مسلم دنیا میں نشر و اشاعت و طباعت کا آغاز

 مسلم دنیا میں نشر و اشاعت و طباعت کا آغاز اور پندرھویں صدی میں گٹن برگ کا پرنٹنگ پریس
انٹرنیشنل ببلوگرافک اور لائبریری کنسلٹنٹ جیوفری روپر کی تحقیق

2008



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جیوفری روپر اصل ماخذ پر تحقیق کے نتائج بیان کرتے ہوئے بتاتے  ہیں کہ ابتدائی طباعت شدہ عربی دستاویزات میں  کچھ بہت نفیس ڈیزائن ملتے ہیں جن میں خطاطی کے ہیڈ پیس، ٹرانسورس لیٹرنگ، جیومیٹرک پینلز، گول گول اور رنگ کا استعمال شامل ہے۔ مصنف نے مختصراً اس اہم دریافت کو تحریر  کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ 


"مسلمان گٹن برگ سے تقریباً پانچ صدیوں پہلے سے طباعت کے ہنر پر عمل پیرا تھے"۔


مینز کے 15ویں صدی کے جرمن کاریگر جوہانس گٹن برگ کو اکثر طباعت کے فن اور دستکاری کی ایجاد کا سہرا دیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے انسانی رابطے اور علم کے جمع کرنے میں ایک زبردست انقلاب برپا کیا، لیکن 

کیا یہ واقعی پرنٹنگ کا کام   15ویں صدی کے یورپ میں "ایجاد" ہوا تھا؟


ایسا لگتا ہے کہ گٹن برگ  پرنٹنگ پریس وضع کرنے والا پہلا شخص تھا، لیکن خود پرنٹنگ، یعنی کسی متن کی ایک سے زیادہ کاپیاں بنا کر اسے ایک اوپر کی سطح سے دوسری پورٹیبل سطحوں (خاص طور پر کاغذ) پر منتقل کرنا بہت پرانا عمل ہے۔ چینی اسے چوتھی صدی کے اوائل میں کر رہے تھے، اور ہمارے لیے سب سے پرانی تاریخ کا مطبوعہ متن 868 کا ہے: 

ڈائمنڈ سترا، بدھ مت کے متن کا چینی ترجمہ جو اب برٹش لائبریری میں محفوظ ہے ۔

جس بات سے بہت کم لوگ واقف ہیں وہ یہ ہے کہ 100 سال سے کچھ زیادہ عرصہ پہلے سے عرب مسلمان بھی نصوص چھاپ رہے تھے جن میں قرآن کے حوالے بھی شامل تھے۔ انہوں نے کاغذ سازی کے چینی دستکاری کو پہلے ہی قبول کر لیا تھا، اسے تیار کیا تھا اور اسے مسلم سرزمینوں میں بڑے پیمانے پر اپنایا تھا۔ اس کی وجہ سے مخطوطات کی تیاری میں بڑی ترقی ہوئی۔   ایک قسم کا متن  جسے خاص طور پر بڑے پیمانے پر تقسیم کیا گیا  یہ دعاؤں، ترانے، قرآنی اقتباسات اور خدا کے "خوبصورت ناموں" کا نجی عقیدتی مجموعہ تھا، جس کی مسلمانوں، امیروں میں بہت زیادہ مانگ تھی۔ اور غریب، تعلیم یافتہ اور ان پڑھ۔ وہ خاص طور پر اسے تعویذ کے طور پر استعمال کرتے تھے، جو پہنا جاتا تھا یا اکثر لپیٹ کر لاکٹ میں بند کر دیا جاتا تھا۔

چنانچہ فاطمی مصر میں، یہ تکنیک اختیار کی گئی کہ ان تحریروں کو کاغذ کی پٹیوں پر چھاپ دیا جائے، اور بڑے پیمانے پر طلب کو پورا کرنے کے لیے انہیں متعدد کاپیوں میں فراہم کیا جائے۔

 ماہرین آثار قدیمہ کو فوسٹاٹ (پرانے قاہرہ) میں کھدائی کے دوران کئی چیزیں ملی ہیں، اور آثار قدیمہ کے تناظر نے ان کی تاریخ 10ویں صدی تک بتائی ہے۔ دیگر نمونے مصر کے مختلف مقامات سے حاصل ہوئے، جہاں خشک آب و ہوا نے انہیں محفوظ رکھنے میں مدد کی ۔ عربی رسم الخط کا جو انداز استعمال کیا گیا وہ کوفی کے آخری اور مختلف کرسیو نسخ اور مملوک دور (13ویں-16ویں صدی) میں استعمال ہونے والے دیگر اسلوب سے  مختلف ہے۔ ایک عمدہ قدیم نمونہ  15 ویں صدی کے اطالوی آبی نشان والے کاغذ پر چھپی تحریر ہے۔ چنانچہ مسلم طباعت تقریباً 500 سال تک جاری رہی۔

 ہم نہیں جانتے کہ آیا اس نے یورپ میں پرنٹنگ کو اپنانے پر اثر انداز کیا ہو گا: اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، لیکن اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر جیسا کہ ابتدائی یورپی مثالیں بلاک پرنٹس تھیں۔ یہاں تک کہ یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اطالوی لفظ tarocchi، جس کا مطلب ہے ٹیرو کارڈز (جو یورپ میں قدیم ترین بلاک پرنٹ شدہ نوادرات میں سے تھے)، عربی  لفظ ترش سے ماخوذ ہو سکتا ہے ۔ لیکن یہ ایک انتہائی قیاس آرائی پر مبنی نظریہ ہے، اور اسے قبول کرنے سے پہلے مزید شواہد درکار ہوں گے۔

ان میں سے کچھ پرنٹ شدہ دستاویزات کافی نفیس ڈیزائن دکھاتی ہیں جن میں خطاطی کے ہیڈ پیس، ٹرانسورس لیٹرنگ، جیومیٹرک پینلز، گول گول اور رنگ کا استعمال شامل ہوتا ہے۔ اسکرپٹ اسٹائل کی بھی بہت بڑی قسم ہے۔

ان عربی مطبوعہ ٹکڑوں کے تقریباً ساٹھ نمونے  یورپی اور امریکی لائبریریوں اور عجائب گھروں میں موجود ہیں، اور خود مصر میں ایک نامعلوم کثیر  تعداد ہے۔ ایک نمونہ ، نجی ہاتھوں میں، افغانستان، یا ایران میں بھی ہو سکتا ہے، جہاں تاریخی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ کاغذی کرنسی منگول دور میں بھی چھپی تھی۔ تاہم، مطبوعہ تحریروں کی تیاری کے حوالے سے بہت کم تاریخی یا ادبی حوالہ جات ہیں۔

 10ویں اور 14ویں صدی کی عربی نظموں میں تعویذ کی کاپیاں تیار کرنے کے لیے ترش کے استعمال سے متعلق صرف دو اشارے ہیں۔ یہ تجویز کیا گیا ہے کہ یہ غیر کلاسیکی عربی اصطلاح کندہ شدہ یا repoussé حروف کے ساتھ ٹن پلیٹوں کی نشاندہی کرتی ہے، جس سے پرنٹ شدہ نقوش بنائے گئے تھے۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ چینی طرز کے لکڑی کے بلاک استعمال کیے گئے ہوں۔

اسلامی تہذیبی ورثہ



 صحیح تکنیک اب بھی نامعلوم ہے.

جس چیز میں کوئی شک نہیں وہ یہ ہے کہ مسلمان گٹن برگ سے تقریباً پانچ صدیوں پہلے تک طباعت سے واقف تھے اور اشاعت  کے ہنر پر عمل پیرا تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر جیفری روپر ایک بین الاقوامی کتابیات اور لائبریری کنسلٹنٹ ہیں، جو لندن میں انسٹی ٹیوٹ فار دی سٹڈی آف مسلم تہذیبوں اور دیگر علمی اداروں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ڈرہم یونیورسٹی اور قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی، وہ 1982 سے 2003 تک کیمبرج یونیورسٹی میں اسلامی کتابیات یونٹ کے سربراہ اور انڈیکس اسلامک کے ایڈیٹر رہے، جو کہ موجودہ جامع کتابیات اور تمام پہلوؤں پر اشاعتوں کے لیے تلاش کا بڑا آلہ ہے۔  وہ الفرقان فاؤنڈیشن کے ورلڈ سروے آف اسلامک مینو سکرپٹس کے ایڈیٹر، مڈل ایسٹ لائبریریز کمیٹی (MELCOM-UK) کے چیئرمین اور مختلف حوالہ جاتی کاموں میں معاون بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے مسلم دنیا میں کتابیات اور طباعت اور اشاعت کی تاریخ پر وسیع پیمانے پر تحقیق کی ہے،اس پر لکھا ہے اور لیکچرز دیے ہیں اور کیمبرج یونیورسٹی کی لائبریری اور مینز کے گٹن برگ میوزیم میں اس موضوع پر نمائشیں کروائی ہیں، آکسفورڈ کمپینین ٹو دی بک کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر  رہے،  ان  کی اشاعتوں کی ایک جامع فہرست، اس مضمون کے آخر میں دی گئی ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( مدینہ کلیکشن میں عربی بلاک پرنٹ۔ دستاویز M.2002.1.370۔ لاس اینجلس میوزیم آف آرٹ، مدینہ کلیکشن آف اسلامک آرٹ، کیملا چاندلر فراسٹ کا تحفہ۔ لاس اینجلس کاؤنٹی میوزیم آف آرٹس کے کاپی رائٹ۔ رچرڈ ڈبلیو بلیٹ سے دوبارہ تیار کیا گیا، "قرون وسطی عربی ترش: عربی طباعت کی تاریخ کا ایک بھولا ہوا باب"، جرنل آف دی امریکن اورینٹل سوسائٹی 107 (1987)، صفحہ۔ 437.)

۔۔۔۔

نزہت وسیم 

ماخذو حوالہ


https://muslimheritage.com/muslim-printing-before-gutenberg/

سلام اور السلام علیکم میں فرق ۔۔۔عابد قائم خانی

قرآن کریم میں سلام علیکم اور السلام علیکم کے درمیان فرق
____________________________________________________
قرآن میں "سلام" کا استعمال
____________________________________________________
سورہ انعام 
6:54
وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
سورۃ الاعراف 
7:46
ۚ وَنَادَوْا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَن سَلَامٌ عَلَيْكُمْ
سورۃ یونس
10:10
وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ ۚ
سورۃ ھود
11:69
وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَىٰ قَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ
سورۃ رعد
13:24
سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ
سورۃ مریم
19:47
قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ
سورۃ یاسین
36:58
سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ
سورۃ زمر
39:73
وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ
سورۃ واقعہ
56:26
إِلَّا قِيلًا سَلَامًا سَلَامًا
جنت میں ان کا کلام سلام سلام ہے۔
___________________________________________________
اوپر درج قرآنی آیات سے معلوم ہوا کہ سلام کا استعمال آپس میں ایک دوسرے کو سلامتی دینے کیلئے استعمال ہوتا ہے اور نیچے درج قرآنی آیات کے مطابق ایک دوسرے کو دعا دینے کے لئے السلام کا استعمال ہوتا ہے۔ اس لئے ہمیں قرآنی آیات کے مطابق سلام اور السلام کا استعمال کرنا چاہیے۔ 
____________________________________________________
سورۃ مریم
19:33
وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا
سورۃ طہ
20:47
ۖ وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ
سورۃ یونس
10:25
وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَىٰ دَارِ السَّلَامِ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
سورۃ نساء 
4:94
وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا 
اور جو شخص تم سے السلام علیک کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو۔
______________________________________________________________________
الوداع کے لئے سلام کا استعمال
______________________________________________________________________
سورۃ قصص
28:55
وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ
سورۃ فرقان
25:63
وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا
اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں
_________________________________________________________________________
انبیاء پر اللہ کا سلام
________________________________________________________________________
سورۃ صفات
37:79
سَلَامٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ
سورۃ صفات
37:109
سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ
سورۃ صفات
37:120
سَلَامٌ عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ
سورۃ صفات
37:130
سَلَامٌ عَلَىٰ إِلْ يَاسِينَ
سورۃ مریم
19:15
وَسَلَامٌ عَلَيْهِ
سورۃ صفات
37:181
وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ
اللہ کا صفاتی نام السلام بھی ہے۔ 
_____________________________________________________
سورۃ حشر
59:23
هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ
وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بادشاہ (حقیقی) پاک ذات (ہر عیب سے) سلامتی امن دینے والا(السلام) 
_____________________________________________________
یعنی "السلام" کا معنی اللہ کا سلام بھی ہے اور سلامتی اور امن دینے والا بھی ہے۔

اور جب تمہارے پاس ایسے لوگ آیا کریں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو (ان سے) "سلام علیکم" کہا کرو خدا نے اپنی ذات (پاک) پر رحمت کو لازم کرلیا ہے کہ جو کوئی تم میں نادانی سے کوئی بری حرکت کر بیٹھے پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور نیکوکار ہوجائے تو وہ بخشنے والا مہربان ہے۔

۔ تو وہ اہل بہشت کو پکار کر کہیں گے کہ "سلام علیکم" ۔

اور آپس میں ان کی پکار "سلامٌ" ہوگی

اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو "سلام" کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) "سلام" کہا۔

سلامٌ علیکم (یہ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے اور عاقبت کا گھر خوب (گھر) ہے

ابراہیم نے سلام علیک کہا

پروردگار مہربان کی طرف سے سلام کہا گیا

تو اس کے داروغہ ان سے کہا کہ تم پر سلام ہو

اور جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا مجھ پر السلام (ورحمت) ہے

اور جو ہدایت کی بات مانے اس پر اللہ کی سلامتی ہو

اور خدا سلامتی کے گھر"بیت اللہ" کی طرف بلاتا ہے۔ اور جس کو چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے

اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کو ہمارے اعمال اور تم کو تمہارے اعمال۔ تم کو سلام۔ ہم جاہلوں کے خواستگار نہیں ہیں

یعنی) تمام جہان میں (کہ) نوح پر سلام

کہ ابراہیم پر سلام ہو

کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام

کہ اِل یاسین پر سلام

ان یحيی پر سلام

اورتمام پیغمبروں پر سلام

----------------------------------

سورۃ فاتحہ کے بعد قراءت کا بیان

سورۃ فاتحہ کے بعد تلاوت کا بیان 

نماز میں قرأت کی ترتیب یوں ہے کہ سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد کوئی دوسری سورت پڑھنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم عام طورپر لمبی قراءت فرماتے تھے لیکن کسی عذر جیسے سفر، کھانسی یا بیماری کے سبب سے مختصر تلاوت بھی فرمائی ہے، 
علاوہ ازیں دورانِ نماز کسی بچے کے رونے کی آواز آ جاتی تو قراءت مختصر کر کے رکوع میں چلے جاتے تا کہ اس کی ماں کو تکلیف نہ ہو کیونکہ اس وقت عورتیں بھی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے آیا کرتی تھیں۔ 
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایک دن فجر کی نماز دو چھوٹی سورتیں پڑھ کر نہایت اختصار کے ساتھ پڑھائی۔ صحابہ نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! آپ نے (آج)ہلکی نماز کیوں پڑھائی؟"
فرمایا:
سَمِعْتُ بُكَاءَ صَبِيٍّ فَظَنَنْتُ أَنَّ أُمَّهُ مَعَنَا تُصَلِّي فَأَرَدْتُ أَنْ أُفْرِغَ لَهُ أُمَّهُ
"میں نے ایک بچے کے رونے کی آواز سنی تو خیال کیا کہ اس کی ماں ہمارے ساتھ نماز پڑھ رہی ہو گی تو میں چاہا کہ اس کے لیے اس کی ماں کو جلد فارغ کر دوں"
(مسند احمدمسند انس بن مالک، )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا عام معمول یہ تھا کہ جب کوئی سورت شروع کرتے تو اسی رکعت میں اسے مکمل فرماتے تھے۔
 ایک رکعت میں مکمل سورت پڑھنا اور ہر رکعت کو ایک سورت تک محدود رکھنا افضل ہے اگرچہ اس کا کچھ حصہ پڑھ لینے سے بھی نماز ہو جاتی ہے۔ 
حدیث میں ہے
أَعْطُوا كُلَّ سُورَةٍ حَظَّهَا مِنْ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
"ہر سورۃ کو رکوع و سجود (یعنی نماز) میں سے اس کا حصہ دو"
(مسند احمد مسند البصریین حدیث من سمع النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم، صحیح و ضعیف الجامع الصغیر حدیث نمبر 1934)
(
دوسری حدیث میں ہے:
لِكُلِّ سُورَةٍ رَكْعَةٌ
"ہر ایک سورت ایک رکعت کے لیے ہے"
(شرح معانی الآثار للطحاری کتاب الصلاۃ باب جمع السور فی الرکعۃ)
یعنی ہر رکعت میں ایک مکمل سورت پڑھو تا کہ اس کے ذریعے اس رکعت کا حصہ پورا ہو جائے۔
لیکن یہ حکم صرف استحباب کے لیے ہے کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک ہی سورت دو رکعتوں میں مکمل کی اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ جو سورت پہلی رکعت میں پڑھی دوسری رکعت میں بھی اسی کی تلاوت فرمائی جبکہ ایک رکعت میں ایک سے زائد سورتیں پڑھنابھی ثابت ہے۔
اس سلسلے میں ایک انصاری صحابی کا واقعہ ملتا ہے جو مسجد قباء میں جماعت کروایا کرتے تھے ۔ ان کا معمول تھا کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد کوئی بھی دوسری سورت پڑھنے سے قبل "قل ھو اللہ احد" یعنی سورۃ الاخلاص پڑھا کرتے تھے۔ ان کے ساتھیوں نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا "کیا آپ کے خیال میں صرف اس (سورۃ الاخلاص) کی تلاوت کافی نہیں کہ آپ اسے پڑھنے کے بعد کوئی دوسری سورت ملانا ضروری سمجھتے ہیں؟ 
اسی کو پڑھا کریں یا پھر اسے چھوڑ کر کوئی دوسری سورت پڑھ لیا کریں۔
" انہوں نے کہا "میں تو اس کو نہیں چھوڑ سکتا، تمہیں اسی حالت میں میری امامت اگرپسند ہے تو ٹھیک ورنہ میں امامت چھوڑ دیتا ہوں"۔
 مقتدی انہیں اپنے میں سب سے افضل سمجھتے تھے اور کسی دوسرے کی امامت انہیں ناپسند تھی۔
 لہٰذا معاملہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس لے جایا گیا تو انہوں نے اس صحابی سے دریافت فرمایا:
يَا فُلَانُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَفْعَلَ مَا يَأْمُرُكَ بِهِ أَصْحَابُكَ وَمَا يَحْمِلُكَ عَلَى لُزُومِ هَذِهِ السُّورَةِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ
"اے فلاں! تم اپنے ساتھیوں کی بات کیوں نہیں تسلیم کرتے اور کیوں ہر رکعت میں اس سورت کو لازمی پڑھتے ہو"؟
انہوں نے عرض کیا:
"مجھے اس (سورت) سے محبت ہے"
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
حُبُّكَ إِيَّاهَا أَدْخَلَكَ الْجَنَّةَ
" اس (سورت) سے تیری محبت تجھے جنت میں داخل کر دے گی"
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب الجمع بین السورتین فی الرکعۃ۔ ۔ ۔۔)
 
ایک رکعت میں سورۂ عصر اور دوسری رکعت میں سورۂ اخلاص پڑھنا بلا کراہت جائز ہے۔ 
 فرض نماز میں قرآن مجید کی ترتیب کے مطابق قرأت کرنا ضروری ہے، اس کے خلاف کرنا مکروہ ہے، البتہ نماز ہو جائے گی۔ اگر فرض نماز کی دونوں رکعتوں میں پڑھی جانے والی سورتوں کے درمیان کسی ایسی ایک سورت کا فاصلہ دیا گیا جس سے دو رکعت نہیں بن سکتیں ۔۔
جیسے پہلی رکعت میں سورۂ اخلاص اور دوسری رکعت میں سورۂ ناس پڑھنا تو یہ مکروہ ہو گا، ہاں ایسی سورت کا فاصلہ دیا جس سے دو رکعت بن سکتی ہیں جیسے پہلی رکعت میں سورہ ضحیٰ اور دوسری رکعت میں سورہ ٔ تین پڑھنا یا ایک سے زائد سورت کا فاصلہ دیا جیسے پہلی رکعت میں سورۂ کافرون اور دوسری رکعت میں سورۂ اخلاص پڑھی تو بلا کراہت جائز ہو گا۔ 
اگر کسی شخص کو صرف ایک ہی سورت یاد ہو، تو دونوں رکعتوں میں اسے  دوبارہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں،لیکن اگر اور سورتیں بھی یاد ہوں تو فرض نماز میں جان بوجھ کر دورکعت میں ایک ہی سورت کا  دوبارہ پڑھنا مکروہ ہے، اگر بھولے سے اس طرح کر لیا تو مکروہ نہیں ہے البتہ نوافل میں اس کی گنجائش ہے۔
 واللہ اعلم

انسان کی حقیقت ہی کیا ہے ؟

تلک امة قد خلت  

یہ ایک حقیقت ہے کہ آخری سانس تک انسان اپنی موت سے آگاہ نہیں ہوتا ۔۔۔ بم بلاسٹ سے تھوڑی دیر پہلے کیپٹن مبین کی جو فوٹیج ہے اس میں وہ بڑے سکون اور فخر سے سینہ تانے بڑے اطمینان سے مذاکرات کے لئے آرہے ہیں ۔۔۔ انہیں دیکھ کر ذرا بھی محسوس نہیں ہوتا کہ اس شخص کو چند لمحوں کے بعد آنے والی موت سے ذرا بھی آگاہی ہے ۔ دوسروں کو " یہاں دہشت گردی کا خطرہ ہے " کہنے والا قطعا نہیں جانتا تھا کہ وہ خود اس دہشت گردی کا سب سے پہلا شکار بنے گا ۔ موت اور زندگی پر الله مالک الملک کا مکمل اختیار ہے ۔ جس کو کوئی کسی حال میں نہ تو چیلنج کر سکتا ہے اور نہ اس سے انکار کر سکتا ہے ۔ 

موت کے بعد کا معاملہ بہت سخت ہے ۔۔۔ بہت گھمبیر ہے ۔ اتنی شان سے چلنے والے ۔۔۔ اپنے لباس ، اپنے عہدے پر فخر کرنے والے ۔۔۔ اپنی حیثیت کا مکمل ادراک رکھنے والے اس کو منوانے والے ایک ہی پل میں خاک نشیں ہو جاتے ہیں ۔ دنیا کا ہر معاملہ ، ساری کی ساری عزت ، دولت ، شہرت ، رشتے ناطے ، تعلقات ، عہدہ غرض ہر چیز ایک ہی لمحے میں ختم ہو جاتی ہے ۔ 

اس شخص کی بے بسی اور بے سرو سامانی کا مشاہدہ ہر آنکھ کر لیتی ہے جو اپنے لباس پر ایک داغ برداشت نہیں کرتا تھا ۔ 

اس شخص کے اعمال پر ہر شخص بحث شروع کر دیتا ہے ۔ جس کے بارے میں کسی کو سوچنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی ۔ 


وارث مان نہ کر تو وارثاں تے 

رب بے وارث کر کے ماردا ای


سڑک پر لاوارثوں کی طرح حقیر ہو کر اس کا بے جان  پڑا ہوا بدن  ۔۔۔۔ کیا ہر انسان کو اس کی اوقات یاد نہیں دلا دیتا ۔ 

آنکھ کے بند ہوتے ہی انسان لاش میں بدل جاتا ہے ۔ 

روح کے نکلتے ہی میت کا روپ دھار لیتا ہے ۔ 

اس کے سارے مان سمان ۔۔ عہدے رتبے ختم ہوجاتے ہیں ۔ اب کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں رہتی ۔۔ اب یہ کسی کی سفارش کے قابل نہیں رہتا ۔ اب اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا ۔

تو ۔۔۔!!! 

کیاہم اس کے بارے میں ہر بات کہنے کے لئے آزاد ہیں ۔۔۔؟ 

ایک لمحہ رُک کر سوچئے ۔۔۔ ! اس معاملہ میں ہمارا دین ہمیں کیا سکھاتا ہے ۔۔۔؟ ہمارے آقا و مولا نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کا کیا طریقہ تھا ۔۔۔ ؟ 

مدینہ طیبہ میں کھُلے اور واضح منافق عبد الله بن ابی سلول کے مرنے پر بھی آپ اس کی مخالت میں کچھ نہیں فرماتے بلکہ اس کو پہنانے کے لئے اپنا کرتہ عنایت کرتے ہیں ۔ 

آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے

                                                                                                   "لا تسبو الاموات فانھم قد افضوا الی ما قدموا
مردوں کو گالی نہ دو ، اس لئے کہ جو کچھ اچھے برے اعمال وہ آگے بھیجے اس تک پہنچ گئ 
 صحیح بخاری :1393 
اسی طرح  ایک مجلس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے سوال کیا 
 یزید بن قیس کا – اس پر اللہ کی لعنت ہو – کیا حال ہے ؟
 (واضح رہے کہ یہ یزید وہی شخص ہے جو سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والوں کا سردار تھا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو کھلے عام برا بھلا کہتا تھا)    
لوگوں نے جواب دیا : وہ تو مرگیا ۔ یہ سن کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا استغفار پڑھنے لگیں ، لوگوں نے کہا : ابھی تک تو آپ اسے بُرا کہہ رہی تھیں اور اب استغفار پڑھ رہی ہیں ، اس کا کیا مطلب ہے ؟ 
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے 
 مردوں کو برا بھلا نہ کہو اس لئے کہ وہ اپنے کئے کو پہنچ گئے ہیں ۔
اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے 
" لا تسبوا الاموات فتوذوا به الاحیاء "
" مردوں کو گالی نہ دو کہ اس سے زندوں کو تکلیف پہنچے "
 سنن ابو داود :1983 
اس دنیا سے جانے والے تو اپنے اعمال لے کر الله رب العزت کی جناب میں حاضر ہو گئے ۔ اب اس ربُّ العلمین کے اختیار میں ہے کہ وہ ان کے اعمال کی سچائی اور کھوٹ کو پرکھے ۔ الله سے تو انسان کا ظاہر و باطن کچھ بھی چھپا ہوا نہیں وہ علیم و خبیر خوب جانتا ہے کہ کس نے کیا کام کس نیت سے کیا ۔ ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم کسی کے اچھے یا برے اعمال کی وجہ اور نیت تلاش کریں ۔ 

 

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ

البقرة:134
یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی  ان کی کمائی ان کے لئے ہے اور تمہاری کمائی تمہارے لئے اور ان کے اعمال کے بارے میں تم سے باز پرس نہ ہوگی ۔ 


کیا ہم موت سے بھاگ سکتے ہیں ۔ اور کیا ہم جب بے بسی سے پیوند خاک ہوں گے تو ہم پر بھی ایسے ہی تذکرے شروع ہو جائیں گے ۔ 

صبح جو ہم کرتے ہیں ۔۔ کیا ایک پل بھی یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ اگر یہ ہماری آخری صبح ہوئی تو کیا ہمیں ایسا کرنا چاہئیے ۔ 

اور اگر کل ہم نہ رہے تو ہمارے یہی  اعمال  جن پر اب واہ واہ ہو رہی ہے پر کیسے کیسے تبصرے کئے جائیں گے ۔ 

دوسروں کے بارے میں کوئی بھی بات کرتے وقت اپنے اعمال پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہئیے ۔  




حضرت حمزہ رضی الله عنہ کا قبول اسلام ، شان نزول سورة الزمر ، آیت:22

   

سیدنا امیرحمزہ رضی اللہ عنہ کا سینہ نور سے معمور

قرآن کریم کی گواہی

      انسان کی خوش بختی اور سعادت مندی یہ ہے کہ وہ دامن اسلام سے وابستہ رہے ،ایمان کے انوار سے اپنے دل و جان کو روشن ومنور کرے،اسی لئے بندۂ مؤمن کی عین آرزو وتمنا یہی ہوتی ہے کہ جب تک وہ زندہ رہے اسلام پر ثابت قدم رہے اور موت بھی آئے تو ایمان کی حالت میں آئے اور اس کا خاتمہ بالخیر ہو۔یہ تو عمومی طورپر تمام اہل ایمان کی کیفیت ہے لیکن سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات قدسی صفات وہ ہے ،جن کے سینہ کو اللہ تعالی نے اسلا م کے لئے کھول دیا تھااور اُسے نورایمان سے معمور فرمادیاتھا۔

     سورۂ زمر میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّہُ صَدْرَہُ لِلْإِسْلَامِ فَہُوَ عَلَی نُورٍ مِنْ رَبِّہِ فَوَیْلٌ لِلْقٰسِیَۃِ قُلُوبُہُمْ مِنْ ذِکْرِ اللَّہِ أُولَئِکَ فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ ۔

      ترجمہ:بھلا جس شخص کا سینہ اللہ تعالی نے اسلام کے لئے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی میں ہے(تو کیا وہ سخت دل کافر کی طرح ہوگا) تو ان کے لئے خرابی ہے جن کے دل اللہ تعالی کی یاد سے سخت ہورہے ہیں اور یہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔

     (سورۃ الزمر۔22)

     اس آیت کریمہ میں عمومی طور پر ان حضرات کا تذکرہ کیا گیا جن کے سینوں کو اللہ تعالی نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے اور انہیں روشن ومنور بھی فرمادیاہے ،نیز ان کی عظمت ورفعت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ حضرات ہرگز اس شخص کی طرح نہیں ہوسکتے جس کا دل یادِ الہی سے غافل ہے،تاہم علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے "تفسیر روح البیان"میں لکھا ہے کہ یہ آیت کریمہ بطور خاص سیدنا امیر حمزہ اور سیدناعلی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہما کی شان میں نازل ہوئی،جیساکہ تفسیر روح البیان میں ہے:

  چنانچہ اعلان نبوت کے چھٹے سال ایسی مقدس ہستیاں قلعۂ اسلام میں داخل ہوئیں؛جن سے اسلام کا پرچم مزیدبلند ہوا اور مسلمان علانیہ طور پر معبود حقیقی کی عبادت کرنے لگے۔ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بے حد محبت کرتے تھے اور سرداران قریش میں آپ بڑی بہادری و دلیری رکھتے تھے ‘صبح شکار کے لئے جاتے تو شام گھر واپس لوٹتے ‘ پھرخانۂ کعبہ کے طواف کے لئے آتے ، اس کے بعد قریش کے سرداروں کی محفل میں بیٹھتے تھے۔

      ایک دن معمول کے مطابق جب شکار سے واپس لوٹے تو آپ کی بہن حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا:کیا آپ کو معلوم ہے کہ آج ابو جہل نے آپ کے بھتیجے کے ساتھ کیسا گستاخانہ برتاؤ کیا ؟ یہ سن کر سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ اپنی تیر کمان لیکر ابوجہل کے پاس پہنچ گئے اور کمان سے بڑی قوت کے ساتھ اس کے سر پر ایسا مارا کہ اس کا سر پھٹ گیا اور فرمایا: کیا تو نہیں جانتا کہ میں بھی انہیں کے دین پر ہوں ! یہ دیکھ کر قبیلہ بنی مخزوم کے لوگ ابوجہل کی مدد کیلئے آئے تو اس نے یہ سوچ کر کہ کہیں بنی ہاشم سے بنی مخزوم کی جنگ نہ چھڑجائے، کہنے لگا: جانے دو! میں نے آج ان کے بھتیجے کو بہت سخت سست کہا ۔

 (شرح الزرقانی علی المواہب ، ج1 ، ص 477۔سبل الھدی والرشاد ، ج2،ص332۔الروض الانف،اسلام حمزۃ رضی اللہ عنہ،ج2،ص43)


     ترجمہ:واقعہ یہ ہے کہ جب مجھ پر غصہ غالب ہوگیا تو میں نے کہا کہ میں اپنی قوم وقبیلہ کے دین پر ہوں ،اور میں نے بڑی کشمکش میں اس اہم معاملہ میں اس طرح رات گزاری کہ لمحہ بھر بھی نہ سویا،پھر میں کعبۃ اللہ شریف کے پاس آیا اور اللہ سبحانہ وتعالی کے دربار میں تضرع وزاری کی کہ اللہ تعالی میرے سینہ کو حق کے لئے کھول دے اور مجھ سے شک وشبہ کو دفع کردے،تو میں نے ابھی دعا ختم بھی نہ کی تھی کہ باطل مجھ سے دور ہوگیا اور میرا قلب یقین کی دولت سے مالا مال ہوگیا۔ پھر صبح میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی تمام حالت بیان کی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے میرے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالی مجھے اس نعمت اسلام پرہمیشہ ثابت قدم رکھے۔جس وقت آپ نے اسلام قبول کیا یہ اشعار کہے :

       حَمِدْت اللّہَ حِینَ ہَدَی فُؤَادِی ... إلَی الْإِسْلَامِ وَالدّینِ الْحَنِیفِ

میں اللہ تعالی کی تعریف بجا لاتا ہوں اور اس کا شکر اداکرتا ہوں کہ اس نے میرے دل کو اسلام اور دین حنیف کے لئے کھول دیا۔ 

الدّینُ جَاءَ مِنْ رَبّ عَزِیزٍ ... خَبِیرٍ بِالْعِبَادِ بِہِمْ لَطِیفِ

یہ وہ مبارک دین ہے جو ایسے پروردگار کی جانب سے آیا ہے جو غلبہ والا ، بندوں کی خبر رکھنے والا ہے اور اُن پر مہربان ہے۔ 

إذَا تُلِیَتْ رَسَائِلُہُ عَلَیْنَا ... تَحَدّرَ دَمْعُ ذِی اللّبّ الْحَصِیفِ

جب اس خدائے واحد کی آیتیں ہمارے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو کامل عقل رکھنے والے شخص کے آنسو بے اختیار بہہ جاتے ہیں۔

رَسَائِلُ جَاءَ أَحْمَدُ مِنْ ہُدَاہَا ... بِآیَاتِ مُبَیّنَۃِ الْحُرُوفِ

یہ وہ باعظمت احکام ہیں کہ اُن کی ہدایت دینے کے لئے حضرت احمد مجتبی محمدعربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایسی روشن آیات لائے ہیں جن کے ہرحرف میں ہدایت ہے۔

وَأَحْمَدُ مُصْطَفًی فِینَا مُطَاعٌ ... فَلَا تَغْشَوْہُ بِالْقَوْلِ الْعَنِیفِ

اور حضرت احمد مجتبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ تعالی کی جانب سے ہم میں منتخب اور برگزیدہ ہیںاور آپ کے ہر حکم کی تعمیل کی جاتی ہے ،تو اے لوگو!ان کی تعلیمات کو باطل کے ذریعہ نہ چھپاؤ!۔(الروض الأنف، إسلام حمزۃ رضی اللہ عنہ ،ج2،ص43۔)


صبح کے وقت قرآن پڑھنا، رحمت للعالمین والی آیت

سوال

 صبح کو قرآن پڑھا کرو۔ کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا فرشتوں کی حاضری کا باعث ہوتا ہے۔

قرآن مجید کی کون سی سورۃ کی کن آیات میں بتایا گیا ہے؟

جواب

اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوۡکِ الشَّمۡسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیۡلِ وَ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ ؕ اِنَّ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ کَانَ مَشۡہُوۡدًا ﴿۷۸﴾​

سورة بنی اسراءیل 78​


(اے محمدﷺ) سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک (ظہر، عصر، مغرب، عشا کی) نمازیں اور صبح کو قرآن پڑھا کرو۔ کیوں صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور (ملائکہ) ہے

سوال

الله سبحانہ وتعالی کی صفت ”رب العالمین “ کا ذکر تو سورہ فاتحہ میں ہے بتائیے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی صفت ”رحمة للعالمین“ کا بیان کس سورۃ کی کون سی آیت میں ہے؟

جواب

سورۃ انبیاء آیت 107

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ
اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے (محمد جوناگڑھی)

سورۃ انبیاء کے مضامین کا ربط و خلاصہ

 سورة انبیاء 

ربط ماقبل 

سورة طٰہ میں یہ بتایا گیا کہ الله تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو یہ پیغام دیا تھا کہ الله تعالی کے سوا کوئی حاجت روا اور کار ساز نہیں ، لہٰذا صرف اسی کو پکارو۔ 

لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي


اب سورۃ انبیاء میں علی سبیل الترقی یہ بتایا جائے گا کہ نہ صرف حضرت موسی علیہ السلام بلکہ تمام انبیاء علیھم السلام کی طرف یہی وحی کی گئی تھی کہ الله کے سوا کوئی حاجت روا اور کارساز نہیں لہذا اسی کو پکارو۔ 


وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ 

الانبیاء: 7

اور ہم نے تم سے پہلے آدمی ہی پیغمبر بنا کر بھیجے جنکی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو جو یاد رکھتے ہیں ان سے پوچھ لو۔


خلاصہ مضامین سورۃ انبیاء 

سورة انبیاء کا دعوی یہ ہے کہ زمین و آسمان کی تمام باتیں جاننے والا صرف الله تعالی ہی ہے لہذا صرف وہی کارساز اور متصرف و مختار ہے۔ حاجات و مشکلات میں صرف اسی کو پکارو۔ 

یہ دعوٰی آیت نمبر 4 میں مذکور ہے۔ 

قَالَ رَبِّي يَعْلَمُ الْقَوْلَ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ 


پیغمبر نے کہا کہ جو بات آسمان اور زمین میں کہی جاتی ہے میرا پروردگار اسے جانتا ہے۔ اور وہ سننے والا ہے جاننے والا ہے۔


اس دعوی کے اثبات پر تین عقلی اور گیارہ نقلی دلائل پیش کیے گئے، ایک نقلی دلیل اجمالی اور باقی نقلی دلائل کا ذکر تفصیل سے کیا گیا آخر میں ایک دلیل وحی بیان کی گئی۔ 

دعوی توحید  سے پہلے اور دعوی بیان کرنے کے بعد مشرکین پر زجر و شکوی ہے جو آںحضرت صلی الله علیہ وسلم کو جادوگر اور قرآن کو جادو کہتے تھے،  آپ کی لائی ہوئی دعوت کا انکار کرتے ہوئے حجت بازی کرتے اور کہتے تھے یہ تو آدمی ہے پیغمبر تو فرشتہ ہونا چاہیے ۔

اس کے بعد تین مقدر سوالوں کا جواب دیا گیا۔ 

وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

 

اور ہم نے تم سے پہلے آدمی ہی پیغمبر بنا کر بھیجے جنکی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو جو یاد رکھتے ہیں ان سے پوچھ لو۔


اس آیت میں پہلے مقدر سوال کا جواب ہے یعنی محمد صلی الله علیہ وسلم سے پہلے بھی جتنے نبی اور رسول آئے سب آدمی اور بشر ہی تھے۔ 


وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَدًا لَّا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ 

 

اور ہم نے انکے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھائیں۔

 

سے دوسرے مقدر سوال کا جواب دیا گیا کہ تمام انبیاء کھاتے پیتے تھے۔



وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ

اور نہ وہ ہمیشہ رہنے والے تھے۔


سے تیسرے سوال مقدر کا جواب دیا گیا یعنی وہ بھی اس دنیا میں ہمیشہ نہ رہے۔ 


آیت نمبر 11 میں تخویفِ دنیوی کا بیان ہے۔ 


وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ

 

اور جو پیغمبر ہم نے تم سے پہلے بھیجے انکی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری ہی عبادت کرو۔

آیت 25 میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو تسلی دی گئی۔ 

اس کے بعد آیت 26 سے 28 تک شکوی کا جواب سات وجوہ سے دیا گیا ۔

آیت 16

پہلی عقلی دلیل 

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ

 

اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو مخلوقات ان دونوں کے درمیان ہے اس کو کھیل تماشے کے لئے پیدا نہیں کیا۔

آیت 19.

دوسری عقلی دلیل

وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ

 

اور جو لوگ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہیں سب اسی کا مال ہیں اور جو فرشتے اسکے پاس ہیں وہ اسکی عبادت سے نہ تکبر کرتے ہیں اور نہ اکتاتے ہیں۔


آیت: 30 

تیسری عقلی دلیل 

أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ

 

کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے انکو جدا جدا کر دیا اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔


آیت نمبر 25 میں دلیل نقلی اجمالا از انبیاء پیش کی گئی۔ آیت 48 میں پہلی نقلی دلیل تفصیلا از موسی و ہارون علیھما السلام دی گئی پھر آیت 51 سے ابراھیم علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے دوسری نقلی دلیل تفصیل سے پیش کی گئی۔ آیت 71 سے تیسری دلیل نقلی تفصیلا از لوط علیہ السلام کا بیان ہے اور آیت 76 سے نقلی دلیل تفصیلا از نوح علیہ السلام کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ پانچویں نقلی دلیل تفصیلا آیت 78 سے حضرت داود اور سلیمان علیہ السلام کے واقعے کو بیان کرکے دی گئی۔ پھر آیت 83 میں حضرت ایوب علیہ السلام کا ذکر کرکے چھٹی نقلی دلیل کو تفصیلا  بیان کیا گیا۔ ساتویں نقلی دلیل آیت 85 اور آٹھویں دلیل نقلی آیت 87,88 میں بیان کی گئی۔ نویں نقلی دلیل حضرت زکریا علیہ السلام پر آیت 89,90 میں دی گئی اور دسویں نقلی دلیل آیت 91 میں حضرت عیسی و مریم علیھم السلام کے ذکر سے قائم کی گئی۔ 

گیارھویں نقلی دلیل آیت 92 میں تمام انبیاء علیھم السلام کی طرف نسبت سے بیان کی گئی۔ 

إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ

 

لوگو یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کیا کرو۔

آیت: 92 

مذکوہ انبیاء اور ان کے علاوہ جتنے بھی نبی اور رسول بھیجے گئے سارے کے سارے صرف  ایک الله کی عبادت کرتے تھے،   نیکی کے کاموں کو بجا لاتے تھے اور امید و خوف ہر حالت میں صرف الله رب العزت ہی کو پکارتے تھے۔ 

سورت کے آخر میں اس دعوی کا اعادہ کیا گیا کہ الله تعالی کے سوا کوئی عالم الغیب اور کارساز نہیں وہی غیب دان اور متصرف و مختار ہے۔ 

۔۔۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں