نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*برائی اور بے حیائی*

إِنَّمَا ۔۔۔يَأْمُرُكُم ۔۔۔بِالسُّوءِ ۔۔۔وَالْفَحْشَاءِ ۔۔۔وَأَن
بے شک ۔۔۔ وہ حکم دیتا ہے تم کو ۔۔۔ برائی ۔۔۔ اور بے حیائی ۔۔۔ اور یہ 
تَقُولُوا ۔۔۔ عَلَى۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔مَا ۔۔۔ لَا تَعْلَمُونَ۔  1️⃣6️⃣9️⃣
تم کہو ۔۔۔ پر ۔۔۔ الله ۔۔۔ جو ۔۔۔ تم نہیں جانتے 
إِنَّمَا يَأْمُرُكُم بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ.   1️⃣6️⃣9️⃣

اَلسُّوآء ۔ ( برائی ) ۔ وہ چیز جو عقلا اور شرعا بری ہو ۔ 
اَلْفَحْشَآء ۔ ( بے حیائی ) ۔ وہ جسے اخلاق اور ادب نے نا پسندیدہ ٹہرایا ہے ۔ لفظ فحش اور فاحشہ اسی سے ہے ۔ 
اس آیت میں شیطان کی دو خصوصیات بیان کی گئی ہیں ۔ 
پہلی یہ کہ وہ ہمیشہ انسان کو برائی اور بے حیائی سکھاتا ہے ۔ اس سے کبھی بھی انسان کو فائدے کی امید نہیں رکھنی چاہئیے ۔ بلکہ شیطان کی فطرت ہی ایسی ہے کہ وہ سراسر برائی ، گندگی ، بے حیائی ، گمراہی اور نا پاکی میں آلودہ ہے ۔ اور دوسروں کو بھی آلودہ رکھنا چاہتا ہے ۔ ہر وقت کسی نہ کسی شرارت ، فساد ، فتنہ اور گڑ بڑ پر اکساتا ہے اور نیکی میں روڑے اٹکاتا ہے ۔ایسی تمام خواہشات اور کام جو انسانی برادری اور خود انسانیت کے لئے مہلک ہیں وہ سب برائی اور بے حیائی میں آجاتے ہیں ۔ 
سوسائٹی کے امن وامان کو خراب کرنا ، باہمی اخوت اور برادری میں تفریق پیدا کرنا ،اتحاد اور تعاون کی جڑ اکھاڑنا ، بندوں کے حق پورے نہ کرنا ، غرض تمام شرو فساد پھیلانے والے کام شیطانی ہیں ۔ 
شیطان کا دوسرا کام یہ ہے کہ وہ انسان کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اپنے پاس سے من گھڑت باتیں بتایا کرے ۔اور ظاہر یہ کرے کہ یہ الله تعالی کا حکم ہے ۔ حالانکہ الله جل شانہ ہرگز ان باتوں کا حکم نہیں دیتا ۔لیکن شیطان کی پیروی کرنے والے لوگ مال کی حرص ، دنیاوی طمع و شہرت ، عارضی فائدے اور نا پائیدار چیزوں کو حاصل کرنے کی خاطر یہ سب کچھ کر گزرتے ہیں ۔
یہودی علماء میں یہ مرض عام ہو گیا تھا ۔ وہعوام کو دھوکا دینے کے لئے اپنے فائدے کی باتیں کہہ کر الله تعالی سے مسوب کر دیتے تھے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے دین کی جڑیں کھوکھلی ہو گئیں اور وہ آئیندہ کے لئے ناکام ہو گئے ۔
ہمیں اس آیت سے سبق سیکھنا چاہئیے کہ نہ بدی اور بے حیائی میں حصہ لیں ۔نہ ہی جھوٹے مسائل گھڑ کر لوگوں کو سنائیں ۔ کیونکہ یہ دونوں شیطانی کام ہیں ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...