نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*اندھی تقلید*

وَإِذَا ۔۔۔قِيلَ ۔۔۔لَهُمُ ۔۔۔اتَّبِعُوا ۔۔۔مَا ۔۔ أَنزَلَ ۔۔۔اللَّهُ 
اور جب ۔۔۔ کہا جاتا ہے ۔۔ ان سے ۔۔ تابعداری کرو ۔۔ جو ۔۔ اتارا ۔۔ الله تعالی 
قَالُوا ۔۔۔ بَلْ ۔۔۔ نَتَّبِعُ ۔۔۔ مَا أَلْفَيْنَا ۔۔۔۔عَلَيْهِ
وہ کہتے ہیں ۔۔۔ بلکہ ۔۔ ہم پیروی کریں گے ۔۔ جو پایا ہم نے ۔۔۔ اس پر 
آبَاءَنَا ۔۔۔ أَوَلَوْ ۔۔۔ كَانَ ۔۔۔آبَاؤُهُمْ
اپنے اجداد کو ۔۔ اگرچہ ۔۔۔ہوں ۔۔۔ باپ دادا ان کے 
لَا يَعْقِلُونَ ۔۔۔ شَيْئًا ۔۔۔  وَلَا يَهْتَدُونَ۔  1️⃣7️⃣0️⃣
نہیں وہ عقل رکھتے ۔۔۔ کچھ ۔۔۔اور نہیں وہ ھدایت یافتہ 

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ.  1️⃣7️⃣0️⃣

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تابعداری کرواس حکم کی جو الله تعالی نے نازل فرمایا  تو کہتے ہیں ہم تو اس کی تابعداری کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ۔ بھلا اگرچہ ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ سمجھتے ہوں اور نہ سیدھی راہ جانتے ہوں ۔ 

اس آیت میں وہم پرستوں کی ایک عادتکا بیان ہے  یعنی جب ان لوگوں سے کہا جائے کہ تم الله تعالی کی عبادت کرو ۔ اپنی زندگی کے ہر شعبے میںاس کے حکم اور قانون کی پیروی کرو ۔ اس کے حکموں کے مطابق دولت کماؤ اس کے حکموں کے مطابق خرچ کرو 
معاملات میں ، لین دین میں ، خریدوفروختمیں ، شادی بیاہ میں، نکاح و طلاق میںاسی کی دی ہوئی شریعت کے مطابق عمل کرو تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اپنے باپ دادا اور اپنے بڑوں کی رسموں اور خاندانی روایات کا لحاظ کریں گے ۔ ہم تو ان راستوں پر چلیں گے جن پر ہم نے اپنے باپ دادا اوراپنے بڑوں بوڑھوں کو چلتے دیکھا ۔ گویا الله تعالی کے احکام کو چھوڑ کر یہ لوگ اپنے بڑے بوڑھوں کی روایات کو مانتے ہیں۔ ان کی رسموں کو مقدم سمجھتے ہیں ۔اور انہیں الله تعالی کی شریعت سے زیادہ اہمیت اور وقعت دیتے ہیں۔
الله جل شانہ فرماتا ہےیہ لوگ اپنے بڑوں کی اندھا دھند پیروی کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہ ممکن ہے کہ ان کے باپ دادا کو کوئی سمجھ بوجھ نہ ہو ۔ وہ گمراہی میں بھٹک رہے ہوں ۔ سیدھی راہ سے بالکل ہٹے ہوئے ہوں۔لہذا ایسے باپ دادا کی اندھی پیروی سے یہ لوگ ضرور تباہی اور بربادی میں جا گریں گے ۔
 علامہ اقبال نے اس تصور کو  شاعرانہ انداز میں یوں بیان کیا ہے ۔ 

        *آئینِ نو سے ڈرنا  ، طرز کہن پہ اڑنا* 
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں*۔      *        

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...