*پارہ~~~27~~~ قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ*


 27 – قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ
قوم لوط کی ہلاکت کے واقعہ سے اس پارہ کی ابتداء ہو رہی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ (حضرت لوط علیہ السلام کا) صرف ایک گھرانہ اسلام کی بدولت عذاب سے نجات پا سکا۔ اس کے علاوہ پوری قوم اپنی بے راہ روی کی بناء پر پتھروں کی بارش سے تباہ کر دی گئی۔
 قصۂ موسیٰ و فرعون میں بھی یہی ہوا کہ انہوں نے رسول کا انکار کیا۔ ہم نے اسے سمندر میں ڈال کر غرق کر کے نشان عبرت بنا دیا۔ قوم ثمود اور اس سے پہلے قوم نوح کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا کہ ان کی سرکشی اور فسق و فجور نے ان کی تباہی کی راہ ہموار کی اور آنے والوں کے لئے نشانِ عبرت بن کر رہ گئے۔ 
اتنے بڑے آسمان کی چھت بنانے والا اور زمین کا اتنا خوبصورت فرش لگانے والا کتنا بہترین کاریگر اور کتنا وسعتوں والا مالک ہے۔ اس نے ہر چیز کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا (نر اور مادہ، مثبت و منفی کی شکل میں ) اسی اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہیں بنانا چاہئے۔ 
باقی رہا نبی کی کردار کشی کرنے کے لئے اسے دیوانہ و جادوگر کے نام سے بدنام کرنے کی کوشش، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے انبیاء علیہم السلام کو بھی اسی قسم کے ناموں سے یاد کیا گیا ہے، آپ ان باتوں کی طرف دھیان نہ دیں اور ایمان والوں کو یاد دہانی کراتے رہیں اور جنات و انسانوں کو ان کے مقصد تخلیق کی طرف متوجہ کریں۔ 
کافروں کے لئے قیامت کے دن ہلاکت کے سوا اور کچھ نہیں ہو گا۔

               *سورہ الطور*

مکی سورت ہے، انچاس آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے، اس مختصر سی سورت میں عقائد کی تینوں بنیادوں ’’توحید و رسالت اور قیامت‘‘ کے موضوع پر مدلل گفتگو موجود ہے۔ 
اللہ تعالیٰ نے پانچ قسمیں کھا کر فرمایا ہے کہ اللہ کا عذاب جب واقع ہو گا تو اسے کوئی روکنے والا نہیں ہو گا۔ اس دن آسمان تھر تھر کانپ رہا ہو گا۔ پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح فضاء میں اڑتے پھر رہے ہوں گے۔ کافروں کو جہنم کے کنارے کھڑے کر کے پوچھا جائے گا کہ جس آگ کے تم منکر تھے وہ تمہارے سامنے ہے۔ کیا اب بھی اسے تم ’’جادو‘‘ ہی سمجھتے ہو یا تمہاری بینائی کام نہیں کر رہی ہے۔ آگ کو برداشت کرسکو یا نہ کرسکو تمہیں اس آگ میں ہمیشہ ہمیشہ پڑے رہنا ہو گا۔
 پھر متقیوں کے لئے جنات اور ان میں جو انعامات ملیں گے ان کا تذکرہ۔ خاص طور پر جنتیوں کی اولاد اور اہل خانہ کو ان کے ساتھ جنت میں یکجا کرنے کا ذکر ہے۔ 
پھر رسالت محمدیہ کی صداقت کا بیان ہے اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ مشرکین کے بے جا مطالبات اور نازیبا کلمات سے صرف نظر کر کے آپ نصیحت کی تلقین فرماتے رہیں۔
 پھر دلائل توحید اور اللہ کے لئے اولاد ثابت کرنے کی مذمت ہے اور آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے تمام مؤمنین کو تلقین ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں۔ آپ ہماری نگاہوں میں ہیں۔ آپ کو چاہئے کہ دن رات اور صبح و شام اللہ کی تسبیح و تحمید میں مشغول رہا کریں۔

               *سورہ النجم*

مکی سورت ہے۔ باسٹھ آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔
 سورت کی ابتداء میں قسمیں کھا کر اللہ نے سفر معراج کی تصدیق کرتے ہوئے ’’معراج سماوی‘‘ کے بعض حقائق خاص طور پر اللہ تعالیٰ سے عرش معلیٰ پر ملاقات اور سدرۃ المنتہیٰ پر فرشتہ سے بالمشافہہ گفتگو کا تذکرہ کیا ہے۔ 
پھر شرک کی تردید کرتے ہوئے باطل خداؤں کی مذمت کے ساتھ بتایا ہے کہ اللہ کے علاوہ بتوں کی عبادت ہو یا معزز فرشتوں کی وہ ہر حال میں باطل اور قابلِ مواخذہ ہے۔ پھر انسانی زندگی کے ضابطہ کو بیان کیا ہے کہ انسان کی محنت اور کوشش ہی اس کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

آخر میں نہایت اختصار کے ساتھ امم ماضیہ کا تذکرہ کر کے قوموں کے عروج و زوال کا ضابطہ بیان کر دیا کہ قوموں کی تباہی میں وسائل سے محرومی یا معیشت کی تنگی نہیں بلکہ ایمان سے محرومی، عملی بے راہ روی اور اخلاقی انحطاط سب سے بڑے عوامل ہوا کرتے ہیں۔
 
               *سورہ القمر*

مکی سورت ہے۔ پچپن آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو اس سورت کا مرکزی مضمون ’’اثبات رسالت‘‘ معلوم ہوتا ہے۔ 
سورت کی ابتداء حضور علیہ السلام کے ’’چاند کو دو ٹکڑے کرنے‘‘ کے معجزہ سے کی گئی ہے، جسے قرآن کریم ’’شق القمر‘‘ کہتا ہے۔ مشرکین کا کہنا تھا کہ جادو کا اثر آسمان پر نہیں ہوتا، لہٰذا اگر آپ چاند دو ٹکڑے کر دیں تو ہم آپ کو ’’جادو گر‘‘ قرار دینے کے بجائے نبی تسلیم کر لیں گے۔ مگر وہ ہٹ دھرم اس معجزہ کو دیکھ کر بھی کہنے لگے کہ ’’محمد کا جادو تو آسمان پر بھی چل گیا‘‘
 پھر قیامت کے ہولناک دن کی یاد دلا کر مشرکین کو بتایا گیا کہ اس دن تمہاری نگاہیں جھکی کی جھکی رہیں گی اور تمہاری زبانیں اس دن کی شدت کا برملا اعتراف کریں گی۔
 پھر مشرکین مکہ کو حق کے انکار کے بدترین نتائج پر متنبہ کرنے کے لئے امم ماضیہ کا تذکرہ شروع کر دیا۔
 حضرت نوح علیہ السلام کی ’’ہزار سالہ جدو جہد‘‘ قوم کی گستاخی اور تکذیب پر بارگاہ الٰہی میں عاجزانہ دعاء اور مدد کی درخواست جو کسی بھی دور کے پریشان حال انسان کی مشکلات کے حل کے لئے مقبول دعاء کا درجہ رکھتی ہے 
’’رَبِّ اِنِّی٘ مَغ٘لُو٘بٌ فَاَن٘تَصِر٘‘‘
 اور اس کے نتیجہ میں اہل ایمان کی ’’کشتی کے ذریعے‘‘ نجات اور آسمان سے برسنے اور زمین سے ابلنے والے پانی کے سیلاب میں قوم کی غرقابی اور تباہی کو بیان کیا۔
 اس کے بعد عادو ثمود و قوم لوط و فرعون جو اپنے اپنے دور میں طاقت و قوت، ہنر اور ٹیکنالوجی، مستحکم معیشت اور مضبوط سیاسی نظام کے نمائندے تھے۔ ان کی تکذیب و نافرمانی پر ہلاکت و تباہی کی مثال پیش کر کے کافروں کو وعید اور اہل ایمان کو بشارت اور تسلی دی کہ ’’دعوت حق‘‘ کے مخالفین کتنے با اثر اور مستحکم کیوں نہ ہوں اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے، لہٰذا مشرکین مکہ پر بھی ایک دن آنے والا ہے جب یہ شکست کھا کر میدان (بدر) سے راہِ فرار اختیار کرنے پر ہی عافیت سمجھیں گے۔ 
پھر مجرمین کے قیامت کے دن بدترین انجام کے ساتھ بتایا کہ متقی باغات اور نہروں کے خوشنما منظر میں اپنے رب کے ہاں با عزت مقام اور بہترین انجام سے سرفراز ہوں گے۔

            *سورہ الرحمن*

اٹھتر چھوٹی چھوٹی آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل مدنی سورت ہے۔
 اس میں قانون سازی کی بجائے توحید باری تعالیٰ پر کائناتی شواہد قائم کئے گئے ہیں اور قیامت کے مناظر، جہنم کی ہولناکی اور خاص طور پر جنت اور اس کے خوشنما مناظر کو نہایت خوبصورتی اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ 
ایک حدیث شریف میں اس سورت کو عروس القرآن یعنی ’’قرآن کریم کی دلہن‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس میں بالکل منفرد انداز میں ایک ہی جملہ ’’فبأی الٓاء ربکما تکذبان‘‘ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے، کو اکتیس مرتبہ دہرایا گیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جنات کو جب حضور علیہ السلام نے سورہ الرحمن سنائی تو وہ ہر مرتبہ یہی کہتے رہے ’’لا بشیٔ من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد‘‘ ہم آپ کی کسی بھی نعمت کو نہیں جھٹلاتے، تمام تعریفیں آپ ہی کے لئے ہیں۔
 شروع سورت میں بتایا ہے کہ رحمت الٰہیہ کے مظاہر میں ایک بڑا مظہر قرآن کریم کی تعلیم اور انسان کو اس کے پڑھنے کا سلیقہ سکھانا اور اسے قوت بیان کا عطاء کرنا ہے۔
 سورج اور چاند حساب کے ایک نہایت ہی دقیق نظام کے تحت چل رہے ہیں، پودے اور درخت بھی اللہ کے نظام کے پابند اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ اسی نے آسمان کو بلند کیا اور عدل و انصاف کا مظہر ’’ترازو‘‘ پیدا کیا لہٰذا ناپ تول میں کسی کمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ 
زمین کو اس انداز پر پیدا کیا کہ تمام مخلوقات اس پر بآسانی زندگی بسر کرسکیں۔ اس میں پھول، خوشہ دار کھجور، غلے اور چارہ اور خوشبودار پھول پیدا کئے۔ ان نعمتوں میں غور کر کے بتاؤ آخر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔ ایسی مٹی جو خشک ہو کر بجنے لگ جاتی ہے ہماری قدرت کا کمال دیکھو کہ ہم نے اس سے نرم و نازک جسم والا انسان پیدا کر دیا اور جنات کو بھڑکنے والی آگ سے پیدا کیا۔ 
کھارے اور میٹھے پانی کی لہروں کو آپس میں مل کر ایک دوسرے کا ذائقہ اور تاثیر بدلنے سے اس طرح روکتا ہے جیسے ان کے درمیان کوئی حد فاصل قائم ہو۔ ان سے موتی اور مرجان کا خوشنما پتھر بھی حاصل ہوتا ہے اور پہاڑوں جیسی ضخامت کے بحری جہاز بھی ان سمندروں کے اندر تیرتے اور نقل و حمل کے لئے سفر کرتے ہیں۔ کائنات کی ہر چیز کو فنا ہے مگر رب ذوالجلال کے لئے دائمی بقاء ہے۔
 اس طرح انعامات خداوندی کے تذکرہ کے بعد قیامت کے ہولناک مناظر اور جہنم کی دہشت ناک سزاؤں کا تذکرہ کیا اور جنت کے روح پرور مناظر کا بیان شروع کر دیا جس میں باغات اور چشمے، انواع و اقسام کے پھل، ریشم و کمخواب کے لباس، یاقوت و مرجان کی طرح حسن و جمال اور خوبصورتی کی پیکر جنتی حوریں جو اپنے شوہر کے علاوہ کسی کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھتی ہوں گی اور آخر میں رب ذوالجلال والا کرام کے نام کی برکتوں کے تذکرہ پر سورہ کو ختم کیا گیا ہے۔

               *سورہ الواقعہ*

مکی سورت ہے، چھیانوے چھوٹی چھوٹی آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ سورت کا مرکزی مضمون ’’بعثت بعدا لموت‘‘ کا عقیدہ ہے
قیام قیامت ایک ایسی حقیقت ہے جسے جھٹلانا ممکن نہیں ہے، اس دن عدل و انصاف کے ایسے فیصلے ہوں گے جس کے نتیجہ میں بعض لوگ اعزاز و اکرام کے مستحق قرار پائیں گے جبکہ بعض لوگوں کو ذلت و رسوائی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
 اس دن زمین شدت کے ساتھ ہل کر رہ جائے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر فضاء میں اڑنے لگیں گے۔ لوگوں کی نیکی اور بدی کے حوالہ سے تین جماعتیں بنا دی جائیں گی۔
 اصحاب المیمنہ (دائیں طرف والے) اصحاب المشأمہ (بائیں طرف والے) اور خاص الخاص مقربین جن کے اندر پہلی امتوں کے نیکو کار لوگ اور امت محمدیہ کے مقربین شامل ہوں گے۔ 
پھر ان کے لئے انعامات اور حور و قصور کا تذکرہ اور بائیں طرف والوں کے لئے جہنم کے عذاب اور سزاؤں کا تذکرہ، پھر مرنے کے بعد زندہ ہونے پر عقل کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والے دلائل کا ایک سلسلہ بیان کیا ہے۔ 
ہمیں کوئی عاجز نہیں کرسکتا کہ ہم نیست و نابود کر کے تمہاری جگہ دوسری مخلوق پیدا کر کے لے آئیں۔ جب تم نے ہمارے پہلے پیدا کرنے کو تسلیم کر لیا ہے تو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ تم سمجھتے کیوں نہیں ہو؟ 
تم کھیتوں میں بیج ڈالتے ہو، اسے اگانا تمہارے اختیار میں نہیں ہے۔ ہم ہی اسے اُگاتے ہیں، اگر ہم اس کھیتی کو تباہ کر کے رکھ دیں تو تم کف افسوس ملتے رہ جاؤ گے۔
 تمہارے پینے کا پانی بادلوں سے کون نازل کرتا ہے۔ کیا تم اتارتے ہو یا ہم اتارتے ہیں۔ اگر ہم اس پانی کو نمکین اور کڑوا بنا دیں تو تم کیا کرسکتے ہو؟ کیا اس پر تم شکر نہیں کرتے ہو؟
جس آگ کو تم جلاتے ہو اس کا درخت کون پیدا کرتا ہے تمہیں اپنے رب عظیم کی تسبیح بیان کرتے رہنا چاہئے۔ قرآن کریم کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے نظام شمسی کے مربوط و منظم سلسلہ کو بطور شہادت پیش کرنے کے لئے اس کی قسم کھا کر فرمایا کہ جس ذات نے اجرام فلکی کا یہ محیر العقول نظام بنایا ہے اسی قادر مطلق نے یہ قرآن کریم نازل فرمایا ہے۔
 اسے چھونے کے لئے پاکیزگی اور طہارت کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔ پھر ’’جاں کنی‘‘ کا عالم اور جزاء و سزاء کے لئے دربار خداوندی میں حاضری کے موقع پر تین جماعتوں میں لوگوں کی تقسیم کا اعادہ اور آخر میں رب عظیم کی تسبیح بیان کرنے کے حکم پر سورہ کا اختتام کیا گیا ہے۔

              *سورہ الحدید*

مدنی سورت ہے، انتیس آیتوں اور چار رکوع پر مشتمل ہے۔ ’’حدید‘‘ لوہے اور اسٹیل کو کہتے ہیں اور اس کے منافع اور فوائد ہر دور میں مسلم رہے ہیں، لوہے کو طاقت و قوت اور مضبوطی کا ایک بڑا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے سورت کا نام ’’الحدید‘‘ رکھا گیا ہے۔
 آسمان و زمین، عرش و کرسی کی تخلیق، شب و روز کا منظم سلسلہ، ہر چیز پر اللہ کے علم کا احاطہ، اللہ تعالیٰ کسی بھی قسم کی کمزوری اور عیب سے پاک ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ 
اللہ پر ایمان لانے اور جہاد فی سبیل اللہ کے لئے مال خرچ کرنے کی ترغیب ہے اور اس پر اجرو ثواب دینے کو قرض کے ساتھ مشابہت دے کر بتایا ہے کہ جس طرح قرض کی ادائیگی ایک فریضہ اور لازمی ہوتی ہے اسی طرح اللہ کے نام پر اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے مال خرچ کرنے پر بدلہ دیا جانا بھی لازمی اور ضروری ہے۔
 پھر مؤمنین کا اپنے ایمان کے نور سے قیامت میں استفادہ اور منافقین کی بیچارگی اور نور ایمان سے محرومی پر حسرت و افسوس کا عبرتناک منظر پیش کیا ہے اور ’’گلو گیر انداز‘‘ میں مومنین کو اپنے ایمانی تقاضوں پر عمل درآمد کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔
 دنیا کی زندگی کی بے ثباتی اور اسباب و وسائل کی کشش سے دھوکہ میں نہ پڑنے کی تلقین فرمائی ہے اور اس کے بالمقابل بے پناہ وسعتوں کی حامل جنت کے حصول میں لگنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔
’’تقدیر‘‘ کے عقیدہ کی افادیت کو بیان کیا ہے کہ اس سے اہل ایمان مایوسیوں سے محفوظ ہو کر ’’جہد مسلسل‘‘ کے عادی بن سکتے ہیں اور اپنی انتھک کوششوں اور محنتوں سے معاشرہ کو انقلاب سے ہمکنار کرسکتے ہیں۔
 ’’لوہا‘‘ اپنے اندر بھرپور انسانی منافع لئے ہوئے ہے، اس سے طاقت و قوت کا اظہار ہوتا ہے اور یہ طاقت و قوت اللہ کے دین کی حمایت اور اس کے دفاع میں استعمال ہونی چاہئے۔ 
پھر سلسلہ انبیاء کا مختصر تذکرہ جس میں ابو البشر ثانی حضرت نوح علیہ السلام اور امام الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ اور پھر ’’عبد صالح‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی کتاب انجیل کا تذکرہ فرما کر ان کے متبعین کی صفات اور قیامت میں ان کے لئے اجر عظیم کے وعدہ کے ساتھ ان کے پیروکاروں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اس طرح وہ دُہرے اجر کے مستحق ہو جائیں گے اور یہ سب کچھ اللہ کے فضل اور اس کی عطا کردہ توفیق سے ہی میسر آ سکتا ہے۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں