نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سورۃ انبیاء کے مضامین کا ربط و خلاصہ

 سورة انبیاء 

ربط ماقبل 

سورة طٰہ میں یہ بتایا گیا کہ الله تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو یہ پیغام دیا تھا کہ الله تعالی کے سوا کوئی حاجت روا اور کار ساز نہیں ، لہٰذا صرف اسی کو پکارو۔ 

لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي


اب سورۃ انبیاء میں علی سبیل الترقی یہ بتایا جائے گا کہ نہ صرف حضرت موسی علیہ السلام بلکہ تمام انبیاء علیھم السلام کی طرف یہی وحی کی گئی تھی کہ الله کے سوا کوئی حاجت روا اور کارساز نہیں لہذا اسی کو پکارو۔ 


وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ 

الانبیاء: 7

اور ہم نے تم سے پہلے آدمی ہی پیغمبر بنا کر بھیجے جنکی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو جو یاد رکھتے ہیں ان سے پوچھ لو۔


خلاصہ مضامین سورۃ انبیاء 

سورة انبیاء کا دعوی یہ ہے کہ زمین و آسمان کی تمام باتیں جاننے والا صرف الله تعالی ہی ہے لہذا صرف وہی کارساز اور متصرف و مختار ہے۔ حاجات و مشکلات میں صرف اسی کو پکارو۔ 

یہ دعوٰی آیت نمبر 4 میں مذکور ہے۔ 

قَالَ رَبِّي يَعْلَمُ الْقَوْلَ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ 


پیغمبر نے کہا کہ جو بات آسمان اور زمین میں کہی جاتی ہے میرا پروردگار اسے جانتا ہے۔ اور وہ سننے والا ہے جاننے والا ہے۔


اس دعوی کے اثبات پر تین عقلی اور گیارہ نقلی دلائل پیش کیے گئے، ایک نقلی دلیل اجمالی اور باقی نقلی دلائل کا ذکر تفصیل سے کیا گیا آخر میں ایک دلیل وحی بیان کی گئی۔ 

دعوی توحید  سے پہلے اور دعوی بیان کرنے کے بعد مشرکین پر زجر و شکوی ہے جو آںحضرت صلی الله علیہ وسلم کو جادوگر اور قرآن کو جادو کہتے تھے،  آپ کی لائی ہوئی دعوت کا انکار کرتے ہوئے حجت بازی کرتے اور کہتے تھے یہ تو آدمی ہے پیغمبر تو فرشتہ ہونا چاہیے ۔

اس کے بعد تین مقدر سوالوں کا جواب دیا گیا۔ 

وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

 

اور ہم نے تم سے پہلے آدمی ہی پیغمبر بنا کر بھیجے جنکی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو جو یاد رکھتے ہیں ان سے پوچھ لو۔


اس آیت میں پہلے مقدر سوال کا جواب ہے یعنی محمد صلی الله علیہ وسلم سے پہلے بھی جتنے نبی اور رسول آئے سب آدمی اور بشر ہی تھے۔ 


وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَدًا لَّا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ 

 

اور ہم نے انکے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھائیں۔

 

سے دوسرے مقدر سوال کا جواب دیا گیا کہ تمام انبیاء کھاتے پیتے تھے۔



وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ

اور نہ وہ ہمیشہ رہنے والے تھے۔


سے تیسرے سوال مقدر کا جواب دیا گیا یعنی وہ بھی اس دنیا میں ہمیشہ نہ رہے۔ 


آیت نمبر 11 میں تخویفِ دنیوی کا بیان ہے۔ 


وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ

 

اور جو پیغمبر ہم نے تم سے پہلے بھیجے انکی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری ہی عبادت کرو۔

آیت 25 میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو تسلی دی گئی۔ 

اس کے بعد آیت 26 سے 28 تک شکوی کا جواب سات وجوہ سے دیا گیا ۔

آیت 16

پہلی عقلی دلیل 

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ

 

اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو مخلوقات ان دونوں کے درمیان ہے اس کو کھیل تماشے کے لئے پیدا نہیں کیا۔

آیت 19.

دوسری عقلی دلیل

وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ

 

اور جو لوگ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہیں سب اسی کا مال ہیں اور جو فرشتے اسکے پاس ہیں وہ اسکی عبادت سے نہ تکبر کرتے ہیں اور نہ اکتاتے ہیں۔


آیت: 30 

تیسری عقلی دلیل 

أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ

 

کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے انکو جدا جدا کر دیا اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔


آیت نمبر 25 میں دلیل نقلی اجمالا از انبیاء پیش کی گئی۔ آیت 48 میں پہلی نقلی دلیل تفصیلا از موسی و ہارون علیھما السلام دی گئی پھر آیت 51 سے ابراھیم علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے دوسری نقلی دلیل تفصیل سے پیش کی گئی۔ آیت 71 سے تیسری دلیل نقلی تفصیلا از لوط علیہ السلام کا بیان ہے اور آیت 76 سے نقلی دلیل تفصیلا از نوح علیہ السلام کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ پانچویں نقلی دلیل تفصیلا آیت 78 سے حضرت داود اور سلیمان علیہ السلام کے واقعے کو بیان کرکے دی گئی۔ پھر آیت 83 میں حضرت ایوب علیہ السلام کا ذکر کرکے چھٹی نقلی دلیل کو تفصیلا  بیان کیا گیا۔ ساتویں نقلی دلیل آیت 85 اور آٹھویں دلیل نقلی آیت 87,88 میں بیان کی گئی۔ نویں نقلی دلیل حضرت زکریا علیہ السلام پر آیت 89,90 میں دی گئی اور دسویں نقلی دلیل آیت 91 میں حضرت عیسی و مریم علیھم السلام کے ذکر سے قائم کی گئی۔ 

گیارھویں نقلی دلیل آیت 92 میں تمام انبیاء علیھم السلام کی طرف نسبت سے بیان کی گئی۔ 

إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ

 

لوگو یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کیا کرو۔

آیت: 92 

مذکوہ انبیاء اور ان کے علاوہ جتنے بھی نبی اور رسول بھیجے گئے سارے کے سارے صرف  ایک الله کی عبادت کرتے تھے،   نیکی کے کاموں کو بجا لاتے تھے اور امید و خوف ہر حالت میں صرف الله رب العزت ہی کو پکارتے تھے۔ 

سورت کے آخر میں اس دعوی کا اعادہ کیا گیا کہ الله تعالی کے سوا کوئی عالم الغیب اور کارساز نہیں وہی غیب دان اور متصرف و مختار ہے۔ 

۔۔۔۔۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...