نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سورۃ النازعات، آیات:27,28,29,30,31,32,33


سورۃ النازعات

 

ربط آیات: ستائیس تا تینتیس

گزشتہ آیات میں موسی علیہ السلام و فرعون کا قصہ بطورِ تسلی و عبرت  بیان کرنے کے بعد ان آیات سے پھر اصل مضمون کا ذکر شروع ہوتا ہے یعنی دلائل قدرت سے یہ ثابت کرنا کہ قیامت ضرور قائم ہو گی اور منکرین کے اس شبہ کا جواب؛ جو کہتے ہیں کہ ہم مرنے کے بعد کیسے زندہ ہوں گے؟ 

ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ    ۭ بَنٰىهَا (27)

(انسانو!) کیا تمہیں پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا آسمان کو ؟  اس کو اللہ نے بنایا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 قیامت اور جزا و سزا کا انکار کرنے کی بڑی  وجہ یہ ہے  کہ کافر کسی مُردہ  کے زندہ ہونے کو بہت مشکل سمجھتے ہیں۔ ﷲ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ جب  تم مانتے ہو کہ آسمان ﷲ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے تو پھر اِنسان کو دوبارہ پیدا کرنا اُس کے لئے کیا مشکل ہے؟

 تم ذرا اپنی عقل سے سوچ کر بتاؤ کہ تمہیں پہلی یا دوسری بار پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا اتنے بڑے آسمان کو پہلی بار بنانا زیادہ مشکل ہے، جس قادر مطلق نے اتنا عظیم الشان آسمان بغیر ستونوں کے پیدا کیا،  اس کے لیے اس چھوٹے سے انسان کو دوبارہ زندہ  کرنا بالکل بھی  مشکل  نہیں ۔ الله تعالی  انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے کیونکہ اسی انسان کو وہ  پہلے بھی پیدا کر چکا ہے۔ اس بات کا انکار سوائے ضد کے کچھ بھی نہیں۔ 


رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوّٰىهَا (28)

اس کی بلندی اٹھائی ہوئی ہے، پھر اسے ٹھیک کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان آیات میں آسمان کو تخلیق کرنے کی کیفیت کا بیان ہے کہ الله سبحانہ و تعالی نے کس طرح  کسی ستون اور دیوار کے سہارے کے بغیر آسمان کی چھت کو بہت بلند کر کے اس کو بالکل برابر کر دیا۔ ایسا درست اور ہموار بنایا کہ اس میں کہیں کوئی اونچ نیچ یا  کوئی جوڑ اور پیوند نہیں ہے۔ پھر آسمان کو سورج ، چاند اور ستارے وغیرہ مختلف چیزوں   سے  سجا دیا۔ 


وَاَغْطَشَ لَيْلَهَا وَاَخْرَجَ ضُحٰىهَا (29)

اور اس کی رات کو اندھیری بنایا ہے، اور اس کے دن کی دھوپ باہر نکال دی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مقصد یہ ہے کہ الله تعالی نے اس آسمان میں سورج پیدا کیا ہے۔ جب تک وہ اہل زمین کے سامنے رہتا ہے تو ان کے لیے دھوپ کا وقت اور دن ہوتا ہے اور جب وہ غروب ہوجاتا ہے اور چھپ جاتا ہے تو یہ ان کے لیے رات کا وقت ہوتا ہے۔ دن کو روشن بنایا تاکہ رزق تلاش کر سکو اور رات کو تاریک بنایا تاکہ آرام کر سکو۔ 

سوال: وَاَغْطَشَ لَيْلَهَا وَاَخْرَجَ ضُحٰىهَا۔ میں رات اور دن کو آسمان کی طرف کیوں منسوب کیا گیا؟ 

جواب:  سورج غروب ہونے سے  رات آتی ہے اور  سورج  طلوع ہونے سے دن نکلتا ہے ۔ سورج کا تعلق آسمان سے ہے اس لیے رات اور دن کی نسبت بھی آسمان کی طرف کر دی۔

 رات کے لیے ڈھانکنے کا لفظ اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے سورج غروب ہونے کے بعد رات کی تاریکی اس طرح زمین پر چھا جاتی ہے جیسے اوپر سے اس پر پردہ ڈال کر ڈھانک دیا گیا ہو ۔


وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا (30)

 اور زمین کو اس کے بعد بچھا دیا ہے۔


اَخْرَجَ مِنْهَا مَاۗءَهَا وَمَرْعٰىهَا (31)

اس میں سے اس کا پانی اور اس کا چارہ نکالا ہے۔


 وَالْجِبَالَ اَرْسٰىهَا (32)

اور پہاڑوں کو گاڑھ دیا ہے۔


 مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِاَنْعَامِكُمْ (33)

تاکہ تمہیں اور تمہارے مویشیوں کو فائدہ پہنچائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله تعالی نے آسمان کو پیدا کرنے کے بعد زمین کو بچھایا۔ پھر زمین میں پانی کے چشمے پیدا کر دئیے، گھاس اور چارہ  پیدا کردیا۔ چارے سے مراد اس جگہ صرف جانوروں کا چارہ نہیں ہے بلکہ تمام نباتات مراد ہیں جو انسان اور حیوان دونوں کی غذا کے کام آتے ہیں ۔ پھر اس پر مضبوط پہاڑ بنا دئیے تاکہ زمین ادھر ادھر ڈولتی  نہ رہے۔ یہ سب کچھ تمہارے اور تمہارے جانوروں کے نفع کے لیے کیا۔ جو ذات ان چیزوں کو پیدا کر سکتی ہے یقین کرلو کہ وہ تمہیں بھی دوبارہ زندہ کر سکتی ہے۔ 

سوال: ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان کو پہلے بنایا گیا زمین کو بعد میں جبکہ قرآن مجید کی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو پہلے اور آسمان کو بعد میں پیدا کیا گیا۔ بظاہر آیات میں اختلاف ہے؟ 

جواب: کوئی اختلاف نہیں۔ 

زمین اور آسمان دونوں کو اکٹھا بنایا گیا۔

۱- جہاں یہ بیان ہے کہ زمین پہلے پیدا کی گئی آسمان بعد میں اس سے مراد کہ زمین کے مادے کو پہلے پیدا کیا گیا پھر آسمان کے مادے کو پیدا کیا گیا۔ لیکن جب بچھانے کا وقت آیا تو پہلے آسمان کو پھیلایا گیا پھر زمین کو جیسا کہ یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ 

۲-  لوگوں کو سمجھانے کے لیے الله تعالی نے قرآن مجید میں  یہ انداز اختیار کیا ہے کہ جہاں اللہ تعالی  کی قدرت اور اختیار کو ظاہر کرنا ہو  وہاں آسمانوں کا ذکر پہلے  ہے  اور  زمین کا بعد میں۔ جہاں    لوگوں کو اپنی  نعمتوں کا احساس دلانا  ہو،  جو انہیں زمین پر حاصل ہو رہی ہیں وہاں زمین کا ذکر آسمانوں سے پہلے ہے۔ 

فائدہ: حضرت تھانوی رحمہ الله نے بیان القرآن میں فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ پہلے زمین کا مادہ بنا اورابھی اس کی موجودہ شکل نہیں بنی تھی کہ آسمان کا مادہ بنایا گیا، جو دخان یعنی  دھویں کی شکل میں تھا، اس کے بعد زمین کو موجودہ شکل میں پھیلا دیا اور اس پر پہاڑ، درخت وغیرہ پیدا کیے گئے پھر آسمان کے مادے سے سات آسمان بنا دئیے گئے۔ 


ربط آیات: چونتیس تا اکتالیس 

 دلائلِ قدرت بیان کرنے کے بعد  الله  تعالی نے موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو ثابت کیا اور  اب ان آیات سے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد کے واقعات اور قیامت کے دن کی شدت کا بیان ہے۔ اعمال کے سامنے آجانے اور اہل جنت و اہل جہنم دونوں کے ٹھکانے کا ذکر کرکے آخر میں ان دونوں کی خاص خاص نشانیاں بتائی گئی ہیں۔ 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...