نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سورة بقرہ ۔ آیة 274

خیرات کا اجر

الَّذِينَ ۔۔۔  يُنفِقُونَ ۔۔۔۔۔۔  أَمْوَالَهُم ۔۔۔ بِاللَّيْلِ ۔۔۔۔۔۔۔   وَالنَّهَارِ 
جو لوگ ۔۔ وہ خرچ کرتے ہیں ۔۔ اپنے مال ۔۔ رات کو ۔۔ اور دن کو 
سِرًّا ۔۔۔ وَعَلَانِيَةً ۔۔۔۔۔۔۔  فَلَهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔   أَجْرُهُمْ ۔۔۔  عِندَ ۔۔۔۔۔۔۔   رَبِّهِمْ  
پوشیدہ ۔۔۔ اور ظاہر ۔۔ پس ان کے لیے ۔۔۔ ان کا اجر ۔۔ پاس ۔۔ ان کا رب 
 وَلَا خَوْفٌ ۔۔۔ عَلَيْهِمْ ۔۔۔ وَلَا ۔۔۔  هُمْ ۔۔۔۔ يَحْزَنُونَ  2️⃣7️⃣4️⃣
اور نہیں خوف ۔۔۔ ان پر ۔۔ اور نہیں ۔۔ وہ ۔۔ غمگین ہوں گے ۔

الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ  2️⃣7️⃣4️⃣

جو لوگ اپنے مال دن رات خرچ کرتے ہیں ظاہر اور پوشیدہ تو ان کے لیے ثواب ہے ان کے رب کے ہاں اور نہ ان پر ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے 

خَوْفٌ ( ڈر) ۔ یہ لفظ عام طور پر انہیں عربی معنٰی میں اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خوف مستقبل کے سلسلہ میں ہوتا ہے ۔ 
یَحْزَنُوْنَ ( وہ غمگین ہوں گے ) ۔ حزن اس کا مادہ ہے ۔ جس کے معنی غم اور الم ہیں ۔ حُزن ہمیشہ ماضی کے سلسلے میں ہوتا ہے ۔ مثلا انسان پر کوئی تکلیف دہ حادثہ ہو گزرا ہے ۔ وہ ماضی میں کسی غلطی اور خطا کا مرتکب ہوا ہے ۔ تو اسے ایک قسم کا رنج و ملال ہوگا ۔
اس آیت میں الله تعالی نے فرمایا ہے کہ جو لوگ الله کی راہ میں مال و دولت خرچ کرتے ہیں ۔ دن رات ضرورتمندوں کی ضروریات پوری کرتے  ہیں ۔ صبح و شام صدقات و خیرات سے غربا پروری کرتے ہیں اور ظاہر اور پوشیدہ اس نیکی میں لگے رہتے ہیں ۔ انہیں الله تعالی اجر وثواب سےمالامال فرمائے گا ۔ اور اپنے انعام و اکرام سے خوش کر دے گا ۔ 
یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ نیکی کا بدلہ اس دنیا میں بھی ملتا ہے اور آخرت میں بھی ۔ بزرگوں نے غالبا اس مفہوم کو ظاہر کرنے کے لیے " دہ در دنیا ستّر در آخرت " کا ملا جلا اردو فارسی محاورہ بنایا ۔ الله تعالی نے اپنے کلامِ پاک میں وعدہ فرمایا ہے کہ تمہیں پورا پورا اجر دیا جائے گا اور تم پر ہرگز کم نہ کیا جائے گا ۔ 
الله تعالی نے اس انعام کے علاوہ دو باتیں اور بھی فرمائی ہیں ۔ کہ ایسی نیکی رساں بندوں کو نہ ماضی کا غم ہوگا ۔ اور نہ مستقبل کا خوف ۔ یعنی انہیں اپنے ماضی کے اعمال و افعال پر کوئی افسوس نہ ہوگا ۔ اور اسی طرح وہ مستقبل کے بارے میں قطعی طور پر مایوس اور نا امید نہ ہوں گے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...