پارہ~~~30~~~ عَمَّ*

               *سورہ نبأ*

مشرکین مکہ استہزاء و تمسخر کے طور پر مرنے کے بعد زندہ ہونے کو اور قرآن کریم کو ’’النبأ العظیم‘‘ یعنی ’’بڑی خبر‘‘ کہتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعی بڑی اور عظیم الشان خبر ہے۔
 اللہ تعالیٰ نے ان کے منہ کی بات لیکر فرمایا کہ اس ’’بڑی خبر‘‘ پر تعجب یا انکار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تمہیں عنقریب اس کی حقیقت کا علم ہو جائے گا۔ پھر اس پر کائناتی شواہد پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ آسمان و زمین اور ان میں موجود چیزیں جن کی تخلیق انسانی نقطۂ نظر سے زیادہ مشکل اور عجیب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کی تخلیق فرمائی ہے اور ایسی طاقت و قدرت رکھنے والے اللہ کے لئے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنا کون سا مشکل کام ہے۔
 پھر اس اعتراض کا جواب دیا کہ اگر یہ برحق بات ہے تو آج مردے زندہ کیوں نہیں ہوتے؟ ہر چیز کے ظہور پذیر ہونے کے لئے وقت متعین ہوتا ہے۔ وہ چیز اپنے موسم اور وقت متعین میں آ موجود ہوتی ہے۔ مرنے کے بعد زندہ ہونے کا ’’موسم‘‘ اور وقت متعین یوم الفصل (فیصلہ کا دن) ہے لہٰذا یہ کام بھی اس وقت ظاہر ہو جائے گا۔
 پھر جہنم کی عبرتناک سزاؤں اور جنت کی دل آویز نعمتوں کے تذکرہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے جاہ و جلال اور فرشتوں جیسی مقرب شخصیات کی قطار اندر قطار حاضری اور بغیر اجازت کسی قسم کی بات کرنے سے گریز کو بیان کر کے بتایا کہ آخرت کے عذاب کی ہولناکی اور خوف کافروں کو یہ تمنا کرنے پر مجبور کر دے گا کہ کاش ہم دوبارہ پیدا ہی نہ کئے جاتے اور جانوروں کی طرح پیوندِ خاک ہو کر عذاب آخرت سے نجات پا جاتے۔

               *سورہ نازعات*

اس سورت کا مرکزی مضمون مرنے کے بعد زندہ ہونے کا اثبات ہے۔ ابتداء ان فرشتوں سے کی گئی ہے جو اس کائنات کے معاملات کو منظم طریقے پر چلانے اور نیک و بد انسانوں کی روح قبض کرنے پر مامور ہیں۔ پھر مشرکین مکہ کے اعتراض کے جواب میں قیامت کی ہولناکی اور بغیر کسی مشکل کے اللہ کے صرف ایک حکم پر قبروں سے نکل کر باہر آ جانے کا تذکرہ اور اس پر واقعاتی شواہد پیش کئے گئے ہیں جو اللہ فرعون جیسے ظالم و جابر کو حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے وسائل سے محروم شخص کے ہاتھوں شکست سے دوچار کر کے سمندر میں غرق کرسکتا ہے اور آسمانوں جیسی عظیم الشان مخلوق کو وجود میں لا سکتا ہے وہ انسان کو مرنے کے بعد زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔
 پھر جنت و جہنم کے تذکرہ اور صبح و شام کسی بھی وقت قیامت اچانک قائم ہو جانے کے اعلان پر سورت کا اختتام عمل میں لایا گیا ہے۔

               *سورہ عبس*

سرداران قریش کے مطالبہ پر حضور علیہ السلام ان سے علیحدگی میں دعوت اسلام کے موضوع پر گفتگو کر رہے تھے کہ ان کے اسلام قبول کر لینے کی صورت میں ان کے ماتحت افراد بھی مشرف بہ اسلام ہو جائیں گے۔ اتنے میں ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوب کسی قرآنی آیت کے بارے میں معلومات کے لئے حاضر خدمت ہوئے وہ نابینا ہونے کی بنا پر صورتحال سے ناواقف تھے۔ حضور علیہ السلام کو ان کا یہ انداز ناگوار گزرا جس پر اللہ تعالیٰ نے سورت نازل فرمائی۔ ایک نابینا کے آنے پر منہ بسور کر رخ موڑ لیا۔ جو استغناء کے ساتھ اپنی اصلاح کا خواہاں نہیں ہے اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور جو اللہ کی خشیت سے متأثر ہو کر اپنی اصلاح کی خاطر آپ کے پاس آتا ہے اس سے آپ اعراض کرتے ہیں۔
 یہ قرآن کریم نصیحت کا پیغام ہے، کسی بڑے چھوٹے کی تفریق نہیں کرتا۔ اس سے جو بھی نصیحت حاصل کرنا چاہے اس کی جھولی علم و معرفت سے بھردیتا ہے۔ 
غریب علاقوں کو نظرانداز کر کے فائیو اسٹار ہوٹلوں اور پوش علاقوں کے ساتھ تفسیر قرآن کی مجالس کو مخصوص کرنے والوں کی واضح الفاظ میں اس سورت میں مذمت کی گئی ہے۔
 انسان اگر پہلی مرتبہ اپنی تخلیق پر غور کرے تو دوبارہ پیدا ہونے پر اسے تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ ماخلقکم ولا بعثکم الا کنفس واحدۃ۔ تمہارا پیدا ہونا اور مرنے کے بعد زندہ ہونا ایک ہی جیسا ہے۔ زمین، فضاء اور پانی میں منتشر اجزاء کو پھلوں سبزیوں کی شکل دے کر تمہاری خوراک کے ذریعہ تمہارے جسم کا حصہ بنایا۔ مرنے کے بعد تمہارے منتشر اجزاء کو دوبارہ جمع کر کے انسان بنا کر پھر قبروں سے باہر نکال لیا جائے گا۔ پھر قیامت کے دن کی شدت اور دہشت کو بیان کر کے نیک وبد کا ان کے اعمال کے مطابق انجام ذکر فرما کر سورت کو اختتام پذیر کیا ہے۔

               *سورہ تکویر*

قیام قیامت اور حقانیت قرآن اس کے مرکزی مضامین ہیں۔ قیامت کے دن کی شدت اور ہولناکی اور ہر چیز پر اثر انداز ہو گی۔ سورج بے نور ہو جائے گا۔ ستارے دھندلا جائیں گے، پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے، پسندیدہ جانوروں کو نظر انداز کر دیا جائے گا، جنگی جانور جو علیحدہ علیحدہ رہنے کے عادی ہوتے ہیں یکجا جمع ہو جائیں گے۔ 
(پانی اپنے اجزائے ترکیبی چھوڑ کر ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تبدیل ہو کر) سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی۔ انسان کا سارا کیا دھرا اس کے سامنے آ جائے گا۔ پھر کائنات کی قابل تعجب حقیقتوں کی قسم کھا کر بتایا کہ جس طرح یہ چیزیں ناقابل انکار حقائق ہیں اسی طرح قرآنی حقیقت کو بھی تمہیں تسلیم کر لینا چاہئے۔
 پھر قرآن کریم کے اللہ رب العزت سے چل کر حضور علیہ السلام تک پہنچنے کے تمام مراحل انتہائی محفوظ اور قابل اعتماد ہونے کو بیان کر کے واضح کر دیا کہ یہ دنیا جہاں کے لئے بلا کسی تفریق و امتیاز کے اپنے دامن میں نصیحت و ہدایت کا پیغام لئے ہوئے ہے۔

               *سورہ انفطار*

قیام قیامت کے نتیجہ میں کائنات میں برپا ہونے والے انقلابی تغیرات کو بیان کر کے انسان کی غفلت کا پردہ چاک کرتے ہوئے اسے محسن حقیقی کے احسانات یاد دلا کر اس کی ’’رگِ انسانیت‘‘ کو پھڑکایا ہے۔
 پھر معرکۂ خیر و شر کی دو مقابل قوتوں کا تذکرہ کر کے بتایا ہے کہ شر کی قوت فجار اور نافرمانوں کے روپ میں جہنم کا ایندھن بننے سے بچ نہیں سکیں گے جبکہ ہر چیز کی قوت ابرار و فرماں برداروں کی شکل میں جنت اور اس کی نعمتوں کی مستحق قرار پائے گی۔ اللہ کے نگران فرشتے ’’کراماً کاتبین‘‘ ان کے تمام اعمال کا ریکارڈ محفوظ کر رہے ہیں اور روز قیامت اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چلے گا۔

               *سورہ مطففین*

ناپ تول میں کمی کرنے والے کو مطفف کہتے ہیں۔ اس سے ہر وہ شخص مراد ہو سکتا ہے جو دوسروں کا حق مارتا اور اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی کرتا ہو۔ 
مطففین کی ہلاکت کے اعلان کے ساتھ سورت کی ابتداء ہو رہی ہے اس کے بعد بتایا کہ یہ لوگ اپنے مفادات پر آنچ نہیں آنے دیتے جبکہ دوسروں کے حقوق کی دھجیاں بھی بکھیر کر رکھ دیتے ہیں۔ اس انسانی کمزوری کی بڑی وجہ قیامت کے احتساب پر یقین کا نہ ہونا ہے اگر عقیدۂ آخرت کو پختہ کر دیا جائے تو اس خطرناک بیماری کا علاج ہو سکتا ہے۔
 پھر اشرار و فجار کا انجام ذکر کر کے بتایا ہے کہ منکرین آخرت درحقیقت انتہاء پسند اور گناہوں کے عادی لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے دل گناہوں کی وجہ سے ’’زنگ آلود‘‘ ہو جاتے ہیں۔
 پھر ابرار و اخیار کا قابل رشک انجام ذکر کر کے بتایا کہ جس طرح کافر لوگ دنیا میں اہل ایمان والوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے آج ایمان والے ان کا مذاق اڑائیں گے۔

               *سورہ انشقاق*

قیامت کے خوفناک مناظر اور عدل و انصاف کے مظہر ’’بے رحم احتساب‘‘ کے تذکرہ پر یہ سورت مشتمل ہے۔
 آسمان پھٹ جائیں گے اور زمین پھیل کر ایک میدان کی شکل اختیار کر لے گی اور اللہ کے حکم پر گوش بر آواز ہوں گے۔ انسان کو جہد مسلسل اور مشقت کے پے در پے مراحل سے گزر کر اپنے رب کے حضور پہنچنا ہو گا۔ دائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال کا مل جانا محاسبہ کے عمل میں نرمی اور سہولت کی نوید ہو گی جبکہ پیٹھ کی طرف سے بائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال کا ملنا کڑے محاسبہ اور ہلاکت کا مظہر ہو گی۔
 اس کے باوجود بھی یہ لوگ آخر ایمان کیوں نہیں لاتے اور قرآن سن کر سجدہ ریز کیوں نہیں ہو جاتے۔ درحقیقت ان تمام جرائم کے پیچھے عقیدۂ آخرت اور یوم احتساب کے انکار کا عامل کار فرما ہے۔ ایسے افراد کو درد ناک عذاب کی بشارت سنادیجئے۔ اس سے وہی لوگ بچ سکیں گے جو ایمان اور اعمال صالحہ پر کاربند ہوں گے ان کے لئے کبھی منقطع نہ ہونے والا اجرو ثواب ہے۔

            *سورہ بروج*

اس سورت کے پس منظر کے طور پر احادیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک نوجوان جو شاہی خرچہ پر بل کر جواں ہوا تھا مسلمان ہو گیا، بادشاہ نے اس کے قتل کا فیصلہ کیا، اس نے ایمان کے تحفظ میں اپنی جان قربان کر دی، اس واقعہ سے متاثر ہو کر بادشاہ کی رعیت مسلمان ہو گئی، اس نے خندقیں کھدوا کر ان میں آگ جلا دی اور اعلان کر دیا کہ جو ایمان سے منحرف نہ ہوا اسے خندق پھینک دیا جائے گا، لوگ مرتے مر گئے مگر ایمان سے دستبردار نہ ہوئے۔ قرآن کریم نے ان کی اس بے مثال قربانی اور دین پر ثابت قدمی کو سراہتے ہوئے قسمیں کھا کر کہا ہے کہ اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے پر خندقوں میں پھینک کر ایمان والوں کو جلانے والے ان پر غالب ہونے کے باوجود ناکام ہو گئے اور اپنی کمزوری اور بے کسی کے عالم میں خندقوں کے اندر جلنے والے کامیاب ہو گئے۔
 اس سے یہ ثابت ہوا کہ دنیا کا اقتدار اور غلبہ عارضی ہے، اس پر کامیابی یا ناکامی کا مدار نہیں ہے، اصل کامیابی ایمان پر ثابت قدمی میں ہے۔ پھر خیر و شر کی قوتوں کے انجام کے تذکرہ کے ساتھ ہی اللہ کی طاقت و قوت، محبت و مغفرت اور جلال و عظمت کو بیان کر کے مجرموں پر مضبوط ہاتھ ڈالنے کا اعلان کیا اور پھر فرعون اور ثمود کی ہلاکت کے بیان کے ساتھ قرآن کریم کے انتہائی محفوظ ہونے کا اعلان ہے۔

               *سورہ طارق*

اس سورت کا مرکزی مضمون مرنے کے بعد زندہ ہونے کا عقیدہ ہے۔ ستاروں کی قسم کھا کر بتایا کہ جس طرح نظام شمسی میں ستارے ایک محفوظ و منضبط نظام کے پابند ہیں اسی طرح انسانوں کی اور ان کے اعمال کی حفاظت کے لئے بھی فرشتے متعین ہیں۔ 
مرنے کے بعد کی زندگی پر دلیل کے طور پر انسان کو اپنی تخلیق اول میں غور کی دعوت دی اور بتایا کہ جس نطفہ سے انسان بنا ہے وہ مرد و عورت کے جسم کے ہر حصہ (صلب سے پچھلا حصہ اور ترائب سے سامنے کا حصہ مراد ہے) سے جمع ہو کر تیزی کے ساتھ اچھل کر رحم میں منتقل ہو جاتا ہے وہ اللہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ 
آسمان سے پانی برسا کر اور زمین پھاڑ کر غلے اور سبزیاں نکال کر انسانی خوراک کا انتظام کرنے والا اس بات کو بیان کرتا ہے کہ یہ قرآن کریم حق و باطل میں امتیاز پیدا کرنے والی کتاب ہے۔ 
کافر سازشیں کر رہے ہیں اور اللہ ان کا توڑ کر رہے ہیں لہٰذا انہیں مہلت دے دو اور یہ اللہ سے بچ کر کہیں نہیں جا سکیں گے۔

               *سورہ اعلیٰ*

ابتداء میں اللہ تعالیٰ کے ہر عیب و کمزوری سے پاک ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی اس کی قدرت کاملہ اور انسانوں پر اس کے انعامات و عنایات کا تذکرہ پھر اس بات کا بیان ہے کہ نبی کو براہِ راست اللہ ہی تعلیم دیتے ہیں جس میں نسیان اور بھول چوک کی کوئی گنجائش نہیں ہے البتہ اگر اللہ کسی مرحلہ پر قرآن پاک کے کسی حصہ کو منسوخ کرنے کے لئے آپ کے ذہن سے محو کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔
 قرآن کریم سے صحیح معنی میں استفادہ وہی کرسکتا ہے جو اپنے اندر خشیت پیدا کرنے کا خواہش مند ہو اور بدبخت و جہنمی اس قرآن سے فیض حاصل نہیں کرسکتے۔ اپنے نفس کی اصلاح کر کے اسے پاکیزہ بنانے والا کامیاب ہے اور یہ کام وہی کرسکتا ہے جو اللہ کے ذکر اور نماز کا عادی ہو۔ 
اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے اور یہ بات حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کی کتابوں میں بھی لکھی ہوئی موجود ہے۔

               *سورہ غاشیہ*

قیامت کی ہولناکی اور شدت اور کافروں پر اترنے والی مشقت و مصیبت اور مؤمنوں کے لئے جنت کی نعمتوں کے ذکر سے ابتدا کی گئی ہے۔ پھر توحید باری تعالیٰ کے دلائل کا بیان ہے پھر حضور علیہ السلام کو انسانیت کے لئے یاد دہانی اور نصیحت کرانے کا حکم ہے اور قیامت کے احتساب کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھنے کی تلقین ہے۔

               *سورہ فجر*

ابتداء میں پانچ قسمیں کھا کر اللہ نے کافروں کی گرفت کرنے اور عذاب دینے کا اعلان کیا ہے پھر اس پر واقعاتی شواہد پیش کرتے ہوئے قوم عاد و ثمود و فرعون اور ان کی ہلاکت کا بیان ہے۔ 
پھر مشقت اور تنگی میں اور راحت و وسعت میں انسان کی فطرت کو بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آرام و راحت میں اترانے اور عُجب میں مبتلا ہونے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس لائق تھا تبھی تو مجھے یہ نعمتیں ملی ہیں اور تکلیف اور تنگی میں اللہ کی حکمت پر نظر کرنے کی بجائے اللہ پر اعتراضات شروع کر دیتا ہے۔ 
پھر یتیموں اور مسکینوں کی حق تلفی اور حب مال کی مذمت کی ہے۔ اس کے بعد قیام قیامت اور اس کی سختی و شدت بیان کرنے کے بعد بیان کیا کہ جب اللہ تعالیٰ فیصلہ کرنے لگیں گے، فرشتے صف بندی کر کے کھڑے ہو جائیں گے اور جہنم کو لا کر کھڑا کر دیا جائے گا اس وقت کافروں کو عقل آئے گی اور وہ نصیحت حاصل کرنے کی باتیں کریں گے جب وقت گزر چکا ہو گا اس وقت اللہ ایسا عذاب دیں گے کہ کوئی بھی ایسا عذاب نہیں دے سکتا اور مجرموں کو ایسے جکڑیں گے کہ کوئی بھی اس طرح نہیں جکڑ سکتا۔
 اللہ کے وعدوں پر اطمینان رکھنے والوں سے خطاب ہو گا اپنے رب کی طرف خوش و خرم ہو کر لوٹ جاؤ اور ہمارے بندوں میں شامل ہو کر ہماری جنت میں داخل ہو جاؤ۔

               *سورہ بلد*

سورت کی ابتداء میں مکہ مکرمہ جس میں نبی علیہ السلام رہائش پذیر تھے اور والد و اولاد کی قسم کہ انسان مشقت اور تکالیف کے مراحل سے گزرتا رہتا ہے۔ نیکی کا راستہ اختیار کرنے میں بھی مشقت آتی ہے اور بدی کا راستہ اختیار کرنے میں بھی مشقت آتی ہے مگر فرق یہ ہے کہ نیکی کی راہ میں مشقت اٹھانے والوں کے لئے اجرو ثواب ہے جبکہ بدی کی راہ میں مشقت اٹھانے والوں کو ثواب کی بجائے عذاب ہو گا۔
انسان کی ہٹ دھرمی اور اللہ کے راستہ سے روکنے کے جرم کے اعادہ پر فرمایا کہ جو کہتا ہے کہ میں نے بہت مال لگا دیا ہے، کیا اسے معلوم نہیں کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے پھر اللہ نے انسان پر اپنے انعامات ذکر فرما کر انسان کو خدمت خلق کی تلقین کی ہے اور نیک و بد کی تقسیم پر سورت کا اختتام ہے۔

               *سورہ شمس*

سات قسمیں کھا کر بتایا ہے کہ جس طرح یہ تمام حقائق برحق ہیں اسی طرح یہ بات بھی برحق ہے کہ انسان کو ہم نے نیکی اور بدی میں تمیز کا ملکہ عطاء کیا ہے جو اس سے فائدہ اٹھا کر نیکی کا راستہ اختیار کر کے اپنی اصلاح کر لیتا ہے وہ کامیاب و کامران ہے اور جو ’’بدی‘‘ کا راستہ اپنا کر گناہوں کی زندگی اپنا لیتا ہے وہ ناکام و نامراد ہے۔
 پھر ایک ایسی ہی سرکش اور گناہگار قوم کا تذکرہ ہے جنہوں نے اپنی قوم کے رئیس و شریف آدمی کو اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کر کے اونٹنی کے قتل پر مجبور کیا جس کی بناء پر یہ شخص قوم کا بدترین اور بدبخت شخص قرار پایا۔ چنانچہ پوری قوم کو ان کی سرکشی اور بغاوت کے نتیجہ میں ایسے عذاب کا سامنا کرنا پڑا جس سے کوئی ایک فرد بھی نہ بچ سکا اور اللہ تعالیٰ جب کسی کو ہلاک کرتے ہیں تو نتائج سے نہیں ڈرا کرتے۔

               *سورہ لیل*

تین حقائق کی قسمیں کھا کر فرمایا کہ جس طرح ان حقائق کو تسلیم کئے بغیر چارۂ کار نہیں ہے اسی طرح اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ خیر و شر اور نیکی و بدی کے حوالے سے انسانوں کے اعمال مختلف ہیں جو شخص تقویٰ اختیار کر کے نیکی اور سخاوت کا راستہ اپناتا ہے اللہ اس کے راستہ کو آسان کر دیتے ہیں اور جو شخص نیکی کا منکر ہو کر بخل اور گناہ کا راستہ اپناتا ہے اللہ اس کا راستہ بھی آسان کر دیتے ہیں لیکن جب یہ نافرمان جہنم کے گڑھے میں گرے گا تو بخل سے بچایا ہوا مال اسے بچا نہیں سکے گا۔ جبکہ اللہ کی رضا کے لئے مال خرچ کرنے والے کا تزکیہ بھی ہو جاتا ہے، جہنم سے حفاظت بھی ہو جاتی ہے اور اللہ اسے اپنی عطاء و انعام کے ذریعہ راضی بھی کر دیتے ہیں۔

               *سورہ ضحی*

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کی وجہ سے چند روز تہجد کے لئے نہ اٹھ سکے تو آپ کی چچی ام جمیل کہنے لگی کہ آپ کے رب نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر فرمایاجس طرح دن کے ساتھ اجالا ایک حقیقت ہے جُدا نہیں ہوتا اور رات کے ساتھ اندھیرا ایک حقیقت ہے علیحدہ نہیں ہوتا اسی طرح یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آپ کے رب نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ ہی آپ سے بیزار ہوا ہے۔ 
دنیا و آخرت میں موازنہ کرنے کی تلقین کے ساتھ آخرت کے بہتر ہونے کا اعلان ہے۔ قیامت کے دن امت کے حوالہ سے آپ کو راضی کرنے کی خوشخبری ہے اور پھر گزشتہ انعامات کی یاد دہانی ہے کہ آپ کی یتیمی میں سر پرستی کی، فقر میں غنا عطا فرمائی اور شریعت سے بے خبری میں قرآنی شریعت عطا فرمائی لہٰذا یتیموں اور حاجت مندوں کی کفالت و سرپرستی کرتے ہوئے اللہ کے احسانات و انعامات کا اعتراف اور لوگوں کے سامنے اسے بیان کرتے ہیں۔

               *سورہ انشراح*

حضور علیہ السلام کے اعلیٰ مرتبہ و مقام کا بیان ہے۔ آپ کا سینہ کھول دیا اور نبوت کی ذمہ داریوں کے بوجھ سے آپ کی کمر ٹوٹی جا رہی تھی ان سے عہدہ بر آ ہونے میں آپ کو سہولت بہم پہنچائی اور آپ کے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملا کر آپ کا ذکر بلند کر دیا 
حدیث قدسی ہے ’’اینما ذکرت ذکرت معی‘‘ جہاں میرا تذکرہ ہو گا وہیں آپ کا تذکرہ بھی ہو گا۔ مکہ مکرمہ کی مشقت و تکالیف سے بھرپور زندگی میں تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ مصائب و تکالیف دیر پا نہیں ہیں تنگی کے بعد عنقریب سہولتوں اور آسانیوں کا دور شروع ہونے والا ہے۔ 
اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے بعد اپنے رب سے راز و نیاز کے لئے خاص طور پر وقت نکالا کریں۔

               *سورہ تین*

تین مقامات مقدسہ کی قسم کھائی کہ جس طرح طور، بیت المقدس اور مکہ مکرمہ کو ’’وحی‘‘ کے ساتھ اعزاز و شرف عطاء فرمایا اسی طرح کائنات کی تمام مخلوقات میں انسان کو ’’شاہکار قدرت‘‘ بنا کر حسین و جمیل اور بہترین شکل و صورت کے اعزاز و اکرام سے نوازا ہے۔
 اس کی حیثیت کو چار چاند لگ جاتے ہیں جب یہ ایمان اور اعمال صالحہ سے اپنی زندگی کو مزین کر لیتا ہے اور اگر کفر اور تکذیب کا راستہ اپناتا ہے تو عز و افتخار کی بلندیوں سے قعرِ مذلت میں جا گرتا ہے۔

           *سورہ علق*

پہلی وحی میں نازل ہونے والی پانچ آیتیں اس سورت کی ابتداء میں شامل ہیں 
جن میں قرآنی نصاب تعلیم کے خدو خال واضح کر کے انسان کی سرکشی کے اسباب سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور ابو جہل ملعون کی بدترین حرکت کی مذمت کی گئی ہے۔ اللہ کو اور اپنی حقیقت کو فراموش نہ کرنا قرآنی نصاب تعلیم کی بنیاد ہے اور مجہولات کو معلومات کی شکل میں تبدیل کرنا اس کے مقاصد میں شامل ہے۔
 ’’فرعون ہذہ الامۃ‘‘ ابوجہل کی سرکشی اور تکبر کی انتہاء کو بیان کیا کہ محمد علیہ السلام کو نماز جیسے عظیم الشان عمل کی ادائیگی سے روکنے اور آپ کا مبارک سر اپنے ناپاک قدموں کے نیچے کچلنے کی پلاننگ کرتا تھا۔ نازیبا حرکت سے باز نہ آنے کی صورت میں اسے جہنمی فوج کے ہاتھوں گرفتار کرا کے اس کی جھوٹی اور گناہوں سے آلودہ پیشانی کے بالوں سے گھسیٹ کر جہنم رسید کرنے کی دھمکی دی گئی ہے اور ساتھ ہی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے سرکش و نافرمانوں کی اطاعت کی بجائے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اس کا تقرب حاصل کرتے رہنے کی تلقین ہے۔

               *سورہ قدر*

اس سورت میں لیلۃ القدر کی فضیلت اور وجہِ فضیلت کا بیان ہے کہ یہ رات ایک ہزار مہینہ کی عبادت سے زیادہ اجرو ثواب دلانے والی ہے اور اس کی فضیلت کی وجہ اس رات میں نزول قرآن ہے۔ گویا شب قدر کی عظمتوں کا راز نزول قرآن میں ہے اور انسانیت کے لئے یہ پیغام ہے کہ تمہیں بھی عظمتیں مطلوب ہیں تو قرآن کے دامن سے وابستگی میں مضمر ہیں۔ 
اس رات میں جبریل امین فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ اترتے ہیں اور اس رات کے عبادت گزاروں پر سلامتی اور رحمت کے نزول کی دعاء کرتے ہیں اور یہ کیفیت صبح صادق تک برقرار رہتی ہے۔

               *سورہ بینہ*

اس سورت میں پڑھے لکھے جاہلوں کے بغض و عناد کا تذکرہ ہے کہ دین فطرت اسلام کا راستہ روکنے کے لئے یہودی و عیسائی اور مشرکین باہم متحد ہیں۔
 اللہ تعالیٰ اپنی عبادت میں بندوں سے اخلاص اور یکسوئی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پھر کفر و شرک کے مرتکب انسانوں کو بدترین خلائق اور ایمان و عمل صالح کے علمبرداروں کو بہترین خلائق قرار دے کر دونوں جماعتوں کے انجام کے تذکرہ پر سورت کا اختتام کر دیا گیا ہے۔

               *سورہ زلزال*

اس سورت میں قیام قیامت کی منظر کشی کے بعد انسانی مستقبل کو اس کے اعمال پر منحصر قرار دے کر بتایا ہے کہ معمولی سے معمولی عمل بھی، چاہے اچھا ہو یا برا، انسانی زندگی پر اپنے اثرات پیدا کئے بغیر نہیں رہتا اور قیامت میں خیر و شر ہر قسم کے عمل کا بدلہ مل کر رہے گا۔

               *سورہ عادیات*

مجاہدین کی سواریوں کی قسمیں کھا کر جہاد فی سبیل اللہ عظمت و اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور بتایا ہے کہ جس طرح دوڑتے ہوئے گھوڑوں کا ہانپنا، کھروں سے چنگاریاں اڑانا، صبح سویرے دشمن پر حملہ آور ہونا، گرد و غبار اڑانا اور دشمن کے مجمع میں گھس جانا، مبنی بر حقیقت ہے اسی طرح انسان میں ناشکری اور حب مال کے جذبات کا پایا جانا بھی ایک حقیقت ہے۔ 
اگر قبروں کے کریدے جانے اور سینہ کے بھید کے ظاہر ہو جانے کا یقین ہوتا تو انسان کے اندر یہ منفی جذبات پیدا نہ ہوتے۔

               *سورہ قارعہ*

اس سورت میں قیام قیامت اور اس کی ہولناکی کے تذکرہ کے ساتھ اعمال کے وزن اور بے وزن ہونے کا تذکرہ اور دونوں صورتوں کا انجام مذکور ہے۔

               *سورہ تکاثر*

مال میں زیادتی کی حرص قبر تک انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ جب جہنم کا نظارہ ہو گا تبھی اس مال کی بے ثباتی کا پتہ چلے گا وہی محاسبہ کا وقت ہو گا اور ایک ایک نعمت کا حساب لیا جائے گا۔

               *سورہ عصر*

زمانہ کی قسم کھا کر دراصل ماضی کی تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کی تلقین کی ہے کہ چار صفات ۱۔ایمان ۲۔اعمال صالحہ ۳۔حق کی تلقین کرنے ۴۔اور حق کے راستہ کی مشکلات پر صبر کرنے والے ہر دور میں کامیاب اور ان صفات سے محروم ہر دور میں ناکام رہے ہیں۔
 امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر قرآن کریم میں صرف یہی ایک سورت نازل ہوتی تو انسانی رہنمائی اور ہدایت کے لئے کافی ہو جاتی۔

               *سورہ ہمزہ*

لوگوں کا استہزاء و تمسخر اڑانے اور طعنہ زنی کرنے والوں کی مذمت اور حب مال میں مبتلا لوگوں کا عبرتناک انجام مذکور ہے۔

               *سورہ فیل*

ہاتھیوں کے خانہ کعبہ پر حملہ آور ہونے اور ان کے عبرتناک انجام کے تذکرہ سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر انسان اللہ کے دین کے دفاع سے پہلوتہی اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ حقیر پرندوں سے یہ کام لے سکتے ہیں۔

               *سورہ قریش*

قریش مکہ اور ان کے واسطہ سے ہر اس شخص کو غیرت دلائی گئی ہے جو براہ راست اللہ کی نعمتوں، خاص طور پر اللہ کے دین کی برکتوں سے مستفید ہونے کے باوجود اپنے رب کی عبادت اور اس کے دین کے دفاع سے غافل ہو۔

               *سورہ ماعون*

خدمت خلق کے کاموں سے غفلت برتنے، یتیموں کی کفالت سے دست کش ہونے اور نماز میں سستی کا مظاہرہ کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔

               *سورہ کوثر*

حوض کوثر جیسی خیر کثیر اپنے نبی کو عطا فرمانے کے اعلان کے ساتھ ہی دشمنان و گستاخان رسول کا نام و نشان تک مٹا دینے کا اعلان ہے۔

               *سورہ کافرون*

اسلامی نظام حیات کے علاوہ کسی دوسرے نظام کی طرف نگاہ نہ اٹھانے اور کفر سے بیزاری کا اظہار کرنے کی تلقین ہے۔

               *سورہ نصر*

اسلامی ترقی کے بامِ عروج ’’فتح مکہ‘‘ کی پیشن گوئی اور لوگوں کے جوق در جوق اسلامی نظام کو اختیار کرنے کے اعلان کے ساتھ تسبیح و تحمید واستغفار میں مشغول ہونے کی تلقین ہے۔

               *سورہ لہب*

دشمنانِ خدا و رسول کے بدترین نمائندے ابو لہب جو آپ کا چچا بھی تھا اور قریش کا سردار بھی تھا اس کی اپنی بیوی سمیت عبرتناک موت کے اعلان کے ساتھ مخالفین اسلام کو تنبیہ ہے۔

               *سورہ اخلاص*

عیسائیوں اور مشرکوں کے باطل عقیدہ کی تردید کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات کاملہ اور خالص توحید کے بیان پر مشتمل ہے۔ حضور علیہ السلام نے اس سورت کو ’’تہائی‘‘ قرآن کے برابر قرار دیا ہے۔

               *سورہ فلق*

تمام مخلوقات اور شرارت کے عادی حاسدین کے شر سے اللہ کی پناہ حاصل کرنے کی تلقین ہے۔

               *سورہ ناس*

توحید کی ’’اقسام ثلاثہ‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن و انس کے قبیل سے تعلق رکھنے والے ہر وسوسہ پیدا کرنے والے سے اللہ کی پناہ میں آنے کی ترغیب ہے۔
 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ سونے سے پہلے اخلاص، فلق اور ناس تینوں سورتیں پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں پر دم کر کے پورے جسم پر پھیر لیا کرتے تھے اور یہ عمل تین مرتبہ دہرایا کرتے تھے۔

٭٭٭
مختصر تفسیر القرآن مجید ۔۔۔ مفتی مولانا عتیق الرحمٰن شھید  رحمه الله تعالی 
اللھم اغفرھم و ارحھم و اعظم درجاتھم 

تمام پاروں کی تفسیر مفتی عتیق الرحمن شھید رحمه الله تعالی کی مختصر تفسیر القرآن سے نقل کی گئی ہے سوائے سولہویں پارے کے ۔۔۔ کیونکہ سولہوین پارے کی تفسیر متن میں موجود نہ تھی ۔ 
اس لئے میں نزہت وسیم نے مولانا عتیق الرحمن کی طرز پر سولہویں پارے کی تفسیر خود تحریر کی ۔۔ الله جل شانہ قبول فرمائے ۔۔ اور جو غلطی و کوتاہی ہو اس سے درگزر فرمائے ۔ 
اور ہم سے نرمی و شفقت کا معاملہ فرمائے ۔ 

تشکر: کاشف مجید، جن کے قران مع تفسیر سافٹ وئر سے اس کا مواد حاصل کیا گیا۔
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں