*حلال و طیب غذا*

يَا أَيُّهَا ۔۔۔ النَّاسُ ۔۔۔ كُلُوا ۔۔۔ مِمَّا ۔۔ فِي الْأَرْضِ
اے ۔۔ لوگو ۔۔ کھاؤ ۔۔۔ اس سے جو۔۔۔ زمین میں 
حَلَالًا ۔۔۔طَيِّبًا ۔۔۔ وَلَا تَتَّبِعُوا ۔۔۔ خُطُوَاتِ ۔۔۔الشَّيْطَانِ
حلال ۔۔۔ پاکیزہ ۔۔ اورنہ پیروی کرو۔۔۔ قدم ۔۔۔ شیطان 
  إِنَّهُ ۔۔۔ لَكُمْ ۔۔۔ عَدُوٌّ ۔۔۔مُّبِينٌ۔ 1️⃣6️⃣8️⃣
بے شک وہ ۔۔۔ تمہارے لئے ۔۔۔ دشمن ۔۔۔ کُھلا 

يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ.  1️⃣6️⃣8️⃣

اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو  بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔

اس آیت میں الله تعالی نے تمام بنی نوع کو مخاطب کرکےحلال اور حرام کے فرق کو بیان فرمایا ہے ۔ اور کھانے پینے کی چیزوں میں دوشرطیں ضروری قرار دی ہیں ۔
اول ۔۔۔ حلال ہونا 
دوم ۔۔۔طیّب ہونا 
حَلَالٌ ۔  اس چیز کو کہا ہے جو الله تعالی کی طرف سے ممنوع نہ ہو ۔شریعت نے اسے جائز کہا ہو حرام اور ناپسندیدہ نہ قرار دیا ہو ۔مثلا ۔۔۔ سبزیاں ، گوشت ، دالیں۔ وغیرہ 
پاکیزہ ۔ وہ چیز جو حلال ہو ۔ ساتھ ہی نجاست اور گندگی سے پاک ہو ۔ 
غذا کے اندر الله تعالی نے حلال اور طیب کی دو شرطیں لگا کر ایک بہت بڑی خوبی پیدا کی ہے ۔ ان اصولوں کی بنا پر ہر وہ شے جو پاکیزہ نہیں ۔ روح اور جسم کے لئے نقصان دہ ہے یا جائز طور پر حاصل نہیں کی گئی ۔ اس کا کھانا پینا اور استعمال کرنا ممنوع ہے ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پاکیزگی کا اسقدر خیال رکھا کہ وہ چیزیں جن کی بو عام طور پر طبیعت پر گراں گزرتی ہے ۔ مکروہ قرار دے دیں اور انہیں کھا کر مسجد میں آنے کو ناپسندیدہ بیان کیا ۔ تاکہ ساتھی نمازیوں کی طبیعت پر گراں نہ گزرے اہل عرب بت پرستی کرتے تھے ۔ اور بتوں کے نام پر چھوڑے ہوئے جانور سانڈ وغیرہ اور بعض دوسری غذائیں از خود حرام قرار دے رکھی تھیں ۔ اور ان جانوروں سے نفع اٹھانا بھی حرام سمجھتے تھے ۔
 اسی طرح بعض حرام چیزوں کو شیر مادر کی طرح استعمال کرنا شروع کر دیا تھا ۔ یہ بھی ایک طرح کا شرک ہے ۔ کیونکہ حرام اور حلال قرار دینے کا منصب الله جل جلالہ کے سوا کسی کو نہیں ۔اس بارے میں کسی کی بات ماننی گویا اُس کو الله تعالی کا شریک ٹہرانے کے برابر ہے ۔
چنانچہ پہلی آیات میں شرک کی ممانعت فرما کر اب تحریم حلال سے منع کیا جارہا ہے ۔  جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ زمین میں پیدا ہوتا ہے اس سے کھاؤ ۔ جبکہ وہ شرعاحلال اور طیب ہو نہ کہ فی نفسہ حرام ہو جیسے  مردار ، خنزیر اور جس پر غیرالله کا نام لیا گیا ہو ۔ اسی طرح غصب ، چوری رشوت ، سود کا مال ان سب سے اجتناب ضروری ہے ۔ 
نبی آخرالزماں صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ 
جس شخص کا کھانا حرام کا ، لباس حرام کا ، غذا حرام کی ہو اُس کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے ۔ 
الله تعالی نے فرمایا ۔ جو لوگ حلال و طیّب کی پرواہ نہیں کرتےوہ شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔اور شیطان انسان کا کُھلا دشمن ہے ۔ وہ کبھی انسان کی خیر خواہی نہیں کرتا ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں