نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سورۃ النازعات ۔ آیات: 8,9,10,11,12,13,14

سورۃ النازعات 

 قُلُوْبٌ يَّوْمَئِذٍ وَّاجِفَةٌ۔ (8)

 اس دن بہت سے دل لرز رہے ہوں گے۔

 اَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ (9)

ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

جب حاضری ہوگی تو دل مارے خوف کے دھڑک رہے ہوں گے۔ نگاہیں ندامت و شرم اور خوف و ہراس کی وجہ سے جھکی ہوں گی۔ جس طرح مجرم عدالت میں پیش کیے جائیں تو ان کے سر اور نگاہیں احساسِ گناہ  کی وجہ سے جھکی ہوتی ہیں۔ 

 

يَقُوْلُوْنَ ءَاِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِي الْحَافِرَةِ  (10)

 یہ (کافر لوگ) کہتے ہیں کہ : کیا ہم پہلی والی حالت پر لوٹا دیئے جائیں گے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قیامت میں ان کفار کا حال بیان کرنے کے بعد ان کی دنیاوی باتوں  کا ذکر ہے۔  دنیا میں ان  کے غرور ، تکبر اور لاپروائی  کا یہ عالم تھا کہ جب ان کو قیامت برپا ہونے کی خبر دی جاتی تھی تو اس کا مذاق بناتے اور  حقارت سے کہتے تھے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے،


ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا نَّخِرَةً۔ (11)

کیا اس وقت جب ہم بوسیدہ ہڈیوں میں تبدیل ہوچکے ہوں گے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا میں وہ کہتے تھے، اتنی مدت گزرنے کے بعد اور ہڈیوں کے مٹی میں مل جانے کے بعد اعضا کو کس طرح  دوبارہ اکٹھا کیا جائے گا؟ جب جسم  گل سڑ جائے گا اور  ہڈیاں بوسیدہ ہو کر   ریزہ ریزہ ہو جائیں گی تو انہیں  پھرسے پہلی حالت پر دوبارہ کیسے لوٹایا جائے گا؟


قَالُوا تِلْكَ إِذًا كَرَّةٌ خَاسِرَةٌ ۔ (12)

کہتے ہیں کہ : اگر ایسا ہوا تو یہ بڑے گھاٹے کی واپسی ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا کی زندگی میں یہ بات ان کی ناقص عقل سے باہر تھی، وہ اسے الله کی قدرت سے خارج سمجھتے تھے،  اسی لیے ناممکن سمجھ کر کہتے تھے اگر ایسا ہوا، پھر تو ہم بہت گھاٹے میں رہیں گے کیونکہ ہم نے تو اس کے لیے کوئی تیاری ہی نہیں کی۔ 


 فَاِنَّمَا ھِيَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ۔ (13)

حقیقت تو یہ ہے کہ وہ بس ایک زور کی آواز ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سب کے جواب میں الله تعالی قیامت کا حال  بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دوبارہ زندہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ صرف ایک ڈانٹ، ہیبت ناک آواز یا ایک چیخ  سنائی دے گی اور سب کے تمام اجزا اکھٹے ہوکر بدن تیار ہو جائیں گے، پھر اسی وقت ان کی روحوں کا تعلق ان کے جسموں سے جوڑ دیا جائے گا۔ 


فَاِذَا هُمْ بِالسَّاهِرَةِ (14)

جس کے بعد وہ اچانک ایک کھلے میدان میں ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔

وہ  اس طرح سطح زمین پر زندہ کھڑے ہوں گے گویا سوئے ہوؤں کو جگا دیا گیا ہو اور خود ہی میدانِ حشر میں الله تعالی کے سامنے حساب کتاب کے لیے جمع ہو جائیں گے۔

ساھرہ کے دو معنی ہیں۔ 

(۱) لوگ قیامت کے دن فوراً جاگ اٹھیں گے۔ اس میں موت کو نیند سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جیسے حدیث مبارکہ میں نیند کو موت جیسا قرار دیا گیا۔ اس صورت میں یہ لفظ لیلۃ الساھرہ سے ماخوذ ہوگا یعنی “رتجگے کی رات “۔ جس طرح نیند کے عالم میں اچھے برے خواب آتے  ہیں اسی طرح موت کے عالم میں، راحت وعذابِ قبر کی آپس میں مناسبت ہے۔ 

(۲) پھر ایک دم وہ میدان میں حاضر ہو جائیں گے۔ 

سوال: “ ساھرہ” کیسی جگہ ہو گی اور کہاں ہوگی؟ 

جواب: اس میں مفسرین کرام کے مختلف اقوال ہیں۔ 

اس سے مراد زمین ، روئے زمین ، کھلا میدان ، سفید اور ہموار زمین جس میں گھاس پھونس ، پیڑ پودے، عمارت وغیرہ کچھ نہ ہو، ارض القیامہ اور میدانِ حشر وغیرہ ہے۔ 

یہ بیت المقدس کے قریب والی جگہ ہے یا مکہ ہے یا سر زمینِ شام ہے جس کو الله تعالی اتنا وسیع کر دیں گے کہ ساری مخلوق اس پر آ جائے گی۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...