نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حضرت حمزہ رضی الله عنہ کا قبول اسلام ، شان نزول سورة الزمر ، آیت:22

   

سیدنا امیرحمزہ رضی اللہ عنہ کا سینہ نور سے معمور

قرآن کریم کی گواہی

      انسان کی خوش بختی اور سعادت مندی یہ ہے کہ وہ دامن اسلام سے وابستہ رہے ،ایمان کے انوار سے اپنے دل و جان کو روشن ومنور کرے،اسی لئے بندۂ مؤمن کی عین آرزو وتمنا یہی ہوتی ہے کہ جب تک وہ زندہ رہے اسلام پر ثابت قدم رہے اور موت بھی آئے تو ایمان کی حالت میں آئے اور اس کا خاتمہ بالخیر ہو۔یہ تو عمومی طورپر تمام اہل ایمان کی کیفیت ہے لیکن سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات قدسی صفات وہ ہے ،جن کے سینہ کو اللہ تعالی نے اسلا م کے لئے کھول دیا تھااور اُسے نورایمان سے معمور فرمادیاتھا۔

     سورۂ زمر میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّہُ صَدْرَہُ لِلْإِسْلَامِ فَہُوَ عَلَی نُورٍ مِنْ رَبِّہِ فَوَیْلٌ لِلْقٰسِیَۃِ قُلُوبُہُمْ مِنْ ذِکْرِ اللَّہِ أُولَئِکَ فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ ۔

      ترجمہ:بھلا جس شخص کا سینہ اللہ تعالی نے اسلام کے لئے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی میں ہے(تو کیا وہ سخت دل کافر کی طرح ہوگا) تو ان کے لئے خرابی ہے جن کے دل اللہ تعالی کی یاد سے سخت ہورہے ہیں اور یہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔

     (سورۃ الزمر۔22)

     اس آیت کریمہ میں عمومی طور پر ان حضرات کا تذکرہ کیا گیا جن کے سینوں کو اللہ تعالی نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے اور انہیں روشن ومنور بھی فرمادیاہے ،نیز ان کی عظمت ورفعت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ حضرات ہرگز اس شخص کی طرح نہیں ہوسکتے جس کا دل یادِ الہی سے غافل ہے،تاہم علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے "تفسیر روح البیان"میں لکھا ہے کہ یہ آیت کریمہ بطور خاص سیدنا امیر حمزہ اور سیدناعلی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہما کی شان میں نازل ہوئی،جیساکہ تفسیر روح البیان میں ہے:

  چنانچہ اعلان نبوت کے چھٹے سال ایسی مقدس ہستیاں قلعۂ اسلام میں داخل ہوئیں؛جن سے اسلام کا پرچم مزیدبلند ہوا اور مسلمان علانیہ طور پر معبود حقیقی کی عبادت کرنے لگے۔ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بے حد محبت کرتے تھے اور سرداران قریش میں آپ بڑی بہادری و دلیری رکھتے تھے ‘صبح شکار کے لئے جاتے تو شام گھر واپس لوٹتے ‘ پھرخانۂ کعبہ کے طواف کے لئے آتے ، اس کے بعد قریش کے سرداروں کی محفل میں بیٹھتے تھے۔

      ایک دن معمول کے مطابق جب شکار سے واپس لوٹے تو آپ کی بہن حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا:کیا آپ کو معلوم ہے کہ آج ابو جہل نے آپ کے بھتیجے کے ساتھ کیسا گستاخانہ برتاؤ کیا ؟ یہ سن کر سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ اپنی تیر کمان لیکر ابوجہل کے پاس پہنچ گئے اور کمان سے بڑی قوت کے ساتھ اس کے سر پر ایسا مارا کہ اس کا سر پھٹ گیا اور فرمایا: کیا تو نہیں جانتا کہ میں بھی انہیں کے دین پر ہوں ! یہ دیکھ کر قبیلہ بنی مخزوم کے لوگ ابوجہل کی مدد کیلئے آئے تو اس نے یہ سوچ کر کہ کہیں بنی ہاشم سے بنی مخزوم کی جنگ نہ چھڑجائے، کہنے لگا: جانے دو! میں نے آج ان کے بھتیجے کو بہت سخت سست کہا ۔

 (شرح الزرقانی علی المواہب ، ج1 ، ص 477۔سبل الھدی والرشاد ، ج2،ص332۔الروض الانف،اسلام حمزۃ رضی اللہ عنہ،ج2،ص43)


     ترجمہ:واقعہ یہ ہے کہ جب مجھ پر غصہ غالب ہوگیا تو میں نے کہا کہ میں اپنی قوم وقبیلہ کے دین پر ہوں ،اور میں نے بڑی کشمکش میں اس اہم معاملہ میں اس طرح رات گزاری کہ لمحہ بھر بھی نہ سویا،پھر میں کعبۃ اللہ شریف کے پاس آیا اور اللہ سبحانہ وتعالی کے دربار میں تضرع وزاری کی کہ اللہ تعالی میرے سینہ کو حق کے لئے کھول دے اور مجھ سے شک وشبہ کو دفع کردے،تو میں نے ابھی دعا ختم بھی نہ کی تھی کہ باطل مجھ سے دور ہوگیا اور میرا قلب یقین کی دولت سے مالا مال ہوگیا۔ پھر صبح میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی تمام حالت بیان کی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے میرے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالی مجھے اس نعمت اسلام پرہمیشہ ثابت قدم رکھے۔جس وقت آپ نے اسلام قبول کیا یہ اشعار کہے :

       حَمِدْت اللّہَ حِینَ ہَدَی فُؤَادِی ... إلَی الْإِسْلَامِ وَالدّینِ الْحَنِیفِ

میں اللہ تعالی کی تعریف بجا لاتا ہوں اور اس کا شکر اداکرتا ہوں کہ اس نے میرے دل کو اسلام اور دین حنیف کے لئے کھول دیا۔ 

الدّینُ جَاءَ مِنْ رَبّ عَزِیزٍ ... خَبِیرٍ بِالْعِبَادِ بِہِمْ لَطِیفِ

یہ وہ مبارک دین ہے جو ایسے پروردگار کی جانب سے آیا ہے جو غلبہ والا ، بندوں کی خبر رکھنے والا ہے اور اُن پر مہربان ہے۔ 

إذَا تُلِیَتْ رَسَائِلُہُ عَلَیْنَا ... تَحَدّرَ دَمْعُ ذِی اللّبّ الْحَصِیفِ

جب اس خدائے واحد کی آیتیں ہمارے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو کامل عقل رکھنے والے شخص کے آنسو بے اختیار بہہ جاتے ہیں۔

رَسَائِلُ جَاءَ أَحْمَدُ مِنْ ہُدَاہَا ... بِآیَاتِ مُبَیّنَۃِ الْحُرُوفِ

یہ وہ باعظمت احکام ہیں کہ اُن کی ہدایت دینے کے لئے حضرت احمد مجتبی محمدعربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایسی روشن آیات لائے ہیں جن کے ہرحرف میں ہدایت ہے۔

وَأَحْمَدُ مُصْطَفًی فِینَا مُطَاعٌ ... فَلَا تَغْشَوْہُ بِالْقَوْلِ الْعَنِیفِ

اور حضرت احمد مجتبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ تعالی کی جانب سے ہم میں منتخب اور برگزیدہ ہیںاور آپ کے ہر حکم کی تعمیل کی جاتی ہے ،تو اے لوگو!ان کی تعلیمات کو باطل کے ذریعہ نہ چھپاؤ!۔(الروض الأنف، إسلام حمزۃ رضی اللہ عنہ ،ج2،ص43۔)


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...