نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سورۃ النازعات۔ آیات: 42,43,44,45,46,

سورۃ النازعات 

 يَسْــئَــلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَيَّانَ مُرْسٰـىهَا (42)

یہ لوگ تم سے قیامت کی گھڑی کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ کب قائم ہوگی ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

جب کافروں کے سامنے قیامت کے ہولناک حالات اور جزا و سزا کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ فوراً سوال کرتے ہیں کہ جب قیامت کا آنا لازم ہے تو پھر اس کا کوئی مقرر وقت بھی ہوگا، ہمیں بتاؤ کہ قیامت کب آئے گی؟   یہ  سوال  بیوقوفوں والا ہے اور یہ ایسا  سوال ہے جیسے  بیمار اپنی بیماری کے علاج کے لیے طبیب کے پاس جائے۔  طبیب اس سے کہے تمہیں خطرناک بیماری ہے اس کا علاج کرواؤ اور مریض علاج کروانے کی بجائے اپنے ڈاکٹر سے پوچھنے لگے مجھے بتاؤ میں کب مروں گا؟  حالانکہ اس کو علاج پر توجہ دینی چاہیے۔ 

 فِيْمَ اَنْتَ مِنْ ذِكْرٰىهَا (43)

 تمہارا یہ بات بیان کرنے میں کیا کام ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

کفار اور مشرکینِ مکہ چونکہ بار بار نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے قیامت کے احوال  اور اس کے واقع ہونے کے وقت کے متعلق سوال کرتے تھے اسی لیے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم بھی جبرائیل علیہ السلام سے بار بار قیامت کے بارے میں پوچھنے لگے ۔ الله  تعالی نے فرمایا: آپ کس چیز میں پڑے ہوئے ہیں؟  آپ بار بار  قیامت  کے وقت کے متعلق سوال نہ کریں کیونکہ مصلحت کی وجہ سے ہم نے اس کا وقت چھپا  رکھا ہے کسی کو اس کی خبر نہیں دی۔ وقت سے پہلے ان کو خبر دے بھی دی جائے تب بھی یہ نہیں مانیں گے بلکہ قیامت کو دور سمجھ کر  گناہوں اور نافرمانی میں مشغول ہو جائیں گے۔ 

اِلٰى رَبِّكَ مُنْتَهٰهَا (44)

اس کا علم تو تمہارے پروردگار پر ختم ہے۔

۔۔۔۔

قیامت کے علم کی انتہاء صرف الله جل جلالہ کے پاس ہے۔ صرف وہ ہی جانتا ہے کہ کب قیامت واقع ہو گی اور اس نے قیامت کے برپا  ہونے کا علم کسی کو نہیں دیا۔ 

اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ يَّخْشٰىهَا (45) 

جو شخص اس سے ڈرتا ہو، تم تو صرف اس کو خبردار کرنے والے ہو۔

۔۔۔۔۔

الله تعالی فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا مقصد قیامت کا وقت بتانا نہیں بلکہ آپ کو قیامت کی سختیوں اور جزا و سزا سے ڈرانے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اگرچہ آپ کو تمام عالم کے لیے بھیجا گیا ہے لیکن آپ  انہی کو ڈرائیں جو اپنے دل میں الله اور آخرت کا ڈر رکھتے ہیں اور وہی آپ کے ڈرانے کا اثر قبول کریں گے۔ 

 كَاَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوْٓا اِلَّا عَشِـيَّةً اَوْ ضُحٰىهَا (46)

جس دن یہ اس کو دیکھ لیں گے، اس دن انہیں ایسا معلوم ہوگا جیسے وہ (دنیا میں یا قبر میں) ایک شام یا ایک صبح سے زیادہ نہیں رہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

کفار اس وقت تو شور مچا رہے ہیں کہ قیامت کیوں نہیں آتی؟ کب آئے گی ؟ جلدی لے آؤ! وغیرہ لیکن جس وقت قیامت آ جائے گی،  کفار و مشرکین اس کی ہولناکی اور عذاب دیکھیں گے جو ہمیشہ رہنے والا ہوگا۔ پھر دنیا کی زندگی یاد کریں گے۔ اس وقت انہیں ایسا محسوس ہوگا گویا دنیا میں بہت مختصر وقت گزارا ہے۔ صرف شام کے وقت یا صبح کے وقت ہی رہے ہیں۔   قیامت کے واقع ہوجانے کی حقیقت محسوس ہونے کے بعد دنیا میں گزاری گئی زندگی انتہائی مختصر اور حقیر معلوم ہو گی۔ 

خلاصہ مضامین  سورة النازعات 

یہ سورة چھیالیس آیات پر مشتمل ہے۔ سورت النازعات کا مرکزی مضمون مرنے کے بعد زندہ ہونے کا اثبات ہے۔ 

ابتداء ان فرشتوں سے کی گئی ہے جو اس کائنات کے معاملات کو منظم طریقے سے چلاتے ہیں۔ اچھے برے ، نیک اور بدکار انسانوں کی جان نکالتے ہیں۔  پھر مشرکین مکہ کے اعتراض کے جواب میں قیامت کی ہولناکی اور بغیر کسی مشکل کے اللہ کے صرف ایک حکم پر قبروں سے نکل کر باہر آ جانے کا ذکر ہے۔ مزید وضاحت کے لیے واقعات کی گواہی پیش کی گئی۔ جس طرح  اللہ جل جلالہ نے فرعون جیسے ظالم و جابر کو حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے وسائل سے محروم شخص کے ہاتھوں شکست دے کر اسے سمندر میں غرق کردیا۔ جو آسمانوں جیسی عظیم الشان مخلوق کو وجود میں لایا  وہ انسان کو مرنے کے بعد زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ جنت اور جہنم کا ذکر کرنے کے بعد، صبح و شام کسی بھی وقت قیامت اچانک قائم ہو جانے کے اعلان پر سورت کا اختتام کیا گیا۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...