نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سورۃ فاتحہ کے بعد قراءت کا بیان

سورۃ فاتحہ کے بعد تلاوت کا بیان 

نماز میں قرأت کی ترتیب یوں ہے کہ سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد کوئی دوسری سورت پڑھنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم عام طورپر لمبی قراءت فرماتے تھے لیکن کسی عذر جیسے سفر، کھانسی یا بیماری کے سبب سے مختصر تلاوت بھی فرمائی ہے، 
علاوہ ازیں دورانِ نماز کسی بچے کے رونے کی آواز آ جاتی تو قراءت مختصر کر کے رکوع میں چلے جاتے تا کہ اس کی ماں کو تکلیف نہ ہو کیونکہ اس وقت عورتیں بھی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے آیا کرتی تھیں۔ 
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایک دن فجر کی نماز دو چھوٹی سورتیں پڑھ کر نہایت اختصار کے ساتھ پڑھائی۔ صحابہ نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! آپ نے (آج)ہلکی نماز کیوں پڑھائی؟"
فرمایا:
سَمِعْتُ بُكَاءَ صَبِيٍّ فَظَنَنْتُ أَنَّ أُمَّهُ مَعَنَا تُصَلِّي فَأَرَدْتُ أَنْ أُفْرِغَ لَهُ أُمَّهُ
"میں نے ایک بچے کے رونے کی آواز سنی تو خیال کیا کہ اس کی ماں ہمارے ساتھ نماز پڑھ رہی ہو گی تو میں چاہا کہ اس کے لیے اس کی ماں کو جلد فارغ کر دوں"
(مسند احمدمسند انس بن مالک، )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا عام معمول یہ تھا کہ جب کوئی سورت شروع کرتے تو اسی رکعت میں اسے مکمل فرماتے تھے۔
 ایک رکعت میں مکمل سورت پڑھنا اور ہر رکعت کو ایک سورت تک محدود رکھنا افضل ہے اگرچہ اس کا کچھ حصہ پڑھ لینے سے بھی نماز ہو جاتی ہے۔ 
حدیث میں ہے
أَعْطُوا كُلَّ سُورَةٍ حَظَّهَا مِنْ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
"ہر سورۃ کو رکوع و سجود (یعنی نماز) میں سے اس کا حصہ دو"
(مسند احمد مسند البصریین حدیث من سمع النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم، صحیح و ضعیف الجامع الصغیر حدیث نمبر 1934)
(
دوسری حدیث میں ہے:
لِكُلِّ سُورَةٍ رَكْعَةٌ
"ہر ایک سورت ایک رکعت کے لیے ہے"
(شرح معانی الآثار للطحاری کتاب الصلاۃ باب جمع السور فی الرکعۃ)
یعنی ہر رکعت میں ایک مکمل سورت پڑھو تا کہ اس کے ذریعے اس رکعت کا حصہ پورا ہو جائے۔
لیکن یہ حکم صرف استحباب کے لیے ہے کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک ہی سورت دو رکعتوں میں مکمل کی اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ جو سورت پہلی رکعت میں پڑھی دوسری رکعت میں بھی اسی کی تلاوت فرمائی جبکہ ایک رکعت میں ایک سے زائد سورتیں پڑھنابھی ثابت ہے۔
اس سلسلے میں ایک انصاری صحابی کا واقعہ ملتا ہے جو مسجد قباء میں جماعت کروایا کرتے تھے ۔ ان کا معمول تھا کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد کوئی بھی دوسری سورت پڑھنے سے قبل "قل ھو اللہ احد" یعنی سورۃ الاخلاص پڑھا کرتے تھے۔ ان کے ساتھیوں نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا "کیا آپ کے خیال میں صرف اس (سورۃ الاخلاص) کی تلاوت کافی نہیں کہ آپ اسے پڑھنے کے بعد کوئی دوسری سورت ملانا ضروری سمجھتے ہیں؟ 
اسی کو پڑھا کریں یا پھر اسے چھوڑ کر کوئی دوسری سورت پڑھ لیا کریں۔
" انہوں نے کہا "میں تو اس کو نہیں چھوڑ سکتا، تمہیں اسی حالت میں میری امامت اگرپسند ہے تو ٹھیک ورنہ میں امامت چھوڑ دیتا ہوں"۔
 مقتدی انہیں اپنے میں سب سے افضل سمجھتے تھے اور کسی دوسرے کی امامت انہیں ناپسند تھی۔
 لہٰذا معاملہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس لے جایا گیا تو انہوں نے اس صحابی سے دریافت فرمایا:
يَا فُلَانُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَفْعَلَ مَا يَأْمُرُكَ بِهِ أَصْحَابُكَ وَمَا يَحْمِلُكَ عَلَى لُزُومِ هَذِهِ السُّورَةِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ
"اے فلاں! تم اپنے ساتھیوں کی بات کیوں نہیں تسلیم کرتے اور کیوں ہر رکعت میں اس سورت کو لازمی پڑھتے ہو"؟
انہوں نے عرض کیا:
"مجھے اس (سورت) سے محبت ہے"
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
حُبُّكَ إِيَّاهَا أَدْخَلَكَ الْجَنَّةَ
" اس (سورت) سے تیری محبت تجھے جنت میں داخل کر دے گی"
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب الجمع بین السورتین فی الرکعۃ۔ ۔ ۔۔)
 
ایک رکعت میں سورۂ عصر اور دوسری رکعت میں سورۂ اخلاص پڑھنا بلا کراہت جائز ہے۔ 
 فرض نماز میں قرآن مجید کی ترتیب کے مطابق قرأت کرنا ضروری ہے، اس کے خلاف کرنا مکروہ ہے، البتہ نماز ہو جائے گی۔ اگر فرض نماز کی دونوں رکعتوں میں پڑھی جانے والی سورتوں کے درمیان کسی ایسی ایک سورت کا فاصلہ دیا گیا جس سے دو رکعت نہیں بن سکتیں ۔۔
جیسے پہلی رکعت میں سورۂ اخلاص اور دوسری رکعت میں سورۂ ناس پڑھنا تو یہ مکروہ ہو گا، ہاں ایسی سورت کا فاصلہ دیا جس سے دو رکعت بن سکتی ہیں جیسے پہلی رکعت میں سورہ ضحیٰ اور دوسری رکعت میں سورہ ٔ تین پڑھنا یا ایک سے زائد سورت کا فاصلہ دیا جیسے پہلی رکعت میں سورۂ کافرون اور دوسری رکعت میں سورۂ اخلاص پڑھی تو بلا کراہت جائز ہو گا۔ 
اگر کسی شخص کو صرف ایک ہی سورت یاد ہو، تو دونوں رکعتوں میں اسے  دوبارہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں،لیکن اگر اور سورتیں بھی یاد ہوں تو فرض نماز میں جان بوجھ کر دورکعت میں ایک ہی سورت کا  دوبارہ پڑھنا مکروہ ہے، اگر بھولے سے اس طرح کر لیا تو مکروہ نہیں ہے البتہ نوافل میں اس کی گنجائش ہے۔
 واللہ اعلم

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...