مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202


2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط..


نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی نامہ "جریج بن متی" (یہ نام علامہ منصور پوری نے "رحمۃ للعالمین" ۱/۱۷۸ میں ذکر فرمایا ہے.. ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے اس کا نام "بنیامین" بتلایا ہے.. دیکھئے "رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی" ، ص ۱۴۱) کے نام روانہ فرمایا جس کا لقب "مقوقس" تھا اور جو مصر و اسکندریہ کا بادشاہ تھا.. نامۂ گرامی یہ ہے..


بسم اللہ الرحمن الرحیم..

اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مقوقس عظیم ِ قِبط کی جانب..


اس پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے.. اما بعد ! میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں.. اسلام لاؤ سلامت رہوگے اور اسلام لاؤ اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا.. لیکن اگر تم نے منہ موڑا تو تم پر اہل ِ قبط کا بھی گناہ ہوگا.. اے اہل ِ قبط ! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے بعض ، بعض کو اللہ کے بجائے رب نہ بنائیں.. پس اگر وہ منہ موڑ یں تو کہہ دوکہ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں..


(زاد المعاد لابن قیم , ۳/۶۱.. ماضی قریب میں یہ خط دستیاب ہوا ہے.. ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے اس کا جو فوٹو شائع کیا ہے اس میں اور زاد المعاد کی عبارت میں صرف دو حرف کا فرق ہے.. زاد المعاد میں ہے اسلم تسلم اسلم یوتک اللہ...الخ اور خط میں ہے فاسلم تسلم یوتک اللہ.. اسی طرح زاد المعاد میں ہے اثم اہل القبط اور خط میں ہے اثم القبط.. دیکھئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی ص ۱۳۶، ۱۳۷)


اس خط کو پہنچانے کے لیے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا انتخاب فرمایا گیا.. وہ مقوقس کے دربار میں پہنچے تو فرمایا.. "(اس زمین پر ) تم سے پہلے ایک شخص گزرا ہے جو اپنے آپ کو رب اعلیٰ سمجھتا تھا.. اللہ نے اسے آخر واوّل کے لیے عبرت بنا دیا.. پہلے تو اس کے ذریعے لوگوں سے انتقام لیا , پھر خود اس کو انتقام کا نشانہ بنایا.. لہٰذا دوسرے سے عبرت پکڑو.. ایسا نہ ہو کہ دوسرے تم سے عبرت پکڑیں.."


مقوقس نے کہا.. "ہمارا ایک دین ہے جسے ہم چھوڑ نہیں سکتے جب تک کہ اس سے بہتر دین نہ مل جائے.."


حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے فرمایا.. "ہم تمہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے تمام ماسوا (ادیان) کے بدلے کافی بنادیا ہے.. دیکھو ! اس نبی نے لوگوں کو (اسلام کی ) دعوت دی تو اس کیخلاف قریش سب سے زیادہ سخت ثابت ہوئے.. یہود نے سب سے بڑھ کر دشمنی کی اور نصاریٰ سب سے زیادہ قریب رہے.. میری عمر کی قسم ! جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے بشارت دی تھی , اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بشارت دی ہے اور ہم تمہیں قرآن مجید کی دعوت اسی طرح دیتے ہیں جیسے تم اہلِ تورات کو انجیل کی دعوت دیتے ہو.. جو نبی جس قوم کو پا جاتا ہے وہ قوم اس کی امت ہوجاتی ہے اور اس پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس نبی کی اطاعت کرے اور تم نے اس نبی کا عہد پا لیا ہے اور پھر ہم تمہیں دین ِ مسیح سے روکتے نہیں ہیں بلکہ ہم تو اسی کا حکم دیتے ہیں.."


مقوقس نے کہا.. "میں نے اس نبی کے معاملے پر غور کیا تو میں نے پایا کہ وہ کسی ناپسندیدہ بات کا حکم نہیں دیتے اور کسی پسندیدہ بات سے منع نہیں کرتے.. وہ نہ گمراہ جادوگر ہیں نہ جھوٹے کاہن بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ ان کے ساتھ نبوت کی یہ نشانی ہے کہ وہ پوشیدہ کو نکالتے اور سرگوشی کی خبر دیتے ہیں.. میں مزید غور کروں گا.."


مقوقس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط لے کر (احترام کے ساتھ ) ہاتھی دانت کی ایک ڈبیہ میں رکھ دیا اور مہر لگا کر اپنی ایک لونڈی کے حوالے کردیا.. پھر عربی لکھنے والے ایک کاتب کو بلا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حسب ذیل خط لکھوایا..


بسم اللہ الرحمن الرحیم..

محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے مقوقس عظیم قبط کی طرف سے..


آپ پر سلام ! اما بعد ! میں نے آپ کا خط پڑھا اور اس میں آپ کی ذکر کی ہوئی بات اور دعوت کو سمجھا.. مجھے معلوم ہے کہ ابھی ایک نبی کی آمد باقی ہے.. میں سمجھتا تھا کہ وہ شام سے نمودار ہوگا.. میں نے آپ کے قاصد کا اعزاز واکرام کیا اور آپ کی خدمت میں دو لونڈیاں بھیج رہا ہوں جنہیں قبطیوں میں بڑا مرتبہ حاصل ہے اور کپڑے بھیج رہا ہوں اور آپ کی سواری کے لیے ایک خچر بھی ہدیہ کررہا ہوں اور آپ پر سلام..''


مقوقس نے اس پر کوئی اضافہ نہیں کیا اور اسلام نہیں لایا.. دونوں لونڈیاں "ماریہ" اور "سیرین" تھیں.. خچر کا نام دُلدل تھا جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے تک باقی رہا.. (زاد المعاد ۳/۶۱)


نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماریہ رضی اللہ عنہا کو اپنے پاس رکھا اور انہی کے بطن سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے..


حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا مصر سے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کے ساتھ آئی تھیں , اس لیے وہ ان سے بہت زیادہ مانوس ہوگئی تھیں.. حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے اس انس سے فائدہ اُٹھا کر اُن کے سامنے اسلام پیش کیا.. حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا اور اُن کی بہن حضرت سیرین رضی اللہ عنہا نے تو اسلام قبول کرلیا لیکن اُن کے بھائی مابور اپنے قدیم دین عیسائیت پرقائم رہے.. 


حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا گو بطور کنیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد میں آئی تھیں لیکن رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ ازواجِ مطہرات ہی کے ایسا سلوک کرتے تھے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے اعزاز واحترام کو باقی رکھا اور ہمیشہ ان کے نان ونفقہ کا خیال کرتے رہے.. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے ساتھ یہی سلوک مرعی رکھا.. 


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے بیحد محبت تھی اور اس وجہ سے اُن کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمدو رفت بہت زیادہ رہتی تھی.. گو وہ کنیز تھیں (جاربات یعنی کنیزوں کے لیے پردہ کی ضرورت نہیں) لیکن ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھم کی طرح اُن کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ میں رہنے کا حکم دیا تھا.. (اصابہ ، وابن سعد) اُن کے فضل کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ مبارک کافی ہے کہ.....


"قبطیوں کے (مصر کے عیسائی) ساتھ حسنِ سلوک کرو.. اس لیے کہ اُن سے عہد اور نسب دونوں کا تعلق ہے.. اُن سے نسب کا تعلق تو یہ ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (حضرت ہاجرہ علیہ السلام) اور میرے لڑکے ابراہیم (رضی اللہ عنہ) دونوں کی ماں اسی قوم سے ہیں (اور عہد کا تعلق یہ ہے کہ اُن سے معاہدہ ہوچکا ہے)..


(الطبقات الكبرى،ابن سعد:۸/۲۱۴، شاملہ،المؤلف: محمد بن سعد بن منيع أبوعبدالله البصري الزهري، الناشر:دارصادر،بيروت)


----------------------->جاری ھے..


سیرت المصطفی.. مولانا ادریس کاندھلوی..

الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..

عامر عبداللہ

پرزما اور اب اور بہت کچھ


🧕🏻 یہود وکفار سو سالہ پلاننگ سے کام کرتے ہیں ۔۔۔ یہ صرف الفاظ نہیں ایک حقیقت ہے ۔۔۔۔ سلطنت عثمانیہ کے زوال اور برصغیر میں اسلامی سلطنت کی تاریخ سے آگاہی رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہودیوں کے لئے اسلام اور نظام مصطفی صلی الله علیہ وسلم کس قدر ناپسندیدہ ہے ۔ یہودی اسلام کو مٹانے کے لئے اپنے جان و مال اور تمام تر ذہنی شاطرانہ صلاحیتیں استعمال کرتے ہیں ۔۔۔ اور اس کے لئے ہر حد تک جا سکتے ہیں ۔۔۔۔ 
ان کے ہر کام ، ہر بزنس ، ہر سودے ، ہر کمپنی ، ہر فائدہ ہر نقصان  کے پیچھے ان کا خاص مقصد کام کرتا ہے ۔۔۔۔ دجال کی آمد کی تیاری 
اس کے لئے وہ جڑ سے لے کر چوٹی تک کام کرتے ہیں ۔۔۔ ہمارے بچوں کو ہماری نسلوں کو تیار کر رہے ہیں اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنے کو ۔
اس فتنے سے خود بچنا اور اپنی آنے والی نسلوں کو  بچانا بہت بڑی ذمہ داری ہے ہم پر ۔۔۔۔ جسے نظر انداز کرکے ہم الله جل شانہ کی پوچھ سے بچ نہیں پائیں گے ۔ 
بے شک الله تعالی کی ذات خود حفاظت کرنے والی ہے ۔۔۔۔ ومکروا و مکر الله  والله خیر الماکرین ۔۔۔۔ وہ مکر وفریب کے جال تیار کرتے ہیں  اور الله جل شانہ اس کا توڑ فرماتا ہے ۔ بے شک وہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے ۔۔۔ 
الله کریم ہمیں اور ہماری نسلوں کو شیطان اور اس کے ساتھیوں کے دجل و فریب سے اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔ 

👨‍🦱 تم انسان کی لذت کو ختم نہیں کرسکتے۔۔۔۔۔۔ہاں ایجاد کو اپنے ہاتھ میں کرکے اس کو فلٹر کرسکتے ہو۔۔۔۔۔ابلیس اور ابلیسی ذہن یہ بات بہت اچھے سے جانتے ہیں۔۔۔۔تمہارا واویلا خواہ سچا ہی ہو دب جائے گا لذت سے مجبور تسخیر کے خوگر ذہنوں کے شور میں ۔۔۔۔۔ انسان کو اصل مزا لاکھوں میل دور بیٹھ کے اپنے عزیز سے فیس ٹو فیس بات کرکے نہیں آتا۔۔۔۔بلکہ اسے اصل مزا اس کائنات کے اس راز کو مسخر کرنے میں آتا ہے۔۔۔۔اپنی قوت کے سامنے سجدہ ریز ہوتی کائنات کی سچائیوں اور قوتوں کو دیکھ کے آتا ہے۔۔۔۔ سوچو اگر موبائل مسلمان کی ایجاد ہوتا۔۔۔۔۔سوچو اگر کمپیوٹر مسلمان کی ایجاد ہوتا۔۔۔سوچو اگر جدید ترین ٹیکنالوجی کے موجد مسلمان ہوتے۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔کیا تھا کہ ہم مسلمان ہوتے۔۔۔۔۔!!!
کتنا بھاگو گے اپنی تقدیر سے!!!

🧕🏻 ہم تقدیر سے بھاگ نہیں رہے ۔ ہم تدبیر کر رہے ہیں ۔ اور وہ بھی اس مالک الملک کے بھروسے پر ۔ اور یہ ساری ایجادات جن پر غیر اکڑ رہے ہیں اور تم جیسے مرعوب ہو رہے ہیں مسلمانوں کی ایجادات ہیں ۔۔۔ اگر بنیاد میسر نہ آتی تو وہ قوم جو اپنی صفائی کے طریقوں سے ناآشنا تھی کبھی یہ مانگے کے محل بنا کر کھڑی نہ ہو پاتی ۔ 
ابھی ہم نسیا منسیا تو نہیں ہوئے جو تمارے ذہن اغیار کے سامنے سجدہ ریز ہوئے جاتے ہیں ۔ تاریخ کے اوراق سے دھول صاف کرو اور آنکھیں کھول کر دیکھو وہ ہم ہی تھے جنہوں نے انہیں بولنا سکھایا ۔ ان کو لکھنا پڑھنا بتایا  ۔۔۔ ان کو ان کے حقوق سے آشنا کیا ۔ اور مروت اور غداری میں مارے گئے ۔ 
تو کیا ۔۔۔ پھر اٹھیں گے اگر سورج ڈھل جانے سے شام ہوتی ہے تو رات کے بعد صبح بھی ہوتی ہے ۔ اور یاد رکھو مؤمن کی لذت اپنے رب اور اپنے راہنما کامل صلی الله علیہ وسلم کے احکام کے تابع ہوتی ہے ۔ ہم انسان نہیں مسلمان ہیں ۔ اور ہمیں  مسلمان سے  مؤمن بننا ہے شیطان نہیں ۔۔۔ 

👨‍🦱 مجھے بہت کم باتوں پہ ہسی آتی ہے۔۔۔۔۔خیر سجدہ ریز تو میں اپنے اجداد کی عظمت پر بھی نہیں ہوسکتا!!۔۔۔۔کیونکہ مجھے آگے بڑھنا ہے۔۔۔۔۔ہاں آپکی مرقدِ حسرت ضرور اجداد کی عظمت ہے۔۔۔۔۔انسان ہی تو آپ خود کو نہیں سمجھتے!!۔۔۔۔مومن ایک کیفیت ہے۔۔۔۔۔انسان خصلت۔۔۔۔۔اور یہ آپ کی خوش خیالی ہے کہ آپ نے بولنا سیکھایا۔۔۔۔یہود آپ سے زیادہ اس دعوی میں حق بجانب ہوں گے جب انہوں نے کہا ہوگا۔۔۔۔یہ عرب کے بدو ہمیں سکھائیں گے۔۔۔۔۔ !،یہ عرب کا امی صلی اللہ علیہ وسلم۔      ماں جی قرآن کریم میں ہے کرمنا بنی آدم۔۔۔۔۔۔بنی آدم۔۔۔۔۔۔جو اپنی ذات میں گوہر نایاب ہیں انہیں بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ لاکھوں ٹن کوئلے کے اندر دبے تھے یا سمندر کی اندھی گہرائیوں میں دفن تھے پہلے۔۔۔۔۔تاریخ عظمتِ حال سے بحث کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔یہ غرور کی عینک اتار کے دیکھیں آپ کہاں کھڑے ہیں۔۔۔۔اجداد اپنا کام کر گئے بہت عمدہ۔۔۔۔۔ہم کیا ہیں۔۔۔۔ہم انسان ہیں۔۔۔ کیونکہ جن اور انس کی تخلیق کا ذکر ہے قرآن میں۔۔۔۔۔مسلمان مومن۔۔۔منافق یا کافر یہ فیصلہ تو ہونا ہے۔۔۔۔۔۔آپ کیسے کہہ رہی ہیں ہم نے بولنا سیکھایا۔۔۔۔۔اللہ کریم کہتے ہیں قرآن میں کہ اللہ نے سیکھایا جو بھی سکھایا۔۔۔۔۔خائف آپ ہو چکے ہیں۔۔۔۔اپنے اعصاب کی لرزش دیکھ کہ۔۔۔۔۔۔آپ کے پاس ان کے کسی وار کا توڑ نہیں ہے!!۔۔۔۔جس نسل کو بچانے کے آپ مدعی ہیں وہ ان کی انگلی کے اشارے پہ ہے۔۔۔۔صرف پرزما ہی لے لو۔۔۔۔آپ کہتے ہیں یہ سازش ہے۔۔۔۔دیکھ لیں کتنے مسلمان یوزر ہیں۔۔۔۔۔کیا توڑ ہے آپ کے پاس۔۔۔۔!!!۔۔    وہ آپ کو ہر میدان  میں للکارتے ہیں آپ ہیں کہ گھر میں صفیں ڈال کے سورمے بنتے ہیں۔۔۔۔۔مغرور۔۔۔۔ ۔۔۔ مسلمان ہونے کے دعوی کے سوا ہمارے پاس ہے کیا؟؟۔۔۔۔ویسے قدرت نے وسائل سے نوازنے میں تو کمی نہیں کی ۔۔۔۔مسلمان ممالک آج بھی وسائل کے لحاظ سے مضبوط ہیں مگر۔۔۔۔۔غیرت جو ہوتی ہے نا!!!۔۔۔۔وہ زندہ نظریہ رکھنے والوں میں ہوتی ہے۔۔۔۔۔کہاں ہیں آپ؟؟۔۔۔۔۔



🧕🏻 تمہارا کوئی قصور نہیں ۔ تم کفر وشرک کے اندھیروں کی طرف دیکھتے ہو ۔ اور ہم ان ہی میں چمکنے والے ایمان کے جگنوؤں کو ۔ 
تم ان کی پھیلائی مصنوعی روشنی کو دن کااجالا سمجھتے ہو ۔ اور ہم حقیقی روشنی کے انتظار میں چراغ جلائے بیٹھے ہیں ۔ تمہیں ہنسی آتی ہے تو مجھے تمہاری سوچ پر افسوس
لیکن یہ تو بتاؤ کیا انکو پیدا کرنے والا خدا کوئی اور ہے ۔ یا جتنی بھی ان کے پاس طاقت آجائے گی  وہ  رب العلمین کی تخلیق سےنکل جائیں گے ۔ 
کیا پہلی قوموں نے عروج کو نہیں چھوا تھا ۔۔ اور وہ ملیا میٹ ہو کر ذہن ہستی سے مٹ  نہیں چکی ۔ قوم عاد قوم ثمود ۔۔۔ ارم ذات العماد ۔۔۔ اور یہ پیرامڈ فرعون کے اہرام مصر ۔۔۔ ان کی حساب دانی تک تو ابھی تک تمہارا ذہین انسان نہیں پہنچا ۔ 
انسان کی نجات مؤمن بننے میں ہے کامیابی اطاعت میں ہے ۔ مالک کے آگے سر جھکانے میں تبھی زمین و آسمان کی وسعتیں اس پر روشن ہو سکتی ہیں ۔ 
اور غرور تو ہے ہمیں اپنے ہونے پر کہ ہم آخری نبی کی امت سے ہیں ۔ جب کفار جھوٹے میناروں پر فخر کر سکتے ہیں تو ہم سچی حقیقتوں پر کیوں نہیں ۔ 
اور شاندار ماضی ہے تو اس پہ فخر کریں گے اور اسی کو حال  ومستقبل بنانے کی کوشش کریں گے ۔ وہ ماضی جس میں تحقیق و عمل اور اجتہاد و فیصلہ کی ساری قوتیں تھیں ۔ جس میں ایک رہبر کامل تھا اور اس کی تیار کردہ ایک جماعت تھی ۔ اسی راہ پر چل کر کامیابی ملے گی بس راہ کے روڑے ہٹانے اور کھڈے پر کرنے ہیں ۔ جس دن یہ موٹر وے تیار ہو گئی ہم کامیابی کی شاہراؤں پر سرپٹ دوڑنے لگیں گے ۔ ہمارا کام مزدوری کرنا ہے ۔۔۔ اس کام کا ٹھیکدار وہی الله کی ذات ہے ۔ وہی جانے کیسے تکمیل تک پہنچے گا ۔ ہم تو سر جھکائے مٹی روڑے اٹھاتے رہیں گے ۔

👨‍🦱 روڑے اٹھاتے اٹھاتے راہ ہی چھوڑ دیجئے گا۔۔۔۔ کیونکہ روڑے چننے والے اکثر راہ بھول کہ روڑے ہی دیکھنے لگتے ہیں۔۔۔  !!!۔۔۔ باقی روشنی کہیں دور نہیں گئی جسے ڈھونڈنے کے لیے صدیوں کا انتظار درکار ہو۔۔۔۔بس یہ فخر کے کالے چشمے اتار لیں۔۔۔ اور خودساختہ روڑوں کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دیں۔۔۔۔دماغ کو وسعت دیں۔۔۔۔۔اگر موقعہ اور توفیق ہو تو قرآن کو تاریخ کے تناظر میں بھی دیکھ لیں۔۔۔ قوم کیسے وجود میں آتی ہے۔۔۔ کیسے عروج پر پہنچتی ہے کیسے زوال کا شکار ہوتی ہے۔۔۔۔اپنے دونوں کمنٹ ذہن میں رکھیں مجھ سے یا کسی سے پوچھنے کی حاجت نہیں کہاں غلطی ہوئی۔۔۔۔۔اور اجتہاد تو آپ رہنے ای دیں۔۔۔۔

استخارہ کب اور کیسے کریں ؟

استخارہ کیوں کرنا چاہیے؟

بندہ مؤمن کی زندگی کا ہر اصول ، ہر طریقہ الله  سبحانہ و تعالی نے خوب واضح فرما دیا ہے ۔ 
جب حقوق الله میں کو تاہی کی جائے ۔۔۔ یعنی الله جل جلالہ کے بتائے گئے طریقے پر چلنے میں لا پرواہی برتی جائے تو خود بخود حقوق العباد میں کمی اور کوتاہی نمایاں ہونے لگتی ہے ۔ 
جب بھی کوئی کام شروع کرنے کا ارادہ  کیا جائے تو سب سے پہلے الله تعالٰی سے مشورہ کر لینا چاہئیے ۔ اور اس کا طریقہ " استخارہ " کرنا ہے ۔ 
اگر آپ کے ساتھ کام میں دوسرے لوگ بھی کسی نہ کسی طریقہ سے مددگار ہیں تو ان سے مشورہ کرکے کام کو آگے بڑھانا چاہئیے ۔ اگر کام اجتماعی نوعیت کا ہو مثلا  جماعت ، گروہ یا کمیونٹی کی اصلاح و تربیت کا ۔ اور اس میں کچھ لوگ آپ کے معاون و مدد گار ہوں کسی بھی سطح پر تو دو باتوں کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہو جاتا ہے 
ایک تو یہ کہ نیت خالص الله جل شانہ کی  رضا اور اس کی خوشنودی  حاصل کرنے کی ہو ۔۔
دوسرے یہ کہ ہر کام میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کو اوّلیت دی جائے ۔ 
الله سبحانہ و تعالی نے " مشورہ "کو اہل ایمان کی بہترین صفات میں شمار کیا ہے ۔ 

وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ

 سورۃ شورٰی ۔۔ آیہ ۳۸ 


اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔ اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں۔ اور جو مال ہم نے انکو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔


الله سبحانہ و تعالی کے حکم پر عمل کرنے سے ایسے تمام کاموں میں الله کی مدد شامل حال رہتی ہے ۔ اور شر ، فتنہ و فساد اور انتشار پھیلنے کا خطرہ نہیں رہتا ۔۔۔ اور نہ ہی دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی پیدا ہوتی ہے ۔ 

جب انتظامیہ میں شامل تمام لوگ آپس میں مشورہ کرکے کام کو آگے بڑھائیں تو پھر بعد میں کسی کو اعتراض کرنے کا حق بھی نہیں رہتا ۔  اور ذہن میں بدگمانی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ہی دوسرے افراد پر شک و شبہ پیدا ہوتا ہے ۔  پھر ایک گروہ میں دوسرا گروہ پیدا ہونے کے امکانوت بھی ختم ہوجاتے ہیں ۔ 

نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم  نے  مشورہ کی اہمیت کے پیش نظر  انتظامی معاملات میں مشورہ کرکے عملی طور پر امت کی تربیت کی ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم ہر کام میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ فرماتے پھر کام کو آگے بڑھاتے  ۔۔۔ سوائے ان کاموں کے جن میں الله رب العزت کا قطعی حکم آ جاتا 

حاصلِ کلام یہ ہے کہ ہمیں بھی اپنے ہر کام میں مشورہ  کرنے کو اہمیت دینی چاہئیے ۔ اپنے معاملات کو نیت خالص کرتے ہوئے الله سبحانہ و تعالی کے حکم کے مطابق اور نبی محترم صلی الله علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کی کوشش میں انجام دینا چاہئیے ۔ تاکہ الله تعالی کی مدد شامل حال  رہے اور کام کا مقصد فوت نہ ہو ۔۔۔۔ 


استخارہ کیسے کریں 

استخارہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں،نیت یہ ہو کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔ 

سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی مسنون دعا مانگیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے، استخارہ کی مسنون دعا:

'' اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ ، وَ أَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَ لاَ أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ اَللّٰهُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِهٖ وَ اٰجِلِهٖ ، فَاقْدِرْهُ لِیْ ، وَ یَسِّرْهُ لِیْ ، ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْهِ وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِهٖ وَ اٰجِلِهٖ ، فَاصْرِفْهُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْهُ ، وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِهٖ ۔''

دعاکرتے وقت جب”هذا الامر “پر پہنچے تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ”هذا الامر “کی جگہ اپنے کام کا نام لے، مثلاً: ”هذا السفر “یا ”هذا النکاح “ یا ”هذه التجارة “یا ”هذا البیع “کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ”هذا الأمر “کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ۔

استخارے کے بعد  جس طرف دل مائل ہو وہ کام کرے۔ اگر ایک دفعہ میں قلبی اطمینان حاصل نہ ہو تو سات دن تک یہی عمل دہرائے، ان شاء اللہ خیر ہوگی۔استخارہ کے لیے کوئی وقت خاص نہیں، البتہ بہتر یہ ہے کہ رات میں سونے سے پہلے جب یکسوئی کا ماحول ہو تو استخارہ کرکے سوجائے، لیکن خواب آنا ضروری نہیں ہے۔ بلکہ اصل بات قلبی رجحان اور اطمینان ہے۔ 

فقط واللہ اعلم

حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ ہمیں تمام معاملات میں قرآنی سورت کی طرح استخارے کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی اہم کام کا ارادہ کرے تو رکعتیں پڑھے، اس کے بعد یوں دعا کرے: اے اللہ! میں تیرے علم کے ذریعے سے تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے ساتھ ہمت کا طالب ہوں اور تیرے عظیم فضل کے ذریعے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ بلاشبہ تو ہی قدرت رکھنے والا ہے میں قدرت نہیں رکھتا۔ تو جانتا ہے میں نہیں جانتا۔ اور تو تمام تر پوشیدہ چیزوں کو جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے بہتر ہے میرے دین کے اعتبار سے، میری معاش اور میرے انجام کار کے اعتبار سے۔۔۔۔۔ یا دعا میں الفاظ کہے: فی عاجل أمری وآجله۔۔۔۔۔ تو پھر اسے میرے لیے مقدر کر دے۔ اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے برا ہے دین کے لیے، میری زندگی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)

 [صحيح بخاري، حديث نمبر:6382]
حدیث حاشیہ: 
(1)
اس دعا میں ''هذا الأمر'' کے بعد درپیش ضرورت کا نام لے، مثلاً: 
''هذا الأمر من السفر، هذا الأمر من التجارة، هذا الأمر من الزواج'' وغیرہ۔
استخارے کی دو رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی دوسری سورت پڑھی جا سکتی ہے۔
انسان کو چاہیے کہ استخارہ کرنے سے پہلے اپنے ذہن کو صاف کر لے، یعنی خاص رجحانات اور کسی ایک طرف اپنا میلان چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے خیر و برکت کا طالب ہو اور پورے خلوص کے ساتھ اپنے رب کے حضور اپنی گزارشات پیش کرے۔
استخارہ کے آداب حسب ذیل ہیں: 
٭ ظاہری اور باطنی طہارت کا اہتمام کیا جائے، اپنے کپڑے، بدن اور جگہ کو پاک و صاف رکھا جائے۔
٭ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ استخارہ ایک عبادت ہے جو نیت کے بغیر بے سود ہے، نیت صرف دل سے ہو گی۔
٭ یہ احساس بھی ہونا چاہیے کہ میں اپنے رب سے بھلائی کا طالب ہوں، لہذا پوری یکسوئی اور توجہ سے استخارہ کرے۔
٭ اگر کسی گناہ کا عادی ہے تو اسے فوراً ترک کرے، اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے، پھر درپیش مسئلہ کے متعلق استخارہ کرے۔
٭ استخارہ ایک دعا ہے، اس لیے دعا کے آداب کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے، یعنی دعا سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درودوسلام پڑھا جائے۔
درود کے وہی الفاظ ہوں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمایا ہے۔
٭ رزق حلال کا اہتمام بھی انتہائی ضروری ہے۔
حرام روزی کھانے سے کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی تو استخارہ کیسے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
٭ استخارہ کرنے والا یقین کامل رکھے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے، جو کام اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا اس میں ہی دنیا و آخرت کی بہتری ہے۔
٭ استخارہ کے بعد وہ باوضو ہو کر قبلہ رخ لیٹ جائے بشرطیکہ استخارہ سونے سے پہلے کیا ہو اگرچہ نیند کے ساتھ استخارے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
(2)
استخارہ کرنے کا طریقہ حسب ذیل ہے: 
٭ جب انسان کو کوئی اہم مسئلہ درپیش ہو تو فوراً استخارہ کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جائے۔
٭ نماز کے وضو کی طرح مکمل وضو کرے۔
٭ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل ادا کرے۔
٭ نماز سے فراغت کے بعد استخارہ کی مذکورہ بالا دعا پڑھے۔
یہ بھی واضح رہے کہ استخارہ کرنے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے، اس لیے انسان کو جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو وہ استخارے کا اہتمام کر سکتا ہے۔
اگر ایک دفعہ استخارہ کرنے سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا تو اس کے لیے جائز ہے کہ تین بار اس کا اہتمام کرے کیونکہ استخارہ ایک دعا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کم از کم تین بار دعا کیا کرتے تھے۔
(صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 4649 (1794) (3)
درج ذیل امور میں استخارہ مشروع نہیں ہے: 
(ا)
جن امور پر عمل واجب ہے، مثلاً: 
نماز، روزہ وغیرہ ان کی بجا آوری کے لیے استخارہ کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ان پر عمل کرنا استخارہ کرنے کے بغیر ہی واجب ہے۔
(ب)
جن امور پر عمل جائز نہیں، مثلاً: 
جوا اور شراب نوشی وغیرہ، ان میں بھی استخارہ جائز نہیں کیونکہ ان سے دور رہنا انسان کی ذمے داری ہے۔
اسی طرح صلہ رحمی اور حسن سلوک کا معاملہ ہے۔
(ج)
جو امور شریعت کی نظر میں انتہائی پسندیدہ ہیں، مثلاً: 
تہجد اور تلاوت قرآن وغیرہ ایسے امور میں استخارے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی تعمیل اور بجا آوری کو شریعت پہلے ہی پسند کر چکی ہے۔
(د)
وہ امور جو شریعت کی نظر میں مکروہ ہیں، ان کا ارتکاب شارع علیہ السلام نے اچھا خیال نہیں کیا، ایسے امور میں بھی استخارہ جائز نہیں۔
(ہ)
وہ امور جن کا تعلق گزشتہ واقعات سے ہے، مثلاً: 
چور کو تلاش کرنا، اس کے لیے استخارے کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ استخارہ آئندہ پیش آمدہ ضروریات کے متعلق کیا جاتا ہے۔
صرف ان جائز امور میں استخارہ کیا جا سکتا ہے جن کے کرنے یا نہ کرنے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار دیا ہے لیکن وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ کس کام کو اختیار کروں، ان میں استخارہ جائز اور فائدہ مند ہے یا کسی جائز کام کو شروع کرنے میں استخارہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کام اگر اس کے لیے فائدہ مند ہے تو کرے اور اگر بے فائدہ ہے تو اسے نظر انداز کر دے۔
(4)
انسان کی زندگی میں شادی ایک اہم ترین مرحلہ ہے۔
انسان کو اپنی شریک حیات کا انتخاب انتہائی سوچ بچار کے بعد کرنا چاہیے۔
اگر میاں بیوی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی ہو تو زندگی آرام اور سکون سے گزرتی ہے بصورت دیگر دنیا میں ہی سخت ترین عذاب سے دوچار ہونا پڑتا ہے لیکن عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ شادی کے سلسلے میں ہم اس معیار کو برقرار نہیں رکھتے جسے شریعت نے پسند کیا ہے۔
مال و دولت اور حسب و نسب کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔
شریعت کی نظر میں اس قسم کے غیر معیاری رشتوں کے لیے استخارے کا سہارا لینا کسی صورت میں جائز نہیں۔
شادی کی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی طور پر استخارے کا حکم دیا ہے، چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کے استخارے کے متعلق فرمایا: 
تم بہترین طریقے سے وضو کرو، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے جو نماز مقدر کی ہے اسے ادا کرو، پھر اللہ کی تعریف اور بزرگی بیان کرتے ہوئے درج ذیل دعا پڑھو: 
(اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ أَنْتَ عَلَّامُ [ص: 567] الْغُيُوبِ، فَإِنْ رَأَيْتَ لِي فِي فُلَانَةَ، تُسَمِّيهَا بِاسْمِهَا، خَيْرًا فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَآخِرَتِي، وَإِنْ كَانَ غَيْرُهَا خَيْرًا لِي مِنْهَا فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَآخِرَتِي، فَاقْضِ لِي بِهَا " أَوْ قَالَ: 
«فَاقْدِرْهَا لِي») (مسند أحمد: 423/5)
اے اللہ! تو قدرت رکھتا ہے اور میں طاقت نہیں رکھتا، تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا۔
تو پوشیدہ معاملات کو خوب جاننے والا ہے، اگر فلاں عورت (اس کا نام لے)
کے متعلق جانتا ہے کہ وہ میرے لیے دین، دنیا اور میری آخرت کے لحاظ سے بہتر ہے تو میرے لیے اس کا فیصلہ فرما دے اور اگر اس کے علاوہ کوئی میرے دین و دنیا اور آخرت کے اعتبار سے بہتر ہے تو میرے لیے اس کا فیصلہ کر دے یا کہا: 
اسے میرے مقدر میں کر دے۔
 (5)
اس حدیث کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ والدین اپنی اولاد کے لیے کسی رشتے کا انتخاب کرتے وقت استخارہ کر سکتے کہ وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی اس جگہ کریں یا نہ کریں لیکن استخارے سے پہلے شرعی معیار کو ضرور دیکھ لینا چاہیے۔
(6)
ہمارے ہاں غیر شرعی استخارے کی کئی صورتیں رائج ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: 
٭ استخارہ سنٹر: 
کچھ شعبدہ باز اور چرب زبان حضرات نے استخارہ سنٹر کھول رکھے ہیں۔
یہ دوسروں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی جان، عزت و آبرو اور مال و دولت پر شب خون مارتے ہیں۔
ان کے ہاں استخارے کی فیس مقرر ہے۔
سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی طرح استخارہ سپیشلسٹ کی فیس قدرے زیادہ ہے۔
اس کام کے لیے ٹی وی پر باقاعدہ چینل کا اہتمام کیا گیا ہے۔
لوگ ان سے سوال کرتے ہیں کہ حضرت استخارہ کر کے بتائیے کہ میرا فلاں کام ہوگا یا نہیں۔
یہ حضرت کچھ وقت مراقبہ کرنے کے بعد کام کے ہونے یا نہ ہونے کا بتاتا ہے۔
یہ دین فروشی کی انتہائی افسوسناک مثال ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان خود استخارہ کرے، کسی دوسرے سے استخارہ کرانے کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں ہے، ہاں اس شرط پر دوسرے کے لیے استخارہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ جس معاملے میں استخارہ کر رہا ہے کسی نہ کسی طرح کوئی دوسرا بھی اس کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، مثلاً: 
کوئی والد اپنی بیٹی کا رشتہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی بیٹی کے لیے استخارہ کر سکتا ہے کہ آیا اس کی شادی اس جگہ مناسب ہے یا نہیں، اس لیے انسان کو اپنی ذاتی ضرورت کے لیے خود ہی استخارہ کرنا چاہیے کیونکہ جس خلوص کے ساتھ وہ خود اپنے لیے خیر و برکت طلب کر سکتا ہے کوئی دوسرا اس انداز سے نہیں کر سکتا۔
بہرحال دور حاضر میں جو استخارہ سنٹر جگہ جگہ کھلے ہوئے ہیں ان کی شرعی حالت انتہائی مخدوش ہے۔
واللہ أعلم۔
٭ تسبیح اور استخارہ: 
کچھ لوگ کوئی بھی تسبیح پکڑ کر ایک دانے پر ہاں اور دوسرے پر نہ بولتے ہیں۔
جو بات آخری دانے کے مطابق ہو، اس پر عمل کرنا استخارہ کی کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔
شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
٭ قرآن کریم اور استخارہ: 
کچھ لوگ قرآن مجید کا کوئی صفحہ کھول کر پہلی آیت کریمہ پڑھتے ہیں پھر اس کے مفہوم سے خود ساختہ نتائج کشید کرتے ہیں۔
یہ طریقہ بھی باطل اور غیر شرعی ہے۔
٭ تیر اور استخارہ: 
بعض لوگ تیر پھینک کر استخارہ کرتے ہیں۔
اس کے دائیں یا بائیں گرنے سے نتیجہ اخذ کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
یہ طریقہ اسلام سے پہلے رائج تھا جسے اسلام نے باطل قرار دیا ہے۔
(7)
ہمارے ہاں استخارے کے متعلق ایک زبردست غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد خواب میں کچھ نہ کچھ نظر آنا ضروری ہے تاکہ استخارے کا نتیجہ اخذ کرنے میں آسانی ہو۔
یہ نظریہ بھی صحیح نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی حدیث میں اس کی وضاحت نہیں فرمائی۔  
اصل بات یہ ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد کسی بھی طریقے سے اللہ تعالیٰ انسان کا دل مطمئن کر دیتا ہے، خواہ وہ خواب کی صورت میں ہو یا دلی تسلی کی شکل میں ہو۔
اگر استخارہ کرنے کے بعد انسان کا دل کسی خاص سمت مائل ہو جائے تو انسان کو اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اسے اختیار کر لینا چاہیے اور اگر اس کا دل اس کام کو چھوڑنے کی طرف مائل ہو جائے تو اسے وہ کام چھوڑ دینا چاہیے۔
(8)
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث سے استخارہ کرنے کے متعلق درج ذیل بنیادی اور اہم حقائق معلوم ہوتے ہیں: 
٭ استخارہ ایک دعا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآنی سورتوں کی طرح سکھائی تاکہ وہ اپنے معاملات کے بہتر انجام کے لیے اللہ تعالیٰ سے عرض کریں کیونکہ ہر کام کے انجام کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔
٭ استخارہ کرنے والا شخص موحد، متبع سنت، مخلص اور دیندار ہونے کے ساتھ ساتھ کبائر کا ارتکاب کرنے والا نہ ہو اور صغائر پر اصرار کا عادی بھی نہ ہو۔
٭ استخارے کی دعا کرنے سے پہلے وہ دو رکعت نفل ادا کرے، پھر سنت کے مطابق مذکورہ دعا پڑھے۔
٭ استخارے کے الفاظ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ استخارہ کرنے والے کو خود یہ دعا پڑھنی چاہیے۔
استخارے کی دعا مانگنے سے پہلے اس دعا کو اچھی طرح یاد کرنا چاہیے اور اس کے معانی و مطالب کو بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے۔
٭ کسی شخص کو بھی کسی دوسرے شخص کی طرف سے استخارہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ فریق ثانی کو کوئی مجبوری اور تکلیف نہیں، پھر وہ استخارے کا عمل کیوں کرے۔
٭ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی۔
اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندے کا امتحان لیتا ہے کہ اس معاملے میں وہ کس قدر ثابت قدم رہتا ہے۔
٭ استخارے کا تعلق علم غیب سے ہے۔
قرآن و حدیث میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اس معاملے میں وہ کس قدر ثابت قدم رہتا ہے۔
٭ استخارے کا تعلق علم غیب سے ہے۔
قرآن و حدیث میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، اس لیے انسان کو شعبدہ بازوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔
٭ اہل علم حضرات کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو استخارے کی دعا اور اس پر عمل کرنے کا طریقہ بتائیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تعلیم دیتے تھے۔
(9)
آخر میں ہم یہ بات پھر دہراتے ہیں کہ دور حاضر میں قسمت کا حال بتانے والے نجومی، شعبدہ باز جو عوام کو ان کی گم شدہ چیزوں کا پتا دیتے ہیں اور ان کی مشکلات کا حل بتاتے ہیں، پھر استخارے کے ذریعے سے ان کی بگڑی بناتے ہیں وہ کھلے کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔
آئے دن اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات اور جھوٹی کہانیاں شائع ہوتی ہیں، ان سے بچنا ایک موحد مسلمان کا اولین فریضہ ہے۔
اس غیر شرعی پیشے سے اظہار بےزاری کرنا ایک غیرت مند مسلمان کا اولین فرض ہے۔

واللہ أعلم

ڈاکٹر حمید الله سے چند سوالات اور ان کے جوابات : تاریخ قرآن مجید

 سوال ٢ مع جواب:

میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد میں دوسرے سوالوں پر توجہ کرسکتا ہو۔ ایک سوال حروف مقطعات کے متعلق ہے۔ یعنی قرآن مجید میں بعض جگہ الفاظ نہیں ہیں بلکہ حروف ہیں مثلاً الم، حم، عسق، وغیرہ۔ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان الفاظ کی کبھی تشریح نہیں فرمائ۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تشریح فرمادی ہوتی تو بعد میں کسی کو جرات نہ ہوتی کہ اس کے خلاف کوئ رائے دے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کم از کم ساٹھ ستر آراء پائ جاتی ہیں۔ الف صاحب یہ بیان کرتے ہیں۔ ب صاحب وہ بیان کرتے ہیں اور یہ چودہ سو سال سے چلا آرہا ہے۔ اس کا قصہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ آج بھی لوگ نئ نئ رائے دے رہے ہیں۔ لطیفے کے طور پر میں عرض کرتا ہوں۔ 1933ء کی بات ہے۔ میں پیرس یونیورسٹی میں تھا، تو ایک عیسائ ہم جماعت نے ایک دن مجھ سے کہا کہ مسلمان ابھی تک حروف مقطعات کو نہیں سمجھ سکے۔ میں بتاتا ہوں کہ یہ کیا چیز ہے؟ وہ موسیقی کا ماہر تھا، کہنے لگا کہ یہ گانے کی جو لے اور دھن وغیرہ ہوتی ہے ان کی طرف اشارہ ہے۔ کہنے کا منشا یہ ہے کہ لوگ حروف مقطعات کو جاننے کی کوشش کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اپنی حد تک میں کہہ سکتا ہوں مجھے اس کے متعلق کوئ علم نہیں ہے۔ سوائے ایک چیز کے اور وہ یہ ہے کہ ایک حدیث میں کچھ اشارہ ملتا ہے کہ ایک دن کچھ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور پوچھا کہ تمہارا دین کب تک رہے گا؟ کم وبیش اسی مفہوم کے الفاظ انہوں نے اداکیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؟ "الم" تو انہوں نے کہا اچھا تمہارا دین الف (١) ل(٣۰) اور م(٤۰) یعنی اکہتر سال رہے گا الحمدللہ اکہتر سال بعد تمہارا دین ختم ہوجائے گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر "الر" اور "المر" بھی نازل ہوا ہے۔ انہوں نے کہا الر ٢٣١ سال المرا ٢٧ سال۔ پھر آپ نے فرمایا کہ مجھ پر فلاں فلاں لفظ بھی نازل ہوا ہے مثلا لحم عسق وغیرہ۔ یہاں تک کہ یہودیوں نے کہا کہ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتا اور چلے گئے ہوسکتا ہے کہ انہیں پریشان کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا جواب دیا ہو۔ لیکن اس میں اس بات کی طرف اشارہ بھی ملتا ہے کہ حروف کی گویا عددی قیمت ہے۔ جس طر لوگ واقف ہیں کہ الف کے ایک، ب کے دو، ج کے تین اور د کے چار عدد مقرر ہیں اسی طرح عربی زبان میں اٹھائیس حروف ہیں۔ ان سے بہت ہی مکمل طریقے سے ایک ہزارتک لکھ سکتے ہیں تاکہ ہندسہ لکھنے میں اگر کوئ غلط فہمی پیدا ہوتو حروف کے ذریعے اسے دور کیا جاسکے۔ میں نے سنا ہے کہ سنسکرت میں بھی یہ طریقہ موجود ہے لیکن سنسکرت میں حروف تہجی ٢٨ سے کہیں زیادہ ہیں اور اس میں ایک سو مہاسنکھ تک لکھ سکتے ہیں۔ بہر حال ایک ہزار ہماری ضرورتوں کے لیے کافی ہے۔ یہ تھا حروف مقطعات کے متعلق میری معلومات کا خلاصہ۔ میں معذرت چاہتا ہوں کہ اس سے زیادہ میں آپ کو کوئ معلومات فراہم نہیں کرسکتا۔

سوال ٣:
ایک اور سوال ہے۔ اچھا ہوتا اگر وہ نہ کیا جاتا۔ سوال یہ ہے کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو یہ بات مان لینی چاہیے کہ قرآن مجید حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف ہے اس میں مسلمانوں کے لیے زیادہ فخر کی بات ہے وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک پڑھے لکھے انسان تھے۔

جواب: 
جیسا کہ میں نے عرض کیا اگر یہ سوال نہ کیا جاتا تو بہتر تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اگر پڑھے لکھے ہوتے تو کیا آپ کی عزت بڑھ جاتی؟ یا امی تھے تو کیا آپ کی عزت گھٹ گئی؟ باقی خود قرآن کریم کہتا ہےکہ میں کسی انسان کی تصنیف نہیں ہوں، میں خدا کا کلام ہوں۔ فرشتے اس کے شاہد ہیں۔ خدا شہادت دیتا ہے کہ خدا کا کلام ہے (لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ علا من خلفہ ٤٢:٤١) خود رسول بھی اس میں کوئ اضافہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی ترمیم کرسکتا ہے۔ قرآن نے ایک چیلنج بھی دیا ہے جو میری دانست میں اس کے کلام الٰہی ہونے کا ثبوت ہے۔ وہ چیلنج یہ ہے کہ قرآن جیسی ایک سورت یعنی کم از کم تین آیتیں لکھنے کی کوشش کرو۔ دنیا کے سارے انسانوں، سارے جنات کی مدد سے بھی تم نہیں لکھ سکو گے۔ یہ قرآن کا چیلنج تھا۔ اس قرآن کے چیلنج کو آج چودہ سو سال کے بعد بھی کسی نے کوئ ایسا جواب نہیں دیا، جسے لوگ قبول کرسکیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں یہ کہنا کہ اگر قرآن مجید کسی انسان کی تصنیف ہو تو اس کی عزت بڑھ جائے گی، میرے نزدیک کوئ یقینی بات نہیں۔ شخصی طور پر مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔

سوال٤:
ایک اور سوال ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر کوئ آیت قرآن مجید سے نکال لی جائے تو کوئ حرج واقع نہیں ہوگا کہ اس قسم کی دوسری آیات موجود ہیں۔ جس سے اس کا مفہوم ادا ہوسکتا ہے۔ اس کمی بیشی کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟

جواب:
اپنے مفہوم کو میں نے شاید ٹھیک طرح سے ادا نہیں کیا یا شاید آپ نے اس کو پوری طرح سمجھا نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ قرآن مجید کی کچھ آیتیں نکال لی جائیں۔ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ قرآن مجید کی جن دو آیتوں کے متعلق یہ روایت آتی ہے کہ وہ دونوں تحریری صورتوں میں نہیں ملیں، ان میں حقیقتاً کوئ ایسی اہم بات نہیں ہے کہ اگر وہ اتفاقاً نکل بھی جائیں تو اس سے قرآن مجید کی تعلیم متاثر ہو۔ مثلاً صرف ایک آیت میں یہ ذکر ہو کہ اللہ کے سوا کوئ معبود نہیں۔ فرض کیجئے یہ آیت نہ رہے تو اس کا امکان تھا کہ اسلام صحیح صورت میں باقی نہ رہ سکے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جن آیتوں کی طرف مذکورہ روایت میں اشارہ ہوا ہے ان میں ایسی کوئ چیز نہیں مثلاً یہ عبارت کہ (لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمومنین رؤف رحیم۔ فان تو لو افقل حسبی اللہ لا الہ الا ہو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم ١٢٨:١٩ تا ١٢٩) اس میں یہ ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے نبی ہیں جن کو اپنی امت کے ساتھ بڑی شفقت ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی چیز تو ہے لیکن اس میں کوئ ایسی بات نہیں کہ یہ عبارت نہ ہوتی تو اسلام باقی نہ رہ سکے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ قرآن مجید کی آیتوں کے حذف کرنے کا امکان پایا جاتا ہے۔ ویسے میں آپ سے عرض کروں گا کہ قرآن کی بعض آیتیں مکرر ہیں۔ ایک ہی آیت بار بار آتی ہے۔ فرض کیجئے کہ ان میں سے ایک حذف کردی جائے تو ظاہر ہے کہ قرآن کی تعلیمات میں کوئ کمی واقع نہیں ہوگی۔ مثلاً سورۂ رحمان میں فبای الاء ربکما تکذبان کوئ پندرہ بیس مرتبہ آیا ہے۔ ان میں سے اگر ایک جگہ حذف کرکے دو آیتوں کو ایک آیت بنادیا جائے تو قرآن مجید میں جو چیزیں انسان کی تعلیم کے لیے آئی ہیں ان میں عملاً کوئ کمی نہیں آئے گی۔ یہ نہیں کہ اس کا امکان ہے یا یہ مناسب ہے۔ میں یہ بالکل نہیں کہہ رہا ہوں۔ میں تو صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ قرآن مجید کی جس آیت کے متعلق حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تلاش کی ضرورت پیش آئی تھی اس میں کوئ ایسی چیز نہیں جو اسلام کی تعلیم پر موثر ہو۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں اور آیتیں بھی موجود ہیں۔ یہ تو دراصل نمونہ ہے اس بات کا کہ قرآن کی تدوین میں کتنی عرق ریزی کی گئ ہے۔ یہ تھا میرا منشا۔

سوال ٥:
خواتین کے مبعوث ہونے کے متعلق اپنی تحقیق سے مطلع فرمائیں تو ممنون ہوں گا۔

جواب:
قرآن مجید میں ایک آیت ہے کہ خدا نے مردوں کو نبی بناکر بھیجا ہے۔ اور عورت کو نبی بناکر بھیجنے کا اس میں کوئ ذکر نہیں ہے لیکن جیسا کہ میں نے اپنی تقریر میں ابھی ذکر کیا تھا کہ یہودیوں کے ہاں عورت کے نبی ہونے کا بھی پتہ چلتا ہے۔ خدا کا بیان تو یہ ہے کہ ہم نے کسی عورت کو نبی بنا کر نہیں بھیجا لیکن یہودی کہتے ہیں کہ نہیں، ہمارے ہاں نبیہ عورت ہوئ تھی تو اس کا فیصلہ خدا ہی کرے گا۔ میرے لیے یہ مشکل ہے کہ میں اس کا فیصلہ کروں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ میری بہنیں جو یہاں موجود ہیں، الحمد اللہ سب دیندار اور مسلمان ہیں اور کوئ بھی نبوت کے منصب کی امیدوار نہیں ہے۔

سوال ٦:
انجیل برنا باس کی صحت کے متعلق آپ کی کیا تحقیق ہے؟

جواب:
میں سمجھتا ہوں کہ قرآن مجید کی تاریخ میں انجیل برناباس کی کم ضرورت ہے۔ قصہ یہ ہے کہ برنا باس حضرت عیسٰ علیہ السلام کے ہاتھوں دین قبول کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ اور ایک زمانے میں ان کی بڑی اہمیت تھی۔ سینٹ پال کا نام آپ نے سنا ہوگا۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ان کا دشمن رہا، عیسائیوں کو تکلیف دیتا رہا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس دنیا سے سفر کرجانے کے بعد ایک دن اس نے کہا کہ مجھے کشف ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دین سچا تھا۔ اس دن سے وہ عیسائ بنا۔ مگر لوگوں کو اس پر اعتبار نہیں تھا۔ اکثر لوگ کہتے تھے کہ یہ منافق ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں جب یہ ہم کو تکلیفیں دیتا رہا تو اب ہم کیسے یقین کرلیں کہ وہ حقیقتاً کایا پلٹ ہوکر دین دار ہوگیا ہے۔

برناباس، جن کو میں رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہہ سکتا ہوں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے تھے۔ انہوں نے کہا نہیں مجھے اطمینان ہے کہ یہ پال پکا اور سچا دین دار ہے۔ اس کے کچھ عرصے بعد شہر بیت المقدس میں ایک اجتماع ہوا۔ جہاں اس بات پر بحث ہورہی تھی کہ حضرت عیسٰ علیہ السلام کا جو قول ہے کہ میں "توریت کے ایک شوشے کو بھی تبدیل کرنے نہیں آیا ہوں آیا اس کی من وعن تعمیل کی جانی چاہیے؟، اس قانون کو ہم برقرار رکھیں گے یا لوگوں کو اپنے دین کی طرف مائل کرنے کے لیے اس میں کچھ نرمی کریں"۔ یہ یروشلم کونسل کہلاتی ہے۔ وہاں سینٹ پال کا اصرار تھا کہ اس کو باقی نہ رکھا جائے بلکہ توریت کے سخت احکامات کر نرم کردیا جائے۔ برنا باس نے اس کی مخالفت کی تھی اور اس وقت شدت سے کہا تھا کہ یہ شخص منافق معلوم ہوتا ہے لیکن عیسائیوں نے برناباس کی تازہ ترین شہادت کو قبول نہیں کیا۔ برناباس کو کونسل سے نکال دیا اور سینٹ پال کی بات کو قبول کرلیا۔ عہد نامہ جدید کے ایک باب میں صراحت سے لکھا ہے کہ ہم لوگوں کو روح القدس کی طرف سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اب تم پر پرانے احکام باقی نہیں رہے، سوائے چار چیزوں کے۔ ایک تو یہ کہ خدا کو ایک مانیں، دوسرے یہ کہ اگر کسی بت پر جانور کو ذبح کیا گیا ہوتو اسے نہ کھائیں، تیسرے یہ کہ فحش کاری نہ کریں۔ اسی طرح ایک اور چیز کا بہ صراحت ذکر ہے۔ اس کے علاوہ باقی جتنی پابندیاں اور ممانعتیں تھیں اب وہ تم پر باقی نہیں رہیں۔ چنانچہ اب لوگ، عیسائ دنیا میں سینٹ پال کی اس رائے پر عمل کرتے ہیں اور خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ کہ "میں توریت کا ایک شوشہ بھی تبدیل کرنے نہیں آیا ہوں اس کی من و عن تعمیل ہونے چاہیے" اس پر عمل نہیں کرتے۔

انجیل برنا باس، جس کے متعلق سوال کیا گیا ہے، زمانہ حال کی دستیاب شدہ ایک چیز ہے۔ اس کا کوئ پرانا نسخہ نہیں ملا۔ اور وہ برنا باس کی مادری زبان آرامی زبان میں بھی نہیں ہے۔ بلکہ اطالوی زبان میں ہے اور اس کے قلمی نسخے کے حاشیے پر جابجاعربی الفاظ بھی لکھے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں عیسائ محققین کا خیال ہے بالکہ اصرار ہے کہ یہ مسلمانوں کی تالیف کردہ جعلی انجیل ہے اور یہ حضرت برنا باس کی انجیل نہیں ہے۔ مجھے اس کے متعلق کوئ علم نہیں ہے البتہ اس حد تک جانتا ہوں کہ انجیل برنا باس کے دونسخے ایک زمانے میں ملتے تھے۔ ایک وہ جو آسٹریا میں تھا اور جو غالباً اب بھی محفوظ ہے۔ غالباً میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مجھے ٹھیک علم نہیں ہے۔ دوسرا وہ نسخہ جو اسپین میں تھا۔ جب آسٹریا کا نسخہ انگریزی ترجمے کے ساتھ شائع کیا گیا تو اسپین کا نسخہ یکایک غائب ہوگیا۔ غالباً اسے ضائع کردیا گیا بہر حال یہ مختصر سے حالات ہیں، مجھے شخصی طور پر انجیل برناباس کے متعلق معلومات نہیں ہیں۔ سوائے اس کے کہ اس میں جابجا ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو اسلامی عقائد سے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں اور عیسائیوں کے جو عام عقائد ہیں اس سے بہت کچھ اختلاف رکھتےہیں۔ اس کے علاوہ میں اور کچھ نہیں جانتا۔ اس کو میں شخصی طور پر کوئ زیادہ اہمیت بھی نہیں دیتا کیونکہ میرے مطالعے کا جو موضوع ہے وہ اس سے ذرا ہٹا ہوا ہے۔ مجھے اس سے زیادہ کوئ واقفیت نہیں ہے۔ ادب سے معافی چاہتا ہوں۔

سوال ٧:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے کونسے سال میں قرآن کا پہلا نسخہ مدون ہوا۔ یہ کون ساہجری سال تھا؟

جواب:
یہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلیفہ بننے کے چند مہینے بعد ہی کا واقعہ ہے۔ یہ ١١ھ کے اواخر کا زمانہ ہوگا۔ یعنی مسلیمہ کذاب سے جو جنگ ہوئ تھی اس جنگ کے فوراً بعد کا ذکر ہے۔

سوال٨:
احادیث مبارکہ میں مختلف آیات کی شان نزول کے متعلق جو بعض اوقات متعارض روایات ملتی ہیں، ان کو کس طرح حل کیا جائے؟

جواب:
سوال ٥:
خواتین کے مبعوث ہونے کے متعلق اپنی تحقیق سے مطلع فرمائیں تو ممنون ہوں گا۔

جواب:
قرآن مجید میں ایک آیت ہے کہ خدا نے مردوں کو نبی بناکر بھیجا ہے۔ اور عورت کو نبی بناکر بھیجنے کا اس میں کوئ ذکر نہیں ہے لیکن جیسا کہ میں نے اپنی تقریر میں ابھی ذکر کیا تھا کہ یہودیوں کے ہاں عورت کے نبی ہونے کا بھی پتہ چلتا ہے۔ خدا کا بیان تو یہ ہے کہ ہم نے کسی عورت کو نبی بنا کر نہیں بھیجا لیکن یہودی کہتے ہیں کہ نہیں، ہمارے ہاں نبیہ عورت ہوئ تھی تو اس کا فیصلہ خدا ہی کرے گا۔ میرے لیے یہ مشکل ہے کہ میں اس کا فیصلہ کروں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ میری بہنیں جو یہاں موجود ہیں، الحمد اللہ سب دیندار اور مسلمان ہیں اور کوئ بھی نبوت کے منصب کی امیدوار نہیں ہے۔

سوال ٦:
انجیل برنا باس کی صحت کے متعلق آپ کی کیا تحقیق ہے؟

جواب:
میں سمجھتا ہوں کہ قرآن مجید کی تاریخ میں انجیل برناباس کی کم ضرورت ہے۔ قصہ یہ ہے کہ برنا باس حضرت عیسٰ علیہ السلام کے ہاتھوں دین قبول کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ اور ایک زمانے میں ان کی بڑی اہمیت تھی۔ سینٹ پال کا نام آپ نے سنا ہوگا۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ان کا دشمن رہا، عیسائیوں کو تکلیف دیتا رہا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس دنیا سے سفر کرجانے کے بعد ایک دن اس نے کہا کہ مجھے کشف ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دین سچا تھا۔ اس دن سے وہ عیسائ بنا۔ مگر لوگوں کو اس پر اعتبار نہیں تھا۔ اکثر لوگ کہتے تھے کہ یہ منافق ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں جب یہ ہم کو تکلیفیں دیتا رہا تو اب ہم کیسے یقین کرلیں کہ وہ حقیقتاً کایا پلٹ ہوکر دین دار ہوگیا ہے۔

برناباس، جن کو میں رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہہ سکتا ہوں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے تھے۔ انہوں نے کہا نہیں مجھے اطمینان ہے کہ یہ پال پکا اور سچا دین دار ہے۔ اس کے کچھ عرصے بعد شہر بیت المقدس میں ایک اجتماع ہوا۔ جہاں اس بات پر بحث ہورہی تھی کہ حضرت عیسٰ علیہ السلام کا جو قول ہے کہ میں "توریت کے ایک شوشے کو بھی تبدیل کرنے نہیں آیا ہوں آیا اس کی من وعن تعمیل کی جانی چاہیے؟، اس قانون کو ہم برقرار رکھیں گے یا لوگوں کو اپنے دین کی طرف مائل کرنے کے لیے اس میں کچھ نرمی کریں"۔ یہ یروشلم کونسل کہلاتی ہے۔ وہاں سینٹ پال کا اصرار تھا کہ اس کو باقی نہ رکھا جائے بلکہ توریت کے سخت احکامات کر نرم کردیا جائے۔ برنا باس نے اس کی مخالفت کی تھی اور اس وقت شدت سے کہا تھا کہ یہ شخص منافق معلوم ہوتا ہے لیکن عیسائیوں نے برناباس کی تازہ ترین شہادت کو قبول نہیں کیا۔ برناباس کو کونسل سے نکال دیا اور سینٹ پال کی بات کو قبول کرلیا۔ عہد نامہ جدید کے ایک باب میں صراحت سے لکھا ہے کہ ہم لوگوں کو روح القدس کی طرف سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اب تم پر پرانے احکام باقی نہیں رہے، سوائے چار چیزوں کے۔ ایک تو یہ کہ خدا کو ایک مانیں، دوسرے یہ کہ اگر کسی بت پر جانور کو ذبح کیا گیا ہوتو اسے نہ کھائیں، تیسرے یہ کہ فحش کاری نہ کریں۔ اسی طرح ایک اور چیز کا بہ صراحت ذکر ہے۔ اس کے علاوہ باقی جتنی پابندیاں اور ممانعتیں تھیں اب وہ تم پر باقی نہیں رہیں۔ چنانچہ اب لوگ، عیسائ دنیا میں سینٹ پال کی اس رائے پر عمل کرتے ہیں اور خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ کہ "میں توریت کا ایک شوشہ بھی تبدیل کرنے نہیں آیا ہوں اس کی من و عن تعمیل ہونے چاہیے" اس پر عمل نہیں کرتے۔

انجیل برنا باس، جس کے متعلق سوال کیا گیا ہے، زمانہ حال کی دستیاب شدہ ایک چیز ہے۔ اس کا کوئ پرانا نسخہ نہیں ملا۔ اور وہ برنا باس کی مادری زبان آرامی زبان میں بھی نہیں ہے۔ بلکہ اطالوی زبان میں ہے اور اس کے قلمی نسخے کے حاشیے پر جابجاعربی الفاظ بھی لکھے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں عیسائ محققین کا خیال ہے بالکہ اصرار ہے کہ یہ مسلمانوں کی تالیف کردہ جعلی انجیل ہے اور یہ حضرت برنا باس کی انجیل نہیں ہے۔ مجھے اس کے متعلق کوئ علم نہیں ہے البتہ اس حد تک جانتا ہوں کہ انجیل برنا باس کے دونسخے ایک زمانے میں ملتے تھے۔ ایک وہ جو آسٹریا میں تھا اور جو غالباً اب بھی محفوظ ہے۔ غالباً میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مجھے ٹھیک علم نہیں ہے۔ دوسرا وہ نسخہ جو اسپین میں تھا۔ جب آسٹریا کا نسخہ انگریزی ترجمے کے ساتھ شائع کیا گیا تو اسپین کا نسخہ یکایک غائب ہوگیا۔ غالباً اسے ضائع کردیا گیا بہر حال یہ مختصر سے حالات ہیں، مجھے شخصی طور پر انجیل برناباس کے متعلق معلومات نہیں ہیں۔ سوائے اس کے کہ اس میں جابجا ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو اسلامی عقائد سے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں اور عیسائیوں کے جو عام عقائد ہیں اس سے بہت کچھ اختلاف رکھتےہیں۔ اس کے علاوہ میں اور کچھ نہیں جانتا۔ اس کو میں شخصی طور پر کوئ زیادہ اہمیت بھی نہیں دیتا کیونکہ میرے مطالعے کا جو موضوع ہے وہ اس سے ذرا ہٹا ہوا ہے۔ مجھے اس سے زیادہ کوئ واقفیت نہیں ہے۔ ادب سے معافی چاہتا ہوں۔

سوال ٧:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے کونسے سال میں قرآن کا پہلا نسخہ مدون ہوا۔ یہ کون ساہجری سال تھا؟

جواب:
یہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلیفہ بننے کے چند مہینے بعد ہی کا واقعہ ہے۔ یہ ١١ھ کے اواخر کا زمانہ ہوگا۔ یعنی مسلیمہ کذاب سے جو جنگ ہوئ تھی اس جنگ کے فوراً بعد کا ذکر ہے۔

سوال٨:
احادیث مبارکہ میں مختلف آیات کی شان نزول کے متعلق جو بعض اوقات متعارض روایات ملتی ہیں، ان کو کس طرح حل کیا جائے؟

جواب:
غالباً صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ شان نزول کے متعلق ہی نہیں اور چیزوں کے متعلق بھی اگر احادیث میں اختلاف پایا جاتا ہے تو جس طرح ہم ان کو حل کرتے ہیں اسی طرح اس کو بھی حل کیا جاسکے گا۔ اولاً ہم دیکھیں گے کہ یہ روایت صحیح ہے یا وہ روایت صحیح ہے۔ اس کے راوی زیادہ قابل اعتماد ہیں یا اس کے راوی زیادہ قابل اعتماد ہیں۔ احادیث کے تمام اختلافات رفع کرنے کا یہ طریقہ اس کے متعلق بھی استعمال کیا جائے گا اور میں سمجھتا ہوں کہ شان نزول کے متعلق جو اختلاف ہیں انہیں کوئ بڑی اہمیت بھی حاصل نہیں ہے۔ ان معنوں میں فرض کیجئے ایک راوی یہ کہتا ہے کہ (اقرا باسم ربک الذی خلق) کے بعد سب سے پہلے سورہ "الم" نازل ہوئ۔ دوسرے راوی یہ کہتے ہیں کہ نہیں فلاں سورت نازل ہوئ تو اس اختلاف کی میرے نزدیک کوئ اہمیت نہیں ہے۔ اس سے صحابہ کی واقفیت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ انہیں جیسا یاد رہا انہوں نے ویسا ہی بیان کردیا۔ اس کے متعلق میں نے حقیقتاً غور نہیں کیا، کبھی مطالعہ نہیں کیا۔ اس لیے اس وقت اس پر اکتفا کرتا ہوں۔

سوال ٩:
ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کون تھیں؟ کیا صرف وہی حافظہ تھیں یا جناب ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی حافظہ قرآن تھیں؟

جواب:
حضرت ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک انصاری عورت تھیں جو بہت پہلے ایمان لائ تھیں چنانچہ ان کے متعلق لکھا ہے کہ جنگ بدر (٢ھ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے روانہ ہوئے تو انہوں نے اپنی خدمات پیش کیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلیں۔ میں اسلام کے دشمنوں سے جنگ کرنا چاہتی ہوں۔ ان کے متعلق ایک اور روایت ہے جو اس سے بھی زیادہ عملی یا علمی دشواریاں پیدا کرے گی وہ یہ کہ حضرت ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو رسول اللہ نے ان کے محلے "اہل دارہا" نہ کہ "اہل بیتھا" کی مسجد کا امام مامور فرمایا تھا جیسا کہ سنن ابی داؤد اور مسند احمد بن حنبل میں ہے اور یہ بھی کہ ان کے پیچھے مرد بھی نماز پڑھتے تھے اور یہ کہ ان کا مؤذن ایک مرد تھا۔ ظاہر ہے کہ مؤذن بھی بطور مقتدی ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہوگا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عورت کو امام بنایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس حدیث کے متعلق یہ گمان ہوسکتا ہے کہ یہ شاید ابتدائے اسلام کی بات ہو اور بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منسوخ کردیا ہو لیکن اس کے برعکس یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے تک زندہ رہیں اور اپنے فرائض سر انجام دیتی رہیں۔ اس لیے ہمیں سوچنا پڑے گا۔ ایک چیز جو میرے ذہن میں آئ ہے وہ عرض کرتا ہوں کہ بعض اوقات عام قاعدے میں استثناء کی ضرورت پیش آتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استثنائ ضرورتوں کے لیے یہ استثنائ تقرر فرمایا ہوگا۔ چنانچہ میں اپنے ذاتی تجربے کی ایک چیز بیان کرتا ہوں۔ پیرس میں چند سال پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک افغان لڑکی طالب علم کے طور پر آئ تھی۔ ہالینڈ کا ایک طالب علم جو اس کا ہم جماعت تھا، اس پر عاشق ہوگیا۔ عشق اتنا شدید تھا کہ اس نے اپنا دین بدل کر اسلام قبول کرلیا۔ ان دونوں کا نکاح ہوا۔ اگلے دن وہ لڑکی میرے پاس آئ اور کہنے لگی کہ بھائ صاحب میرا شوہر مسلمان ہوگیا ہے اور وہ اسلام پر عمل بھی کرنا چاہتا ہے لیکن اسے نماز نہیں آتی اور اسے اصرار ہے کہ میں خود امام بن کر نماز پڑھاؤں۔ کیا وہ میری اقتدا میں نماز پڑھ سکتا ہے؟ میں نے اسے جواب دیا کہ اگر آپ کسی عام مولوی صاحب سے پوچھیں گی تو وہ کہے گا کہ یہ جائز نہیں لیکن میرے ذہن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کا ایک واقعہ حضرت امام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہے۔ اس لیے استثنائ طور پر تم امام بن کر نماز پڑھاؤ۔ تمہارے شوہر کو چاہیے کہ مقتدی بن کر تمہارے پیچھے نماز پڑھے اور جلد از جلد قرآن کی ان سورتوں کو یاد کرے جو نماز میں کام آتی ہیں۔ کم از کم تین سورتیں یاد کرے اور تشہد وغیرہ یاد کرے۔ پھر اس کے بعد وہ تمہارا امام بنے اور تم اس کے پیچھے نماز پڑھا کرو۔ دوسرے الفاظ میں ایسی استثنائ صورتیں جو کبھی کبھار امت کو پیش آسکتی تھیں۔ ان کی پیش بندی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ انتخاب فرمایا تھا۔ ہمارے دوست سوال کرتے ہیں کہ کیا اور عورتیں بھی حافظہ تھیں؟ مجھے اس کا علم نہیں، ان معنوں میں کہ حافظ ہونے کا صراحت کے ساتھ اگر کسی کے بارے میں ذکر ملتا ہے تو صرف انہیں کے متعلق۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یا ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وغیرہ کے متعلق میں نے کبھی کوئ روایت نہیں پڑھی کہ وہ حافظہ تھیں۔ انہیں کچھ سورتیں یقیناً یاد ہوں گی اور ممکن ہے کہ بہت سی سورتیں یاد ہوں لیکن ان کے حافظہ قرآن ہونے کی صراحت مجھے کہیں نہیں ملی، اس کے سوا اور میں کچھ عرض نہٰیں کروں گا۔

گھر میں داخل ہونے اور گھر سے نکلنے کی سنتیں

جوتا پہننے کی سنتیں



ارشاد نبوی ہے : ’’ تم میں سے کوئی شخص جب جوتا پہننے لگے تو سب سے پہلے دایاں پاؤں جوتے میں ڈالے اور جب اتارنے لگے تو سب سے پہلے بایاں پاؤں جوتے سے باہر نکالے۔ نیزوہ یا دونوں جوتوں کو پہنے یا پھر دونوں کو اتار دے۔‘‘ ( مسلم )

مسلمان دن اور رات میں کئی مرتبہ جوتا پہنتا اور اتارتا ہے۔ مثلا مسجد میں جاتے ہوئے اور اس سے باہر نکلتے ہوئے ، حمام میں جاتے ہوئے اور اس سے باہر آتے ہوئے اور کسی کام کیلئے گھر سے باہر جاتے ہوئے اور اس میں واپس آتے ہوئے۔ سو ہر مرتبہ اسے درج بالا حدیث میں جو سنتیں ذکر کی گئی ہیں ان پر عمل کرنا چاہیے تاکہ اسے بہت زیادہ اجر و ثواب حاصل ہو سکے۔


گھر میں داخل ہونے اور گھر سے نکلنے کی سنتیں



امام نوویؒ کا کہنا ہے : –

’’گھر میں داخل ہوتے وقت ’بسم اللہ ‘ کا پڑھنا ، اللہ کا ذکر کرنا اور گھر والوں کو سلام کہنا سنت ہے۔‘‘

٭۔ گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر کرنا:

ارشاد نبویﷺ ہے:

’’ کوئی شخص گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر کرے تو شیطان (اپنے ساتھیوں سے ) کہتا ہے : اب تم اس گھر میں نہ رہ سکتے ہو اور نہ تمھارے لئے یہاں پر کھانا ہے ‘‘ (مسلم )



    ٭۔ گھر میں داخل ہونے کی دعا پڑھنا




’’ اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ خَیْرَ الْمَوْلِجِ وَخَیْرَ الْمَخْرَجِ، بِسْمِ اللّٰہِ وَلَجْنَا، وَبِسْمِ اللّٰہِ خَرَجْنَا،وَعَلَی اللّٰہِ رَبِّنَا تَوَکَّلْنَا‘‘ ( ابو داؤد )

’’ اے اللہ ! میں تجھ سے گھر کے اندر اور گھر سے باہر خیر کا سوال کرتا ہوں ، اللہ کے نام کے ساتھ ہم داخل ہوئے اور اللہ کے نام کے ساتھ ہم نکلے اور ہم نے اللہ پر توکل کیا جو ہمارا رب ہے۔‘‘

یہ دعا پڑھ کر گویا کہ مسلمان گھر میں داخل ہوتے ہوئے اور اس سے نکلتے ہوئے ہمیشہ اللہ پر توکل کا اظہار کرتا ہے اور ہر دم اس سے اپنا تعلق مضبوط بناتا ہے۔


 گھر والوں کو سلام کہنا:




فرمان الٰہی ہے : ’’ فَاِِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً ‘‘ (النور:۶۱)

’’پس جب تم گھروں میں داخل ہونے لگو تو اپنے گھر والوں کو سلام کہا کرو ، ( سلام ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ دعائے خیر ہے جو بابرکت اور پاکیزہ ہے۔‘‘

اگر مسلمان ہر فرض نماز مسجد میں ادا کرتا ہو اور اس کے بعد اپنے گھر میں واپس آتا ہو تو ہر مرتبہ اگر وہ ان مذکورہ سنتوں پر عمل کر لے تو گویا دن اور رات میں صرف گھر میں داخل ہوتے وقت وہ بیس سنتوں پر عمل کرے گا۔



    ٭۔ گھر سے نکلنے کی دعا پڑھنا :




’’ بِسْمِ اللّٰہِ تَوَ کَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ‘‘ ( ابو داؤد ، ترمذی )

’’ اللہ کے نام کے ساتھ میں نے اللہ پر بھروسہ کیا اور اللہ کی مدد کے بغیر نہ کسی چیز سے بچنے کی طاقت ہے نہ کچھ کرنے کی۔‘‘

اس دعا کی فضیلت صحیح حدیث کے مطابق یہ ہے کہ انسان جب یہ دعا پڑھ لیتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے :



1۔تجھے اللہ کافی ہے (یعنی ہر اُس چیز سے جو دنیا و آخرت میں اس کیلئے پریشان کن ہو سکتی ہے )

2۔تجھے شر سے بچا لیا گیا ہے ( یعنی ہر شر اور برائی سے چاہے وہ جنوں کی طرف سے ہو یا انسانوں کی طرف سے )

3۔تیری راہنمائی کر دی گئی ہے۔ ( یعنی دنیاوی و اخروی تمام امور میں ) ( ابو داؤد، ترمذی )



چنانچہ جب بھی انسان گھر سے باہر جانے لگے خواہ نماز پڑھنے کیلئے یا اپنے یا گھر کی کسی کام کیلئے توہر مرتبہ اس دعا کو پڑھ لے تاکہ اسے مندرجہ بالا بہت بڑی خیر اور اجرِ  عظیم نصیب ہو۔



فَقَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ آتِكَ زَائِرًا، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ أَنَا وَأَنْتَ حَدِيثًا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَجَوْتُ أَنْ يَكُونَ عِنْدَكَ مِنْهُ عِلْمٌ؟ قَالَ: وَمَا هُوَ؟ قَالَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَمَا لِي أَرَاكَ شَعِثًا وَأَنْتَ أَمِيرُ الْأَرْضِ؟! قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْهَانَا عَنْ كَثِيرٍ مِنَ الْإِرْفَاهِ، قَالَ: فَمَا لِي لَا أَرَى عَلَيْكَ حِذَاءً؟! قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا أَنْ نَحْتَفِيَ أَحْيَانًا.
حکم : صحیح
4160 . سیدنا عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک آدمی سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے ہاں گیا جبکہ وہ مصر میں ( امیر ) تھے ۔
وہاں پہنچے تو ان سے کہا : میں تمہیں بلاوجہ ملنے نہیں آیا ہوں بلکہ میں نے اور تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی تھی ‘ مجھے امید ہے کہ وہ تمہیں خوب یاد ہو گی ۔ انہوں نے کہا : کون سی حدیث ؟ فرمایا فلاں فلاں !
پھر کہا : اور کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں پراگندہ سر دیکھ رہا ہوں حالانکہ تم اس علاقے کے امیر ہو ؟ سیدنا فضالہ رضی اللہ عنہ نے کہا : تحقیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بہت زیادہ اسباب عیش جمع کرنے اور بہت زیادہ زیب و زینت سے منع فرمایا کرتے تھے ۔
پھر پوچھا کیا وجہ ہے کہ تمہارے جوتے نہیں ہیں ؟
کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم فرمایا کرتے تھے کہ کبھی کبھی ننگے پاؤں بھی رہا کریں ۔


يُذْنِبُ ذَنْبًا فَيُحْسِنُ الطُّهُورَ ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ إِلَّا غَفَرَ اللَّهُ لَهُ ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ إِلَى آخِرِ الْآيَةِ
حکم : صحیح
1521 . سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں ایسا شخص تھا کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا تو اللہ تعالیٰ مجھے اس سے جو چاہتا فائدہ عنایت فرماتا ۔ اور جب کوئی اور صحابی حدیث بیان کرتا ، تو میں اس سے قسم لیتا تھا اور جب وہ قسم اٹھاتا تو میں اس کی تصدیق کرتا تھا ۔ کہا : مجھ سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی اور انہوں نے سچ کہا ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے ” کوئی بندہ ایسا نہیں جو کوئی گناہ کر بیٹھے پھر وضو کرے اچھی طرح ، پھر کھڑا ہو اور دو رکعتیں پڑھے اور اللہ سے استغفار کرے ، مگر اللہ اسے معاف کر دیتا ہے ۔
پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی «والذين إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم ذكروا الله *» ” متقی وہ لوگ ہیں جو اگر کبھی کوئی بے حیائی کا کام کریں یا اپنی جانوں پر کوئی ظلم کر بیٹھیں ، تو اللہ کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں ۔ اور اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ بخش دے ۔ اور یہ لوگ جانتے بوجھتے اپنے کیے پر نہیں اڑتے اور نہ اصرار کرتے ہیں


آداب معاشرت کے سنتیں

مسواک کرنا


صحيح البخاري: كِتَابُ الجُمُعَةِ (بَاب السِّوَاكِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ) صحیح بخاری: کتاب: جمعہ کے بیان میں (باب: جمعہ کے دن مسواک کرنا)
ترجمة الباب: وَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَنُّ ترجمۃ الباب : اور ابو سعیدؓ نے نبیﷺ سے نقل کیا ہے کہ مسواک کرنی چاہیے۔
887 . حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي أَوْ عَلَى النَّاسِ لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ مَعَ كُلِّ صَلاَةٍ
حکم : صحیح 887 . سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اگر مجھے اپنی امت یا لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے لیے ان کو مسواک کا حکم دے دیتا۔

درود ابراھیمی


✳️💚✳️ اللھم صلّ عَلٰی محمد ۔💚و علی آل محمدٍ 💚کَما صَلّیتَ عَلٰی ابراھیمَ 💚وَ عَلٰی آل ابرھیم َ 💚اِنّکَ حَمِیدٌمَجِیدٌ✳️💚✳️
✳️💚✳️اللھم بارِک علٰی محمد 💚وَعَلٰی آل محمد 💚 کمَا باَرَکْتَ عَلٰی ابراھیمَ 💚و علی آل ابراھیم َ 💚اِنّکَ حمیدٌمّجِیدٌ✳️💚✳️


🍂🍁🍂.۔۔۔ اللھُم صل علی محمد🍁 و علی آل محمد 🍂🍁🍂
کما صلیت علی ابراھیم 🍁و علی آل ابراھیم🍂🍁🍂 ۔ 🍂🍁🍂
🍂🍁🍂🍁🍂🍁🍂انّکَ حَمید مجید 🍂🍁🍂🍁🍂🍁🍂
🍂〰〰🍁〰〰🍁〰〰🍁〰〰🍁〰〰🍁〰〰🍂
〰🍁〰〰🍂〰〰🍂〰〰🍂〰〰🍂〰〰🍂〰〰🍁
🍂🍁🍂🍁🍂اللھم بارک علی محمد 🍁 وعلی آل محمد 🍂🍁🍂🍁🍂
🍂🍁🍂🍁🍂کما بارکت علی ابراھیم 🍁وعلی آل ابراھیم 🍂🍁🍂🍁🍂
🍂🍁🍂🍁🍂🍁🍂انّک حمیدٌمجید 🍂🍁🍂🍁🍂🍁🍂



💞🌟اللھم صل علی محمد 🌟💞
۔۔۔💞🌟وعلی آل محمد 🌟💞۔۔۔
۔۔۔۔۔۔💞🌟کما صلیت علی ابراھیم 🌟💞۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔💞🌟وعلی آل ابراھیم 🌟💞۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔💞🌟انک حمید مجید 🌟💞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔💞🌟اللھم بارک علی محمد 🌟💞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔💞۔🌟۔۔۔۔۔۔۔۔ وعلی آل محمد 🌟💞۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔💞🌟۔۔۔۔کما بارکت علی ابراھیم🌟💞۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔💞🌟وعلی آل ابراھیم 🌟💞۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔💞🌟انک حمید مجید 🌟💞

دین اسلام میں بیوی کے حقوق

دین اسلام نے خاوند پر بیوی کے کچھ حقوق رکھے ہيں ، اور اسی طرح بیوی پربھی اپنے خاوند کے کچھ حقوق مقرر کیے ہيں ، اورکچھ حقوق توخاوند اوربیوی دونوں پر مشترکہ طور پر واجب ہیں ۔

صرف بیوی کے خاص حقوق : 

بیوی کے اپنے خاوند پر کچھ تومالی حقوق ہیں جن میں مہر ، نفقہ ، اور رہائش شامل ہے ۔ 

اورکچھ حقوق غیر مالی ہیں جن میں بیویوں کے درمیان تقسیم میں عدل انصاف کرنا ، اچھے اوراحسن انداز میں بود باش اورمعاشرت کرنا ، بیوی کوتکلیف نہ دینا ۔

1 - مالی حقوق : 

ا – مھر : 

مہر وہ مال ہے جو بیوی کااپنے خاوند پر حق ہے جوعقد یا پھر دخول کی وجہ سے ثابت ہوتا ہے ، اوریہ بیوی کا خاوند پر اللہ تعالی کی طرف سے واجب کردہ حق ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے : 

          اورعورتوں کوان کے مہر راضی خوشی دے دو۔

النساء ( 4 ) ۔

ب – نان ونفقہ : 

علماء اسلام کا اس پر اجماع ہے کہ بیویوں کا خاوند پر نان ونفقہ واجب ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اگرعورت اپنا آپ خاوند کے سپرد کردے توپھرنفقہ واجب ہوگا ، لیکن اگر بیوی اپنے خاوندکونفع حاصل کرنے سے منع کردیتی ہے یا پھر اس کی نافرمانی کرتی ہے تواسے نان ونفقہ کا حقدار نہیں سمجھا جائے گا ۔

نان ونفقہ کا مقصد : 

بیوی کی ضروریات پوری کرنا مثلا کھانا ، پینا ، رہائش وغیرہ ، یہ سب کچھ خاوند کے ذمہ ہے اگرچہ بیوی کے پاس اپنا مال ہو اوروہ غنی بھی ہوتوپھر بھی خاوند کے ذمہ نان ونفقہ واجب ہے ۔ 

اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے : 

{ اورجن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان عورتوں کا روٹی کپڑا اوررہائش دستور کے مطابق ہے }

البقرۃ ( 233 ) 

اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا : 

{ اورکشادگي والا اپنی کشادگي میں سے خرچ کرے اورجس پر رزق کی تنگی ہو اسے جو کچھ اللہ تعالی نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرنا چاہيے }

الطلاق ( 7 ) ۔ 

سنت نبویہ میں سے دلائل : 

ھند بنت عتبہ رضي اللہ تعالی عنہا جوکہ ابوسفیان رضي اللہ تعالی عنہ کی بیوی تھیں نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ ابوسفیان اس پر خرچہ نہیں کرتا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا تھا : 

( آپ اپنے اوراپنی اولاد کے لیے جوکافی ہو اچھے انداز سے لے لیا کرو ) ۔ 

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ابوسفیان کی بیوی ھندبنت عتبہ رضي اللہ تعالی عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئي اورکہنے لگی : 

اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان بہت حریص اور بخیل آدمی ہے مجھے وہ اتنا کچھ نہيں دیتا جوکہ مجھے اور میری اولاد کے لیے کافی ہو الا یہ کہ میں اس کا مال اس کے علم کے بغیر حاصل کرلوں ، توکیا ایسا کرنا میرے لیے کوئي گناہ تونہیں ؟ 

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : 

تواس کے مال سے اتنا اچھے انداز سے لے لیا کرجوتمہیں اورتمہاری اولاد کوکافی ہو ۔ 

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5049 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1714 ) ۔ 

جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۃ الوداع کے موقع پر فرمایا : 

( تم عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرو ، بلاشبہ تم نے انہيں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے ، اوران کی شرمگاہوں کواللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتےہووہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو، اگر وہ ایسا کریں توتم انہيں مار کی سزا دو جوزخمی نہ کرے اورشدید تکلیف دہ نہ ہو، اوران کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہيں اچھے اور احسن انداز سے نان و نفقہ اوررہائش دو ) 

صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 ) ۔ 

ج – سکنی یعنی رہائش : 

یہ بھی بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ خاوند اس کے لیے اپنی وسعت اورطاقت کے مطابق رہائش تیار کرے ۔ 

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے : 

{ تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہا ں انہيں بھی رہائش پذیر کرو }

الطلاق ( 6 )۔ 

2 – غیرمالی حقوق : 

ا – بیویوں کے درمیان عدل وانصاف : 

بیوی یا اپنے خاوند پر حق ہے کہ اگر اس کی اور بھی بیویاں ہوں تووہ ان کے درمیان رات گزارنے ، نان ونفقہ اورسکن وغیرہ میں عدل و انصاف کرے ۔ 

ب – حسن معاشرت : 

خاوند پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اچھے اخلاق اورنرمی کا برتاؤ کرے ، اوراپنی وسعت کے مطابق اسے وہ اشیاء پیش کرے جواس کےلیے محبت والفت کا باعث ہوں ۔ 

اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : 

{ اوران کے ساتھ حسن معاشرت اوراچھے انداز میں بود باش اختیار کرو }

النساء ( 19 ) ۔ 

اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمايا : 

{ اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے حق ہیں }

البقرۃ ( 228 ) ۔ 

سنت نبویہ میں ہے کہ : 

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 

( عورتوں کے بارہ میں میری نصیحت قبول کرو اوران سے حسن معاشرت کا مظاہرہ کرو ) 

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3153 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1468 ) ۔

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں