا تذکرہ ہے، جن کے قلب و لسان میں اتفاق نہیں۔ وہ قسمیں کھا کر بھی یقین دہانیاں کرائیں تو ان پر اعتماد نہ کریں۔ 
ایک سفر میں منافقین نے بہت بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے باہر سے ہجرت کر کے آنے والوں کو ذلیل قرار دے کر اپنے آپ کو بڑا عزت والا یا یہ کہا کہ عزت والے مدینہ پہنچتے ہی ذلیلوں کو نکال باہر کریں گے۔ اللہ نے فرمایا عزت اللہ، رسول اور ایمان والوں کے لئے ہے۔ پھر اللہ کے راستہ میں موت سے پہلے پہلے خرچ کرنے کی ترغیب پر سورہ کو ختم کر دیا۔

               *سورہ تغابن*

توحید خداوندی پر کائناتی شواہد پیش کرنے کے بعد گزشتہ اقوام کی نافرمانیوں اور گناہوں پر ان کی ہلاکت کا تذکرہ، پھر قیامت کا ہولناک دن اور اس میں پیش آنے والے احوال کا مختصر تذکرہ اور پھر جنت والوں کی عظیم الشان کامیابی اور جہنم والوں کے بدترین ٹھکانہ کے بیان کے بعد بتایا کہ ’’بیوی بچے‘‘ انسانی آزمائش کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ آخر میں اللہ کے نام پر مال خرچ کرنے کی ترغیب کے ساتھ سورہ کا اختتام ہوتا ہے۔

               *سورہ طلاق*

اس سورہ میں طلاق اور عدت کے احکام، بیوی کی علیحدگی کی صورت میں بچے کو دودھ پلانے اور پالنے کی ذمہ داری اور آخر میں توحید و رسالت کے دلائل پر سورہ کو ختم کیا۔

               *سورہ تحریم*

ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اختلاف روایات کے مطابق شہد یا اپنی باندی ماریہ قبطیہ کو اپنے اوپر حرام کرنے پر تنبیہ کر کے بتایا کہ حلت و حرمت اللہ کا کام ہے۔ پھر حضور علیہ السلام کا راز فاش کرنے پر ایک ام المؤمنین کو تنبیہ کی ہے۔ اس کے بعد سچی توبہ کی تلقین اور کافروں اور منافقوں کے ساتھ جہاد کا حکم اور پھر چار عورتوں کا تذکرہ جن میں دو کافر تھیں، ان کے شوہروں کا اسلام بلکہ نبوت بھی ان کے کسی کام نہ آئی۔ دو مسلمان تھیں اور اللہ کی انتہائی فرماں بردار جس سے یہ تعلیم دی کہ اسلام میں رشتہ داریاں اور حسب و نسب نہیں ایمان و عمل کام دیتا ہے۔

*پارہ~~~27~~~ قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ*


 27 – قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ
قوم لوط کی ہلاکت کے واقعہ سے اس پارہ کی ابتداء ہو رہی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ (حضرت لوط علیہ السلام کا) صرف ایک گھرانہ اسلام کی بدولت عذاب سے نجات پا سکا۔ اس کے علاوہ پوری قوم اپنی بے راہ روی کی بناء پر پتھروں کی بارش سے تباہ کر دی گئی۔
 قصۂ موسیٰ و فرعون میں بھی یہی ہوا کہ انہوں نے رسول کا انکار کیا۔ ہم نے اسے سمندر میں ڈال کر غرق کر کے نشان عبرت بنا دیا۔ قوم ثمود اور اس سے پہلے قوم نوح کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا کہ ان کی سرکشی اور فسق و فجور نے ان کی تباہی کی راہ ہموار کی اور آنے والوں کے لئے نشانِ عبرت بن کر رہ گئے۔ 
اتنے بڑے آسمان کی چھت بنانے والا اور زمین کا اتنا خوبصورت فرش لگانے والا کتنا بہترین کاریگر اور کتنا وسعتوں والا مالک ہے۔ اس نے ہر چیز کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا (نر اور مادہ، مثبت و منفی کی شکل میں ) اسی اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہیں بنانا چاہئے۔ 
باقی رہا نبی کی کردار کشی کرنے کے لئے اسے دیوانہ و جادوگر کے نام سے بدنام کرنے کی کوشش، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے انبیاء علیہم السلام کو بھی اسی قسم کے ناموں سے یاد کیا گیا ہے، آپ ان باتوں کی طرف دھیان نہ دیں اور ایمان والوں کو یاد دہانی کراتے رہیں اور جنات و انسانوں کو ان کے مقصد تخلیق کی طرف متوجہ کریں۔ 
کافروں کے لئے قیامت کے دن ہلاکت کے سوا اور کچھ نہیں ہو گا۔

               *سورہ الطور*

مکی سورت ہے، انچاس آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے، اس مختصر سی سورت میں عقائد کی تینوں بنیادوں ’’توحید و رسالت اور قیامت‘‘ کے موضوع پر مدلل گفتگو موجود ہے۔ 
اللہ تعالیٰ نے پانچ قسمیں کھا کر فرمایا ہے کہ اللہ کا عذاب جب واقع ہو گا تو اسے کوئی روکنے والا نہیں ہو گا۔ اس دن آسمان تھر تھر کانپ رہا ہو گا۔ پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح فضاء میں اڑتے پھر رہے ہوں گے۔ کافروں کو جہنم کے کنارے کھڑے کر کے پوچھا جائے گا کہ جس آگ کے تم منکر تھے وہ تمہارے سامنے ہے۔ کیا اب بھی اسے تم ’’جادو‘‘ ہی سمجھتے ہو یا تمہاری بینائی کام نہیں کر رہی ہے۔ آگ کو برداشت کرسکو یا نہ کرسکو تمہیں اس آگ میں ہمیشہ ہمیشہ پڑے رہنا ہو گا۔
 پھر متقیوں کے لئے جنات اور ان میں جو انعامات ملیں گے ان کا تذکرہ۔ خاص طور پر جنتیوں کی اولاد اور اہل خانہ کو ان کے ساتھ جنت میں یکجا کرنے کا ذکر ہے۔ 
پھر رسالت محمدیہ کی صداقت کا بیان ہے اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ مشرکین کے بے جا مطالبات اور نازیبا کلمات سے صرف نظر کر کے آپ نصیحت کی تلقین فرماتے رہیں۔
 پھر دلائل توحید اور اللہ کے لئے اولاد ثابت کرنے کی مذمت ہے اور آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے تمام مؤمنین کو تلقین ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں۔ آپ ہماری نگاہوں میں ہیں۔ آپ کو چاہئے کہ دن رات اور صبح و شام اللہ کی تسبیح و تحمید میں مشغول رہا کریں۔

               *سورہ النجم*

مکی سورت ہے۔ باسٹھ آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔
 سورت کی ابتداء میں قسمیں کھا کر اللہ نے سفر معراج کی تصدیق کرتے ہوئے ’’معراج سماوی‘‘ کے بعض حقائق خاص طور پر اللہ تعالیٰ سے عرش معلیٰ پر ملاقات اور سدرۃ المنتہیٰ پر فرشتہ سے بالمشافہہ گفتگو کا تذکرہ کیا ہے۔ 
پھر شرک کی تردید کرتے ہوئے باطل خداؤں کی مذمت کے ساتھ بتایا ہے کہ اللہ کے علاوہ بتوں کی عبادت ہو یا معزز فرشتوں کی وہ ہر حال میں باطل اور قابلِ مواخذہ ہے۔ پھر انسانی زندگی کے ضابطہ کو بیان کیا ہے کہ انسان کی محنت اور کوشش ہی اس کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

آخر میں نہایت اختصار کے ساتھ امم ماضیہ کا تذکرہ کر کے قوموں کے عروج و زوال کا ضابطہ بیان کر دیا کہ قوموں کی تباہی میں وسائل سے محرومی یا معیشت کی تنگی نہیں بلکہ ایمان سے محرومی، عملی بے راہ روی اور اخلاقی انحطاط سب سے بڑے عوامل ہوا کرتے ہیں۔
 
               *سورہ القمر*

مکی سورت ہے۔ پچپن آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو اس سورت کا مرکزی مضمون ’’اثبات رسالت‘‘ معلوم ہوتا ہے۔ 
سورت کی ابتداء حضور علیہ السلام کے ’’چاند کو دو ٹکڑے کرنے‘‘ کے معجزہ سے کی گئی ہے، جسے قرآن کریم ’’شق القمر‘‘ کہتا ہے۔ مشرکین کا کہنا تھا کہ جادو کا اثر آسمان پر نہیں ہوتا، لہٰذا اگر آپ چاند دو ٹکڑے کر دیں تو ہم آپ کو ’’جادو گر‘‘ قرار دینے کے بجائے نبی تسلیم کر لیں گے۔ مگر وہ ہٹ دھرم اس معجزہ کو دیکھ کر بھی کہنے لگے کہ ’’محمد کا جادو تو آسمان پر بھی چل گیا‘‘
 پھر قیامت کے ہولناک دن کی یاد دلا کر مشرکین کو بتایا گیا کہ اس دن تمہاری نگاہیں جھکی کی جھکی رہیں گی اور تمہاری زبانیں اس دن کی شدت کا برملا اعتراف کریں گی۔
 پھر مشرکین مکہ کو حق کے انکار کے بدترین نتائج پر متنبہ کرنے کے لئے امم ماضیہ کا تذکرہ شروع کر دیا۔
 حضرت نوح علیہ السلام کی ’’ہزار سالہ جدو جہد‘‘ قوم کی گستاخی اور تکذیب پر بارگاہ الٰہی میں عاجزانہ دعاء اور مدد کی درخواست جو کسی بھی دور کے پریشان حال انسان کی مشکلات کے حل کے لئے مقبول دعاء کا درجہ رکھتی ہے 
’’رَبِّ اِنِّی٘ مَغ٘لُو٘بٌ فَاَن٘تَصِر٘‘‘
 اور اس کے نتیجہ میں اہل ایمان کی ’’کشتی کے ذریعے‘‘ نجات اور آسمان سے برسنے اور زمین سے ابلنے والے پانی کے سیلاب میں قوم کی غرقابی اور تباہی کو بیان کیا۔
 اس کے بعد عادو ثمود و قوم لوط و فرعون جو اپنے اپنے دور میں طاقت و قوت، ہنر اور ٹیکنالوجی، مستحکم معیشت اور مضبوط سیاسی نظام کے نمائندے تھے۔ ان کی تکذیب و نافرمانی پر ہلاکت و تباہی کی مثال پیش کر کے کافروں کو وعید اور اہل ایمان کو بشارت اور تسلی دی کہ ’’دعوت حق‘‘ کے مخالفین کتنے با اثر اور مستحکم کیوں نہ ہوں اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے، لہٰذا مشرکین مکہ پر بھی ایک دن آنے والا ہے جب یہ شکست کھا کر میدان (بدر) سے راہِ فرار اختیار کرنے پر ہی عافیت سمجھیں گے۔ 
پھر مجرمین کے قیامت کے دن بدترین انجام کے ساتھ بتایا کہ متقی باغات اور نہروں کے خوشنما منظر میں اپنے رب کے ہاں با عزت مقام اور بہترین انجام سے سرفراز ہوں گے۔

            *سورہ الرحمن*

اٹھتر چھوٹی چھوٹی آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل مدنی سورت ہے۔
 اس میں قانون سازی کی بجائے توحید باری تعالیٰ پر کائناتی شواہد قائم کئے گئے ہیں اور قیامت کے مناظر، جہنم کی ہولناکی اور خاص طور پر جنت اور اس کے خوشنما مناظر کو نہایت خوبصورتی اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ 
ایک حدیث شریف میں اس سورت کو عروس القرآن یعنی ’’قرآن کریم کی دلہن‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس میں بالکل منفرد انداز میں ایک ہی جملہ ’’فبأی الٓاء ربکما تکذبان‘‘ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے، کو اکتیس مرتبہ دہرایا گیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جنات کو جب حضور علیہ السلام نے سورہ الرحمن سنائی تو وہ ہر مرتبہ یہی کہتے رہے ’’لا بشیٔ من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد‘‘ ہم آپ کی کسی بھی نعمت کو نہیں جھٹلاتے، تمام تعریفیں آپ ہی کے لئے ہیں۔
 شروع سورت میں بتایا ہے کہ رحمت الٰہیہ کے مظاہر میں ایک بڑا مظہر قرآن کریم کی تعلیم اور انسان کو اس کے پڑھنے کا سلیقہ سکھانا اور اسے قوت بیان کا عطاء کرنا ہے۔
 سورج اور چاند حساب کے ایک نہایت ہی دقیق نظام کے تحت چل رہے ہیں، پودے اور درخت بھی اللہ کے نظام کے پابند اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ اسی نے آسمان کو بلند کیا اور عدل و انصاف کا مظہر ’’ترازو‘‘ پیدا کیا لہٰذا ناپ تول میں کسی کمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ 
زمین کو اس انداز پر پیدا کیا کہ تمام مخلوقات اس پر بآسانی زندگی بسر کرسکیں۔ اس میں پھول، خوشہ دار کھجور، غلے اور چارہ اور خوشبودار پھول پیدا کئے۔ ان نعمتوں میں غور کر کے بتاؤ آخر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔ ایسی مٹی جو خشک ہو کر بجنے لگ جاتی ہے ہماری قدرت کا کمال دیکھو کہ ہم نے اس سے نرم و نازک جسم والا انسان پیدا کر دیا اور جنات کو بھڑکنے والی آگ سے پیدا کیا۔ 
کھارے اور میٹھے پانی کی لہروں کو آپس میں مل کر ایک دوسرے کا ذائقہ اور تاثیر بدلنے سے اس طرح روکتا ہے جیسے ان کے درمیان کوئی حد فاصل قائم ہو۔ ان سے موتی اور مرجان کا خوشنما پتھر بھی حاصل ہوتا ہے اور پہاڑوں جیسی ضخامت کے بحری جہاز بھی ان سمندروں کے اندر تیرتے اور نقل و حمل کے لئے سفر کرتے ہیں۔ کائنات کی ہر چیز کو فنا ہے مگر رب ذوالجلال کے لئے دائمی بقاء ہے۔
 اس طرح انعامات خداوندی کے تذکرہ کے بعد قیامت کے ہولناک مناظر اور جہنم کی دہشت ناک سزاؤں کا تذکرہ کیا اور جنت کے روح پرور مناظر کا بیان شروع کر دیا جس میں باغات اور چشمے، انواع و اقسام کے پھل، ریشم و کمخواب کے لباس، یاقوت و مرجان کی طرح حسن و جمال اور خوبصورتی کی پیکر جنتی حوریں جو اپنے شوہر کے علاوہ کسی کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھتی ہوں گی اور آخر میں رب ذوالجلال والا کرام کے نام کی برکتوں کے تذکرہ پر سورہ کو ختم کیا گیا ہے۔

               *سورہ الواقعہ*

مکی سورت ہے، چھیانوے چھوٹی چھوٹی آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ سورت کا مرکزی مضمون ’’بعثت بعدا لموت‘‘ کا عقیدہ ہے
قیام قیامت ایک ایسی حقیقت ہے جسے جھٹلانا ممکن نہیں ہے، اس دن عدل و انصاف کے ایسے فیصلے ہوں گے جس کے نتیجہ میں بعض لوگ اعزاز و اکرام کے مستحق قرار پائیں گے جبکہ بعض لوگوں کو ذلت و رسوائی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
 اس دن زمین شدت کے ساتھ ہل کر رہ جائے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر فضاء میں اڑنے لگیں گے۔ لوگوں کی نیکی اور بدی کے حوالہ سے تین جماعتیں بنا دی جائیں گی۔
 اصحاب المیمنہ (دائیں طرف والے) اصحاب المشأمہ (بائیں طرف والے) اور خاص الخاص مقربین جن کے اندر پہلی امتوں کے نیکو کار لوگ اور امت محمدیہ کے مقربین شامل ہوں گے۔ 
پھر ان کے لئے انعامات اور حور و قصور کا تذکرہ اور بائیں طرف والوں کے لئے جہنم کے عذاب اور سزاؤں کا تذکرہ، پھر مرنے کے بعد زندہ ہونے پر عقل کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والے دلائل کا ایک سلسلہ بیان کیا ہے۔ 
ہمیں کوئی عاجز نہیں کرسکتا کہ ہم نیست و نابود کر کے تمہاری جگہ دوسری مخلوق پیدا کر کے لے آئیں۔ جب تم نے ہمارے پہلے پیدا کرنے کو تسلیم کر لیا ہے تو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ تم سمجھتے کیوں نہیں ہو؟ 
تم کھیتوں میں بیج ڈالتے ہو، اسے اگانا تمہارے اختیار میں نہیں ہے۔ ہم ہی اسے اُگاتے ہیں، اگر ہم اس کھیتی کو تباہ کر کے رکھ دیں تو تم کف افسوس ملتے رہ جاؤ گے۔
 تمہارے پینے کا پانی بادلوں سے کون نازل کرتا ہے۔ کیا تم اتارتے ہو یا ہم اتارتے ہیں۔ اگر ہم اس پانی کو نمکین اور کڑوا بنا دیں تو تم کیا کرسکتے ہو؟ کیا اس پر تم شکر نہیں کرتے ہو؟
جس آگ کو تم جلاتے ہو اس کا درخت کون پیدا کرتا ہے تمہیں اپنے رب عظیم کی تسبیح بیان کرتے رہنا چاہئے۔ قرآن کریم کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے نظام شمسی کے مربوط و منظم سلسلہ کو بطور شہادت پیش کرنے کے لئے اس کی قسم کھا کر فرمایا کہ جس ذات نے اجرام فلکی کا یہ محیر العقول نظام بنایا ہے اسی قادر مطلق نے یہ قرآن کریم نازل فرمایا ہے۔
 اسے چھونے کے لئے پاکیزگی اور طہارت کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔ پھر ’’جاں کنی‘‘ کا عالم اور جزاء و سزاء کے لئے دربار خداوندی میں حاضری کے موقع پر تین جماعتوں میں لوگوں کی تقسیم کا اعادہ اور آخر میں رب عظیم کی تسبیح بیان کرنے کے حکم پر سورہ کا اختتام کیا گیا ہے۔

              *سورہ الحدید*

مدنی سورت ہے، انتیس آیتوں اور چار رکوع پر مشتمل ہے۔ ’’حدید‘‘ لوہے اور اسٹیل کو کہتے ہیں اور اس کے منافع اور فوائد ہر دور میں مسلم رہے ہیں، لوہے کو طاقت و قوت اور مضبوطی کا ایک بڑا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے سورت کا نام ’’الحدید‘‘ رکھا گیا ہے۔
 آسمان و زمین، عرش و کرسی کی تخلیق، شب و روز کا منظم سلسلہ، ہر چیز پر اللہ کے علم کا احاطہ، اللہ تعالیٰ کسی بھی قسم کی کمزوری اور عیب سے پاک ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ 
اللہ پر ایمان لانے اور جہاد فی سبیل اللہ کے لئے مال خرچ کرنے کی ترغیب ہے اور اس پر اجرو ثواب دینے کو قرض کے ساتھ مشابہت دے کر بتایا ہے کہ جس طرح قرض کی ادائیگی ایک فریضہ اور لازمی ہوتی ہے اسی طرح اللہ کے نام پر اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے مال خرچ کرنے پر بدلہ دیا جانا بھی لازمی اور ضروری ہے۔
 پھر مؤمنین کا اپنے ایمان کے نور سے قیامت میں استفادہ اور منافقین کی بیچارگی اور نور ایمان سے محرومی پر حسرت و افسوس کا عبرتناک منظر پیش کیا ہے اور ’’گلو گیر انداز‘‘ میں مومنین کو اپنے ایمانی تقاضوں پر عمل درآمد کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔
 دنیا کی زندگی کی بے ثباتی اور اسباب و وسائل کی کشش سے دھوکہ میں نہ پڑنے کی تلقین فرمائی ہے اور اس کے بالمقابل بے پناہ وسعتوں کی حامل جنت کے حصول میں لگنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔
’’تقدیر‘‘ کے عقیدہ کی افادیت کو بیان کیا ہے کہ اس سے اہل ایمان مایوسیوں سے محفوظ ہو کر ’’جہد مسلسل‘‘ کے عادی بن سکتے ہیں اور اپنی انتھک کوششوں اور محنتوں سے معاشرہ کو انقلاب سے ہمکنار کرسکتے ہیں۔
 ’’لوہا‘‘ اپنے اندر بھرپور انسانی منافع لئے ہوئے ہے، اس سے طاقت و قوت کا اظہار ہوتا ہے اور یہ طاقت و قوت اللہ کے دین کی حمایت اور اس کے دفاع میں استعمال ہونی چاہئے۔ 
پھر سلسلہ انبیاء کا مختصر تذکرہ جس میں ابو البشر ثانی حضرت نوح علیہ السلام اور امام الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ اور پھر ’’عبد صالح‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی کتاب انجیل کا تذکرہ فرما کر ان کے متبعین کی صفات اور قیامت میں ان کے لئے اجر عظیم کے وعدہ کے ساتھ ان کے پیروکاروں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اس طرح وہ دُہرے اجر کے مستحق ہو جائیں گے اور یہ سب کچھ اللہ کے فضل اور اس کی عطا کردہ توفیق سے ہی میسر آ سکتا ہے۔

 

حالیہ اشاعتیں

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ۔۔۔۔ الرحمٰن

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْاؕ-لَا تَنْفُذُوْنَ ...

پسندیدہ تحریریں