نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سورة بقرہ آیة 271 -272

خیرات کیسے کی جائے

وَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   أَنفَقْتُم ۔۔۔  مِّن ۔۔۔ نَّفَقَةٍ ۔۔۔ أَوْ ۔۔۔۔۔۔۔۔  نَذَرْتُم 
اور جو ۔۔۔ تم خرچ کرو گے ۔۔۔ سے ۔۔ خرچ ۔۔ یا ۔۔ منت دو تم 
مِّن ۔۔۔۔۔۔  نَّذْرٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فَإِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   يَعْلَمُهُ 
سے ۔۔ کوئی منت ۔۔۔ پس بے شک ۔۔ اللہ تعالی ۔۔۔ جانتا ہے اس کو 
وَمَا ۔۔۔ لِلظَّالِمِينَ ۔۔۔ مِنْ ۔۔۔ أَنصَارٍ 2️⃣7️⃣0️⃣
اور نہیں ۔۔ ظالموں کے لیے ۔۔۔ سے ۔۔۔ مددگار 

إِن ۔۔۔ تُبْدُوا ۔۔۔ الصَّدَقَاتِ ۔۔۔۔۔۔۔۔  فَنِعِمَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔  هِيَ 
اگر ۔۔۔ تم ظاہر کرو ۔۔۔ صدقات ۔۔۔ پس اچھی بات ہے ۔۔۔ یہ 
وَإِن ۔۔۔۔۔۔۔۔  تُخْفُوهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔  وَتُؤْتُوهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   الْفُقَرَاءَ 
اور اگر ۔۔۔ تم چھپاؤ ان کو ۔۔۔ اور تم دے دو ان کو ۔۔۔ فقراء 
فَهُوَ ۔۔۔ خَيْرٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔   لَّكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَيُكَفِّرُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   عَنكُم ۔۔۔ مِّن 
پس وہ ۔۔۔ بہتر ۔۔۔ تمہارے لیے ۔۔۔ اور وہ دور کردے گا ۔۔۔ تم سے ۔۔۔ سے 
سَيِّئَاتِكُمْ ۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔ بِمَا ۔۔۔ تَعْمَلُونَ ۔۔۔۔ خَبِيرٌ 2️⃣7️⃣1️⃣
برائیاں تمہاری ۔۔۔ اور الله ۔۔۔ اس سے جو ۔۔ تم کرتے ہو ۔۔۔ خبردار ہے 

وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ 2️⃣7️⃣0️⃣

اور تم جو خیرات تقسیم کرو گے یا کوئی منت قبول کرو گے تو بے شک الله تعالی کو سب معلوم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔ 

إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ 2️⃣7️⃣1️⃣

اگر خیرات ظاہر کرکے دو تو کیا ہی اچھی بات ہے اور اگر اسے چھپاؤ اور دو فقیروں کو تو وہ تمہارے حق میں بہتر ہے  اور وہ تمہارے گناہ دور کردے گا اور الله تمہارے کاموں سے خوب خبردار ہے ۔

نَذْرٍ ( منت ) ۔ فقہ میں اس کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ کسی مراد کے پورے ہونے پر اپنے اوپر کوئی چیز لازم کر لینا جو واجب نہ ہو ۔ ایک مرتبہ نذر مان لینے کے بعد اس کو پورا کرنا واجب اور ضروری ہوجاتا ہے ۔ 
اَلْفُقَرَآءُ ( فقیروں ، حاجتمندوں ) ۔ اس کی واحد فقیر ہے ۔ جس کے معنی ضرورتمند اور حاجتمند ہوتے ہیں ۔ اردو میں عام طور پر الله والے درویش کو اور گداگر ( مانگنے والے ) دونوں کو فقیر کہا جاتا ہے ۔ قرآن مجید میں ایسے محتاج کو لفظ فقیر سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کے اسباب معیشت بند ہو گئے ہوں ۔ یعنی اس پر غربت چھا گئی ہو ۔ 
اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہم جو کچھ بھی الله سبحانہ وتعالی کی راہ میں خرچ کریں ۔ یا نذر مانیں وہ سب کچھ الله تعالی کی نگاہ میں ہے ۔ ناجائز کام کی نیت رکھنا ، ناجائز جگہ نذر ماننا یا ناجائز موقع پر خرچ کرنے کا ارادہ رکھنا اپنے اوپر ظلم کرنا ہے ۔ اور ایسے شخص کا کوئی حامی اور مددگار نہ ہوگا ۔ اور نہ اس کا کام الله تعالی کے ہاں مقبول ہوگا ۔ 
اس سبق کی دوسری آیت میں الله تعالی نے فرمایا ہے کہ تم صدقات و خیرات خواہ چھپا کر دو یا ظاہر کرو ۔ الله تعالی پوری طرح سے اس سے آگاہ ہے ۔ اگر یہ خوف ہوکہ لوگ ریاکاری اور دکھلاوا سمجھیں گے تو نیکی چھپا کر کیا کرو ۔ اور اگر یہ خیال ہو کہ لوگوں کو بھی ترغیب دی جائے تو سب کے سامنے دو ۔ بہر حال نیکی کا قبول ہونا نیت پر موقوف ہے ۔ چھپا کر اس لیے خرچ کرنا کہ لینے والے کو شرم محسوس نہ ہو ۔ یا ظاہر طور پر اس لیے خرچ کرنا کہ اوروں کو بھی شوق ہو ۔ دونوں بہتر ہیں ۔ لیکن ہر لحاظ سے موقع اور 
مصلحت کا لحاظ اور نیت کی درستی ضروری ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...