سورة بقرہ پر ایک نظر

*سورة بقرہ پر ایک نظر* 

الحمد لله  ! سورۃ بقرہ کی تشریح و تفسیر مکمل ہوئی ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایک بار پھر اس کے مضامین اور مطالب پر نظر ڈال لیں ۔ 
سورۃ بقرہ کی ابتداء میں انسان کی ھدایت اور کامیابی اور مختلف انسانی جماعتوں کا ذکر ہوا ہے ۔ اس کے فورا بعد خلافت آدم علیہ السلام ، تاریخ بنی اسرائیل اورملت ابراھیمی کے اہم اور ضروری کوائف و حالات کا بیان ہے تاکہ مسلمان ان کی خرابیوں سے عبرت حاصل کریں ۔ اور ان برائیوں میں مبتلا نہ ہوں جو گذشتہ اقوام کی تباہی کا موجب بنیں ۔ 
حلال و حرام اور نیک و بد کی تمیز سکھانے کے بعد نیکی کا ایک جامع تصوّر دیا ۔ اور معاشرتی زندگی کے مسائل بیان کیے ۔ مثلاً قصاص اور وصیت وغیرہ ۔
ساتھ ہی روزہ ، حج اور جہاد کی تعلیم دی گئی اور پھر خاندانی زندگی کے اہم معاملات کی طرف توجہ دلائی گئی ۔ 
 مثلا نکاح ، طلاق ، عدت ، تربیت اولاد ، میاں بیوی کے حقوق اور دوسرے متعلقہ مسائل ۔
اس کے بعد بنی اسرائیل کی تاریخ میں سے حضرت داود علیہ السلام اور طالوت و  جالوت کا واقعہ بیان کرنے کے بعد پند ونصیحت کے کئی پہلو پیش کیے گئے ۔ 
آیت الکرسی  میں الله سبحانہ وتعالی کی توحید ، ملکیت اور قدرت  کے بیان بعد ایمان اور کفر کی حقیقت روشن کی گئی ۔ اس سلسلے میں حضرت ابراھیم علیہ السلام کی مبارک زندگی کے کئی واقعات بیان ہوئے ۔ 
سورة بقرہ کے آخری حصے میں انفاق فی سبیل الله پر خاص طور پر توجہ دلائی ۔ اس پر متعدد مثالیں پیش کیں ۔ 
سود کو حرام قرار دیا ۔ تجارت اور کاروبار میں دیانتداری اور خوش اسلوبی کی خاطر لکھت پڑھت اور شہادت کو ضروری قرار دیا ۔ 
سورۃ کا خاتمہ دعاؤں پر ہوا ۔ 

ولله الحمد اوّله و آخرہ و ظاہرہ و باطنه وھو المستعان ۔ 

سورة بقرہ آیة نمبر 286 ( دعائیں)

*دعائیں*


لَا يُكَلِّفُ ۔۔ اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ نَفْسًا ۔۔۔۔۔۔۔۔ إِلَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وُسْعَهَا 
نہیں تکلیف دیتا ۔۔ الله ۔۔۔ کسی جان کو ۔۔ مگر ۔۔ اس کی وسعت 
لَهَا ۔۔۔ مَا كَسَبَتْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وَعَلَيْهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔  مَا اكْتَسَبَتْ 
اس کی لیے ۔۔۔ جو اس نے کمایا ۔۔۔ اور اس پر ۔۔۔ جو اس نے کمایا 
رَبَّنَا ۔۔۔ لَا تُؤَاخِذْنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔ إِن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نَّسِينَا ۔۔۔ أَوْ ۔۔۔۔۔۔۔ أَخْطَأْنَا 
اے ہمارے رب ۔۔۔ نہ تو ہمیں پکڑ ۔۔۔ اگر ۔۔ ہم بھول جائیں ۔۔ یا ۔۔ چوک جائیں 
رَبَّنَا ۔۔۔ وَلَا تَحْمِلْ ۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْنَا ۔۔۔ إِصْرًا ۔۔۔ كَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔  حَمَلْتَهُ 
اے ہمارے رب ۔۔ اور نہ تورکھ ۔۔ ہم پر ۔۔ بوجھ ۔۔ جیسا ۔۔ تو نے رکھا 
عَلَى ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ مِن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قَبْلِنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  رَبَّنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وَلَا تُحَمِّلْنَا 
پر ۔۔ وہ لوگ ۔۔ سے ۔۔ پہلے ہم سے ۔۔ اے رب ہمارے ۔۔۔ اور نہ تو ہم سے اٹھوا 
مَا ۔۔۔ لَا طَاقَةَ ۔۔۔ لَنَا ۔۔۔  بِهِ ۔۔۔ وَاعْفُ ۔۔۔ عَنَّا 
جو ۔۔ نہیں طاقت ۔۔ ہمیں ۔۔ اس کی ۔۔۔ اور درگزر کر ۔۔ ہم سے 
وَاغْفِرْ لَنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وَارْحَمْنَا ۔۔۔ أَنتَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   مَوْلَانَا 
اور بخش دے ہم کو ۔۔ اور رحم کر ہم پر ۔۔ تو ۔۔ ہمارا مولٰی ہے 
فَانصُرْنَا ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ الْقَوْمِ ۔۔۔۔ الْكَافِرِينَ۔  2️⃣8️⃣6️⃣
پس مدد کر ہماری ۔۔ پر ۔۔ قوم ۔۔ کافر 

لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ. 2️⃣8️⃣6️⃣

الله کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر جس قدر اس کی برداشت ہے  اس کے لیے ہے جو اس نے کمایا اور اسی پر پڑتا ہے جو اس نے کیا   اے ہمارے رب ہمیں نہ پکڑ اگر ہم بھولیں یا چوکیں  اے ہمارے ربّ ہم پر بوجھ نہ ڈال جیسا ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا    اے ہمارے ربّ اور ہم سے وہ  بوجھ نہ اٹھوا جس کی ہمیں طاقت نہیں اور ہم سے درگزر کر۔ اور ہم پر رحم فرما تو ہی ہمارا ربّ ہے پس کافروں پر ہماری مدد فرما ۔ 

یہ سورۃ بقرہ کی آخری آیت ہے ۔ الله تعالی نے فرمایا کہ ہر شخص کو جزا و سزا اس کے اعمال کے مطابق ملے گی ۔ اگر کسی نے نیکی کی تو اسے اس کا اجر ضرور ملے گا اور اگر کسی نے برائی کی تو اس پر وہ سزا ضرور پائے گا ۔ اس کے بعد الله تعالی نے ان دعاؤں کی تلقین کی ۔ 
1.   اے ہمارے رب ! اگر ہم سے بھول چوک ہوجائے تو ہم سے مواخذہ نہ فرما ۔
2. اے ہمارے ربّ ! ہم سے پہلی امتوں پر جو بوجھ اور وبال پڑا وہ ہم پر نہ ڈالنا ۔ 
3. ہم پر ایسی ذمہ داریاں نہ ڈالنا جو ہم پوری نہ کرسکیں ۔ 
4.   ہمیں معاف فرما دے ۔ ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما 
5. تو ہی ہمارا مولی اور آقا ہے ۔ کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر ۔ 
آمین ۔ ( الله کرے ایسا ہی ہو ) 


ان دعاؤں پر قرآن مجید کی سب سے طویل سورۃ مکمل ہوتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں۔ 

انبیاء علیھم السلام کی دعائیں 

سورة بقرہ آیة نمبر 285

*اجزائے ایمان*

آمَنَ ۔۔۔۔۔۔  الرَّسُولُ ۔۔۔۔۔۔۔   بِمَا ۔۔ أُنزِلَ ۔۔۔  إِلَيْهِ ۔۔۔ مِن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   رَّبِّهِ
ایمان لائے ۔۔۔ رسولﷺ ۔۔۔ اس پر جو ۔۔ اتر ۔۔۔ اس پر ۔۔ سے ۔۔ رب اس کا 
 وَالْمُؤْمِنُونَ ۔۔۔ كُلٌّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   آمَنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔   بِاللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَمَلَائِكَتِهِ 
اور مسلمان ۔۔۔ سب ۔۔ ایمان لائے ۔۔ الله تعالی پر ۔۔ اور اس کے فرشتوں پر 
 وَكُتُبِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَرُسُلِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   لَا نُفَرِّقُ ۔۔۔۔۔۔۔۔   بَيْنَ ۔۔۔  أَحَدٍ ۔۔۔ مِّن 
اور اس کی کتابوں پر ۔۔ اور اس کے رسولوں پر ۔۔ نہیں فرق کرتے ۔۔ درمیان ۔۔ ایک ۔۔ سے 
رُّسُلِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔  وَقَالُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سَمِعْنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔  وَأَطَعْنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔  غُفْرَانَكَ 
اس کے رسول ۔۔ اور کہا انہوں نے ۔۔ ہم نے سنا ۔۔ اور ہم نے مانا ۔۔ تیری بخشش 
 رَبَّنَا ۔۔۔ وَإِلَيْكَ ۔۔۔ الْمَصِيرُ۔ 2️⃣8️⃣5️⃣
ہمارے ربّ ۔۔ اور تیری طرف ۔۔ لوٹ کر جانا 

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ.  2️⃣8️⃣5️⃣

رسول الله ﷺ نے مان لیا جو کچھ اس پر اس کے ربّ کی طرف سے اترا اور مسلمانوں نے بھی سب نے الله کو اور اس کے فرشتوں کو مانا اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو کہ ہم کسی کو جُدا نہیں کرتے اس کے پیغمبروں میں سے اور کہہ اٹھے کہ ہم نے سنا اور قبول کیا  اے ہمارے ربّ ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اور تیری طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ 

اٰمَنَ الرّسُولُ ( رسول ﷺ نے مان لیا ) اپنی رسالت پر سب سے پہلے ایمان لانے والے خود پیغمبر ہی ہوتے ہیں ۔ 
آمَنّا بِاللهِ ( ہم الله پر ایمان لائے ) ۔ الله پر ایمان لانے سے مراد ہے کہ اس کی ذات اور صفات دونوں کی تصدیق کی جائے ۔ 
روایات میں اس آیت کا شانِ نزول یوں آتا ہے ۔ کہ جب اس سے پہلی آیت نازل ہوئی کہ دل کے خیالات کا بھی حساب ہوگا اور ان پر گرفت ہو گی تو صحابہ کرام بہت گھبرائے اور ڈرے ۔ انہوں نے رسول کریم صلی الله علیہ وسلم سے ذکر کیا تو ارشاد ہوا ۔ قُوْلُوا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ۔ یعنی الله سبحانہ و تعالی کے حکموں میں کتنی ہی مشکل یا دقت نظر آئے ۔ تم اس کا حکم ماننے میں ذرا بھی تامّل نہ کرو ۔ بلکہ پختہ ارادے سے اس پر عمل کے لیے تیار ہوجاؤ ۔ 
صحابہ نے اس حکم کی تعمیل کی ۔ تو یہ کلمات زبان پر  بے ساختہ جاری ہوگئے ۔ کہ ہم الله پر ایمان لائے اور ہم نے الله کے حکم کی تعمیل کی ۔ یعنی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہم الله سبحانہ و تعالی کے احکامات ماننے اور ان پر عمل کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ الله تعالی کو یہ بات بہت پسند آئی اور یہ آیت اتری ۔ جو اس سبق میں مذکور ہے ۔ 
اس آیت میں الله تعالی نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے ایمان کی تعریف فرمائی جس سے ان کے دلوں کو تسلی ہوئی ۔ صحابہ نے یہ کہہ دیا کہ ہم اہلِ کتاب کی طرح نبیوں میں فرق روا نہیں رکھتے ۔ بلکہ سب کو اس کا رسول اور پیغمبر تسلیم کرتے ہیں ۔ یہ نہیں کہ ایک کو مانیں اور دوسروں کو چھوڑ دیں ۔ ہمیں کامل یقین ہے کہ ہم سب کو تیری طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ اور تیرے حضور پیش ہونا ہے ۔ 
الله جل جلالہ کے سامنے جوابدہی کا یہ إحساس انسان کو نیکی اور پرھیز گاری سکھاتا ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

سورة بقرہ آیة نمبر 284

الله تعالی محاسبہ فرمائے گا

لِلَّهِ ۔۔۔ مَا ۔۔۔ فِي ۔۔۔ السَّمَاوَاتِ ۔۔۔ وَمَا ۔۔۔ فِي ۔۔۔ الْأَرْضِ 
الله کے لیے ۔۔۔ جو ۔۔ میں ۔۔ آسمانوں ۔۔ اور جو ۔۔ میں ۔۔ زمین 
وَإِن ۔۔۔ تُبْدُوا ۔۔۔۔۔۔۔  مَا ۔۔۔ فِي ۔۔۔ أَنفُسِكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔  أَوْ ۔۔۔۔۔۔۔۔   تُخْفُوهُ 
اور اگر ۔۔۔ تم ظاہر کرو ۔۔ جو ۔۔ میں ۔۔ تماری جانیں ۔۔ یا ۔۔ تم چھپاؤ اس کو 
يُحَاسِبْكُم ۔۔۔ بِهِ ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فَيَغْفِرُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  لِمَن ۔۔۔۔۔۔۔۔  يَشَاءُ 
وہ حساب لے گا تم سے ۔۔ اس کا ۔۔ الله ۔۔ پس معاف کردے گا ۔۔ جس کے لیے ۔۔ چاہے گا 
وَيُعَذِّبُ ۔۔۔ مَن ۔۔۔ يَشَاءُ ۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ كُلِّ ۔۔۔ شَيْءٍ ۔۔۔ قَدِيرٌ  2️⃣8️⃣4️⃣
اور عذاب دے گا ۔۔ جسے ۔۔ وہ چاہے گا ۔۔ اور الله ۔۔ پر ۔۔ کل ۔۔ چیز ۔۔ قادر 

لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّهُ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ. 2️⃣8️⃣4️⃣

الله ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے  اور اگر اپنے جی کی بات ظاہر کرو گے یا اسے چھپاؤ گے تو تم سے الله تعالی اس کا حساب لے گا پھر جسے چاہے گا بخشے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا اور الله ہر چیز پر قادر ہے ۔ 
اس آیت سے سورة بقرہ کا آخری رکوع شروع ہوتا ہے ۔ قرآن مجید کا اندازِ بیان یہ ہے کہ ہر سورة کے آخر میں اس کا اصل مضمون دہرایا جاتا ہے ۔ بلکہ ہر آیت کے آخر میں الله تعالی کی صفات میں سے کوئی ایسا لفظ آتا ہے جو پوری آیت کے مضمون کو واضح کردے اس کے علاوہ کلام الله کے اسلوب میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مختلف احکام اور ہدایات کے درمیان ایمان بالله ، خدا خوفی اور ایمان بالاخرت کو بار بار بیان کرتا ہے ۔ 
اس پارے میں بیشتر حصہ مالی معاملات پر مشتمل ہے ۔ ابتدا میں الله کی راہ میں خرچ کرنے لیے تاکید اور ترغیب ہے ۔ اس مسئلہ کو مختلف مثالوں کے ذریعے دلنشیں انداز میں بیان کرکے اس خرابی کی نشاندھی کی ہے ۔ جو اس نیکی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ یعنی سودی کاروبار کی صورۃ میں حرام کی کمائی ۔ اس کے علاوہ تجارت میں ہیرا پھیری اور بے ایمانی بھی انسان کو سنگدل اور بدبخت بنا دیتی ہے ۔ اسی لیے لکھت پڑھت اور گواہی کو خاص طور پر ضروری قرار دیا ۔ 
آخر میں ارشاد ہوتا ہے کہ یہ سب مال وزر ، زمین و آسمان کی ساری کائنات الله سبحانہ وتعالی ہی کے لیے ہے ۔ اگر تم اس کی رضا کے لیے کچھ خرچ کرو گے تو تمہارا نہ کوئی احسان ہے نہ اس سے تمہارے مال میں کچھ کمی آئے گی ۔ وہ تمہارے ظاہر و باطن اور ہر شے کا محاسبہ لے گا ۔ نجات و عذاب پر اسے کامل اختیار ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے ۔ 

ایک اہم تنبیہ ۔۔۔۔ اس سورۃ میں اصول و فروع ۔ جانی اور مالی عبادات و معاملات کے احکامات بہت زیادہ بیان ہوئے ہیں اور اسی لیے اس سورة کا نام " سنام القرآن " رکھا گیا ۔ الله تعالی نے  بندوں کو پوری تاکید وتہدید ہر طرح سے فرما دی تاکہ ان احکام پر عمل کرنے میں کوتاہی سے بچیں ۔ احکام کا ذکر فرمانے کے بعد اس آیت میں اپنے مکمل اختیار اور قبضہ کا بیان فرمایا اور تمام احکام پر عمل کرنے کی پابندی پر سب کو مجبور کردیا ۔ 
جو لوگ طلاق ، نکاح ، قصاص ، زکوۃ، سود اور  تجارت وغیرہ میں حیلوں بہانوں اور اپنی تدبیروں سے کام لیتے ہیں اور ناجائز کاموں کو جائز بنانے کے لیے زبردستی کرتے ہیں ان کو مکمل طور پر خبردار کردیا ۔ 
الله جل جلالہ جو عبادت کا مستحق ہے اسے ہر چیز کا مالک ہونا ضروری ہے ۔ تاکہ وہ ہمارے ظاہری اعمال اور نیتوں کا محاسبہ کر  سکے ۔ 
اسے تمام کاموں کی خوب خبر ہونی چاہیے تاکہ وہ تمام چیزوں کا حساب لے سکے ۔ 
اور اسے ہر چیز پر مکمل قدرت ہونی چاہیے تاکہ اچھے برے اعمال کی جزاء و سزا دے سکے ۔ چنانچہ ان تینوں کمالات یعنی ملک ، علم اور قدرت کو یہاں بیان فرمایا ۔ اور آیت الکرسی میں بھی ان کا ذکر  ہو چکا ہے ۔ 
مطلب یہ کہ الله سبحانہ و تعالی تمام چیزوں کا مالک اور خالق ہے ۔ اس کا علم سب کو محیط ہے اس کی قدرت سب پر شامل ہے تو پھر کسی ظاہری یا خفیہ کام میں اس کی نافرمانی کرکے کوئی بندہ نجات ہرگز نہیں پاسکتا ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تفسیر عثمانی 

سورة بقرہ آیة 283

رھن کی ھدایات


وَإِن ۔۔۔ كُنتُمْ ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ سَفَرٍ ۔۔۔۔۔  وَلَمْ تَجِدُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔   كَاتِبًا 
اور اگر ۔۔۔ ہوتم ۔۔۔ پر ۔۔ سفر ۔۔ اور نہ تم پاؤ ۔۔۔ لکھنے والا 
فَرِهَانٌ ۔۔۔۔۔۔  مَّقْبُوضَةٌ ۔۔۔۔۔۔۔ فَإِنْ ۔۔۔۔۔۔۔۔  أَمِنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  بَعْضُكُم ۔۔۔۔۔۔۔   بَعْضًا 
پس رھن رکھنا ۔۔۔ قبضہ شدہ ۔۔۔ پس اگر ۔۔۔ اعتبار کرے ۔۔۔ تمہارے بعض ۔۔ بعض کا 
فَلْيُؤَدِّ ۔۔۔۔۔۔   الَّذِي ۔۔۔ اؤْتُمِنَ ۔۔۔۔۔۔۔  أَمَانَتَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔  وَلْيَتَّقِ ۔۔۔۔۔۔۔  اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  رَبَّهُ 
پس چاہیے کہ ادا کرے ۔۔۔ وہ ۔۔ امانت دیا گیا ۔۔ امانت ۔۔ اور چاہیے کہ ڈرے ۔۔ الله ۔۔ اس کا رب 
وَلَا تَكْتُمُوا ۔۔۔ الشَّهَادَةَ ۔۔۔ وَمَن ۔۔۔۔۔۔۔۔   يَكْتُمْهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔   فَإِنَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  آثِمٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔   قَلْبُهُ 
اور نہ تم چھپاؤ ۔۔ گواہی ۔۔ اور جو ۔۔ چھپائے اس کو ۔۔ پس بے شک وہ ۔۔ گنہگار ۔۔ اس کا دل 
وَاللَّهُ ۔۔۔ بِمَا ۔۔۔ تَعْمَلُونَ ۔۔۔ عَلِيمٌ۔ 2️⃣8️⃣3️⃣
اور الله ۔۔ اس کو جو ۔۔ تم کرتے ہو ۔۔ جانتا ہے 

وَإِن كُنتُمْ عَلَى سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ 
وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ. 2️⃣8️⃣3️⃣

اور اگر تم سفر میں ہو اور کوئی لکھنے والا نہ پاؤ تو گرو ہاتھ میں رکھنی چاہیے  پھر اگر ایک دوسرے کا اعتبار کرے تو چاہیے کہ جس شخص پر اعتبار کیا گیا اپنی امانت کو پورا ادا کرے اور الله سے ڈرتا رہے جو اس کا ربّ ہے اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو شخص اسے چھپائے گا تو بے شک اس کا دل گنہگار ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو الله جانتا ہے ۔ 

رِھٰنٌ ( چیزیں جو گروی رکھی جائیں ) لفظ "رھن " اردو میں بھی عام استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی قرض کے سلسلے میں امانت کے طور پر قرض خواہ کو کچھ دے دینا ۔ مثلا زیور ، مکان ، جائیداد وغیرہ 
اس بارے میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنی چاہیے کہ رہن شدہ چیز سے فائدہ اٹھانا ممنوع ہے ۔ اگر قرض خواہ مرہون شئے سے نفع حاصل کرے تو یہ سود کے برابر ہوگا ۔ اور شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی ۔ رھن صرف ضمانت کی حد تک رکھا جا سکتا ہے ۔ نفع حاصل کرنے کے لیے نہیں ۔ 
یُوَدُّ  ( پورا کرے ) ۔ ادَاءٌ سے یہ لفظ بنا ہے ۔ جس کے معنی پورا کر دینے کے ہیں ۔ غالباً اردو کا لفظ " ادا " بھی اسی سے نکلا ہے ۔ 
اس آیت میں کتابت و شھادت کے سلسلے کی آخری ھدایات دی گئی ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے اگر تم سفر کی حالت میں ہو خود لکھنا پڑھنا نہیں جانتے اور کوئی دوسرا کاتب بھی میسر نہیں تو اس صورت میں کچھ رھن رکھ دو اور جس کے پاس امانت یا رہن رکھا جائے ۔ وہ امانت کو دیانت داری کے ساتھ واپس کردے ۔ 
اس کے علاوہ ایک بار پھر تاکید کی کہ گواہی ہرگز نہ چھپاؤ ۔ ورنہ تم گنہگار ٹہرو گے ۔ الله تعالی تمہارے ہر عمل سے باخبر ہے ۔  

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

سورة بقرہ ۔ 282 جیم

*گواہی کے احکام*

ذَلِكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔  أَقْسَطُ ۔۔۔ عِندَ ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔ وَأَقْوَمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   لِلشَّهَادَةِ 
یہ ۔۔۔ زیادہ انصاف ۔۔۔ پاس ۔۔ الله ۔۔ اور زیادہ درست ۔۔۔ گواہی کے لیے 
وَأَدْنَى ۔۔۔۔۔۔۔۔  أَلَّا تَرْتَابُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  إِلَّا ۔۔۔ أَن ۔۔۔ تَكُونَ ۔۔۔ تِجَارَةً 
اور نزدیک ۔۔ یہ کہ نہ تم شبہ میں پڑو ۔۔ مگر ۔۔ یہ کہ ۔۔۔ ہو ۔۔ تجارت 
حَاضِرَةً ۔۔۔ تُدِيرُونَهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔  بَيْنَكُمْ ۔۔۔ فَلَيْسَ ۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔ جُنَاحٌ 
نقد  ۔۔۔ لیتے دیتے رہو ۔۔۔ آپس میں ۔۔۔ پس نہیں ۔۔۔ تم پر ۔۔ گناہ 
أَلَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   تَكْتُبُوهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَأَشْهِدُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ إِذَا تَبَايَعْتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَلَا يُضَارَّ 
یہ کہ نہ ۔۔۔ تم لکھو اس کو ۔۔۔ اور گواہ بناؤ ۔۔۔ جب تم سودا کرو ۔۔۔ اور نہ نقصان کرے 
كَاتِبٌ ۔۔۔ وَلَا شَهِيدٌ ۔۔۔۔۔۔۔  وَإِن تَفْعَلُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَإِنَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔ فُسُوقٌ 
لکھنے والا ۔۔۔ اور نہ گواہ ۔۔۔ اور تم ایسا کرو گے ۔۔۔ پس بے شک یہ ۔۔۔ گناہ 
بِكُمْ ۔۔۔ وَاتَّقُوا ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَيُعَلِّمُكُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    اللَّهُ 
تم میں ۔۔۔ اور ڈرو ۔۔ الله ۔۔ اور وہ تمہیں سکھاتا ہے ۔۔۔ الله تعالی 
وَاللَّهُ ۔۔۔ بِكُلِّ ۔۔۔ شَيْءٍ ۔۔۔ عَلِيمٌ 2️⃣8️⃣2️⃣
اور الله ۔۔ ہر ۔۔ چیز ۔۔۔ جانتا ہے 

ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلَّا تَرْتَابُوا إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ وَإِن تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ 2️⃣8️⃣2️⃣

اس میں الله کے نزدیک ہے پورا انصاف اور گواہی کو بہت درست رکھنے والا اور قریب ہے کہ شبہ میں نہ پڑو مگر یہ کہ سودا ہو ہاتھوں ہاتھ آپس میں اسے لیتے دیتے رہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں اگر اسے نہ لکھو اور جب تم سودا کرو تو گواہ کرلیا کرو  اور نہ لکھنے والا نقصان کرے اور نہ گواہ اور اگر ایسا کرو تو یہ تمہارے اندر گناہ کی بات ہے اور الله سے ڈرتے رہو اور الله تمہیں سکھلاتا ہے اور الله تعالی ہر ایک چیز کو جانتا ہے ۔

آَقْسَطُ ( زیادہ انصاف) ۔ قِسْط سے نکلا ہے ۔ اس کے معنٰی ہیں انصاف ۔ اسی سے لفظ " مُقْسِطٌ " ہے ۔ جو الله تعالی کا اسم صفت ہے ۔ انصاف کرنے والا 
اَقْوَمُ ( زیادہ وسعت رکھنے والا ) ۔ قِیَامٌ۔ قَوّامٌ ۔ قَیّمٌ  وغیرہ لفظ اسی مادے سے نکلے ہیں ۔ اَقْوَمُ۔ کے معنی ہیں سب سے زیادہ اور بہتر طور پر درست رکھنے والا 
تِجَارَۃٌ حَاضِرَةٌ۔ ( ہاتھوں ہاتھ سودا ) ایسی تجارت جو دست بدست ہو ۔ یعنی ادھار اور وعدوں پر نہ ہو بلکہ اسی وقت پیسے دے کر چیز لے لی جائے ۔ 
یہ آیت گذشتہ دو سبق سے مسلسل چل رہی ہے اور لین دین کو لکھ لینے اور گواہ بنا لینے  کے بارے میں ہدایات جاری ہیں ۔ اس آخری حصے میں ارشاد ہوا ہے کہ لکھت پڑھت کر لینے سے شک و شبہ اور مغالطہ پیدا نہیں ہو گا ۔ البتہ نقد سودے میں اس کی ضرورت نہیں ۔ اسی طرح گواہوں پر اور کاتب پر لازم ہے کہ وہ بھی انصاف سے کام لیں۔ نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کریں ۔ ورنہ وہ گناہ کے مرتکب ہوں گے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

سورة بقرہ ۔ آیة 282 الف

لکھت پڑھت

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا۔۔  إِذَا ۔۔۔۔۔۔  تَدَايَنتُم ۔۔۔۔۔۔۔  بِدَيْنٍ ۔۔۔  إِلَى ۔۔۔  أَجَلٍ ۔۔۔ مُّسَمًّى
اے ایمان والو ۔۔۔۔ جب ۔۔۔ تم لین دین کرو ۔۔ ادھار کا ۔۔ تک ۔۔۔۔۔۔ وقت ۔۔ مقررہ 
 فَاكْتُبُوهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔     وَلْيَكْتُب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   بَّيْنَكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔  كَاتِبٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    بِالْعَدْلِ 
پس تم لکھ لو اس کو ۔۔۔ اور چاہیے کہ لکھے ۔۔۔ تمہارے درمیان ۔۔۔ لکھنے والا ۔۔۔ انصاف سے 
 وَلَا يَأْبَ ۔۔۔۔۔۔  كَاتِبٌ ۔۔۔۔۔۔   أَن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   يَكْتُبَ ۔۔۔  كَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔  عَلَّمَهُ ۔۔۔۔۔۔  اللَّهُ 
اور نہ انکار کرے ۔۔۔ لکھنے والا ۔۔ یہ کہ ۔۔۔ وہ لکھ دے ۔۔ جیسا ۔۔ سکھایا اس کو ۔۔ الله 
 فَلْيَكْتُبْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    وَلْيُمْلِلِ ۔۔۔۔۔۔۔  الَّذِي ۔۔۔عَلَيْهِ ۔۔۔۔۔۔ الْحَقُّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَلْيَتَّقِ 
پس چاہیے کہ لکھ دے ۔۔ اور چاہیے کہ لکھوائے ۔۔ وہ ۔۔ اس پر ۔۔ حق ۔۔ اور چاہیے کہ وہ ڈرے 
اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔  رَبَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    وَلَا يَبْخَسْ ۔۔۔۔۔۔۔۔  مِنْهُ ۔۔۔ شَيْئًا ۔۔۔ فَإِن ۔۔۔ كَانَ ۔۔۔ الَّذِي 
الله ۔۔۔ رب ہے اس کا ۔۔۔ اور نہ وہ کم کرے ۔۔۔ اس سے ۔۔ کچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔  پس اگر ۔۔ وہ 
عَلَيْهِ ۔۔۔ الْحَقُّ ۔۔۔ سَفِيهًا ۔۔۔۔ أَوْ ۔۔۔ ضَعِيفًا ۔۔۔ أَوْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  لَا يَسْتَطِيعُ 
اس پر ۔۔۔ حق ہے ۔۔۔ بے وقوف ۔۔ یا ۔۔۔ ضعیف ۔۔ یا ۔۔ نہ طاقت رکھتا ہو 
أَن يُمِلَّ ۔۔۔ هُوَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فَلْيُمْلِلْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وَلِيُّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔   بِالْعَدْلِ 
یہ کہ وہ لکھوائے ۔۔۔ وہ ۔۔ پس چاہیے کہ لکھوائے ۔۔۔ اس کا ولی ۔۔ انصاف سے 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَن يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِن كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ 

اے ایمان والو ! جب تم آپس میں ادھار کا معاملہ کرو کسی وقت مقررہ تک تو اسے لکھ لیا کرو  اور چاہیے کہ لکھنے والا انصاف سے تمہارے درمیان لکھ دیا کرے اور لکھنے والا انکار نہ کرے اس سے کہ لکھ دے جیسا اسے الله نے سکھایا سو اسے چاہیے کہ لکھ دے اور وہ شخص جس پر قرض ہے  بتاتا جائے اور الله تعالی سے ڈرے جو اس کا ربّ ہے اور اس میں سے کچھ کم نہ کرے  پھر اگر وہ شخص کہ جس پر قرض ہے بے عقل یا ضعیف ہے یا وہ خود بتانے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس کا ولی انصاف سے بتا دے ۔ 

دَیْنٌ ( ادھار) ۔ عربی زبان میں دین ایسے معاملے کو کہتے ہیں جن میں بدلہ کی ادائیگی اسی وقت نہ ہو ۔ 
اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًی ( ایک مقررہ مدت تک ) ۔ علما نے اس سے حکم نکالا ہے کہ قرضہ کے معاملہ میں مدت بالکل صاف اور مقرر ہونی چاہیے  گول مول نہ رہے ۔ غیر معین مدت کی بجائے تاریخ مقرر کی جائے ۔ 
قرآن مجید  نے پہلے صدقہ و خیرات کی فضیلت اور اس کے احکام  بیان فرمائے ۔ اس کے بعد سود اور اس کی ممانعت اور برائی بیان فرمائی اب قرض اور ایسے لین دین کا ذکر ہے جس میں کسی مدّت کا وعدہ ہو ۔ بھول چُوک کا امکان ہر وقت رہتا ہے ۔ اس لیے ایسے معاملے کو لکھ لینا چاہیے ۔ اور ایسا اہتمام کیا جائے کہ آئندہ کسی جھگڑے کی نوبت نہ آئے ۔ لکھنے والے کو چاہیے کہ لکھنے میں کوتاہی نہ کرے ۔ زیادہ مناسب یہ ہے کہ مدیون ( ادھار  لینے والا ) اپنے ہاتھ سے لکھے یا کاتب کو اپنی زبان سے بتائے اور دوسرے کے حق میں کمی بیشی نہ کرے ۔ اگر بے عقل ، سست یا ضعیف ہو تو ایسی صورتوں میں اس کے مختار اور وارث کو چاہیے کہ معاملہ انصاف سے لکھوا دے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

سورة بقرہ ۔ آیہ 282 ب

گواہی

وَاسْتَشْهِدُوا۔۔۔  شَهِيدَيْنِ ۔۔۔ مِن ۔۔۔ رِّجَالِكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔   فَإِن ۔۔۔ لَّمْ يَكُونَا 
اور گواہ کرلو ۔۔۔ دو گواہ ۔۔۔ سے ۔۔ تمہارے مرد ۔۔ پس اگر ۔۔ نہ ہوں 
رَجُلَيْنِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ فَرَجُلٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَامْرَأَتَانِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مِمَّن ۔۔۔۔۔۔۔ تَرْضَوْنَ ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔ الشُّهَدَاءِ 
دو مرد ۔۔۔ پس ایک مرد ۔۔۔ اور دو عورتیں ۔۔۔ اس سے جو ۔۔ تم پسند کرو ۔۔۔ سے ۔۔۔۔۔ گواہ 
أَن ۔۔۔ تَضِلَّ ۔۔۔ إِحْدَاهُمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَتُذَكِّرَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ إِحْدَاهُمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   الْأُخْرَى 
تاکہ اگر ۔۔۔ بھول جائے ۔۔۔ ایک ان دونوں میں سے  ۔۔۔ پس یاد کروائے ۔۔ ایک ان دونوں میں سے ۔۔۔ دوسری کو 
وَلَا يَأْبَ ۔۔۔ الشُّهَدَاءُ ۔۔۔۔ إِذَا ۔۔۔۔۔۔ ۔ مَا دُعُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وَلَا تَسْأَمُوا 
اور نہ انکار کرے ۔۔۔ گواہ ۔۔۔ جب ۔۔ وہ بلائے جائیں ۔۔۔ اور نہ سُستی کرو 
أَن ۔۔۔۔۔۔۔۔ تَكْتُبُوهُ ۔۔۔ صَغِيرًا ۔۔۔ أَوْ ۔۔۔ كبِيرًا ۔۔۔ إِلَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  أَجَلِهِ 
یہ کہ ۔۔۔ تم لکھو اس کو ۔۔۔ چھوٹا ۔۔۔ یا ۔۔۔ بڑا ۔۔ تک ۔۔ اس کی میعاد 

وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا وَلَا تَسْأَمُوا أَن تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ 

اور اپنے مردوں میں سے دو گواہ کرو پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہی میں پسند کرتے ہو تاکہ ان میں سے اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے اور انکار نہ کریں گواہ جب وہ بلائے جائیں اور اس کے لکھنے سے کاہلی نہ کرو خواہ معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کی میعاد تک 

یہ آیت جو پچھلے سبق سے شروع ہے اس سورت بلکہ قرآن مجید کی سب سے بڑی آیت ہے ۔ 
اس میں لین دین کے اندر لکھت پڑھت کرنے ، گواہی دینے اور رہن وغیرہ کے تفصیلی احکام موجود ہیں ۔ آیت کے ابتدائی حصے میں یہ ذکر تھا کہ ادھار کو ضرور تحریر میں لے آیا کرو ۔ اگر خود نہ لکھ سکو تو کسی سے لکھوا لو ۔ خود نہ لکھوا سکو تو وارث کا فرض ہے کہ وہ لکھوا دے ۔ 
اب یہ ارشاد ہے کہ لکھت پڑھت کے علاوہ دو گواہ بھی کر لیا کرو ۔ اگر دو مرد موجود نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ ٹہرا لو ۔ تاکہ اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا  دے ۔ ساتھ ہی گواہوں کو حکم ہوا کہ وہ گواہی کے لیے بلانے پر پس  وپیش نہ کیا کریں کہ یہ گناہ ہے ۔ 
معاملات کو تحریر میں لانے کے بارے میں دوبارہ تاکید کی گئی ہے کہ سودا تھوڑا ہو یا زیادہ ۔ قرض چھوٹا ہو یا بھاری لکھنے میں سُستی نہ کرو ۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ معاملات کی درستی اور انصاف کے تقاضے اس کے بغیر پورے نہیں ہو سکتے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تنگدست سے رعایت: سورة بقرہ 280- 281

تنگدست سے رعایت

وَإِن ۔۔ كَانَ ۔۔۔  ذُو عُسْرَةٍ ۔۔۔ فَنَظِرَةٌ ۔۔۔ إِلَى ۔۔۔ مَيْسَرَةٍ 
اور اگر ۔۔۔ ہو ۔۔ تنگدست ۔۔۔ پس مہلت ۔۔ تک ۔۔ کشادگی 
وَأَن ۔۔۔ تَصَدَّقُوا ۔۔۔ خَيْرٌ ۔۔۔ لَّكُمْ ۔۔۔ إِن ۔۔ كُنتُمْ ۔۔۔ تَعْلَمُونَ 2️⃣8️⃣0️⃣
اور اگر ۔۔۔ تم بخش دو ۔۔ بہتر ۔۔ تمہارے لیے ۔۔ اگر ۔۔ ہوتم ۔۔ جانتے 

وَاتَّقُوا ۔۔۔ يَوْمًا ۔۔۔ تُرْجَعُونَ ۔۔۔ فِيهِ ۔۔۔ إِلَى ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔ ثُمَّ ۔۔ تُوَفَّى 
اور ڈرو ۔۔ دن ۔۔ تم لوٹائے جاؤ گے ۔۔ اس میں ۔۔ طرف ۔۔ اللہ ۔۔ پھر ۔۔ پورا دیا جائے گا 
كُلُّ ۔۔۔ نَفْسٍ ۔۔۔ مَّا ۔۔۔ كَسَبَتْ ۔۔۔ وَهُمْ ۔۔۔ لَا يُظْلَمُونَ۔ 2️⃣8️⃣1️⃣
ہر ۔۔۔ جان ۔۔ جو ۔۔ کمایا اس نے ۔۔۔ اور وہ ۔۔ نہیں ظلم کیے جائیں گے

وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ.  2️⃣8️⃣0️⃣

اور اگر تنگدست ہو تو کشائش ہونے تک مہلت دینی چاہیے اور اگر بخش دو تو تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہو ۔

وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ۔  2️⃣8️⃣1️⃣

اور اس دن سے ڈرتے رہو جس روز الله کی طرف لوٹائے جاؤ گے  پھر ہر شخص کو جو اس نے کمایا پورا پورا دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہ ہوگا 

آیت نمبر ۲۷۵ سے سود کے بارے میں مسلسل احکام بیان ہو رہے ہیں ۔ اب تک یہ بات بالکل واضح طور پر بیان ہوچکی ہے کہ سود حرام ہے ۔ جو لوگ سودی کاروبار کرتے ہیں وہ الله کے حضور پیش ہوں گے تو ان کی کیفیت دیوانوں جیسی ہوگی ۔ وہ سیدھی طرح کھڑے بھی نہ ہو سکیں گے ۔ الله تعالی نے اپنے لطف و کرم سے کام لے کر سابقہ بدعنوانیوں کو یکسر معاف کردینے کا اعلان فرما دیا اور شدید تاکید فرما دی کہ آئندہ یہ کاروبار پوری طرح ختم کر دیا جائے ۔ سود کی جگہ خیرات وصدقات کے ذریعہ حاجتمندوں کی ضروریات پوری کی جائیں ۔ اس کے ساتھ ہی فرمایا اگر کوئی اب بھی باز نہ آیا تو سمجھا جائے گا کہ وہ الله اور رسول کا باغی ہے ۔ لہذا اسے الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ 
ان ھدایات و احکام کے بعد یہ آیات ہیں جو اس سبق کا حصہ ہیں ۔ ارشادِ ربّانی ہے اگر مقروض تنگدست ہے تو اس کی فارغ البالی اور کشادگی تک اسے مہلت دو۔ تاکہ وہ بآ سانی  ادا کر سکے ۔ بلکہ اس سے بہتر تو یہ ہے کہ جو قرض ادا نہیں کر سکتے انہیں معاف ہی کردو ۔ معافی کی یہ ترغیب ان الفاظ میں دی گئی ہے " اگر تم معاف ہی کردو تو تمہارے لیے بہتر ہے " 
"اگر تمہیں سمجھ ہو " قابل غور بات یہ ہے کہ معافی کا فائدہ بظاہر مقروض کو پہنچے گا ۔ لیکن الله تعالی نے فرمایا اگر تمہیں سمجھ ہو تو اس کا فائدہ خود تمہاری ذات کو ہے ۔ 
آخر میں آخرت کا ذکر فرما کر انتہائی خدا خوفی اور اعمال کی جواب دہی کا احساس دلایا ۔ 

درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

سورة بقرہ آیة ۔ 278-279

سود لینا چھوڑ دو

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ۔۔۔  اتَّقُوا ۔۔۔  اللَّهَ ۔۔۔ وَذَرُوا ۔۔۔۔۔۔۔  مَا 
اے ایمان والو ۔۔۔ ڈرو ۔۔ الله ۔۔ اور چھوڑ دو ۔۔ جو 
بَقِيَ ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔ الرِّبَا ۔۔۔ إِن ۔۔۔ كُنتُم ۔۔۔ مُّؤْمِنِينَ  2️⃣7️⃣8️⃣
باقی ہے ۔۔۔ سے ۔۔ سود ۔۔ اگر ۔۔ ہو تم ۔۔۔ مؤمن 

فَإِن ۔۔۔  لَّمْ تَفْعَلُوا ۔۔۔۔۔۔۔ فَأْذَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔   بِحَرْبٍ ۔۔۔۔۔۔۔   مِّنَ ۔۔۔ اللَّهِ 
پس اگر ۔۔۔ نہ کیا تم نے ۔۔ پس تیار ہوجاؤ ۔۔۔ لڑائی کے لیے ۔۔۔ سے ۔۔ الله 
وَرَسُولِهِ ۔۔۔  وَإِن ۔۔۔۔۔۔۔  تُبْتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔   فَلَكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔  رُءُوسُ ۔۔۔۔۔۔  أَمْوَالِكُمْ 
اور اس کا رسول ۔۔۔ اور اگر ۔۔ تم توبہ کرو ۔۔ پس تمہارے لیے ۔۔ اصل ۔۔ تمہارا مال 
لَا تَظْلِمُونَ۔ ۔۔۔۔  وَلَا تُظْلَمُونَ 2️⃣7️⃣9️⃣
نہ تم ظلم کرو ۔۔۔ اور نہ تم ظلم کیے جاؤ گے 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ  2️⃣7️⃣8️⃣

اے ایمان والو الله سے ڈرو اور سود چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے اگر تمہیں الله کے فرمانے کا یقین ہے ۔
فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ. 2️⃣7️⃣9️⃣

پس اگر نہیں چھوڑتے تو تیار ہو جاؤ الله اور اس کے رسول سے لڑنے کو اور اگر توبہ کرتے ہو تو تمہارے واسطے تمہارا اصل مال ہے نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ کوئی تم پر ظلم کرے ۔

مَا بَقِیَ ( جو باقی رہا ) ۔ مطلب یہ کہ اس حکم سے قبل جو سود حاصل کر چکے ہو وہ معاف کیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد سود وصول نہ کرو گے ۔ صرف اصل زر حاصل کر سکو گے ۔ 
حَرْبٌ ( جنگ ) ۔ الله اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے سود خوروں کے خلاف اعلانِ  جنگ کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اسلام کے مخالفین کی فہرست میں شمار کیا جائے ۔ 
رُءُوْسُ اَمْوَالِکُمْ ( تمہارے اصل مال ) ۔ اسے رأس المال اور اصل زر بھی کہا جاتا ہے ۔ 
ان آیات میں مندرجہ ذیل احکام دئیے گئے ہیں ۔ 
1. سود کی ممانعت سے پہلے جو سود لے چکے ہو سو لے چکے لیکن ممانعت کے بعد جو چڑھا وہ چھوڑ دو ۔
2. اگر تم باز نہ آؤ تو تمہارے ساتھ الله و رسول صلی الله علیہ وسلم ویسا ہی سلوک کریں گے جیسا باغیوں اور مرتدوں کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ 
3. اگر ممانعت کے بعد کا چڑھا ہوا سود تم مانگو تو یہ بھی ظلم ہوگا ۔
4. جو سود تم پہلے لے چکے ہو اگر مقروض خواہ اصل دیتے وقت اس سود کی رقم کاٹے تو یہ ظلم ہوگا ۔
5. اگر مقروض مفلس ہو تو اس سے فوری تقاضا نہ کرو بلکہ اسے اتنی دیر تک مہلت دو کہ وہ اصل واپس دینے کے قابل ہو جائے ۔ 
اندازہ کیجیے سود کی ممانعت کس شدت سے کی گئی ہے ۔ اس قدر واضح حکم کے بعد بھی اگر کوئی جواز کی صورتیں نکالے اور سودی لین دین سے باز نہ آئے وہ الله و رسول کا باغی نہیں تو اور کیا ہے ۔

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

سورة بقرہ آیة 276-277

سود اور خیرات کا موازنہ

يَمْحَقُ ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ الرِّبَا ۔۔۔۔۔۔۔  وَيُرْبِي ۔۔۔۔ الصَّدَقَاتِ 
مٹاتا ہے ۔۔۔ الله ۔۔ سود ۔۔۔ اور بڑھاتا ہے ۔۔۔ خیرات 
وَاللَّهُ ۔۔۔ لَا يُحِبُّ ۔۔۔ كُلَّ ۔۔۔ كَفَّارٍ ۔۔۔۔ أَثِيمٍ.  2️⃣7️⃣6️⃣
اور الله ۔۔۔ نہیں پسند کرتا ۔۔۔ ہر ۔۔ ناشکر ۔۔ گنہگار 

إِنَّ ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَعَمِلُوا ۔۔۔ الصَّالِحَاتِ ۔۔۔۔۔۔۔  وَأَقَامُوا 
بے شک ۔۔ جو لوگ ۔۔ ایمان لائے ۔۔ اور عمل کیے ۔۔۔ نیک ۔۔۔ اور قائم رکھی 
الصَّلَاةَ ۔۔۔ وَآتَوُا ۔۔۔ الزَّكَاةَ ۔۔۔ لَهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔  أَجْرُهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔  عِندَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    رَبِّهِمْ 
نماز ۔۔ اور ادا کی ۔۔۔ زکوٰة ۔۔۔ ان کے لیے ۔۔۔ ان کا اجر ۔۔ پاس ۔۔ ان کے رب کے 
وَلَا خَوْفٌ ۔۔۔ عَلَيْهِمْ ۔۔۔ وَلَا ۔۔۔ هُمْ ۔۔۔ يَحْزَنُونَ   2️⃣7️⃣7️⃣
اور نہیں خوف ۔۔۔ ان پر ۔۔۔ اور نہ ۔۔ وہ ۔۔ غمگین ہوں گے 

يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ.    2️⃣7️⃣6️⃣

الله سود کو مٹاتا ہے اور خیرات کو بڑھاتا ہے اور الله کسی ناشکرے گنہگار سے خوش نہیں ۔ 

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ    2️⃣7️⃣7️⃣

جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل  کیے اور نماز کو قائم رکھا اور زکوٰة دیتے رہے ان کے لیے ان کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور نہ انہیں خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔ 

ان آیات میں الله تعالی نے سود اور خیرات کا موازنہ کرتے ہوئے دونوں کا جدا جدا انجام بتایا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ سود خواہ کتنا ہی بڑھتا چلا جائے اس کا انجام مفلسی اور بربادی ہے ۔ الله تعالی اس میں قطعی طور پر کوئی برکت نہیں ڈالتا ۔ انجام کار ایسی دولت سے خانہ خرابی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ سود خور افراد اور قوموں کا انجام اس کا ثبوت ہے ۔ ان میں باہم خونریزی اور تباہی و بربادی ہی ہوئی ہے ۔ اس کے مقابلے میں الله تعالی صدقات اور خیرات کو بڑھاتا ہے ۔ ان میں برکت ڈالتا ہے ۔ ان کا ثواب کئی گنا زیادہ کر دیتا ہے ۔ خیرات اور صدقات کے نتیجے میں خوشحالی اور فارغ البالی پیدا ہوتی  ہے ۔ 
پھر بیان کیا گیا کہ الله تعالی سود خور کو جو گنہگار بھی ہے اور ناشکرا بھی کبھی پسند نہیں کرتا ۔ وہ گنہگار اس لیے ہے کہ بےبس اور حاجت مند لوگوں پر ظلم کرتا ہے ۔ اور ناشکرا اس لیے ہے کہ الله تعالی نے اسے مال و دولت دیا تھا کہ اسکی راہ میں خرچ کرے ۔ غریبوں مسکینوں میں تقسیم کرے حاجتمنوں کی امداد کرے ۔ لیکن اس کی بجائے وہ بخل سے کام لیتا ہے ۔ روپے کو سمیٹ سمیٹ کر رکھتا ہے بھائیوں کو بھوکوں مرتے ، فاقہ کشی کرتے مفلسی اور بے چارگی میں تڑپتے دیکھتا ہے لیکن اسے ترس نہیں آتا ۔ اس کا دل نہیں پسیجتا ۔ بلکہ وہ ظالم اور سنگدل بن جاتا ہے ۔ لہٰذا اس کے لیے سخت وعید ہے ۔ 
سود خور کے مقابل الله تعالی نے اس ایماندار اور نیک شخص کا اجر بھی بتا دیا ہے جو نماز قائم کرتا ہے  ۔ زکوٰۃ و خیرات دیتا ہے کہ الله تعالی کی طرف سے اسے پورا پورا اجر ملے گا ۔ اسے کبھی ڈر یا خوف کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا نہ وہ کبھی رنجیدہ خاطر ہو گا ۔ الله تعالی ہمیں نیکی کی توفیق دے اور زکوٰة و خیرات کرنے کی طاقت دے ۔ آمین 

درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

سورة بقرہ ۔ سود کی برائیاں ۔ متعلقہ آیة 275

سود کی برائیاں

سود کے حرام اور ناجائز ہونے والی آیت سے پہلے الله تعالی نے خیرات اور صدقات کی فضیلت بیان فرمائی ہے ۔ چونکہ خیرات اور صدقات سے غریبوں کے معاملات میں سہولت اور بے مروتی کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے کئی گناہ دور ہوجاتے ہیں ۔ اخلاق، مروت ، خیر اندیشی ، نفع رسانی اور خدمتِ خلق کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔ اس لیے اس کی اہمیت کھول کر بیان کی گئی ۔ 
اب سود کی حرمت کا بیان شروع ہوتا ہے ۔ یہ بالکل خیرات کی ضد ہے ۔ اگر خیرات سے مروت بڑھتی ہے تو سود سے ظلم ترقی کرتا ہے ۔ اسی لیے خیرات کی فضیلت کے بعد سود کی مذمت اور اس کی ممانعت کا ذکر ہوا ہے جو اپنی جگہ پر انتہائی مناسب اور برمحل ہے ۔ 
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن سود خور اپنی قبروں سے اٹھتے وقت سیدھے کھڑے نہ ہو سکیں گے ۔ بلکہ خبطیوں اور دیوانوں کی طرح گرتے پڑتے لڑکھڑاتے ہوئے اٹھیں گے ۔ بالکل یہی منظر دنیا میں بھی نظر آتا ہے ۔ مہاجن اور ساہوکار روپے کے پیچھے باؤلے بنے رہتے ہیں ۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے انہیں کوئی جن یا بھوت چمٹ گیا ہے ۔ ہر دم ان پر سود ہی کا فکر سوار رہتا ہے ۔ 
الله تعالی نے قیامت کے دن ایسے لوگوں کے اس حالت میں مبتلا ہونے کی وجہ بھی بیان کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح تجارت میں مالی نفع مقصود ہوتا ہے اسی طرح سود میں بھی مالی نفع ہی پیشِ نظر ہوتا ہے ۔ جب تجارت حلال ہے تو سود کیوں حرام ہو ۔ حالانکہ انہیں معلوم نہیں کہ تجارت اور سود میں اخلاقی اور معاشی لحاظ سے زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ سود کی مقررہ رقم کسی کھٹکے اور اندیشے کے بغیر ہر حال میں سود خور کو ملتی رہتی ہے ۔ اس کے برخلاف تجارت میں نفع  اور نقصان دونوں کا احتمال رہتا ہے ۔ اور تاجر کو نقصان سے بچنے کے لیے محنت اور دماغ غرض سب کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے ۔ پھر تجارت ختم اور کم و بیش ہوتی رہتی ہے لیکن سود مدّت اور مہلت کے ساتھ ساتھ زیادہ ہوتا رہتا ہے ۔ یہاں تک کہ قرضدار کی حالت اکثر اوقات تباہی و بربادی کو پہنچ جاتی ہے ۔ 
سود کی حقیقت پر تھوڑا سا غور کرلیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ کس چیز کا معاوضہ ہوتا ہے ؟
 سوائے مفت خوری کی بدترین شکل کے آخر یہ اور کیا ہے ؟
 ان تمام خرابیوں کے پیشِ نظر الله تعالی نے انسان کی مصلحت اور بہبود کے لیے سود کو حرام قرار دیا ۔ 
مختصراً اس کی برائیاں یہ ہیں ۔ 
1. سود خور میں سنگدلی پیدا ہو جاتی ہے اس کی حرص بڑھتی ہے ۔
2. بلا مشقت مال ہاتھ آنے سے کاہلی اور سستی پیدا ہوجاتی ہے ۔
3. مفت کا مال خرچ کرنے میں بھی بے اعتدالی آجاتی ہے ۔ اور یہ مال عیاشیوں میں اڑایا جاتا ہے ۔
4. زر پرستی کی عادت پڑھ جاتی ہے ۔ 
5. بخل اور باہمی رقابت جنم لیتی ہے ۔ 
6. قرضدار کی خانہ خرابی اور بے عزتی اس کے سوا ہوتی ہے ۔ 

الله تعالی نے درگزر کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص اس نصیحت اور سود کی حرمت کا حکم سننے کے بعد باز آجائے اس کا پچھلا سود معاف ہوجائے گا ۔ لیکن جو باز نہ آیا وہ ہمیشہ دوزخ میں جلے گا ۔ 
دنیا نے سود کے نام بدل ڈالے ۔ لیکن اس کے نتائج اور خرابیاں کیسے بدل سکتی ہیں۔ ہمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خاص طور پر اس مسئلہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر ہم اس ملک میں سود ختم نہ کر سکے تو ہماری وجہ سے اسلام کے قانون پر حرف آئے گا اور ہم خود بھی اس کی خرابیوں سے نہ بچ سکیں گے ۔

( یہ درس قرآن ۱۹۵۵ ء۔  ۱۹۵۶ء میں شروع کی گئی ۔ آج ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی پاکستان میں سودی نظام چل رہا ہے ۔ بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے زندگی کے ہر شعبے میں جاری و ساری ہے ۔ اب تو عام لوگ اسے شک و شبہ سے بھی نہیں دیکھتے اور نہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ سود کے بارے میں الله کریم کے کس قدر سخت احکام ہیں ۔ حالانکہ بہت سے غیر مسلم ممالک اس بات کی حقیقت کو جان چکے ہیں کہ سود ایک لعنت ہے ۔ اور سود کی موجودگی میں غریب لوگوں کی بھلائی  اور فلاح ممکن نہیں ۔ اس لیے وہاں بلا سود بینکاری اور بلا سود قرضوں کے پروگرام شروع کیے جاتے ہیں ۔ ) 
الله کریم اربابِ اختیار کو ھدایت دے ۔ اور ہمیں سود کی لعنت اور اس کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

سورة بقرہ ۔ آیة 275

سود حرام ہے

الَّذِينَ ۔۔۔ يَأْكُلُونَ ۔۔۔ الرِّبَا ۔۔۔۔۔۔۔  لَا يَقُومُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   إِلَّا ۔۔۔۔۔۔ كَمَا 
جو لوگ ۔۔ وہ کھاتے ہیں ۔۔ سود ۔۔ نہیں وہ کھڑے ہوں گے ۔۔ مگر ۔۔ جیسے 
يَقُومُ ۔۔۔ الَّذِي ۔۔۔۔۔۔۔۔   يَتَخَبَّطُهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  الشَّيْطَانُ ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔۔۔۔۔  الْمَسِّ 
کھڑا ہوتا ہے ۔۔ وہ ۔۔ حواس باختہ کردیا اس کو ۔۔۔ شیطان ۔۔ سے ۔۔ چھو کر 
ذَلِكَ ۔۔۔ بِأَنَّهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔  قَالُوا ۔۔۔ إِنَّمَا ۔۔۔۔۔۔۔  الْبَيْعُ ۔۔۔ مِثْلُ ۔۔۔ الرِّبَا 
یہ ۔۔ اس لیے کہ وہ ۔۔ کہا انہوں نے ۔۔ بے شک ۔۔ تجارت ۔۔ مانند ۔۔ سود 
وَأَحَلَّ ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ الْبَيْعَ ۔۔۔۔۔۔۔  وَحَرَّمَ ۔۔۔ الرِّبَا ۔۔۔۔۔۔۔  فَمَن 
اور حلال کیا ۔۔ الله ۔۔ تجارت ۔۔ اور حرام کیا ۔۔ سود ۔۔ پس جو 
جَاءَهُ ۔۔۔۔۔۔۔   مَوْعِظَةٌ ۔۔۔ مِّن ۔۔۔۔۔۔۔۔  رَّبِّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فَانتَهَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    فَلَهُ 
آچکی اس کے پاس ۔۔ نصیحت ۔۔ سے ۔۔ اس کا رب ۔۔۔ وہ باز آگیا ۔۔ پس اس کے لیے 
مَا سَلَفَ ۔۔۔ وَأَمْرُهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ إِلَى ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔ وَمَنْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   عَادَ 
جو ہو چکا ۔۔ اوراس کا حکم ۔۔ طرف ۔۔ الله ۔۔ اور جو ۔۔ دوبارہ کرے 
فَأُولَئِكَ ۔۔۔ أَصْحَابُ ۔۔۔ النَّارِ ۔۔۔ هُمْ ۔۔۔ فِيهَا ۔۔۔ خَالِدُونَ 2️⃣7️⃣5️⃣
پس یہی لوگ ۔۔ صاحب ۔۔ آگ ۔۔ وہ ۔۔ اس میں ۔۔۔ ہمیشہ رہیں گے 

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ. 2️⃣7️⃣5️⃣

جو لوگ سود کھاتے ہیں قیامت کو نہیں اٹھیں گے مگر یوں جیسے وہ شخص اٹھتا ہے جس کے حواس کھو دئیے ہوں شیطان نے لپٹ کر  ان کی یہ حالت اس لیے ہوگی کہ انہوں نے کہا کہ سوداگری بھی تو ایسی ہے جیسے سود لینا  حالانکہ تجارت کو الله تعالی نے حلال کیا  اور سود کو حرام کیا پھر جسے اپنے رب کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ باز آگیا تو اس کے واسطے ہے جو ہوچکا اور اس کا معاملہ الله کے حوالے ہے اور جو کوئی پھر سود لے تو وہی لوگ دوزخی ہیں  وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔ 

اَلرِّبٰو ( سود ) ۔ اس لفظ کے لغوی معنی زیادتی اور اضافہ کے ہیں ۔ شریعت کی اصطلاح میں اس سے مراد ہے اصل قرض پر زیادتی ۔ یا بلا معاوضہ حاصل کرنا اور مال پر زیادتی چاہنا ۔ عربوں کے ہاں اس سے مراد وہ زائد رقم تھی جو قرض خواہ معاوضہ میں وصول کرتا تھا ۔ جسے آج کل سود کہتے ہیں ۔ بعض لوگوں نے اسے سود کی جگہ نفع  کہنا شروع کر دیا یوں لفظ بدل دینے سے حقیقت نہیں بدلتی ۔ 
مِنَ الْمَسّ ( لپٹ کر ) ۔ جس طرح "جن " کے لپٹنے سے انسان کے حواس جاتے رہتے ہیں ۔ 
مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّه ( اس کے ربّ کی نصیحت ) ۔ یعنی سود کے حرام ہونے کا حکم ۔
مَا سَلَفَ ( جو گزر چکا ) ۔ مقصد یہ ہے کہ سود کی حُرمت کے اعلان سے پہلے جو سود لیا دیا اس کا مواخذہ نہیں ہوگا ۔ باز پُرس اس وقت سے شروع ہو گی جب سے یہ واضح حکم آگیا ہے اور شدید طور پر ممانعت کر دی گئی ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

سورة بقرہ ۔ آیة 274

خیرات کا اجر

الَّذِينَ ۔۔۔  يُنفِقُونَ ۔۔۔۔۔۔  أَمْوَالَهُم ۔۔۔ بِاللَّيْلِ ۔۔۔۔۔۔۔   وَالنَّهَارِ 
جو لوگ ۔۔ وہ خرچ کرتے ہیں ۔۔ اپنے مال ۔۔ رات کو ۔۔ اور دن کو 
سِرًّا ۔۔۔ وَعَلَانِيَةً ۔۔۔۔۔۔۔  فَلَهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔   أَجْرُهُمْ ۔۔۔  عِندَ ۔۔۔۔۔۔۔   رَبِّهِمْ  
پوشیدہ ۔۔۔ اور ظاہر ۔۔ پس ان کے لیے ۔۔۔ ان کا اجر ۔۔ پاس ۔۔ ان کا رب 
 وَلَا خَوْفٌ ۔۔۔ عَلَيْهِمْ ۔۔۔ وَلَا ۔۔۔  هُمْ ۔۔۔۔ يَحْزَنُونَ  2️⃣7️⃣4️⃣
اور نہیں خوف ۔۔۔ ان پر ۔۔ اور نہیں ۔۔ وہ ۔۔ غمگین ہوں گے ۔

الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ  2️⃣7️⃣4️⃣

جو لوگ اپنے مال دن رات خرچ کرتے ہیں ظاہر اور پوشیدہ تو ان کے لیے ثواب ہے ان کے رب کے ہاں اور نہ ان پر ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے 

خَوْفٌ ( ڈر) ۔ یہ لفظ عام طور پر انہیں عربی معنٰی میں اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خوف مستقبل کے سلسلہ میں ہوتا ہے ۔ 
یَحْزَنُوْنَ ( وہ غمگین ہوں گے ) ۔ حزن اس کا مادہ ہے ۔ جس کے معنی غم اور الم ہیں ۔ حُزن ہمیشہ ماضی کے سلسلے میں ہوتا ہے ۔ مثلا انسان پر کوئی تکلیف دہ حادثہ ہو گزرا ہے ۔ وہ ماضی میں کسی غلطی اور خطا کا مرتکب ہوا ہے ۔ تو اسے ایک قسم کا رنج و ملال ہوگا ۔
اس آیت میں الله تعالی نے فرمایا ہے کہ جو لوگ الله کی راہ میں مال و دولت خرچ کرتے ہیں ۔ دن رات ضرورتمندوں کی ضروریات پوری کرتے  ہیں ۔ صبح و شام صدقات و خیرات سے غربا پروری کرتے ہیں اور ظاہر اور پوشیدہ اس نیکی میں لگے رہتے ہیں ۔ انہیں الله تعالی اجر وثواب سےمالامال فرمائے گا ۔ اور اپنے انعام و اکرام سے خوش کر دے گا ۔ 
یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ نیکی کا بدلہ اس دنیا میں بھی ملتا ہے اور آخرت میں بھی ۔ بزرگوں نے غالبا اس مفہوم کو ظاہر کرنے کے لیے " دہ در دنیا ستّر در آخرت " کا ملا جلا اردو فارسی محاورہ بنایا ۔ الله تعالی نے اپنے کلامِ پاک میں وعدہ فرمایا ہے کہ تمہیں پورا پورا اجر دیا جائے گا اور تم پر ہرگز کم نہ کیا جائے گا ۔ 
الله تعالی نے اس انعام کے علاوہ دو باتیں اور بھی فرمائی ہیں ۔ کہ ایسی نیکی رساں بندوں کو نہ ماضی کا غم ہوگا ۔ اور نہ مستقبل کا خوف ۔ یعنی انہیں اپنے ماضی کے اعمال و افعال پر کوئی افسوس نہ ہوگا ۔ اور اسی طرح وہ مستقبل کے بارے میں قطعی طور پر مایوس اور نا امید نہ ہوں گے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ


سورة بقرہ ۔ آیت 273

خیرات کے مستحق

لِلْفُقَرَاءِ ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ أُحْصِرُوا ۔۔۔۔۔۔  فِي ۔۔۔ سَبِيلِ ۔۔۔ اللَّهِ 
فقیروں کے لیے ۔۔۔ وہ ۔۔ گھیر لیے جائیں ۔۔ میں ۔۔ راستہ ۔۔ اللہ
لَا يَسْتَطِيعُونَ ۔۔۔۔۔۔۔  ضَرْبًا ۔۔۔  فِي ۔۔۔ الْأَرْضِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    يَحْسَبُهُمُ 
نہیں وہ طاقت رکھتے ۔۔۔ چلنا پھرنا ۔۔ میں ۔۔ زمین ۔۔ خیال کرتے ہیں ان کو 
الْجَاهِلُ ۔۔۔ أَغْنِيَاءَ ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  التَّعَفُّفِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    تَعْرِفُهُم 
جاہل ۔۔۔ دولتمند ۔۔ سے ۔۔۔ سوال نہ کرنا ۔۔ تو انہیں پہچانتا ہے 
بِسِيمَاهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   لَا يَسْأَلُونَ ۔۔۔ النَّاسَ ۔۔۔ إِلْحَافًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَمَا تُنفِقُوا 
ان کے چہروں سے ۔۔ نہیں وہ سوال کرتے ۔۔۔ لوگ ۔۔ لپٹ کر ۔۔ اور جو تم خرچ کرو گے 
مِنْ ۔۔۔ خَيْرٍ ۔۔۔ فَإِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔  بِهِ ۔۔۔ عَلِيمٌ 2️⃣7️⃣3️⃣
سے ۔۔ خیر ۔۔ پس بے شک ۔۔۔ الله ۔۔ اس کو ۔۔ جانتا ہے 

لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ 
فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ 2️⃣7️⃣3️⃣

(خیرات ) ان فقیروں کے لیے ہے جو الله کی راہ میں رُکے ہوئے ہیں  جو ملک میں چل پھر نہیں سکتے ناواقف ان کے سوال نہ کرنے سے مالدار سمجھتا ہے تو انہیں ان کے چہروں سے پہچانتا ہے وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے اور تم جو کام کی چیز الله کی راہ میں خرچ کرو گے بے شک الله اسے جانتا ہے ۔

اُحْصِرُوا ( رُکے ہوئے ) ۔ اس لفظ میں بہت گنجائش ہے یعنی گِھر جانا ، خواہ وقت کے لحاظ سےہو یا جسم کے لحاظ سے ۔ 
مراد وہ لوگ جو دین کے کسی کام میں گِھر گئے ہیں اور اب آزادی سے روزی نہیں کما سکتے مثلا الله کی راہ میں جہاد کرنے والے ۔ 
بعض مفسرین نے وہ لوگ بھی مراد لیے ہیں جو علومِ دین میں مشغول ہیں ۔ اور علم حاصل کرنے میں اس طرح لگے ہوتے ہیں کہ روزی کا سامان نہیں کرسکتے ۔ 
اَغْنِیَآء  ( مالدار ) ۔ یہ لفظ غنٰی سے بنا ہے ۔ اور اس کا واحد غنی ہے ۔ یعنی وہ جس کے پاس حاجت سے زیادہ مال موجود ہو ۔ 
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ صدقہ و خیرات کے اصل مستحق وہ لوگ ہیں جو الله کی راہ میں بند ہو کر چلنے پھرنے کھانے کمانے سے رُکے ہوئے ہیں اور کسی پر اپنی حاجت ظاہر نہیں کرتے ۔ جیسے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے دوست مثلا اصحابِ صفّہ نے گھر بار چھوڑ کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی صحبت اختیار کر لی تھی ۔ وہ علمِ دین سیکھنے لگ گئے ۔ اس طرح کچھ اصحاب مفسدوں اور فتنہ پردازوں کے خلاف  جہاد کرنے میں مشغول تھے ۔ یہ نیک بندے کسی سے سوال نہ کرتے تھے البتہ ان کی ضرورتمندی ان کے چہرے مہرے اور رنگ و روپ سےمعلوم کی جا سکتی تھی ۔ 
ہمیں چاہیے کہ آج بھی جو الله کی راہ میں جہاد کرنے اورعلمِ دین سیکھنے میں مشغول ہوں  ان کی مدد کریں ان کی حاجتیں پوری کریں۔ 
الله تعالی کا وعدہ ہے کہ تم جو مال و دولت میری راہ میں خرچ کرو گے اس کا اجر تمہیں پورا پورا مل جائے گا ۔ تمہاری کوئی قربانی میری نظروں سے پوشیدہ نہیں۔ 
یہاں بھی الله تعالی نےدولت کو لفظ " خیر " سے تعبیر کیا ہے ۔ اوران لوگوں کو نظرِ کرم کا خاص طور پر مستحق قرار دیا ہے جو لپٹ لپٹ کر پیچھے نہیں پڑتے ۔ بلکہ خود داری سے کام لیتے ہیں ۔ اور اپنی غُربت ظاہر نہیں ہونے دیتے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

سورة بقرہ آیت 272

خیرات کا پورا پورا اجر

لَّيْسَ ۔۔۔ عَلَيْكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ هُدَاهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔  وَلَكِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اللَّهَ 
نہیں ۔۔۔ آپ ﷺ پر ۔۔ ان کی ھدایت ۔۔۔ اور لیکن ۔۔۔ الله تعالی 
يَهْدِي ۔۔۔۔۔۔۔  مَن ۔۔۔۔۔۔۔  يَشَاءُ ۔۔۔۔۔۔۔۔   وَمَا تُنفِقُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   مِنْ ۔۔۔ خَيْرٍ 
وہ ھدایت دیتا ہے ۔۔۔ جس کو ۔۔ وہ چاہتا ہے ۔۔ اور جو کچھ تم خرچ کرو گے ۔۔۔ سے ۔۔ مال 
فَلِأَنفُسِكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَمَا تُنفِقُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  إِلَّا ۔۔۔ ابْتِغَاءَ ۔۔۔ وَجْهِ 
پس تمہاری جانوں کے لیے ۔۔۔ اور جو خرچ کرتے ہو ۔۔۔ مگر ۔۔ تلاش ۔۔ رضا 
اللَّهِ ۔۔۔ وَمَا تُنفِقُوا ۔۔۔  مِنْ ۔۔۔ خَيْرٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   يُوَفَّ 
الله ۔۔ اور جوکچھ تم خرچ کرتے ہو ۔۔ سے ۔ مال ۔۔ پورا لوٹایا جائے گا 
إِلَيْكُمْ ۔۔۔ وَأَنتُمْ ۔۔۔ لَا تُظْلَمُونَ 2️⃣7️⃣2️⃣
تمہاری طرف ۔۔ اور تم ۔۔۔ نہیں ظلم کیے جاؤ گے 

لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنفُسِكُمْ وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ. 2️⃣7️⃣2️⃣

اے نبی ﷺ انہیں راہ پر لانا آپ کے ذمہ نہیں لیکن الله جسے چاہے راہ پر لے آئے  اور تم جو کچھ مال خرچ کرو گے سو اپنے ہی لیے ہے جب تک کہ خرچ کرو گے صرف الله کی رضاجوئی کے لیے  اور جوکچھ مال خرچ کرو گے تمہیں پورا پورا ملے گا اور تمہارا حق نہ رہے گا ۔ 

خَیْرٌ ( مال) یہ لفظ شر کے مقابل ہے اور اس کے مفہوم میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کو انسان اچھا سمجھتا ہے ۔ مثلا عقل ، اخلاق ، تعلیم ، مال وغیرہ ۔ 
قرآن مجید میں مال کا لفظ کئی مقامات پر آیا ہے ۔ گویا اسلام مال و دولت کو بری چیز نہیں سمجھتا بلکہ اچھی اور خوب چیز بتاتا ہے ۔ اس لیے اسےلفظ خیر کے نام سے یاد کیا ہے ۔ برائی دولت میں نہیںبلکہ ناجائز طریق پر جمع کرنے ، جمع رکھنے اور ناجائز کاموں میں خرچ کرنے میں ہے ۔ 
ھُداھُم ( انہیں راہ پر لانا ) ۔ ھدایت ، ھادی ، مھتدی ایک ہی مادہ سے ہیں ۔ قرآن مجید کا یہ لفظ ایک جامع لفظ ہے ۔ جس کے معنی ہیں صحیح راہ پا لینا ، اس پر چلنا اور قائم رہنا ۔ تینوں أمور اس میں شامل ہیں ۔ 
یُوَفَّ ( پورا پورا دیا جائے گا ) لفظ وفا اس کا مادہ ہے ۔ جس کے معنی پورا کرنا ہیں ۔ 
ان آیات میں الله تعالی نے پھر اس بات کا اعلان فرمایا ہے کہ نبی اور نبی کے ماننے والوں کا فرض تبلیغ کرنا ہے ۔ ھدایت دینا اور مسلمان بنانا ان کا ذمہ نہیں۔ لہٰذا تبلیغ کا نتیجہ نکلے یا نہ نکلے اس کا خیال کیے بغیر اپنا کام جاری رکھنا چاہیے ۔ 
اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ ضروری نہیں ہم دولت صرف ایسے لوگوں پر خرچ کریں جو ہمارے پیسے کی وجہ سے دین قبول کرلیں بلکہ صدقہ و خیرات سے ہمارا مقصد صرف الله تعالی کی رضا اور خوشی ہونی چاہیے ۔ اور جوبھی ضرورتمند ہو اس کی ضرورت پوری کرنی چاہیے مشرک و کافر ، مؤمن و منافق میں تمیز نہ کی جائے ۔ ثواب اس لیے مل کر ہی رہے گا کہ تم محض الله تعالی کی رضا جوئی اور خوشنودی کے لیے  مال خرچ کرتے ہو ۔ الله تعالی نے وعدہ فرمایا ہے کہ اجر پورا پورا ملے گا ۔ 
ہمیں اس چیز کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے کہ جو مال بھی خرچ کریں اور کسی کو دیں اس سے مقصود الله کی خوشنودی ہو۔ اس سے ہٹ کر کسی اور کے نام سے منسوب کرنا 
بالکل ناجائز ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں