نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سورۃ النازعات: آیات: 34,35,36,37,38,39,40,41

سورۃ النازعات 

 فَاِذَا جَاۗءَتِ الطَّاۗمَّةُ الْكُبْرٰى (34)

 پھر جب وہ سب سے بڑا ہنگامہ برپا ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس وقت سب سے بڑی مصیبت یعنی قیامت آ جائے گی۔ طامہ  ایسی بڑی مصیبت اور آفت کو کہتے ہیں جو سمندر کے پانی کی طرح سب پر چھا جائے۔ اس کے ساتھ الکبری یعنی بہت بڑی کا لفظ قیامت کی مزید ہولناکی اور تاکید کو ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ قیامت ایسی بڑی مصیبت ہوگی جو ہر طرف چھا جائے گی اور کوئی اس سے بچ نہیں پائے گا۔

يَوْمَ يَتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰى (35)

جس دن انسان اپنا سارا کیا دھرا یاد کرے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  اس دن ہر شخص اپنے اعمال کو یاد کرے گا جن کو بہت مدت گزر جانے کے بعد بھول چکا ہوگا۔ یعنی جب انسان دیکھ لے گا کہ وہی محاسبہ کا دن آ گیا ہے جس کی اسے دنیا میں خبر دی جا رہی تھی ، تواس سے پہلے کہ اس کا نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں دیا جائے، اسے ایک ایک کر کے اپنے  سارے کام یاد آنے لگیں گے ، جو وہ دنیا میں کرتا رہا تھا ۔ بعض لوگوں کو یہ تجربہ اس دنیا میں بھی ہوتا ہے کہ اگر  کسی وقت وہ کسی ایسے خطرے سے دوچار ہو جائیں، جس میں موت ان کو بالکل قریب کھڑی نظر آنے لگے تو اپنی پوری زندگی کے سارے اچھے برے اعمال نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں ۔

 یا پھر یہ کہ جب نامۂ اعمال اس کے سامنے لایا جائے گا تو اسے دیکھتے ہی انسان کو اپنے تمام اعمال یاد آ جائیں گے۔ 

وَبُرِّزَتِ الْجَحِيْمُ لِمَنْ يَّرٰى (36)

 اور دوزخ ہر دیکھنے والے کے سامنے ظاہر کردی جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 مؤمن اور کافر سب  جہنم کو  دیکھ  لیں گے۔ مومن اس سے بچائے جانے پر اللہ کا شکر ادا کریں گے اور کافر شدید حسرت و افسوس میں مبتلا ہوں گے۔


اب اگلی آیات میں اہل جنت اور اہل جہنم کی خاص علامتیں  بتائی گئی  ہیں۔ ان نشانیوں کو دیکھ کر انسان دنیا میں بھی پہچان سکتا ہے کہ اس کا ٹھکانا جنت ہو گا یا  جہنم۔ البتہ جن لوگوں کے حق میں کسی قسم کی سفارش یا شفاعت قبول ہوگئی وہ الله جل شانہ کی رحمت سے جہنم سے نکال کر جنت میں ڈال دئیے جائیں گے۔ (جیسا کہ بعض روایات اور آیات میں آیا ہے) 

فَاَمَّا مَنْ طَغٰى (37)

 تو وہ جس نے سرکشی کی تھی۔

وَاٰثَرَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا (38)

 اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلے اہلِ جہنم کی دو خاص  نشانیاں  بتائی  گئی ہیں۔ 

۱- طغیان یعنی سرکشی:  الله اور اس کے رسول کے حکم کی فرمانبرداری کرنے کی بجائے جانتے بوجھتے انکار کرنا۔

۲- دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دینا۔ یعنی جب شریعت کسی ایسے کام کا حکم دے جسے کرنے  کے لیے دنیا میں مشکل اور سختی برداشت کرنی پڑے اس کو چھوڑ دینا۔ جس کام میں دنیاوی لذت اور خوشی ملتی ہو اسے کر لینا اور   آخرت میں اس کام  کی سزا اور عذاب کو نظر انداز کردینا۔

فَاِنَّ الْجَــحِيْمَ ھِيَ الْمَاْوٰى (39)

 تو دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔

جو شخص دنیا میں ان دونوں کاموں میں مبتلا ہوجائے اس کے لیے فرمایا: فَان الجحیم ھی المأوٰی (یعنی جہنم ہی اس کا ٹھکانہ ہے) ۔ 

وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى(40)

لیکن وہ جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے کا خوف رکھتا تھا اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اہل جنت کی دو علامات: 

۱- وہ شخص جنتی ہے جسے ہر وقت ، ہر کام کے دوران یہ خوف ہو کہ ایک دن الله تعالی کے سامنے مجھے اس کام کا حساب دینا ہے۔ 

۲- اور وہ شخص جو اپنے نفس پر اس طرح قابو پا لے کہ ناجائز اور حرام کام کرنا تو دور کی بات اس کی خواہش سے بھی خود کو روک لے۔

دونوں شرائط کا تعلق ایک ہی بات سے ہے جسے الله کے سامنے ہر کام کا جواب اور حساب دینے کا خوف ہوگا وہ اپنے نفس کو ناجائز خواہشات سے یقینا روک کر رکھے گا۔ کیونکہ درحقیقت  الله کا خوف ہی انسان کو اتباع ھوا یعنی خواہشات کی پیروی سے روک سکتا ہے۔ 

فَاِنَّ الْجَنَّةَ ھِيَ الْمَاْوٰى (41)

 تو جنت ہی اس کا ٹھکانا ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس میں یہ دونوں خصوصیات پیدا ہو جائیں اس کو یہ خوش خبری ہے۔ فانّ الجنة ھی المأوٰی ( پس بے شک جنت اس کا ٹھکانہ ہے) 

فائدہ: نفس کی خواہشات روکنے کے تین درجے ہیں۔

۱- پہلا یہ کہ وہ غلط عقائد سے محفوظ رہے۔

۲- کسی گناہ یا الله کی نافرمانی کا ارادہ کرے پھر اسے یاد آ جائے کہ مجھے اس بات کا الله کے سامنے جواب دینا ہے۔ اس وجہ سے وہ گناہ کو چھوڑ دے۔ 

اس درجے کی تکمیل اس سے ہوتی ہے کہ وہ شبھات کو بھی چھوڑ دے، یعنی جس کام میں معمولی سا بھی شبہ ہو اسے چھوڑ کر یقینی حکم کو اختیار کرے اورہر کام میں اپنے آپ کو ریا کاری سے بچانے کی کوشش کرے۔ 

۳-خواہش نفس کو روکنے کا  تیسرا اور اعلی ترین درجہ یہ ہے کہ کثرت سے الله کا ذکر، مجاہدہ اور ریاضت کرکے اپنے نفس کو پاک کرلے۔ ایسا شخص الله کا ولی   بن جاتا ہے۔ 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...