سورة بقرہ ۔ سود کی برائیاں ۔ متعلقہ آیة 275

سود کی برائیاں

سود کے حرام اور ناجائز ہونے والی آیت سے پہلے الله تعالی نے خیرات اور صدقات کی فضیلت بیان فرمائی ہے ۔ چونکہ خیرات اور صدقات سے غریبوں کے معاملات میں سہولت اور بے مروتی کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے کئی گناہ دور ہوجاتے ہیں ۔ اخلاق، مروت ، خیر اندیشی ، نفع رسانی اور خدمتِ خلق کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔ اس لیے اس کی اہمیت کھول کر بیان کی گئی ۔ 
اب سود کی حرمت کا بیان شروع ہوتا ہے ۔ یہ بالکل خیرات کی ضد ہے ۔ اگر خیرات سے مروت بڑھتی ہے تو سود سے ظلم ترقی کرتا ہے ۔ اسی لیے خیرات کی فضیلت کے بعد سود کی مذمت اور اس کی ممانعت کا ذکر ہوا ہے جو اپنی جگہ پر انتہائی مناسب اور برمحل ہے ۔ 
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن سود خور اپنی قبروں سے اٹھتے وقت سیدھے کھڑے نہ ہو سکیں گے ۔ بلکہ خبطیوں اور دیوانوں کی طرح گرتے پڑتے لڑکھڑاتے ہوئے اٹھیں گے ۔ بالکل یہی منظر دنیا میں بھی نظر آتا ہے ۔ مہاجن اور ساہوکار روپے کے پیچھے باؤلے بنے رہتے ہیں ۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے انہیں کوئی جن یا بھوت چمٹ گیا ہے ۔ ہر دم ان پر سود ہی کا فکر سوار رہتا ہے ۔ 
الله تعالی نے قیامت کے دن ایسے لوگوں کے اس حالت میں مبتلا ہونے کی وجہ بھی بیان کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح تجارت میں مالی نفع مقصود ہوتا ہے اسی طرح سود میں بھی مالی نفع ہی پیشِ نظر ہوتا ہے ۔ جب تجارت حلال ہے تو سود کیوں حرام ہو ۔ حالانکہ انہیں معلوم نہیں کہ تجارت اور سود میں اخلاقی اور معاشی لحاظ سے زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ سود کی مقررہ رقم کسی کھٹکے اور اندیشے کے بغیر ہر حال میں سود خور کو ملتی رہتی ہے ۔ اس کے برخلاف تجارت میں نفع  اور نقصان دونوں کا احتمال رہتا ہے ۔ اور تاجر کو نقصان سے بچنے کے لیے محنت اور دماغ غرض سب کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے ۔ پھر تجارت ختم اور کم و بیش ہوتی رہتی ہے لیکن سود مدّت اور مہلت کے ساتھ ساتھ زیادہ ہوتا رہتا ہے ۔ یہاں تک کہ قرضدار کی حالت اکثر اوقات تباہی و بربادی کو پہنچ جاتی ہے ۔ 
سود کی حقیقت پر تھوڑا سا غور کرلیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ کس چیز کا معاوضہ ہوتا ہے ؟
 سوائے مفت خوری کی بدترین شکل کے آخر یہ اور کیا ہے ؟
 ان تمام خرابیوں کے پیشِ نظر الله تعالی نے انسان کی مصلحت اور بہبود کے لیے سود کو حرام قرار دیا ۔ 
مختصراً اس کی برائیاں یہ ہیں ۔ 
1. سود خور میں سنگدلی پیدا ہو جاتی ہے اس کی حرص بڑھتی ہے ۔
2. بلا مشقت مال ہاتھ آنے سے کاہلی اور سستی پیدا ہوجاتی ہے ۔
3. مفت کا مال خرچ کرنے میں بھی بے اعتدالی آجاتی ہے ۔ اور یہ مال عیاشیوں میں اڑایا جاتا ہے ۔
4. زر پرستی کی عادت پڑھ جاتی ہے ۔ 
5. بخل اور باہمی رقابت جنم لیتی ہے ۔ 
6. قرضدار کی خانہ خرابی اور بے عزتی اس کے سوا ہوتی ہے ۔ 

الله تعالی نے درگزر کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص اس نصیحت اور سود کی حرمت کا حکم سننے کے بعد باز آجائے اس کا پچھلا سود معاف ہوجائے گا ۔ لیکن جو باز نہ آیا وہ ہمیشہ دوزخ میں جلے گا ۔ 
دنیا نے سود کے نام بدل ڈالے ۔ لیکن اس کے نتائج اور خرابیاں کیسے بدل سکتی ہیں۔ ہمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خاص طور پر اس مسئلہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر ہم اس ملک میں سود ختم نہ کر سکے تو ہماری وجہ سے اسلام کے قانون پر حرف آئے گا اور ہم خود بھی اس کی خرابیوں سے نہ بچ سکیں گے ۔

( یہ درس قرآن ۱۹۵۵ ء۔  ۱۹۵۶ء میں شروع کی گئی ۔ آج ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی پاکستان میں سودی نظام چل رہا ہے ۔ بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے زندگی کے ہر شعبے میں جاری و ساری ہے ۔ اب تو عام لوگ اسے شک و شبہ سے بھی نہیں دیکھتے اور نہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ سود کے بارے میں الله کریم کے کس قدر سخت احکام ہیں ۔ حالانکہ بہت سے غیر مسلم ممالک اس بات کی حقیقت کو جان چکے ہیں کہ سود ایک لعنت ہے ۔ اور سود کی موجودگی میں غریب لوگوں کی بھلائی  اور فلاح ممکن نہیں ۔ اس لیے وہاں بلا سود بینکاری اور بلا سود قرضوں کے پروگرام شروع کیے جاتے ہیں ۔ ) 
الله کریم اربابِ اختیار کو ھدایت دے ۔ اور ہمیں سود کی لعنت اور اس کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں