نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

انسان کی حقیقت ہی کیا ہے ؟

تلک امة قد خلت  

یہ ایک حقیقت ہے کہ آخری سانس تک انسان اپنی موت سے آگاہ نہیں ہوتا ۔۔۔ بم بلاسٹ سے تھوڑی دیر پہلے کیپٹن مبین کی جو فوٹیج ہے اس میں وہ بڑے سکون اور فخر سے سینہ تانے بڑے اطمینان سے مذاکرات کے لئے آرہے ہیں ۔۔۔ انہیں دیکھ کر ذرا بھی محسوس نہیں ہوتا کہ اس شخص کو چند لمحوں کے بعد آنے والی موت سے ذرا بھی آگاہی ہے ۔ دوسروں کو " یہاں دہشت گردی کا خطرہ ہے " کہنے والا قطعا نہیں جانتا تھا کہ وہ خود اس دہشت گردی کا سب سے پہلا شکار بنے گا ۔ موت اور زندگی پر الله مالک الملک کا مکمل اختیار ہے ۔ جس کو کوئی کسی حال میں نہ تو چیلنج کر سکتا ہے اور نہ اس سے انکار کر سکتا ہے ۔ 

موت کے بعد کا معاملہ بہت سخت ہے ۔۔۔ بہت گھمبیر ہے ۔ اتنی شان سے چلنے والے ۔۔۔ اپنے لباس ، اپنے عہدے پر فخر کرنے والے ۔۔۔ اپنی حیثیت کا مکمل ادراک رکھنے والے اس کو منوانے والے ایک ہی پل میں خاک نشیں ہو جاتے ہیں ۔ دنیا کا ہر معاملہ ، ساری کی ساری عزت ، دولت ، شہرت ، رشتے ناطے ، تعلقات ، عہدہ غرض ہر چیز ایک ہی لمحے میں ختم ہو جاتی ہے ۔ 

اس شخص کی بے بسی اور بے سرو سامانی کا مشاہدہ ہر آنکھ کر لیتی ہے جو اپنے لباس پر ایک داغ برداشت نہیں کرتا تھا ۔ 

اس شخص کے اعمال پر ہر شخص بحث شروع کر دیتا ہے ۔ جس کے بارے میں کسی کو سوچنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی ۔ 


وارث مان نہ کر تو وارثاں تے 

رب بے وارث کر کے ماردا ای


سڑک پر لاوارثوں کی طرح حقیر ہو کر اس کا بے جان  پڑا ہوا بدن  ۔۔۔۔ کیا ہر انسان کو اس کی اوقات یاد نہیں دلا دیتا ۔ 

آنکھ کے بند ہوتے ہی انسان لاش میں بدل جاتا ہے ۔ 

روح کے نکلتے ہی میت کا روپ دھار لیتا ہے ۔ 

اس کے سارے مان سمان ۔۔ عہدے رتبے ختم ہوجاتے ہیں ۔ اب کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں رہتی ۔۔ اب یہ کسی کی سفارش کے قابل نہیں رہتا ۔ اب اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا ۔

تو ۔۔۔!!! 

کیاہم اس کے بارے میں ہر بات کہنے کے لئے آزاد ہیں ۔۔۔؟ 

ایک لمحہ رُک کر سوچئے ۔۔۔ ! اس معاملہ میں ہمارا دین ہمیں کیا سکھاتا ہے ۔۔۔؟ ہمارے آقا و مولا نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کا کیا طریقہ تھا ۔۔۔ ؟ 

مدینہ طیبہ میں کھُلے اور واضح منافق عبد الله بن ابی سلول کے مرنے پر بھی آپ اس کی مخالت میں کچھ نہیں فرماتے بلکہ اس کو پہنانے کے لئے اپنا کرتہ عنایت کرتے ہیں ۔ 

آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے

                                                                                                   "لا تسبو الاموات فانھم قد افضوا الی ما قدموا
مردوں کو گالی نہ دو ، اس لئے کہ جو کچھ اچھے برے اعمال وہ آگے بھیجے اس تک پہنچ گئ 
 صحیح بخاری :1393 
اسی طرح  ایک مجلس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے سوال کیا 
 یزید بن قیس کا – اس پر اللہ کی لعنت ہو – کیا حال ہے ؟
 (واضح رہے کہ یہ یزید وہی شخص ہے جو سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والوں کا سردار تھا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو کھلے عام برا بھلا کہتا تھا)    
لوگوں نے جواب دیا : وہ تو مرگیا ۔ یہ سن کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا استغفار پڑھنے لگیں ، لوگوں نے کہا : ابھی تک تو آپ اسے بُرا کہہ رہی تھیں اور اب استغفار پڑھ رہی ہیں ، اس کا کیا مطلب ہے ؟ 
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے 
 مردوں کو برا بھلا نہ کہو اس لئے کہ وہ اپنے کئے کو پہنچ گئے ہیں ۔
اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے 
" لا تسبوا الاموات فتوذوا به الاحیاء "
" مردوں کو گالی نہ دو کہ اس سے زندوں کو تکلیف پہنچے "
 سنن ابو داود :1983 
اس دنیا سے جانے والے تو اپنے اعمال لے کر الله رب العزت کی جناب میں حاضر ہو گئے ۔ اب اس ربُّ العلمین کے اختیار میں ہے کہ وہ ان کے اعمال کی سچائی اور کھوٹ کو پرکھے ۔ الله سے تو انسان کا ظاہر و باطن کچھ بھی چھپا ہوا نہیں وہ علیم و خبیر خوب جانتا ہے کہ کس نے کیا کام کس نیت سے کیا ۔ ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم کسی کے اچھے یا برے اعمال کی وجہ اور نیت تلاش کریں ۔ 

 

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ

البقرة:134
یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی  ان کی کمائی ان کے لئے ہے اور تمہاری کمائی تمہارے لئے اور ان کے اعمال کے بارے میں تم سے باز پرس نہ ہوگی ۔ 


کیا ہم موت سے بھاگ سکتے ہیں ۔ اور کیا ہم جب بے بسی سے پیوند خاک ہوں گے تو ہم پر بھی ایسے ہی تذکرے شروع ہو جائیں گے ۔ 

صبح جو ہم کرتے ہیں ۔۔ کیا ایک پل بھی یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ اگر یہ ہماری آخری صبح ہوئی تو کیا ہمیں ایسا کرنا چاہئیے ۔ 

اور اگر کل ہم نہ رہے تو ہمارے یہی  اعمال  جن پر اب واہ واہ ہو رہی ہے پر کیسے کیسے تبصرے کئے جائیں گے ۔ 

دوسروں کے بارے میں کوئی بھی بات کرتے وقت اپنے اعمال پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہئیے ۔  




تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...