*پارہ~~~29~~~تَبَارَکَ الّذِیْ*


               *سورہ الملک*

مکی سورہ ہے تیس آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورہ میں دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کے قادر مطلق ہونے کو زیادہ اجاگر کیا گیا ہے۔
 ابتداء سورہ میں بتایا گیا ہے کہ زندگی اور موت کی تخلیق کا مقصد ’’مقدار کی کثرت‘‘ نہیں بلکہ ’’معیار کا حسن‘‘ پیدا کرنا ہے۔ کسی بھی نیک عمل کو بہتر سے بہتر اور خوبصورت سے خوبصورت انداز میں سرانجام دیا جائے۔
 اس کے بعد قدرت کے ’’فن تخلیق‘‘ میں کمال مہارت کا بیان ہے وسیع و عریض سات آسمان بنا دئے مگر ان میں کوئی دراڑ یا کہیں پر کوئی جھول نہیں رہنے دیا۔ ستارے پیدا کرنے کا مقصد زینت بھی ہے اور آسمانی نظام کے رازوں کو شیاطین سے تحفظ فراہم کرنا بھی ہے۔
 پھر جہنم کے اندر عذاب کی شدت، کافروں کی ندامت و شرمندگی اور بے بسی اور کسمپرسی کی بہترین انداز میں منظر کشی کی گئی ہے۔ 
پھر اخلاص کے ساتھ اللہ کا خوف رکھنے والے جو ایسے مقام پر بھی، جہاں کوئی دیکھنے والا نہ ہو، اللہ سے ڈریں ان کے لئے ’’بڑے صلہ‘‘ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ پھر زمین پر چلنے پھرنے کی سہولت، روزی کمانے کے مواقع فراہم کرنے کے انعام کا تذکرہ کر کے اس منعم حقیقی کے دربار میں پیشی کی یاددہانی کرائی گئی ہے۔
 پھر اچانک عذاب الٰہی کے ظہور کی صورت میں انسانی بے بسی کی تصویر کھینچی گئی ہے اور ہدایت یافتہ اور گمراہ انسان کو نہایت خوبصورت تعبیر میں واضح کیا گیا ہے۔
 ایک شخص فطری انداز میں بالکل سیدھا بیچ راستہ میں چل رہا ہو اور دوسرا فطرت کے خلاف سر کے بل چلنے کی کوشش کر رہا ہو، یقیناً یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔
 نبی اور اس کے ساتھیوں کی ہلاکت کی تمنا و دیندار طبقہ کی ہلاکت کی خواہش اور کوشش پر فرمایا کہ اے نبی آپ فرما دیجئے اگر میں اور میرے ساتھی ہلاک بھی ہو جائیں تو اس طرح تم اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکوگے۔ اس لئے اللہ پر توکل کرنا چاہئے اور اس کی نعمتوں میں غور کر کے اسے پہچاننے کی سعی بلیغ جاری رکھنی چاہئے۔ 
پانی جو کہ زندگی کی ابتداء اور بقاء کا ضامن ہے اسے اگر اللہ تعالیٰ خشک کر دیں اور زمین کی تہہ میں جذب کر دیں تو تمہارے کنوؤں کے ’’خشک سوتوں ‘‘ میں پانی کا بہاؤ اللہ کے سوا کون پیدا کرسکتا ہے۔ 
اس سورہ کے مضامین اور عقیدہ سے ان کا گہرا تعلق حضور علیہ السلام کے سورہ کی روزانہ سونے سے پہلے تلاوت کرنے کی حکمت کو واضح کرتا ہے۔

               *سورہ القلم*

مکی سورہ ہے، باون آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے۔ اثبات رسالت محمدیہ اس سورہ کا مرکزی مضمون قرار دیا جا سکتا ہے۔
 قلم اور اس سے لکھی جانے والی سطور کی قسم کھا کر تعلیم اور ذریعہ تعلیم، قلم کی اہمیت و عظمت کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پھر ہر دور کے باطل کے اعتراضات جو کہ مشرکین مکہ کی زبان سے ادا ہو رہے تھے، ’’مذہبی جنونی‘‘، ’’اخلاقی اقدار سے عاری‘‘ وغیرہ ان کا تسلی بخش جواب ہے کہ آپ نہ تو مجنون ہیں اور نہ ہی اخلاق سے عاری بلکہ آپ تو اخلاقی اقدار کی بلندیوں کا مظہر ہیں۔
 گمراہ اور ہدایت یافتہ کا فرق اللہ سے مخفی نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات میں نرمی اور ’’قابل قبول‘‘ بنانے کے مطالبوں سے آپ متأثر نہ ہوں۔ اس قسم کے مطالبات کرنے والے ہمیشہ بے جا قسمیں کھانے والے، بے وقعت، طعنہ باز اور چغلخور ہوتے ہیں۔ نیک کام سے روکنے والے، انتہاء پسند اور گناہوں کی زندگی میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔ تشدد پرست اور حسب و نسب کے اعتبار سے مشکوک ہوتے ہیں مال اور اولاد کے زعم میں مبتلا ہو کر ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ قرآن کریم کو قصے کہانیاں بتاتے ہیں، ایسے لوگوں کی ہم معاشرہ میں ناک کاٹ کر رکھ دیں گے۔ 
پھر ایک زراعت پیشہ اور سخی انسان اور اس کی بخیل اولاد کا تذکرہ کر کے بتایا کہ اللہ کے نام پر خرچ کرنے سے بچنے والوں کا مقدر ہلاکت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ 
پھر جنت کے انعامات اور جہنم کے عذاب اور مصائب کا تذکرہ، پھر نماز کی پابندی نہ کرنے والوں کی مذمت کہ قیامت میں ’’تجلی ساق‘‘ کے موقع پر وہ سجدہ بھی نہیں کرسکیں گے۔ پھر ظالموں اور جھٹلانے والوں کو ڈھیل دے کر اچانک گرفت کرنے کے ضابطہ کو بیان کر کے دین پر ثابت قدمی اور صبر کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کے ساتھ قرآن کریم کے عالم انسانیت کے لئے نصیحت و رہنمائی کا پیغام ہونے کے اعلان کے ساتھ سورہ ختم ہوتی ہے۔

               *سورہ الحآقہ*

مکی سورہ ہے، اس میں باون آیتیں اور دو رکوع ہیں۔ اس سورہ کا مرکزی مضمون ’’قیام قیامت‘‘ ہے۔ 
قیامت جو کہ حقیقت کا روپ دھارنے والی ہے اور اعمال کو ان کے حقائق کے ساتھ سامنے لانے والی ہے وہ آ کر رہے گی۔ 
اس کے بعد قیامت کی ہولناکی اور دنیا میں منکرین و معاندین پر عذاب الٰہی کے اترنے کا بیان ہے اور اختصار کے ساتھ عاد و ثمود اور فرعون کا تذکرہ ہے۔ پھر نامۂ اعمال کے دائیں اور بائیں ہاتھوں میں دئے جانے اور لوگوں کی خوشی و مسرت اور پریشانی و گھبراہٹ کے بیان کے ساتھ ان کے لئے جنت و جہنم کی نعمتوں اور تکلیفوں کا تذکرہ ہے۔ 
اس کے بعد قسمیں کھا کر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کا اعلان کیا اور شاعر یا کاہن کا کلام ہونے کی تردید کی ہے۔ 
قرآن کریم کو گھڑ کر پیش کرنے والے کے روپ میں ان لوگوں کی مذمت ہے جو قرآن میں تحریف اور اس کے معنی کو من مانے طریقے پر بدلنا چاہتے ہیں اور اللہ کی تسبیح کے حکم پر سورہ مکمل ہوتی ہے۔

               *سورہ المعارج*

مکی سورہ ہے چوالیس آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورہ کا مرکزی مضمون ’’قیامت اور اس کا ہولناک منظر‘‘ ہے۔ مشرکین مکہ کے اس استہزاء و تمسخر پر کہ قیامت والا عذاب ہمیں تھوڑا سا دنیا میں چکھا دیا جائے تو ہم دیکھ تو لیں کہ وہ کیسا ہوتا ہے؟ 
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو لوگ ہمارے عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جب ہمارا عذاب اترا تو انہیں کوئی جائے پناہ بھی نہیں ملے گی اور اس سے بچانے والا بھی کوئی نہیں ہو گا۔ 
پھر قیامت کی ہولناکی اور گناہگاروں کے اس عذاب سے بچنے کے لئے دنیا کا مال و دولت، اپنا خاندان اور عزیز و اقارب دے کر چھٹکارا پانے کی خواہش مذکور ہے۔
 پھر انسانی فطرت اور مزاج کا بیان ہے کہ تکلیف و مشقت کی صورت میں جزع فزع کرنے لگتا ہے اور آرام و راحت کی صورت میں بخل اور کنجوسی کرنے لگتا ہے۔ 
اس انتہاء پسندی سے بچنے والے وہ لوگ ہیں جو نماز کا اہتمام کریں۔ غریبوں کی مدد کریں قیامت پر ایمان رکھیں۔ اللہ کے عذاب سے خائف ہوں، جنسی بے راہ روی کا شکار نہ ہوں، امانتدار ہوں عہد شکنی کا ارتکاب نہ کرتے ہوں، سچی گواہی پر ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ جنت میں عزت و احترام کے مستحق قرار پائیں گے۔ 
اس کے بعد بیان کیا ہے کہ جنت کا داخلہ آرزوؤں اور تمناؤں سے اگر ہو سکتا تو جنت سے کوئی بھی پیچھے نہ رہتا کیونکہ ہر ایک کی خواہش ہے کہ وہ جنت میں چلا جائے۔ 
پھر مجرمین کے لئے دھمکی اور وعید سنائی گئی ہے کہ اگر یہ لوگ اپنی حرکات بد سے باز نہ آئے تو انہیں ختم کر کے دوسری قوم کو ان کی جگہ لا سکتے ہیں۔

               *سورہ النوح*

مکی سورہ ہے، اٹھائیس آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس پوری سورہ میں صرف نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی رسالت اور ان کی دعوت توحید کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی طویل اور انتھک جدو جہد کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ ان کے بیان کردہ دلائل توحید کی ایک جھلک دکھا کر بتایا ہے کہ وہ کس طرح قوم کی ہدایت کے لئے مخلصانہ کوششیں کرتے رہے اور قوم اپنی ہٹ دھرمی اور عناد پر اڑی رہی آخر کار نوح علیہ السلام کی بددعاء کے نتیجہ میں قوم کو پانی کے سیلاب میں غرق کر کے بتا دیا کہ ظالموں کا انجام ہمیشہ خسارہ اور ہلاکت کی شکل میں ہی ظاہر ہوا کرتا ہے اور مؤمنین ایمان اور اعمال صالحہ کی برکت سے نجات پایا کرتے ہیں۔

         *سورہ الجن*

مکی سورہ اٹھائیس آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے، اس سورہ میں جنات کی جماعت کا تذکرہ ہے جنہوں نے حضور علیہ السلام کی نماز میں تلاوت سن کر ایمان قبول کر لیا اور ان انسانوں کو غیرت دلائی گئی ہے جو قرآن کا انکار کرتے ہیں کہ تم سے تو ’’جن‘‘ ہی اچھے رہے۔ جنات کے اسلام کا مکلف ہونے کی طرف اشارہ بھی موجود ہے پھر جنات کی نیک اور بد میں تقسیم کو بیان کیا اور یہ بتایا گیا ہے کہ توحید کے پرستار ہی بلا امتیاز جن و انس ہمیشہ کامیاب و کامران رہے اور منکرین توحید ناکام و نامراد رہے۔
 مساجد اللہ کے گھر ہیں ان میں اللہ کے سوا کسی دوسرے کو پکارنا مساجد کے آداب کے منافی ہے۔ اس کے بعد حضور علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ وہ دو ٹوک انداز میں توحید کا اعلان کر کے اللہ ہی کو اپنے نفع نقصان کا مالک قرار دے کر دنیا کو بتا دیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ پڑے رہیں گے۔ 
اللہ اپنے انبیاء و رسل کو توحید بیان کرتے ہوئے اور تبلیغ رسالت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں اور منکرین کے اعمال کا احاطہ کر کے اللہ نے ان کی تعداد بھی شمار کر ر کھی ہے اور گن گن کر سب کا حساب چکائیں گے اور اللہ کے عذاب سے کوئی بچ نہیں سکے گا۔

               *سورہ المزمل*

مکی سورہ ہے، بیس آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورہ کا مرکزی مضمون ’’شخصیت رسول‘‘ ہے اس میں حضور علیہ السلام کو المزمل ’’کملی والا‘‘ کے پیار بھرے لفظ سے خطاب کیا گیا ہے اور دعوت الی اللہ اور اعلاء کلمۃ اللہ کا کام کرنے والوں کو آپ کے توسط سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ دن بھر کی جدو جہد میں تاثیر پیدا کرنے کے لئے شب بیداری اور قیام اللیل بہت ضروری ہے اور رات کی نماز میں تلاوت قرآن کی اثر انگیزی مسلم ہے۔ 
مخالفین و معاندین سے صرف نظر کر کے انہیں اللہ پر چھوڑنے کی تلقین کر کے قصۂ فرعون و موسیٰ میں معاندین کی پکڑ کی ہلکی سی جھلک دکھا کر تہجد کی نماز کے حوالہ سے نرمی کا اعلان کیا گیا ہے کہ پہلے تہجد فرض تھی مگر دن کی مصروفیات خصوصاً مجاہدین اور تجارت پیشہ احباب کی رعایت میں صوابدیدی اختیار دے دیا گیا ہے کہ جس سے جتنا ہو سکے ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے۔
 جس قدر نوافل کا اہتمام کرو گے اللہ کے یہاں اس کا اجر و ثواب ضرور ملے گا۔ کوشش کے باوجود ادائیگی اعمال میں رہ جانے والے کوتاہی پر اللہ سے استغفار کرتے رہیں اللہ غفور رحیم ہیں۔

               *سورہ المدثر*

مکی سورہ ہے۔ چھپن چھوٹی چھوٹی آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے۔ فرائض نبوت اور دعوت الی اللہ کی ذمہ داریاں پورے شرح صدر اور نشاط و انبساط کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ 
پھر قیامت کے دن کی ہولناکی اور شدت کو بیان کرتے ہوئے معاندین و منکرین کو عبرتناک انجام سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
 اس کے بعد ولید بن مغیرہ کی شکل میں ہر اس شخص کو جو حقانیتِ قرآن واضح ہو جانے کے باوجود عناد اور تکبر اور لیڈر شپ کے شوق میں قرآن کو تسلیم نہ کرے اسے دھمکی کے انداز میں انجام بد سے ڈرایا گیا ہے۔
 پھر جہنم میں داخلہ کے اسباب کو جنتیوں اور جہنمیوں کی ایک گفتگو کی شکل میں بیان کیا گیا ہے کہ ہر انسان کا انجام اس کے اعمال کے مطابق ہو گا۔ وہاں پر رشوت یا سفارش نہیں چلے گی۔ قرآن کریم کے پیغام سے پہلو تہی کرنے والوں کی مثال دے کر بتایا ہے کہ یہ لوگ قرآن سن کر ایسے بھاگتے ہیں جیسے شیر کی دھاڑ سن کر گدھا بھاگتا ہے۔
قرآن کریم ہر ایسے شخص کو نصیحت فراہم کرتا ہے جو نصیحت حاصل کرنے کا خواہاں ہوتا ہے۔ تم اگر اپنی اصلاح چاہو تو اللہ کی مشیت تمہارے ساتھ ہو گی وہ اللہ اس بات کا اہل ہے کہ اسی سے ڈرا جائے اور اسی سے مغفرت طلب کی جائے۔

               *سورہ القیامۃ*

چالیس چھوٹی چھوٹی آیتوں پر مشتمل مکی سورہ ہے۔ اس میں دو رکوع ہیں۔ نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس سورہ میں قیامت کے مناظر اور مرنے کے بعد زندہ ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔ 
اللہ نے قسمیں کھا کر انسان کی اس خام خیالی کی تردید فرمائی ہے کہ بوسیدہ ہڈیوں اور بکھرے ہوئے اجزاء کو جمع کر کے دوبارہ انسان کو وجود میں لانا ممکن نہیں ہے۔
 جسم انسانی میں انگلیوں کے پورے اور نشانات شناخت اور امتیاز کا بہترین ذریعہ ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں ہم ان پوروں کو بھی دوبارہ ترتیب دے کر پیدا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
 پھر روزِ قیامت کی ہولناکی اور شدت بیان کرنے کے لئے بتایا کہ اس دن چاند سورج بے نور ہو جائیں گے۔ نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ اب میں بھاگ کر جاؤں تو جاؤں کہاں ؟
 پھر قرآن کریم کو یاد کرنے کے لئے حضور علیہ السلام کے شدۃ اہتمام کو ذکر کر کے قرآنی ادب بھی بیان کر دیا کہ جب قرآن کی تلاوت سنیں تو خاموشی اور انہماک کے ساتھ متوجہ رہیں۔ اس کی برکت یہ ہو گی کہ جب پڑھنے کی ضرورت پیش آئے گی، اللہ تعالیٰ خود ہی آپ کی زبان پر جاری کر دیں گے۔
 پھر بتایا کہ نیک و بد کی تقسیم اور اچھے اور برے میں امتیاز کا تسلسل روزِ قیامت بھی جاری رہے گا۔ پھر سکرات کے عالم اور جان کنی کی شدت کو بیان کر کے اس وقت کی تکلیف و پریشانی سے بچنے کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا۔
 اس کے بعد انسان کو اس کی تخلیق کے ابتدائی مراحل میں غور و خوض کر کے یہ سمجھایا کہ جب پہلی تخلیق کے مشکل ترین مراحل اللہ نے سر انجام دے لئے تو اب دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل رہ گیا۔

               *سورہ الدہر*

اکتیس آیتوں پر مشتمل مدنی سورہ ہے اس میں دو رکوع ہیں انسانی تخلیق کو جن ابتدائی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اسے شروع سورہ میں ذکر کیا گیا ہے۔
 ایک زمانہ انسان پر ایسا آتا ہے کہ اسے نہ کوئی جانتا ہے اور نہ ہی کسی زبان پر اس کا تذکرہ ہوتا ہے پھر اسے میاں بیوی کے مخلوط نطفہ سے ہم ترکیب دے کر سمیع و بصیر انسان کی شکل دے دیتے ہیں۔ پھر یہ انسان دو قسم کے ہو جاتے ہیں۔ اپنے رب کے شکر گزار اور اپنے رب کے ناشکرے۔
کافروں کے لئے زنجیریں، طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ ہے اور نیکوکار افراد کے لئے جنت کی بہترین نعمتیں اور خوشبو دار شراب ہے پھر نیک افراد کی کچھ صفات کے بیان کے بعد جنت میں انہیں عطاء کئے جانے والے مزید انعامات جن میں گھنے سائے والے باغات، سونے چاندی کے آبخورے، شیشہ کے گلاس، موتیوں کی طرح حسن و جمال کے پیکر خدمت گزار، ریشم و کمخواب کے لباس اور سونے چاندی کے کنگن اور پینے کے لئے پاکیزہ شراب۔ 
اس کے بعد قرآنی تعلیمات پر ثابت قدمی کی تلقین، شب بیداری کا حکم اور لمبی لمبی نمازیں پڑھنے کی ترغیب اور آخر میں قرآن کریم سے ہر شخص کو استفادہ کا حکم اور ظالموں کے لئے دردناک عذاب کی وعید پر سورہ کو ختم کیا گیا ہے۔

               *سورہ المرسلات*

پچاس آیتوں پر مشتمل مکی سورہ ہے۔ اس میں دو رکوع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہواؤں کی قسمیں کھا کر فرمایا ہے کہ قیامت اور اس کا عذاب واقع ہو کر رہے گا۔
 پھر قیام قیامت کی منظر کشی کی گئی ہے کہ ہر چیز اپنی تاثیر کھودے گی اور اجزائے ترکیبی چھوڑ بیٹھے گی۔ پھر کچھ واقعاتی حقائق اور کائناتی شواہد پیش کر کے بتایا کہ ان بڑے بڑے کاموں کو سرانجام دینے والے رب کے لئے قیامت کا دن لانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ پہلے جہنم اور اس کی سزاؤں کا تذکرہ کیا پھر جنت اور اس کی نعمتوں کا تذکرہ کر کے منکرین و معاندین سے سوال کیا ہے کہ اس معجزانہ اسلوب کے حامل قرآن کریم سے بھی اگر تم ایمان کی روشنی حاصل کرنے سے قاصر ہو تو پھر تمہیں ہلاکت اور تباہی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں