نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سورۃ النازعات ۔ آیات: 15,16

 ربط آیات:  پندرہ تا چھبیس 

پچھلی آیات میں کفار کی ضد، تکبر، انکار اور تمسخر کا بیان تھا جس سے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو سخت دلی تکلیف ہوتی تھی اور  آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم ان کے اس روئیے سےغمگین ہو جاتے تھے۔  الله تعالی نے اپنے ایک جلیل القدر نبی موسی کلیم الله اور اس کے سخت دشمن فرعون کا واقعہ بیان فرمایا۔ اس قصے کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ تسلی رکھیں اور پریشان نہ ہوں کیونکہ مخالفین کی یہ ضد اور انکار صرف آپ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ دوسرے انبیاء علیھم السلام کو بھی مخالفین نے بہت تکلیفیں  اور ایذائیں پہنچائیں۔ ان کی لائی گئی دعوت توحید و رسالت کا بھی انکار کیا اور مذاق اڑاتے رہے۔ پہلے پیغمبروں نے صبر اور استقامت سے سب کچھ برداشت کیا آپ بھی ان تکالیف پر صبر کریں۔ 

یہ قصہ آپ کے لیے تسلی ہے اور منکرین کے لیے زجر اور تنبیہہ ہے ۔پچھلی آیات میں الله تعالی نے دلیل عقلی سے قیامت کے قائم ہوجانے کا ثبوت دیا اب موسی علیہ السلام کا واقعہ بطور نقلی دلیل پیش کیا، جس کے متعلق اس دور کے لوگ کچھ نہ کچھ جانتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک امی کی زبان سے موسی علیہ السلام کا واقعہ بیان کر دینا بھی آپ کی نبوت پر دلیل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس واقعے کی خبر آپ صلی الله علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے دی گئی ہے۔ 


هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ مُوْسٰى (15)

 (اے پیغمبر) کیا تمہیں موسیٰ کا واقعہ پہنچا ہے ؟

۔۔۔۔۔

الله کریم کا یہ سوالیہ انداز نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی تسلی کے لیے ہے یعنی آپ کی رسالت اور دعوت توحید کوئی نئی چیز نہیں آپ سے پہلے بھی انبیاء علیھم السلام الله کی توحید کی دعوت دینے آتے رہے ہیں اور انہیں بھی اس راستے میں تکلیفوں  کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے بعد موسی علیہ السلام اور فرعون کے واقعے کا صرف وہی رُخ یا  پہلو بیان کیا گیا ، جس کی یہاں ضرورت محسوس کی گئی۔ 


إِذْ نَادَاهُ رَبُّهُ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ﴿16)

 جب ان کے پروردگار نے انہیں طوی کی مقدس وادی میں آواز دی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قصہ موسٰی علیہ السلام 

موسی علیہ السلام کا واقعہ قرآن مجید کی بہت سی سورتوں میں بیان کیا گیا ہے جس کی کچھ تفصیل اس طرح سے ہے۔

مصر کا بادشاہ فرعون نہایت ظالم وجابرتھا جو طاقت اور اقتدار کے نشے میں اپنے آپ کو خدا کہتا تھا۔ اس نے بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا لیا تھا۔ اس کے درباری نجومیوں نے اسے خبر دی کہ بہت جلد بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو تیری ہلاکت کی وجہ بنے گا۔ فرعون نے حکم دیا: “ بنی اسرائیل میں جس کے گھر بھی بیٹا پیدا ہو اسے قتل کر دیا جائے۔” ان حالات میں موسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ ان کی والدہ نے انہیں قتل ہونے سے بچانے کے لیے الله کے حکم سے ایک صندوق میں ڈال کر دریائے نیل میں بہا دیا اور ان کی بہن سے کہا: “دیکھتی رہو صندوق کہاں جاتا ہے؟”  صندوق بہتا ہوا فرعون کے محل میں اس کی بیوی آسیہ تک پہنچ گیا۔ اس نے جب کھولا تو ایک خوبصورت بچے کو دیکھ کر فرعون کی مخالفت کے باوجود اسے اپنا بیٹا بنا لیا۔ موسی علیہ السلام کی بہن کی حکمت سے بچے نے  اپنی ماں کے دودھ پر پرورش پائی۔ موسی علیہ السلام  اسی فرعون بادشاہ کے محل میں ناز و نعمت کے ساتھ جوان ہوئے۔ 

ایک دن ایسا ہوا کہ آپ شہر گئے جہاں دو آدمی لڑ پڑے ، جن میں سے ایک حضرت موسی کی قوم سے تھا اور دوسرا فرعونی تھا۔ بنی اسرائیلی شخص نے آپ کو مدد کے لیے بلایا۔ موسی علیہ السلام نے پہلے تو فرعونی کو زبان سے منع کیا ، جب وہ نہیں مانا تو اسے ایک مکا مارا، وہ وہیں گر کر  مر گیا۔ دوسرے دن پھر گھر سے نکلے تو وہی بنی اسرائیلی کسی دوسرے فرعونی کے ساتھ جھگڑ رہا تھا۔ اس نے دوبارہ آپ کو مدد کے لیے بلایا ۔ آپ کو سخت غصہ آیا کہ یہ شخص فساد پھیلا رہا ہے، جب آپ اس کی طرف بڑھے تو اس نے شور مچا دیا۔ موسی علیہ السلام ایک بنی اسرائیلی ہمدرد کی مدد سے مصر سے نکلے اور مدین چلے گئے۔ 

وہاں ایک کنویں پر دو لڑکیاں اپنی بکریوں کو روکے کھڑی تھیں جبکہ دوسرے لوگ پانی پلا رہے تھے۔ موسی علیہ السلام نے ان سے پوچھا کہ وہ اپنی بکریوں کو پانی کیوں نہیں پلا رہیں؟  انہوں نے جواب دیا ہم عورتیں ہیں، جب یہ مرد اپنے جانوروں کو پانی پلا کر چلے جائیں گے پھر ہماری باری آئے گی۔ موسی علیہ السلام نے آگے بڑھ کر ان کی بکریوں کو پانی پلا دیا۔ لڑکیوں نے واپس جا کر اپنے والد شعیب علیہ السلام کو سارا واقعہ سنایا، انہوں نے اپنی لڑکی بھیج کر آپ کو بلوایا۔ موسی علیہ السلام سے سارا واقعہ سن کر انہیں تسلی دی اور اپنی ایک بیٹی کا نکاح ان سے اس شرط پر کر دیا کہ وہ آٹھ سال ان کے پاس رہیں اور اگر چاہیں تو دس سال رہیں۔ 

موسی علیہ السلام نے مدت پوری کی اور یہ سوچ کر کہ آٹھ  دس سال میں لوگ قتل کا واقعہ بھول گئے ہوں گے، شعیب علیہ السلام سے اجازت لے کر وطن واپس روانہ ہو گئے۔ رات کا وقت تھا اور سخت سردی تھی۔ آپ اپنے اہل و عیال کے ہمراہ طور پہاڑ کے قریب پہنچے تو راستہ بھول گئے۔ اہل خانہ کو وہاں ٹھہرا کر کہا سامنے آگ نظر آ رہی ہے۔ میں وہاں سے آگ لے کر آتا ہوں  یا پھر ان سے راستہ پوچھ کر آتا ہوں۔ وہاں پہنچے تو دیکھا وہ آگ نہیں تھی بلکہ الله تعالی کا نور یا تجلی تھی جس نے ایک درخت کو گھیرا ہوا تھا۔ جب قریب پہنچے تو اس سے آواز آئی: “ اے موسی! بیشک میں ہی اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری عبادت کیا کرو۔ اور میری یاد کے لئے نماز پڑھا کرو۔  پھر الله تعالی نے فرمایا موسی تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ جواب دیا عصا یعنی لاٹھی ہے۔ فرمایا اس کو زمین پر ڈال دو۔ آپ نے لاٹھی کو زمین پر پھینکا تو وہ سانپ بن گیا۔ موسی علیہ السلام گھبرا کر بھاگے ، فرمایا اس کو پکڑ لو، یہ دوبارہ لکڑی بن جائے گا۔ پھر فرمایا: اپنے دائیں ہاتھ کو بغل میں دبا کر نکالو۔ آپ نے ایسا ہی کیا، آپ کا وہ ہاتھ چاند کی طرح چمکنے لگا، پھر دوبارہ بغل میں دبا کر نکالا، تو پہلے جیسا ہو گیا۔ اس موقعے پر موسی علیہ السلام کو نبوت اور یہی  دو عظیم الشان معجزے عطا کیے گئے۔ 

إِذْ نَادَاهُ رَبُّهُ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ۔۔۔ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...